صوفیہ انجم تاج دبستانِ عظیم آباد کی اس عظیم الشان ادبی روایت کی امین ہیں جس کی آبیاری میں بیدل،راسخ عظیم آبادی ،شاد عظیم آبادی،قاضی عبدالودود،کلیم الدین احمد،اختر اورینوی،سہیل عظیم آبادی وغیرہ جیسی آفاقی حیثیت کے حامل ادیبوں اور شاعروں کا نمایاں رول رہا ہے۔ یہ دبستان عظیم آباد کی ادبی و تہذیبی وراثت کا اعجاز ہے کہ یہاں کے تخلیق کار حدود و قیودِمکانی سے ماورا ہوکربھی اپنی تخلیقات میں یہاں کی اساطیری و اسطوری فضا سے دامن کش نہیں ہو پاتے۔صوفیہ انجم تاج تخلیق کاروں کے اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔اردو بستیوں سے ہزاروں میل دور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مغرب زدہ فضائوں میں انہوں نے اپنی شاعری،مصوری اور موسیقی کے ذریعے اپنے وطن کی البیلی اداؤں، محبت و یگانگت،جوہی چنبیلی کی خوشبوؤں،آنگن و دالان کی رونقوں کو مجسم کر دیا ہے۔ایک حساس تخلیق کار کے ہاتھ میں قلم آجائے تو اس کی سوچ کے بام و در روشن ہونے لگتے ہیں۔صوفیہ انجم تاج کو یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ ان کے ہاتھ میں قلم،برش اور مضراب تینوں ہیں جن سے وہ اپنی تخیٔلی اور تخلیقی کائنات کو بساط بھر پیش کرنے پر قادر ہیں۔ان کی سوچ کے تینوں زاوئیے آپس میں معاون ہیں، متصادم نہیں۔ان کا خیال ہے :
’’شاعری ہو مصوری یا موسیقی ان تینوں کا رشتہ آپس میں چولی دامن کا ہے۔میرے یہ دونوں ہاتھ ان سبھوں کے ہاتھوں میں ہیں۔درحقیقت فنکار کی پرواز کی نہ کوئی انتہا ہے نہ کائنات کی وسعت کی انتہا۔ صرف خون جگر کے بہاؤ میں تیزی درکار ہے۔نہ رنگ کی انتہا ہے نہ حرف کی نہ صوت کی۔ان کا خزانہ لامتناہی ہے۔‘‘
شعر و ادب کی تاثیر صوفیہ انجم تاج کے خمیر میں شامل ہے۔ادبی و تہذیبی ورثہ انہیں اپنے گھرانے اور ماحول سے حاصل ہوا۔ان کا تعلق عظیم آباد کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔فضل حق آزاد عظیم آبادی اور شاہ محمد زبیر ،اختر اورینوی اور شکیلہ اختر جیسی علمی و ادبی شخصیات سے ان کا خاندانی سلسلہ ملتا ہے۔والد سید عبدالعزیز اردو ،فارسی اور انگریزی کے استاد تھے اور شعر و ادب کے دلدادہ ۔گھر میں اکثر مشاعرے کی محفلیں آراستہ ہوتیں۔صوفیہ انجم نے شعور کی آنکھیں اسی علمی و ادبی ماحول میں کھولیں۔اختر اورینوی، کلیم عاجز،جمیل مظہری،عطا کاکوی کو عہد طفلی سے ہی براہ راست سنا اور اپنے شعور میں جذب کیا۔اہل دل اور اہل زبان کی محفلوں اور مکالموں نے معصوم ذہن کی فضا آفرینی کی۔کہتے ہیں کہ فنکار دکھ کی کوکھ سے جنم لیتا ہے لیکن آسودگی،سرشاری اور بہار آفرینی جب کسی تخلیق کار کی نمو کا باعث بنے،تو اسے صوفیہ انجم تاج کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں۔۔۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں جدید لب و لہجہ کا شاعر : خورشید اکبر -ڈاکٹر وصیہ عرفانہ )
