مرکزی ادارۂ شرعیہ بہار، پٹنہ کا ۱۴؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کو منعقدہ نمائندہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے حاضر ہوا۔ بہار، جھارکھنڈ، بنگال اور اڑیسہ سمیت چار ریاستوں کے نمائندے علمائے کرام و مفتیاں عظام کی زیارت ہوئی۔ یہ اجلاس تاریخی ثابت ہوا۔ اراکین ادارہ بالخصوص صدر ادارۂ شرعیہ مولانا غلام رسول بلیاوی نے مہمانوں کے قیام و طعام کا عمدہ نظم کیا تھا۔ میری معلومات کی حد تک علمائے کرام کا اس قدر اژدہام اس سے قبل ادارۂ شرعیہ میں نظر نہیں آیا تھا۔ مندوبین کی خدمت میں روایت کے مطابق فائل وغیرہ پیش کی گئی۔ اس فائل میں شعبۂ افتا و قضا مرکزی ادارۂ شرعیہ بہار پٹنہ سے جاری علمی فقہی تحقیقی ’مُجلّہ سال نامہ ’الفقیہ‘ پٹنہ کی زیارت ہوئی۔ مجلّہ دیکھ کر حد درجہ خوشی ہوئی اور دل سے دعائیں نکلیں۔ اجلاس کے دوران مجلہ دیکھنا ادب کے خلاف سمجھا۔ البتہ اجلاس میں علمائے کرام کے مابین کی گفتگو سے خوب خوب مستفید ہوا۔ اس اجلاس میں ’قاضی شریعت ادارہ شرعیہ گیا، نے علمائے اہل سنت کے مابین اختلاف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’مرکزی ادارہ شرعیہ بہار، بریلی شریف، مارہرہ شریف، کچھوچھہ مقدسہ اور مبارک پور اعظم گڑھ کے مابین ، اختلاف کو دور کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے۔‘‘ اکثر شرکائے اجلاس نے تائید و تصدیق فرمائی۔ جب ’الفقیہ‘ کا مطالعہ کیا توپہلی فرصت میں یہی تاثر قائم ہوا کہ اس سلسلے میں یہ مجلہ پیش قدمی کرتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کی نمائندگی خیرالاذکیہ علامہ محمد مصباحی مدّطلہ، مفتی محمد ناظم علی مصباحی اور مفتی نفیس احمد مصباحی کے مضامین کے ذریعہ ہورہی ہے۔ کچھوچھہ مقدمہ کی نمائندگی ’’اشرفی مفتی ‘‘ مفتی محمد آل مصطفیٰ مصباحی علیہ الرحمہ کا مضمون کررہاہے۔ بریلی شریف کی نمائندگی نبیر ہ اعلیٰ حضرت مولانا سبحان رضا خاں سبحانی میاں سجادہ نشین بریلی شریف کے تاثرات اور مفتی قاضی شہید عالم رضوی کے مضمون سے ہورہی ہے۔
مجلہ ’الفقیہ‘ کے مطالعہ سے راقم الحروف کو حد درجہ مسرت ہورہی ہے کہ اس میں نصف درجن مقالات و مضامین ادارۂ شرعیہ کے متعلقین کے قلم کا ثمرہ ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے ادارہ شرعیہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے اپنے افراد کی مدد سے سال نامہ یا سہ ماہی نہیں بلکہ ماہ نامہ تیار کر سکتا ہے۔ الحمد اللہ رب العالمین۔ مجلہ کا آغازکلام الامام امام الکلام سے ہوا ہے۔ بعدہٗ نبیر ۂ اعلیٰ حضرت علامہ سبحان رضا سبحانی میاں، ادارہ شرعیہ کا سرابراہ اور شہزادۂ علامہ ارشد القادری ڈاکٹر غلام زر قانی اور مولانا غلام رسول بلیاوی کے تاثرات متفرق عناوین کے ساتھ زنیت مجلہ ہیں۔ پروفیسر طلحہ رضوی برق نے تاریخ قطعہ قلم بند فرمایا ہے۔ اداریہ ڈاکٹر مفتی امجد رضا امجد قاضی شریعت ادارۂ شرعیہ پٹنہ نے قلم بند فرمایا ہے۔ جب کہ محمد ثاقب رضا قادری (پاکستان) نے ہفت روز’ الفقیہ امر تسر‘ کا تعارف و تجزیہ پیش کیا ہے۔ اداریہ میں اداریہ نگار نے الفقیہ پٹنہ کی اشاعت بہار سے کرنے کا جواز پیش فرمایا اور لکھا ہے کہ الفقیہ امرتسر ایسا رسالہ تھا جسے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی سرپرستی کا شرف حاصل رہا۔ اس رسالے کے قلم کاروں میں مولانا رحیم بخش آروی، مولانا شاہ نور الہدیٰ گیا، مولانا جمیل احمد، بہار، مفتی عبدالمتین اور مولانا سید عمر کریم پٹنوی شامل ہیں۔ اداریہ میں بانی الفقیہ امر تسر مولانا حکیم ابوالریاض معراج الدین احمدنقشبندی امرتسری کی خدمات کا اعتراف بھی کہا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اداریہ جامع اور مانع ہے۔
زیر تبصرہ مجلہ الفقیہ میں ۱۸؍ مقالات شامل ہیں جن کو فکر و نظر، مذاکرہ ومباحثہ، تحقیق و تنقید، تذکار، گوشۂ رضویات اور نئے محققین جیسے کالمز میں پیش کیے گئے ہیں۔ فقیہ النفس حضرت مفتی محمد مطیع الرحمان مضطرؔ رضوی اور خیرالاذکیہ علامہ محمد احمد مصباحی کے دردومقالات شامل ہیں۔ اس لحاظ سے سولہ مقالہ نگار کا تحقیقی و تنقیدی مقالے مجلہ کی زینت بنے ہیں۔ مفتی محمد مطیع الرحمان رضوی نے ایک اہم موضوع پر عوام نہیں بلکہ علمائے کرام و مفتیان عظام کی غیر معمولی رہنمائی فرمائی ہے۔ انھوں نے محرمات کے ساتھ نکاح و وطی سے حد لازم ہونے کے سلسلے میں امام اعظم اور صاحبین کے درمیان کے اختلاف پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے امام اعظم فتویٰ کہ’ حد لازم نہیں ہوگی‘ کو واضح کیا ہے۔ جب کہ اس معاملے میں صاحبین کا قول ہے کہ حد لازم ہوگی۔ متعدد دلائل وبراہین سے مزین یہ تحقیقی مقالہ عصر حاضر کے مفتیان کرام کے لیے بہت اہم ہے۔ اسی طرح مفتی صاحب قبلہ نے اپنے دوسرا مقالہ ’’فاسق معلن کی اقتداء : شبہات اور ان کا ازالہ‘‘ میں بھی اپنی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ فرمایا ہے۔ اس مضمون میں شارح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی نور اللہ مرقدہ کے اس نتیجہ اور تسامح کو آشکار کیا ہے کہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے کو فاسق ماننے سے انکار کیا اور اس کی اقتدار کو درست قرار دیا تھا۔ یہاں مفتی صاحب قبلہ کا اسلوب تحقیق و تنقید ہمیں خاص متوجہ کرتا ہے اور اسلاف کی یاد تازہ کرارہا ہے۔ عہد حاضر میں مفتی صاحب کے اس اسلوب تنقید پر اگر عمل کرلیا جائے تو ہمارے عہد کے بہت سے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔ مفتی صاحب نے اپنے مضمون میںشارح مسلم کا نام لیے بغیر پوری تحقیق مکمل کرلی ہے۔ سب سے پہلے شارح مسلم کا نظریہ پیش فرما کر ان کے تحقیق پر سوال قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :۔
’’پہلی بات یہ ہے کہ اس کا مفہوم مخالف جو شرح مسلم کی اصطلاح میں نص ہے … یہ ہوا کہ بعض احناف کے نزدیک جن لوگوں کا فسق ظنی یا مؤول ہو ان لوگوں کی افتداء میں نماز پڑھ لے؛ کیوں کہ ان لوگوں کی افتدا ء تو مکروہ ’تنزہی بھی نہیں ہے اور جن لوگوں کا فسق شراب خوری اورزنا کاری وغیرہ جیسی قطعی اور غیر مؤول ہو ان کے پیچھے بھی نماز پڑھ لے؛ کیوں کہ ان لوگو ں کی اقتدا ء صرف مکروہ تنز ہی ہے۔
