مانو لکھنؤکیمپس میں اترپردیش اردو اکادمی کے تعاون سے توسیعی خطبہ کا انعقاد
لکھنؤ۔۲۰،فروری ۲۰۲۴
کلام میر کی حقیقی تفہیم کا کام سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی نے انجام دیا۔فاروقی سے پہلے تک میر کی باقاعدہ تفہیم و تشریح اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ میر کو عام طورپر سلیس اور سادہ شاعر کہا جاتارہا۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ’کلام میر کی تفہیم ‘کے موضوع پر توسیعی خطبہ کے دوران کیا ۔اترپردیش اردو اکادمی کے تعاون سے منعقد توسیعی خطبہ میں اکادمی کے سکریٹری جناب ایس ایم عادل حسن بطور مہمان خصو صی شریک ہوئے ۔کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے خیرمقدم کیا۔ڈاکٹر عمیر منظر نے نظامت کی ۔ڈاکٹر شاہ محمد فائز نے شکریہ اداکیا ۔کیمپس کے ریسرچ اسکالر محمد سعید اختر نے قرآن پاک کی تلاوت کی ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے خیالات کلام میر کی حقیقی تفہیم کی راہ میں حائل رہے ہیں ۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ میر کی شاعری کو سمجھنے کے لیے کلاسیکی شاعری کے بنیادی تصورات سے واقفیت ضروری ہے ۔انھوں نے کہا کہ میر کی شاعری ہماری ادبی روایت کے ایک مرکز کے طور پر ہے ۔صناعی اور دیگر فنی کاریگری اور حکمت عملی میر کی شاعری کا اہم پہلوہے ۔پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ میرکا ایک خاص وصف ہے کہ ان کے کیفیت اور اثر آفرینی والے اشعارمیں اتنی فن کاری اور کاریگری ہوتی ہے کہ قاری اس کے اثر میں ہی رہ کر سمجھتا ہے کہ بات مکمل ہوگئی ہے ۔اس تناظر میں انھوں نے میر کے نہایت مشہور شعر کو بطور مثال پیش کیا ۔
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میر
کیا دیوانے نے موت پائی ہے
پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ پہلے مصرعے میں جنوں اور عقل ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور عقل گم ہونا محاورہ ہے جبکہ گم ہونا اور پائی کاتضاد بھی قابل غور ہے ۔انھوں نے کہا میر نے قیس کے بجائے مجنوں یعنی صاحب جنوں جوکہ صفاتی نام ہے اس کو جب موت آگئی تو عقل کا کیا کام ہے ۔عقل کا حریف ہی نہیں رہا۔ یہاں عقل گم ہونا محاورہ کے بجائے لغوی معنی ہے ۔اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو اس شعر میں غور وفکر کو دعوت دیتی ہیں۔پروفیسر احمد محفوظ نے میر کے متعدد اشعار اور خاص طورپر جو بہت مشہور و معروف ہیں ان کی تشریح کرتے ہوئے خاص طورپر فنی حکمت عملی اور شعری کاریگری کو نمایاں کیا ۔انھوں نے اس موقع سے قدرت اللہ شوق کے اس جملہ کو خاص طورپر سنایا کہ ’اوپر سے میر سادہ لگتے ہیں لیکن ان کی سادہ گوئی کے اندر پرکاری و تہہ داری ہے ۔اس کے لیے دیکھنے والی نظر چاہیے‘۔
مہمان خصو صی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے جناب ایس ایم عادل حسن نے کہا میر پر یہ ایک نہایت گرانقدر توسیعی خطبہ تھا جسے سن کر ہماری شعرفہمی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ ہمیں میر کو کیسے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے یہ بھی معلوم ہوا ۔انھوں نے اکیڈمی کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ میر پر ایک بڑا سمینا ر ہمارے پیش نظر ہے ۔ڈاکٹر ہما یعقوب نے کہا کہ توسیعی خطبات ہمارے کیمپس کی ایک اہم ادبی سرگرمی ہے ۔میر ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں اس لحاظ سے ان کی شاعری کی تفہیم و تشریح کے لیے اس طرح کے خطبہ کا انعقاد بہت ضروری تھا ۔اس موقع پر کیمپس کے اساتدہ،ریسرچ اسکالرز اور طلبہ کے علاوہ شہر کی نمائندہ شخصیات میں جناب معاذ اختر، حکیم وسیم احمد اعظمی،پروفیسر ریشما پروین ،جناب اویس سنبھلی ،ڈاکٹر احتشام خاں،ڈاکٹر ثروت تقی ،جناب خالد صبرحدی،راشد خاں ،ضیاء اللہ ندوی،ریاض علوی اور احمد جمال وغیرہ موجود تھے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page