’’پٹنہ (بہار) میں دریائے گنگا کے کنارے میرا گھر،دریا سے گھر تک سبزہ زار،گھر میں پھولوں کا باغ،جھاڑیاں اور کنج ،پھولوں کی خوشبواور دریا کی طرف سے آتی ہوئی صاف،دھلی ہوئی ٹھنڈی ہوا۔گھر کے اندر پھولوں کا ماحول،پھولوں کی مہک اور ڈالیوں پر لچکتی ہوئی کلیاں اور شگفتہ پھول،ان قوتوں کو بیدار کرنے میں معاون ہوئے ہیں جن سے فن کی تخلیق ہوتی ہے۔‘‘
پھولوں اور خوشبوؤں نے صوفیہ کی ذہن سازی میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔پھول اکثر ان کی مصوری کا موضوع اور عنوان بنے اور خوشبوئیں بقول خود ان کی شاعری کا سبب۔ایک اور خوبصورت جزو ترکیبی ان کی شخصیت میں شامل ہے اور وہ ہے ۔۔۔۔موسیقی! گویا صوفیہ انجم تاج کا وجود رنگ، حرف اور صوت سے عبارت ہے اور پیکر کی زیبائی کا عالم یہ ہے کہ گویا مصوری، موسیقی اور شاعری صوفیہ کے روپ میں تجسیم ہوئی ہے۔
مصوری اور شاعری دونوں فنون انہیں ان کے بچپن میں ہی خدا کی جانب سے ودیعت ہوئے ہیں۔صوفیہ نے کینوس پر سب سے پہلے ایک بوڑھی عورت کا شکن زدہ چہرہ پینٹ کیا۔ایک نو عمر فنکار کے ذریعے ایسے موضوع کا انتخاب ان کی ذہنی بالیدگی کی بیّن مثال ہے ساتھ ہی اس بات کا اشاریہ ہے کہ فطرت ہی ان کی رہنما ہے اور فطرت ہی ان کی پناہ گاہ۔صوفیہ کا پہلا شعری مجموعہ ۲۰۰۳ میں ’’سرگوشی بہار کی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں اشعار کے انگریزی ترجمے بھی تھے اور ان کی مصوری کے اوراق بھی۔اس انوکھی پیشکش کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی ملی۔
ایک آسودہ حال اور خوشگوار بچپن کے علاوہ ہم قدم ہمسفر کی رفاقت جس نے نہ صرف ان کے تخلیقی عمل کی پذیرائی کی ہے بلکہ حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش رہے ۔معاشرتی و معاشی حوالے سے بھی وہ تمام نعمتیں حاصل ہیں جن کی اکثر صرف تمنا کی جاتی ہے اور جو تشنۂ تکمیل ہو کر حسرت بن جایا کرتی ہیں۔ان سب کے باوجود ان کی شاعری اور ان کی تصویروں میں کبھی کبھی جذبات و احساسات کا انتشار ملتا ہے، ایک اداس تنہائی اور مضمحل بیقراری جھلکتی ہے۔شاید یہ جذبۂ تخلیق کی ا ضطراری کیفیت ہے یا اپنے آنگن اور سائبانوں کی مانوس فضا سے دوری کا اضطراب۔
وہ طاق وہ چھت وہ محرابیں وہ گھر وہ عمارت مانگے ہے
انگنائی میں بیلے جوہی کی خوشبو کی طراوت مانگے ہے
وہ ٹھنڈی ہوا،وہ پگڈنڈی،سبزے کی لہک، وہ ہریالی
اور شام کی ہلکی خنکی میں جگنو کی حرارت مانگے ہے
اس شہر میں کیا کیا جگ مگ ہے لیکن یہ دل سادہ میرا
کلیوں کی کہانی مانگے ہے پھولوں کی حکایت مانگے ہے
ہو نیم کا ایک چھتنار درخت اور سائے میں اسکے سبزے ہوں
اور سبزے کی نرمی پر یہ دل سونے کی اجازت مانگے ہے
صوفیہ کی شاعری میں اپنی مٹی کی مہک اور ان سے وابستہ جذبات کی توانائی جا بجا محسوس ہوتی ہے ۔ان کی تازہ ترین تصنیف’’۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک‘‘ان کے بچپن سے وابستہ جذبات کے نگار خانے کی ایک ملفوظی تصویر ہے۔صوفیہ اپنی شاعری اور مصوری دونوں کی پیشکش میں ایک ناسٹلجیائی کیفیت کی اسیر نظر آتی ہیں۔ان کی زندگی مسلسل رواں دواں ہے لیکن بچپن سے وابستہ یادوں،باتوں اور کہانیوں کا قافلہ کہیں ٹھہرسا گیا ہے اور اس کا کیف پوری توانائی کے ساتھ ان کے احساسات میں شامل ہے کچھ اس طرح کہ۔۔۔۔۔۔
’’اتنی کم عمری میں ان کہانیوں کو سن کر میں نے آج بھی بھلایا نہیں بلکہ اب تک اس کا حرف حرف میرے سامنے تازہ ہے اور ان کہانیوں کے خیالی مجموعے کو میں آج بھی ایک طلسم میں کھوئی ہوئی سینے سے لگائے ہوئے ہوں۔‘‘
بینی دادا ان کے گھر کا ایک قدیم کردار ہے جس کی سنائی گئی کہانیوں نے انہیں بچپن میں جذبات کے ہفت خواںطیٔ کرائے ہیں۔یہ کہانیاں انہیں کبھی ہنساتیں،کبھی رلاتیں، کبھی دہشت میں مبتلا کرتیں تو کبھی مسحور کر دیتیں،کبھی نئے نئے طلسم کھولتیں تو کبھی بند گلی میںلے جا کر کھڑا کر دیتیں۔کہانی سننے کے عمل میںصوفیہ نے جن کیفیتوں کا ادراک کیا،انہیں امانت کی طرح اپنے حافظے میں جذب کر لیا۔بوقت ضرورت وہ انجذاب کبھی لفظوں میں اور کبھی رنگوں میں ڈھل جاتا ہے ؎
اہل بزم ذوق کی انجم ؔاجازت ہو اگر
اپنی اک تازہ کہانی ہم بھی روزانہ کہیں
’’۔۔۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک ‘‘ ایک منظوم رومانی کہانی ہے جس کا انجام المناک ہے۔
میں جب بھی سوچتی ہو ں ایسی اک کہانی کو
تپش کو ، سوز کو ، آزار کو ،گرانی کو
یہ کہانی اختر نام کے ایک مصور کے نرالے عشق کی دلدوز داستان ہے۔جنون عشق کا وہ سودائی یکطرفہ عشق کے آزار میں مبتلا تھا۔اس کے بے تابیٔ عشق کی تاثیر پر قدرت متبسم تھی اور مظاہر فطرت فسوں طراز۔اس کا جذبۂ عشق وصل و التفات سے ماورا تھا۔وہ نشاط درد کا سودائی اور لذت آزار کا شیدائی تھا۔سینے میں جلتی ہوئی محبت کی شمع اس کی زندگی میں اجالے کا سبب تھی۔اختر چونکہ ایک با کمال مصور تھا اس لئے وہ اپنی بے چینیوں او ر ا ضطراب کو نقش و رنگ کے ذریعے مختلف پیرائے میں ظاہر کرتا تھا۔اس حسن بے نیاز کی پیکر تراشی میں وہ اپنی امیدوں و آرزوؤں کے سارے رنگ اتار دیتا تھا۔لذت آزار عشق اور خیال پیکر ِمحبوب ایک طلسم کدہ تھا جس میں وہ تھا اور اس کی تنہائی۔ماں نے بیٹے کی محزونی ،مایوسی اور تنہائی کو دیکھتے ہوئے یہ ارادہ کیاکہ اس کی شادی کر دی جائے تاکہ کسی غمگسار کی رفاقت سے اس کی زندگی سنور جائے۔ اس نے خوبصورت اور خوش مزاج ماہ رخ کو بیٹے کی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔مبتلائے عشق کے لئے یہ خبر جانکاہ تھی۔ لیکن اس کی فرمانبرداری ماں کے سامنے حال دل آشکارا کرنے میں مانع تھی۔دل کسی اور راہ پر لے جا رہا تھا تو شعور کسی اور راہ پر۔بالآخر جذبات کے انتشار نے اسے بیمار کر دیا۔درد کے درماں کی خاطراس نے محبوب کی ایک مکمل اور شاہکار تصویر بنانی شروع کی۔حسن کے تمام جلوؤں کو اس نے رنگوں میں سمو دیا۔ناز و ادا کے سارے نقوش ابھار دئیے۔لیکن مکمل شبیہہ جاناں اس کے درد کو فزوں تر کرنے کا سبب بن گئی۔جذبات کی طغیانی نے اسے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا اور اس نے زہر کا پیالہ منہ سے لگا لیا۔عشق کے سیلِ بلا خیز کے آگے زندگی ہار گئی۔اور آخر میں کہانی کا یہ المیہ سامنے آیا کہ کینوس پر نقش تصویر ماہ رخ کی ہی تھی۔بیٹے کی جواں مرگی نے ماں کی بھی جان لے لی۔ایک عام سی رومانی کہانی صوفیہ انجم تاج کے فنکارانہ برتاؤاور گداختگی کی وجہ سے خاص بن گئی ہے۔انہوں نے عشق کے تمام مراحل اور حسن کی تمام شعاعوں کو تشبیہات و استعارات،اشارات و کنایات اور فطری مناظر کی مثالوں سے واضح کیا ہے۔
محبت اس کی تھی سارے جہاں پہ چھائی ہوئی
کہ جیسے چاندنی ہو جھیل میں نہائی ہوئی
وہ کائنات تھی پوری کہ دل کی تھی دھڑکن
ہزار رنگ کا تھی ا متزاج ایک کرن
وہ رنگ وہ نکہت وہ امید و آرزو کا فسوں
سمندِ شوق کی وہ جست، عشق کا وہ جنوں
طلسم ِ فن تھا ، کہ اک کیفیت تھی سیمابی
رواں تھا نیل کے پانی میں عکسِ مہتابی
’’۔۔۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک‘‘ شاعرہ کے گداز احساسات کا پرتو ہے۔چونکہ صوفیہ انجم تاج امریکہ میں قیام پذیر ہیں اس لئے انہوں نے اپنے دیگر مجموعوں کی طرح اس طویل نظم کے اشعار کے انگریزی ترجمے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ممتاز شاعر اور ناقد محمد سالم ؔکے انگریزی ترجمے نے مجموعے کو وقیع تر بنا دیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں راشدہ خلیل :ایک کامیاب خاتون – ڈاکٹر وصیہ عرفانہ )
اردو شعر و ادب کے منظر نامے پر محمد سالم کے نام کو اعتبار حاصل ہے۔انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا۔پھر وہ شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید کی جانب بھی متوجہ ہوئے اور نظریاتی جبر سے آزاد ایک ناوابستہ نقاد کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔ان کا تخلیقی شعور اب ایک نئی سمت پر گامزن ہے۔فی الوقت انہوں نے اردو شعری سرمایے کوانگریزی میں ترجمہ کر کے ذولسانی اور بین ا للسانی خدمات کا بارِ گراں اٹھا رکھا ہے۔ اردو کے مئوقر رسائل و جرائد میں ان کے ترجمے اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں۔’’۔۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک‘‘کا ترجمہ بھی انہوں نے نہایت خوبصورتی سے کیا ہے۔نثر کی بہ نسبت شاعری کا ترجمہ زیادہ دشوار ہے۔شاعری کے ترجمے کے لئے ترجمہ نگار میں شعری کیفیات و احساسات کا ادراک لازمی ہے۔اشعارشاعر کی فکر کا اشاراتی اور بلیغ اظہار ہوتے ہیں۔