عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں لوٹ آنا ۔ یوں تو عید فرحت و مسرت سے عبارت ہے اور ہر خوشی کچھ احساسات وجذبات کی عکاسی کی متقاضی ہوتی ہے جس کے نت نئے طریقے دنیا میں رائج ہیں مگر اس کی اصل روح کے مطابق عید کا مطلب انسان کا گناہوں سے پاکی اور برأت پر اظہار مسرت اور سجدہ شکر بجا لانا ہے۔ چونکہ انسانی زندگی ہمہ وقت رب کائنات کے احسانات کی مرہون منت ہے اور خصوصاً رمضان کے اختتام اور حج کے بعد انسان کو گناہوں سے مغفرت کا مژدہ سنایا جاتا ہے جس کا اظہار انسان بطور شکر عید کی شکل میں کرتا ہے۔ امت مسلمہ کو جو دو عیدیں بطور تحفہ عطا کی گئی ہیں وہ خوشی کے اظہار کے ساتھ کچھ قربانیوں کا پیغام بھی دیتی ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں قربانی کا سماجی پہلو – ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ۹
عید قرباں رب کریم کا ایک عظیم عطیہ ہے جو ایک طرف انسانوں کے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب وہ ہم سے محض قربانی ہی نہیں بلکہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ عام لفظ میں قربانی کا مطلب اللہ کی رضا کے لئے کوئی جانور اس کی راہ میں قربان کیا جائے جس کا مقصود تقوی کی راہ اختیار کرنا ہے کیونکہ رب ذوالجلال نے اس کی قبولیت کے لئے تقوی کو شرط قرار دیتے ہوئے ایک حسین پیرائے میں قربانی کی حقیقت کو اجاگر کیا جو کسی بھی دیدہ ور کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” لن ينال الله لحومها و لا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم ” ۔ ( سورہ الحج : 37 )( اللہ تک ان کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے ).
اب شریعت اسلامیہ کے مطابق عید قرباں چند قربانیوں کا پیغام دیتی ہے جس پر عمل کے بغیر انسان کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اور جیساکہ کچھ ہی دنوں میں ہم اس محترم مہینے میں داخل ہونے جارہے ہیں لہذا ہمیں اس بابرکت مہینہ میں کچھ چیزوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔
- اخلاص لوجہ اللہ اختیار کرتے ہوئے ریاکاری سے احتراز : کسی بھی عمل کو انجام دیتے ہوئے حسن نیت ضروری ہے لہذا ہمارے سامنے اس جانور کو ذبح کرتے وقت نہ محض گوشت کھانا مطلوب ہو اور نہ ہی دکھاوا مقصود ہو کیونکہ ریاکاری کو اسلام نے شرک سے تعبیر دی ہے جو کسی بھی اچھے عمل کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اور ہر وہ عمل جو ریاکاری پر مبنی ہو وہ مردود و مطرود ہے۔ لہذا ہمیں یہیں سے اب یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہمیں شہرت و نمود کو قربان کرکے محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے جینا ہے۔
- جان و مال کی قربانی : یہ عید یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ جس طرح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے ایک حکم پر اپنی ہر دلعزیز متاع کو قربان کرنے کی کوشش کی اسی طرح رب ہم سے بھی یہ چاہتا ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں بلکہ رب کائنات کی رضا کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ اس کے بدلے دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے اسباب مہیا ہوں۔
مذکورہ بالا آیت کے پس منظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں :
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی جہاد فی سبیل اللہ یا جانور کی قربانی یا صدقات و زکوٰۃ کی شکل میں اگر ہم کچھ قربان بھی کر رہے ہیں تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا حق ادا کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم رب کی عنایتوں سے گھرے ہوئے ہیں اور اس کا شکر ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں مگر یہ تو اللہ کا ہم پر یہ بے پایاں احسان ہے جو وہ ہم سے محض اخلاص کا تقاضا کرتا ہے۔
- جذبات کی قربانی : یہ عید اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ہر بات یا ہر موقع پر دلبرداشتہ ہوکر تعلقات کو خراب کرنے یا رشتہ توڑنے کا سبب نہ بنیں بلکہ ایثار و ہمدردی کا پیکر بن کر معاشرے میں اسلام کے پیغام امن و آشتی کو عام کریں۔
- وقت کی قربانی : یہ عید دوسروں کی مدد و خدمت کی خاطر وقت کی قربانی کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہمہ وقت اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیار رکھیں کہ زندگی میں جب بھی کسی کو ہماری ضرورت ہو تو ہم بلا کسی تأمل کے اپنا وقت اس کی خدمت میں صرف کریں۔ خاص طور پر موجودہ دور میں جب ہر انسان تمام رشتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دنیا میں مشغول ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں اس قدر مصروف ہے کہ اس کے پاس اپنے والدین یا عزیز واقارب کے لئے بھی وقت نہیں ۔ ایسے میں یہ عید یہ خاص پیغام دیتی ہے کہ ہم جانوروں کی قربانی کے ساتھ ساتھ وقت کی قربانی میں بھی پیش پیش رہیں۔
- صبر کا فروغ : یہ عید یہ پیغام دیتی ہے کہ جس طرح سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم خلیل اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کیا اسی طرح سے ہم بھی رضائے الٰہی کی خاطر والدین یا دیگر متعلقین کے سامنے صبر کا دامن تھامے رہیں خواہ حالات کتنے ہی ناخوشگوار کیوں نہ ہوں۔ ( یہ بھی پڑھیں ٹوٹتے خاندان اور پنپتی رسومات: اسباب و حل – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی )
- شکر خداوندی : یہ عید ہمیں شکر خداوندی کا بھی درس دیتی ہے کہ جس طرح قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے جب کہ اس کے گوشت و کھال سے بالکلیہ انسان ہی مستفید ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانی جسم ہر وقت کائنات کے ذرے ذرے سے مستفید ہوتا رہتا ہے ۔ یہ چرند و پرند ، یہ جمادات و نباتات ، یہ ندیاں و نالے ، یہ ہوا و بارش غرضیکہ ہر چیز انسان کے تصرف میں ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ ہر وقت اور نعمت پر شکر خدا کو اپنا وتیرہ بنالے۔
عید قرباں کے حوالے سے میں نے اپنے جذبات کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے کی کوشش یوں کی ہے:
ہے صبر ذبیح اللہ ، ایثار خلیل اللہ
لائی ہے یہ عید ایک صبح معطر سی
ہے رنگ عبادت کا اخلاص لوجہ اللہ
خوشبو ہے جوعنبرکی اور فکر کا جوہربھی
اللہ تعالیٰ اس عید کو ہمارے لئے باعث رحمت بنائے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یارب العالمین.
ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی
آراضی باغ، اعظم گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |