انتساب عالمی کا تازہ شمارہ جولائی تا ستمبر 2024 – رئیس احمد کمار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ ماہی انتساب عالمی ملک کے معیاری اور نامور جریدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسے یو جی سی کئیر میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ سرونج مدھیہ پردیش سے مایہ ناز ادیب و مصنف سیفی سرونجی کی ادارت اور جوان سال قلم کار محترمہ استوتی اگروال صاحبہ کی نگرانی میں شائع ہونے والے اس ادبی رسالے کو ادبی دنیا میں اچھی خاصی پزیرائی حاصل ہوتی ہے۔ معیاری مضامین اور دیگر تخلیقات کی وجہ سے انتساب عالمی جریدہ ادبی دنیا میں کافی مہشور ہے۔ اس رسالہ کے تازہ شمارے جولائی تا ستمبر 2024 کو دیدہ زیب سرورق اور دنیا بھر کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے مزین کیا گیا ہے۔ 221 صفحات پر مشتمل یہ خصوصی شمارہ پاکستانی نظم نگاروں کے نام کردیا گیا ہے۔ شروعاتی کچھ صفحات پر محترم سیفی سرونجی صاحب کے کئی مختصر مگر جامع تبصرے جو انہوں نے کچھ کتب و رسالوں پر تحریر کیے ہیں پڑھے جاسکتے ہیں۔ جن کتب و رسالوں پر انہوں نے مفصل بات کی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں سہ ماہی نیا ورق، سہ ماہی امروز، استفسار، ثالث، سہ ماہی رنگ، میرے لہو کی کہانی، شفیع مشہدی کے افسانے، بھیگی ہوئی سگریٹ، اردو ادب کے آسمان، خواب زاروں سے پرے اور مسکراتا کون ہے۔ ملک کے مقتدر قلم کاروں کے اٹھارہ مضامین بھی اس خصوصی شمارے کا حصہ بنے ہوئے ہیں جو قارئین کے لیے ضرور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلا مضمون ظفر اقبال کی ایک غزل: تجزیاتی جائزہ جو غالب ماجدی نے قلم کیا ہے۔ بقول مضمون نگار ظفر اقبال عصر حاضر کی جدید شاعری کے علمبردار ہیں۔ اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں۔ اردو ادب کو ان پر ناز ہونا چاہیے کہ انہوں نے غزل گوئی کو ایک نیا انداز اور نئی جہت بخشی۔ لیکن ان کی ایک غزل کے بارے میں غالب ماجدی یوں فرماتے ہیں’ سب سے تو اس غزل کی ردیف "آ نہیں رہا” درست جملہ نہیں۔ "” کیسا ہے یہ زوال کمال آ نہیں رہا، ہے منتظر جواب سوال آ نہیں رہا "”۔ بقول مضمون نگار ان دو مصرعوں میں کوئی ربط نظر نہیں آرہا ہے نہ صوری نہ معنوی اور تلازمہ کا بھی فقدان ہے۔ افسانہ "غالب سالا بچ گیا” کا تجزیاتی مطالعہ احرار عظمی نے تحریر کیا ہے۔ مضمون نگار نے افسانے کا بہترین تجزیہ لکھا ہے اور افسانے کے تمام پہلوؤں پر کھل کر بات کی ہے۔ بقول مضمون نگار یہ افسانہ دراصل فسادزدہ ماحول کا پس منظر رکھتا ہے جس کے دو مرکزی کردار ہیں اور افسانہ نگار نے ان کا کوئی نام نہیں رکھا ہے۔ بقول مضمون نگار اس افسانے میں فساد کی جزئیات نگاری نہیں ہوئی ہے پھر بھی قاری چشم تصور سے یہ سب دیکھ لیتا ہے۔ ایک اور مضمون غزل اور رباعی کا دلکش شاعر:احمد نثار، شارق عدیل نے تحریر کیا ہے۔ احمد نثار کا شمار اردو ادب کی کچھ منجھی ہوئی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی عالمی فلک ایک معیاری رسالہ تصور کیا جاتا ہے جو دن دگنی رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ احمد نثار کے اب تک چار شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جو قارئین کے زریعے دادوتحسین حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوۓ ہیں۔ بقول مضمون نگار احمد نثار کے شعر کہنے کا انداز اتنا نیا اور نرالا ہے کہ ہم ششدر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رح کے تعلیمی افکار پر ایک بہترین اور قابل ستائش مضمون نوشاد علی انصاری نے قلم کیا ہے۔ مولانا رح نے سماج اور ملت کی رہنمائی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ان کے فکر و خیالات نے نہ صرف ہندوستانی بلکہ غیر ہندوستانی عوام کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔ وہ نہ صرف مزہب پر بلکہ دنیا کی تاریخ، سیاست، تعلیم اور ادب پر بھی گہری اور عقابی نظر رکھتے تھے۔ کلاس فور کی محبوبہ:ایک تعارف، یہ ناول سندھی زبان میں ممتاز بخاری نے بڑی عرق ریزی سے تخلیق کیا ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ سمیع کندھر نے باریک بینی سے کیا ہے۔ اس ناول کا سرورق بہت ہی خوبصورت ہے اور قاری کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ ناول کا اسلوب جاندار اور رواں ہے کہ پڑھ کر قاری کو بہت مزہ آتا ہے۔ اردو کا چمکتا ستارہ: پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، یہ مضمون نجم النساناز نندیالی نے رقم کیا ہے جس میں انہوں نے موصوف کو بحیثیت ایک بلند پایہ نقاد، ادیب وشاعر، محقق، مرقع نگار، تجربہ کار صحافی و کالم نگار اور ایک اچھے انسان کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر سلیمان کی حالات زندگی و ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مضمون پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر سلیمان نے تب لکھنا شروع کیا ہے جب وہ آٹھویں درجے کے طالب علم تھے اور ان کی ایک چھوٹی کہانی رہنماۓ دکن اخبار میں شائع ہوگئی جو بچوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس کہانی کی اشاعت سے ہی انہیں لکھنے کا حوصلہ ملا۔ سیفی سرونج صاحب کا "گوپی چند نارنگ کا تاریخی مضمون:نثری نظم کی شناخت، ایک طویل مضمون ہے جو دس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مضمون میں سیفی صاحب نے نثری نظم کی مخالفت میں لکھے گۓ شروع شروع کے مقالات کا حوالہ دیا ہے اور گوپی چند نارنگ نے کس طرح ایک تاریخی اور بااثر مضمون کے زریعے نثری نظم سے متعلق بحث کے دروازے بند کراۓ ، خوبصورت انداز میں قارئین تک اس تحریر سے پہنچایا۔ اس کے بعد نثری نظم بے خوف وخطر راسخ ہوتی چلی گئی۔ بقول سیفی سرونجی نارنگ صاحب کے اس معرکتہ الآرا مضمون سے ہی نثری نظم کے سارے مخالفین خاموش ہو گئے۔ سیفی سرونجی کے اس قابل ستائش مضمون کے بعد پاکستان کے ۳۲ شاعروں کے متعلق مختصر تعارف سمیت ان کی ایک یا دو نظمیں اس خصوصی شمارے کا حصہ ہیں۔ ان نثری منظومات کے بعد نو افسانے اس شمارے میں پڑھے جا سکتے ہیں جو نامور افسانہ نگاروں کی تخلیقات ہیں۔ چوکیدار چور ہے، یہ افسانہ وکیل نجیب نے رقم کیا ہے۔ دلکش انداز بیاں، الفاط کا مناسب استعمال اور سلیس زبان میں تخلیق کیا گیا یہ افسانہ قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ کس طرح فارم ہاوس کے مالک کو بھی ایک معمولی ملازم نے جس نے اس کی کار گھنے جھاڈیوں میں رکھی تھی اور وہ خود لڑکی سمیت اس کے کواٹر میں چلا گیا تھا چونا لگا دیا اور وہ یہ بات کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ چٹان، رونق جمال کا یہ افسانہ ایک منفرد افسانہ اس لیے کہلایا جاسکتا ہے کہ بہت کم ادیب ایسے موضوعات کو اپنی تخلیقات کا عنوان بناتے ہیں۔ منہاج خان کی ایمانداری اس افسانے میں خوب جھلکتی ہے اور اپنے عزائم پر وہ ایک چٹان کی طرح قائم و دائم رہتا تھا اور اپنے ماتحت ملازم کو بھی ایمانداری کا درس اور ہنر سکھاتا ہے۔ اتنا نڈر آدمی ایک ظالم وزیر کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے اور خود کو بھی بکنے نہیں دیتا ہے۔ نمو، حمزہ حسن شیخ کا یہ افسانہ جدید دور کے انسانوں کی بے حسی کو بیاں کرتا ہے جو ایک زخمی شخص جو موت کے دہانے پر کھڑا تھا سڑک کے بیچوں بیچ رات بھر پڑا رہا مگر ایک بھی شخص نے اسے سڑک کے ایک جانب ہی کرنا گوارا نہیں سمجھا بلکہ تمام ڑرایوروں نے اسے اپنی گاڑیوں کے پہیوں تلے بری طرح روندا جس وجہ سے اس کی جان بھی چلی گئی اور اس کا خواب اپنے اہل و عیال خاص کر اپنے دو سالہ بیٹے کو بوسہ دینا ہمیشہ کے لیے خواب ہی رہا۔ انتہائی دکھ بھرا افسانہ اور جدید دور کی انسانیت کو ایک خوبصورت انداز میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ تو کب میری ماں بنی، شیخ بشیر احمد کا یہ انتہائی خوبصورت افسانہ ماں کی ممتا اور بیٹی کی اپنے باپ کے تعین شفقت کو ظاہر کرتا ہے۔ واقعی ماں کی ممتا وہ سمندر ہوتا ہے جس کی گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ہے۔ بیٹی اپنے والدین کے لیے رفیق و شفیق ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں ایک اچھے مخلص ساتھی کا رول نبھاتی ہے۔ محمد علیم اسماعیل ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے افسانچہ نگار بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک مجموعہ جو خالص سو افسانچوں پر مشتمل ہے "تماشا” منظر عام پر آگیا ہے۔ اس مجموعہ پر محترمہ رقیہ جمال صاحبہ کا بہترین اور منفرد لہجے میں تحریر کردہ تبصرہ بھی انتساب عالمی کے اس خصوصی شمارے کی زینت بنا ہوا ہے۔ تبصرہ نگار نے مصنف کے چند افسانچوں خاص کر تماشا اور باغ اور مالی کا خوبصورت انداز میں فنی جائزہ لیا ہے۔ انتساب عالمی کا یہ خصوصی شمارہ گزشتہ شماروں کی طرح دیدہ زیب سرورق کے ساتھ اپنے قارئین کو معیاری مضامین، منظومات، افسانے اور تبصرے پیش خدمت رکھ کر ادب کی بے لوث خدمت انجام دینے میں مصروف عمل نظر آرہا ہے۔ میں اس کے تمام شماروں کو بے حد پسند کرتا ہوں اور ادب سے جڑے لوگوں کو اور ادبی لگاو رکھنے والے ہر فرد کو یہ رسالہ خریدنے اور پڑھنے کی صلاح دیتا ہوں۔ اللہ کرے یہ رسالہ آئیندہ بھی اس طرح ادب کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہے۔
رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page