ترجمہ نگار کے لئے ضروری ہے کہ ان اشاروں و کنایوں اور ان کی بلاغت کو سوچ کی اسی سطح پر جاکر محسوس کرے، جس سطح پر شاعر کی فکر ہے۔ چونکہ محمد سالمؔ خود بھی ایک فکر رسا شاعر ہیں۔لہٰذا انہوں نے شاعری کے ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔ترجمے کے دوران وہ محض لفظوں کے تانے بانے میں الجھ کر نہیں رہ جاتے،بلکہ انہوں نے اشعار کے معانی و مفاہیم کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔اس مختصر مضمون میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہو ں ؎ ؎
تڑپ وہ اب بھی رگِ جاں میں ہوتی ہے محسوس
ہر ایک شئے نظر آتی ہے درد سے مانوس
Even now that restlessness is felt in the vein
Everything is seen familiar with the ُُٓpain
وہ ایک نور کا طوفان ایک شعلہ تھی
دلوں کے جھولنے کے واسطے ہنڈولہ تھی
She was a storm of splendor,she was life a flame
She was a monsoon sing on a swing for the heart
ترے شباب میں ہو فصلِ گل کی آب و تاب
ترے چمن کو رکھے شبنمِ سحر شاداب
Let his youth be like a splendor of the nice spring
Let the morn dew express to keep his garden green
’’۔۔۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک‘‘ایک ضخیم کتاب ہے۔یہاں صرف چند مثالیں پیش ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محمد سالمؔ نے اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کو تخلیقی وصف سے آراستہ کیا ہے۔
سابقہ روایت کو دہراتے ہوئے صوفیہ انجم تاج نے اس مجموعے میں بھی اپنی فکر کا اظہار اشعار کے علاوہ اپنی مصور ا نہ کاوشوں کے وسیلے سے کیا ہے۔اشعار کی مناسبت سے مصورانہ پیشکش قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ لفظوں میں زیادہ تپش ہے یا تصویر میں سوزدروں کی کامیاب عکاسی؟ حرف زیادہ سحر انگیز ہیں یا رنگ ؟ ضروری نہیں ہے کہ ان کا ہر قاری مصوری کے رموز سے آگاہ ہو،لیکن آنکھیں جو دیکھتی ہیں اور ذہن و دل پر جو تاثرات مرتسم ہوتے ہیں،دراصل وہی فنکار کے خیالات کی ترسیل اور فن پارے کی تفہیم کا سبب بنتے ہیں۔
شاعری کی طرح مصوری بھی انہیں ودیعت ہوئی ہے۔ان کی مصوری کے بیشتر موضوعات لینڈ اسکیپ، پھول، باغ، رہگذر، آسمان کی بیکرانی، بہتے دریا کی لہریں، کھلتے شگوفے، وغیرہ ہیں۔ اکثر وہ تصویروں میں بھی ناسٹلجیائی کیفیت کی اسیر نظر آتی ہیں۔لب دریا قدیم طرز کے مکانات،گول ستونوں اور اونچی چھتوں والے بنگلے،ڈوبتی شام کے سائے میں مسجد کی میناروں کے پیش منظر میں گذرتا کارواں،اونچی محرابوں والے صحن میں لوگوں کا اجتماع وغیر ہ وہ تصویریں ہیں جو یقیناًان کے حافظے سے ہی کینوس پر اتر آئی ہیں۔دیگر فنون لطیفہ کی طرح مصوری بھی خلوص اور ریاضت مانگتی ہے۔’’۔۔۔۔۔۔۔تم کو خبر ہونے تک‘‘کی بیشتر تصویروں میں صوفیہ انجم تاج کا مصورانہ خلوص اور ان کی ریاضت نمایاں ہے۔ان کا ایک شعر ہے ؎