مگر میری نگاہیں ڈھونڈھتی رہ گئیں کہ شرح مسلم میں اس تفریق پر کوئی توفقہی حوالہ پیش کیا گیا ہوگا مگر وائے افسوس کہ اپنے مقصود کو حاصل کرپانے میں ناکام و نامراد ہی رہے۔ ساتھ ہی یہ الجھن کیسے دور ہوگی کہ جب داڑھی منڈوانے والے فسق ظنی کے مرتکب ہیں تو ان کی اقتداء مکروہ تنزہی کیوں ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ داڑھی کتروانے والے تارک سنت ہونے کے باوجود کسی اعتبار (نہ قطعی نہ ظنی) سے بھی فاسق کیوں نہیں ہیں؟ کیا ترک سنت پر اصرار فسق ظنی بھی نہیں ہے۔‘‘ [صفحہ ۱۰۴]
مفتی صاحب نے اپنے معروضات کو مدلل کرکے شارح مسلم کے نظریات کا ردبلیغ فرمایا ہے۔ یہ مضمون عملی تنقید کی بہترین مثال ہے۔
خیرالاذکیہ کے دونوں مقالے بھرپور ہیں۔ تذکار کے باب میںصاحب ہدابہ شیخ برہان الدین علی مرغینانی کی شخصیت اورفقہی مقام کو واضح کیا گیا ہے جب کہ دوسرے مضمون میں امام احمد رضا کے تفقہ کی انفرایت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ دونوں مضامین کو مصباحی صاحب نے غیر ضروری پر طول نہیں دیا ہے اور یک موئے سر بھی موضوع سے انحراف نہیں فرمایا ہے۔ حضرت نے عنوان ’’امامہ احمد رضا بریلوی کے افتا کی ایک خصوصیت‘‘ دیا مگر بین السطور میں ایک سے زائد خصوصیات ہی نہیں بلکہ انفرادیت واضح ہوجارہی ہے، اس مقالہ میں بتایا گیا ہے کہ ’علیٰ حضرت سے شعری زبان میں سوال ہوتا تو جواب بھی شعر میں ہی دیتے ، یہا تک سایل کا شعر جس بحر میں ہوتا تھا اعلیٰ حضرت کا جواب بھی اس بحر میں ہوتا۔ خیرالاذکیہ مدّظلہ نے محض دعویٰ ہی نہیں کیا ہے بلکہ شعر کی تقطیع کرکے بھی بتادیا ہے کہ سایل نے اپنے اشعار میں عشوادربھرتی کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن اعلیٰ حضرت کی خوبیاں مقالہ نگار کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:
’’بحر کی پابندی کے باوجود جواب کی شعری خوبیاں نمایاں ہیں۔ دونوں کو ایک بار پھر پڑھ کر دیکھیے۔ سوال میں تکلف کی جھلک نمایاں ہے، خصوصاً ’’چاہیے ہے آپ کو دینا جواب باصواب‘‘ میں ہے ’’کا لفظ مذاق پر گراں معلوم ہوتا ہے مگر وزن اس کے بغیر درست بھی نہیں ہوتا۔ حالاں کہ سایل نواب مولانا احمد خاں بریلوی خود عالم فاضل اور با کمال شاعر ہیں۔
سوال کے بر خلاف اعلیٰ حضرت کے جواب میں کوئی لفظ محض وزن وقافیہ کی پابندی کے پیش نظر لایا گیا ہو، کہیں ایسا محسوس نہ ہوگا۔ حشو اور بھرتی کا کوئی لفظ نہیں ہر جگہ برجستگی، سلاست ، لطافت ہی لطافت ہے۔ تصنع و تکلف کا نام ونشان نہیں۔
یہ ہے علیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا وہ ہمہ گیر کمال جس نے شعرا،علما، فقہا سبھی کی محفل میں ان کا مقام امتیاز نہایت بلند کر دیا ہے۔‘‘ [صفحہ ۱۶۰]
ادارہ شرعیہ کے صدر مفتی استاذ مکرم فقیہ ملت حضرت مفتی حسن رضا نوری کا مضمون ’’رہن کی شرعی حیثیت‘‘ مختصر مگر جامع ہے۔ حضرت استاذ مکرم نے ایک اہم مسئلہ کی طرف اصلاح کی کوشش فرمائی ہے۔ رہن کی تعریف، اس کی شرائط اور رہن کی دیگر جزیات کا صاف صاف حکم لکھ دیا ہے، اہالیان بہار، جھارکھنڈ، بنگال یہاں تک کہ نیپال کے کاشت کار مسلمانوں کو اس مضمون سے خوب خوب اصلاح ہوگی۔ حضرت رقم طراز ہیں:
’’دور حاضر میں کچھ رقم لے کر زمین گروی پر رکھتے ہیں اب جب تک راہن مرتہن کو رقم نہ دے وہ کھیت سے فائدہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ شرعاً یہ ناجائز اور سود ہیں۔ حدیث شریف میں ہے’’ کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا‘‘ اسی طرح شہروں میں مکان قرض کے بدلے میں لے کر قرض دینے والا خود رہتا ہے اور کبھی کرائے پر لگا کر اس سے فائدہ حاصل کرتا رہتا ہے یہ بھی سود اور شرعاً ناجائز ہے۔ ہاں! ایک صورت جواز کی یہ ہے کہ مرتہن کھیت میں فصل اگائے اور فصل اگانے میں جتنے اخراجات ہوں اُسے چھوڑ کر آمدنی قرض میں مجری کرتا جائے جب اتنے رقم ہوجائے تو کھیت واپس کردے۔ مکان کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ کرایا طے کرنے کے بعد اصل رقم میں منہا کرتا جائے اور جب رقم قرض کے برابر ہو جائے تو مکان واپس کردے جیسا کہ بریلی شریف کے مضافات میں ہوتا ہے مگر بہار و بنگال جھارکھنڈ و نیپال وغیرہ میں یہ صورت رائج نہیں ہے۔ پہلی والی صورت ہی متعارف ہے۔ تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ رہن کی اس ناجائز صورت میں عوام تو عوام خواص بھی گرفتار ہیں۔ [صفحہ ۳۱]
مجلہ الفقیہ میں شامل مقالات میں سات کا تعلق جدید مسایل سے ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سبھی مقالے د لائل سے مزین ہیں۔ فلیٹوں کی جدید خریدو فروخت کا شرعی حکم (مفتی ناظم علی)، فلیٹوں اور پلاٹوں کی بیع اور ان کی زکوٰۃ (مفتی انور نظامی)، جدید آلات میں قرآن بھرنے کا حکم ( مفتی نفیس احمد مصباحی)، اختلاف زمان و مکان، مؤکل اور قربانی : چند وضاحتی پہلو (مفتی آل مصطفیٰ مصباحی نوراللہ مرقدہٗ) روزہ کی حالت میں علاج کے جدید مسائل (مفتی مبشر رضا ازہر مصباحی)، جمعہ نہیں ہونے کے عوض ظہر باجماعت : تفصیلی بحث (مفتی قاضی شہید رضوی) اور طب و صحت سے متعلق جدید مسائل (مولانا غلام رسول اسماعیلی) جیسے مضامین زینت مجلہ ہیں۔ عناوین سے ہی ان مسایل کی اہمیت و افادیت بلکہ عصری ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے، جدید مسائل کی پیش کش میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ متفقہ فیصلے ہی کو پیش کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس سلسلے میں مجلس شرعی مبارک پور یا شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے سے می نار کے فیصلے ابحاث کو شامل کرلیا۔ تاکہ عوام اہل سنت کو اضطرابی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تحقیق و تنقید کے باب میں شامل مولانا ابویوسف محمد شریف کو ٹلوی کا مضمون ’’ہدایہ پراعتراضات کا تنقیدی محاکمہ‘‘ بہت خوب ہے۔ صاحب ہدایہ پر لگے الزامات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں الزامی جواب پڑھ کر قاری خوب محظوظ ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون یقینا باقیات الصالحات کا درجہ رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں تعلیم نسواں اور امام احمد رضا (ڈاکٹر امجد رضا امجد) ماء مستعمل کی تعریف میں امام احمد رضا کی نادر تحقیقات (مفتی غلام سرور قادری)، امام احمد رضا بحیثیت امام علم نحو (مولانا احسان رضا ہاشمی)، امتیان الارواح لدیارھم بعد الرواح: تشریح و توضیع (مولانا عاشق حسین امجدی) اور فاسق و بدعتی کی اقتدا (مولانا معراج احمد رضوی مصباحی) بھی قاری کو خوب متوجہ کر رہا ہے۔ ان میںشامل سبھی مضمون نگار ادارہ شرعیہ سے وابستہ ہیں۔ تربیت افتا کے علمائے کرام کی تحریریں اس بات کی ضمانت ہیں کہ نئی نسل کی فقہی تربیت کے ساتھ ساتھ قلمی تربیت بھی ادارہ شرعیہ پٹنہ بخوبی کر رہا ہے۔ جملہ مضمون نگار کی تحریریں فکر رضا سے مملو ہیں۔ اس سے یہ بات واضح اور اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ فکر رضا کی توضیح و تشریح اور فروغ مسلک اعلیٰ حضرت ادارہ شرعیہ کا جو مشن ہے، اس سلسلے میں مجلہ الفقیہ نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے سلسلے میں ادارۂ شرعیہ سے حسد کرنے والے افراد اور ادارے کو یہ مجلہ دعوت رشک دے رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ حاسدین ادارۂ شرعیہ کو توفیق ملے اورحسد سے باز رہیں ۔
الفقیہ کے مطالعہ سے ایک بات کی کمی کا احساس ہو رہا ہے کہ اگر ’’باقیات الصالحات‘‘ کے کالم کا اضافہ ہوجائے اور اس میں الفقیہ کے بہاری قلم کاروں کی تحریریں یا ان پر مضامین کی شمولیت ہوجائے تو راقم الحروف کی نظر میں رضویات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہوگا۔ اس طرح تحفہ حنفیہ کی فائل سے بھی مضامین کا انتخاب کرکے الفقیہ میں شامل کر لیا جائے تاکہ نئی نسل فکر رضا سے قریب ہوجائے۔ اسی طرح عربی عبارات کا ترجمہ کا التزام کیا جائے تاکہ ائمہ کرام اور عام علمائے عظام بھی اس سے خوب استفادہ کر سکیں۔ مفتی محمد مطیع الرحمان رضوی اور علامہ محمد احمد مصباحی نے اپنے مضامین میں عربی عبارت کے ساتھ ساتھ ارود ترجمہ پیش فرمایا ہے جبکہ اکثر مضمون نگار نے ایسا نہیں کیا ہے۔
مجلہ الفقیہ کے مطالعہ سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مجلہ علمائے کرام و مفتیان عظام کی رہنمائی کا عظیم ذریعہ ہے۔ عوام الناس اور عام قاری کا خیال کرتے ہوئے ادارۂ شرعیہ پٹنہ کا ترجمان ’’رفاقت‘‘ کا اجرا وقت کی اہم ضرورت محسوس کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس سمت اراکین ادارۂ خصوصی توجہ فرمائیں۔ بہر کیف! اس قدر معیاری اور بھرپور فقہی مجلہ کی اشاعت پر راقم الحروف اراکین ادارۂ شرعیہ بالخصوص مولانا غلام رسول بلیاوی (صدر) اور عالی جناب محمد شاکر رضا نوری (ناظم اعلیٰ) کے ساتھ مجلہ کے مدیر مفتی ڈاکٹر اجمد رضا امجد کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔ ہمیں امید قوی ہے کہ علمی دنیا میں اس مجلہ کی خوب خوب پزیرآئی ہوگی۔ انشاء اللہ
٭٭٭
محمد ولی اللہ قادری
استاذ : گورنمنٹ انٹر کالج (ضلع اسکول) چھپرا، بہار
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page