مرے خیالوں میں بجلی چمکنے لگتی ہے
بس ایک کپکپی سی جاں میں اٹھنے لگتی ہے
اس شعر کے ساتھ Abstract Landscapeعنوان کے تحت تصویر ہے جس میں مختلف رنگوں کے شیڈز،لکیروں کی ترتیب اور پس منظر نے حزن ،انتشار اور تلاطم کی کیفیت خلق کی ہے۔ اور اس شعر ؎
کسے گمان تھا وہ دل ہے ایسا سودائی
وہی تماشا بنے گا ، وہی تماشائی
کے مساوی Confused نام کی تصویر نظر آتی ہے جس میں گھنے جنگلوں کی تنہائی اور اداسی کے پیش منظر میں ایک محزوں شخص گردن جھکائے تھکا ہارا بیٹھا ہوا ہے۔بلا شبہ یہ تصویر شعر کی معنی خیزی میں اضافہ کا سبب ہے۔
عجیب کشمکش ِ آرزو کا عالم تھا
یہ زندگی تھی کہ بس زندگی کا ماتم تھا
اس شعر کی مکمل تفہیم تصویر Burning کے ذریعے ہوتی ہے۔بلکہ تصویر میں رنگوں کے امتزاج سے جس بے چینی، سوز، تپش، اور کشمکش کو نمایاں کیا گیا ہے اس نے شعر کے بین ا لسطور معانی کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ علاوہ ازیں
May I Fly,A girl with a orange veil,Spring blossoms, Inferno, WaterFalls,Demise,Gratitude,Freedom,Remembering,Anxiety,East&West,Dreams
وغیرہ تصویریں حقیقت پسندانہ پیکر تراشی کا نادر نمونہ ہیں۔یہ تصویریں نہ صرف اشعار کی معنی خیزیت کو نمایاں کر رہی ہیں بلکہ ان تصویروں میں مستعمل رنگوں اور ان کے شیڈز،لکیروں اور ان کی ترتیب،پیش منظر اور پس منظروغیرہ نے اشعار کی کیفیات کو اجاگر کیا ہے اور ان کی تشریح و تعبیر میں بھی معاون ہوئے ہیں۔
صوفیہ انجم تاج کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں احساسات کے اظہار کے مختلف وسائل حاصل ہیں۔جن کیفیات کو لفظوں کا پیرہن عطا نہ کر سکیں،انہیں رنگوں میں سمو دیا۔کینوس اور قرطاس دونوں وسیلے ان کی دسترس میں ہیں۔ان کی شاعری میں رنگ و آہنگ ہے،نغمگی اور زندگی ہے،فکر کی تازگی اور لفظوں کی ندرت کاری ہے،بہار کی سرگوشیاں ہیں،خزاں کی لکیریں ہیں،اور یادوں کی دستکیں ہیں۔ماضی کی بازگشت ہے اور عصری قدروں کی اہمیت۔تہذیبی ورثے کا احترام ہے اور جدید تمدن کا خیر مقدم۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کے جو محرکات و موضوعات ہیں ،وہی ان کی مصوری کی بھی اساس ہیں۔حرف و رنگ ہر دو شئے ان کی تخلیقی کائنات میں متوازی و مساوی مقام پر ہیں۔صوفیہ انجم تاج کی شاعری اور مصوری کے مطالعے کے دوران یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر شاعرہ ہیں یا مصور،لفظوں پر ان کی حکمرانی ہے یا رنگ ان کے زیر نگیں۔ دراصل صوفیہ انجم تاج کا تخلیقی وجدان ایک پر شور پہاڑی ندی کی مانند ہے جس میں زبردست تموج اور بلا خیزی ہے اور جس کی موجیں اپنے اضطرار و اضطراب کی نکاسی مختلف و متنوع راستوں سے کرتی رہی ہیں۔
ــــــ(تمام شد)
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |