کثرت میں وحدت کا مزا لوٹنے والا عظیم فنکار: عظیم ؔ انصاری
(میرے دست و بازو کے اگلے و نئے زینے کی کڑی)
تحریر: شبیر ذوالمنان۔۔۔ ہوڑہ
میرے اہل ِ خانہ نیز دوست احباب مجھ سے اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ آپ سوچتے بہت زیادہ ہیں۔ اب میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ’’سوچ ‘‘ ایک فطری عمل ہے۔ کائنات میں نت نئی ایجادات اسی سوچ کی مرہونِ منت ہیں۔ فضاؤں میں اُڑنا اور سمندر کی گہرائیوں میں اُترنا اسی سوچ کے وسیلے سے ممکن ہوا۔ سوچ مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی۔ مثبت سوچ رکھنے والے لوگ اپنے کردار و عمل کے ذریعے شخص سے شخصیت بن جاتے ہیں جبکہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کے حصّے میں رسوائی اور بدنامی آتی ہے۔ آج میں ایک ایسی ہی مثبت سوچ رکھنے والی ذی قدر شخصیت کی حیات اور خدمات کے حوالے سے کچھ باتیں رقم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو علمی وادبی حلقوں میں عظیمؔ انصاری کے نام سے مقبول ہیں۔ وہ صرف اپنے نام سے ہی نہیں بلکہ اپنے مذہبی، ملی، سماجی، تعلیمی اورا دبی کارناموں کے حوالے سے بھی عظیم ہیں۔ ان کے قول و فعل میں نہ تضاد دیکھا جاتا ہے اورنہ منافقت۔دلیل کے طور پر ادبی حلقوں میں کئی شعرا اور ادبا ان کے اخلاق اور ان کی ملنساری کی مناسبت سے انھیں انصاریوں میں عظیم کہتے پھرتے ہیں۔ لفظ ’’عظیم‘‘ پر شاید کچھ خود ساختہ کاملین ِ فن معترض ہوں اور اُن کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجائیں۔ اس ضمن میں بس اتنا ہی دست بستہ عرض ہے کہ اپنے قول پر عمل پیرا ہو کر کوئی عامل شخص ہی ایک کامل شاعر و ادیب بن سکتا ہے۔ آپ کو میرے اس جملے کی تائید و تردید کا حق حاصل ہے۔ مثلاً کوئی شاعر اس نوع کا شعر خلق کرتا ہے کہ:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
اگر کسی صورت وہ مزدوروں اور کسانوں کی جائز تحریکوں سے اپنی دوری بنائے رکھتا ہے تو اُسے اس شعر کے خلق کرنے کے عوض داد تو مل سکتی ہے مگر قول و فعل میں تضاد کے سبب سے ایک عامل شاعر کی طرح اُس کی عظمتوں کا اعتراف کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ یومِ مادر کے موقع پر اشعار کہہ کر داد و تحسین حاصل کرنے والے بعض شعراء ایسے بھی ہیں جو اپنی ماں کی حیات میں ہی خدمت کر نے سے قاصر رہے مزید اُن کی دعاؤں و شفقتوں سے محروم ہیں۔ خاکسار کا حال تو یہ ہے۔
”کبیرا کھڑا بازار میں مانگے سب کی خیر
نہ کا ہو سے دوستی نہ کا ہو سے بیر”
میرے دست و بازو سیریز میں اُنہیں یکتائے روز گار ہستیوں کو جگہ ملتی ہے جن کی ذات وصفات کسی نہ کسی طور پر سماج اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے حوالے سے فیض رساں رہی۔ صرف عقیدت و محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر کسی کے تعلق سے کچھ لکھنا ایک بے سود اور ضرر رساں عمل ہے۔ بہر کیف بات چل رہی تھی عظیم انصاری کی۔
محمد عظیم اللہ انصاری المعروف عظیم ؔ انصاری نے خلد آشیانی میں جناب سیّد حسین اور رب النساء کی گلستانِ محبت واقع گورکھپور یوپی میں 11/نومبر 1959ء میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ اُنھوں نے جگتدل چشمہ ٔ رحمت ہائی اسکول(ایچ۔ ایس) سے ہائیر سکنڈری اور رشی بنکم چٹرجی کالج نئی ہٹی سے بی۔ اے کیا۔ بعدازاں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے اور بی۔ ایڈ کی سند بھی حاصل کر لی۔ ان کا بی۔ ایڈ کرنا یہ ظاہر کرتا کہ وہ پیشہئِ معلمی کو اپنے گذر بسر کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے مگر ربِ کائنات کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چنانچہ میٹل اینڈ اسٹیل فیکٹری اچھّا پور، محکمہ وزارتِ دفاع، حکومت ہند میں بحیثیت کلرک مرکزی حکومت کے تحت اُنھیں ملازمت مل گئی۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈیپارٹمنٹل اکزام دیتے رہے اور کامیاب ہو کر اپنی ذہانت کا لوہا منواتے رہے۔ مرضی مولا کہ آخر دم تک اکزام کوالیفائی کر کے صرف اور صرف اپنے بل بوتے پر سینٹرل گورنمنٹ میں گیزیٹیڈ آفیسر کے عہدے جونئیر ورکس منیجر کو اپنا رتبہ بنایا۔ تاہم معلمی کی چاہ اُن کے دل سے کسی پَل رخصت نہیں ہوئی۔ وہ 1993ء سے ہی فیکٹری سے واپسی کے بعد شام کے وقت B.A کے طالب علموں کو انگریزی، پولیٹیکل سائنس، ہسٹری اور ایجوکیشن جیسے مضامین کو نہایت ہی دل جمعی سے پڑھایا کرتے۔ واضح ہو کہ 2016 ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی اُن کا یہ مقدس و محترم عمل جاری و ساری ہے۔ لہذا ایسے شخص کو معتبر نہ کہیں تو کہاں تک دیانت داری ہو گی؟ اس ضمن میں اس بات کا ذکر نہایت ہی ضروری ہے کہ اس حرص و طمع کے دور میں بھی (جہاں لوگ طالب علموں سے ایڈوانس فیس لے لیتے ہیں) موصوف اپنے طالب علموں سے بہت کم فیس لیتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو آج بھی زمانۂ سبکدوشی میں عظیم انصاری کے یہاں طالب علموں کے لیے ٹیوشن فیس کی کوئی قید نہیں ہے۔ طالب علموں نے اپنی بساط کے مطابق فیس ادا کر دی تو فَبِہا، نہیں تو اس کا کوئی گلہ نہیں۔ اس حوالے سے اُن کے چہرے پر کبھی گردِ ملال نہیں دیکھا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دو موقر تعلیمی ادارے جگتدل چشمہئِ رحمت ہائی اسکول(ایچ۔ ایس) اور جگتدل شمس اردو ہائی اسکول کے سابق صدر بھی رہے۔ عہد ِ حاضر میں بھی ان دونوں تعلیمی اداروں کے در و دیوار پر اُن کی محنت ِ شاقہ کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔ تبدیلیٔ ِوقت کے ساتھ ساتھ درس گاہوں کی مجلس ِ منتظمہ کے انتخاب کے قوانین میں اکثر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں اُن کے عہدے کے ساتھ ’’سابق‘‘ لگانے کی زحمت اُٹھانی پڑ رہی ہے۔ ورنہ ان کے خلاف کبھی کسی نے عَلمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔ وہ آن لائن ماہنامہ ’’کائنات ‘‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ انجمن ترقی اردو ہند مغربی بنگال کی شاخ جگتدل اور کانکی نارہ کے صدر کے عہدہ ئِ جلیلہ پر بھی تا حال فائز ہیں۔ اس بینر تلے زبانِ اردو کی ترویج و ترقی کے لئے سدا کوشاں رہتے ہیں۔ اس لسانی ادارے کی برپا کی ہوئی تحریکوں اور سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ میں نے ادبی ادارہ ’’قرطاس وقلم‘‘ کے ذکر سے قصداً اجتناب کیا ہے کیونکہ عصر ِ حاضر میں یہ ادارہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ نہ جانے کون سے اسباب وعلل تھے جو ادارہ باعث ِ تقسیم بنا۔ مولا ان کے اربابِ حل و عقد کے دلوں کو پھر سے جوڑ دے آمین۔ یہ محض ایک ادبی ادارہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت ’’دبستان شعر و ادب‘‘ کی ہے۔
عظیم ؔ انصاری نہ صرف خوش فکر، کہنہ مشق اور سینیئر شاعر ہی نہی بلکہ ایک ماہر نثار بھی ہیں۔ اُن کے دو شعری مجموعے ’’مدتوں بعد‘‘ 2021ء میں اور’’مٹھی میں دنیا‘‘ 2023ء میں منصہئِ شہود پر جلوہ گر ہو کر کاملین ِ فن اور شائقین شعر و ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان سے قبل 2020ء میں’’دو گھنٹے کی محبت‘‘ بنگلہ کہانیوں کا ترجمہ اشاعت پذیر ہوچکا تھا۔ اس وسیلے سے بطور مترجم ان کی ایک منفرد پہچان بھی بن گئی ہے۔ شہرت کی چاہ کس دل کو نہیں مگر بعض شعراء و ادباء میں یہ حد سے سِوا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حصولِ شہرت میں اور خود ساختہ مقتدر بننے کی خاطر وہ نت نئے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ عظیم ؔ انصاری اس مہلک بیماری سے آزاد ہیں۔ شاید وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہوں کہ۔
نگاہیں کاملوں کی پڑ ہی جاتی ہیں زمانے میں
کہیں چھپتا ہے اکبر پھول پتّوں میں نہاں ہو کر
عصر ِحاضر میں ان کی بے پناہ ادبی حیثیت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ معروف ادبی ادارہ محفل خوش رنگ نے ’’دو گھنٹے کی محبت‘‘ کی اشاعت پر ’’میر امن دہلوی ایوارڈ‘‘ اور ’’آل انڈیا اردو ماس کمیونیکیشن سوسائٹی فار پیس‘‘- حیدرآباد نے اُن کی شاعرانہ عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ’’اردو انمول رتن ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امسال ہی یعنی 2024ء میں ’’الفجر ڈیجیٹل انٹرنیشنل میگزین ‘‘(بنگلور) میں گوشہئِ عظیم ؔ انصاری کی اشاعت سے اس امر کا اندازہ ہوا کہ رفتہ رفتہ ان کی ادبی حیثیت مسلم ہو کر قابل اعتبار کی حدود کو کامیابی سے عبور کر چکی ہے۔ نتیجے میں بلا جھجھک ہر ایماندار اور شریف النفس شاعر و ادیب انھیں معتبر شاعر و ادیب ہی گر دانتا ہے۔ بڑے ہی اعتماد اور یقین کے ساتھ اُن کے چند اثر انگیز اشعار آپ کے حضور پیش کرتا ہوں تاکہ آپ بھی ان کی فکر رسا کی داد وتحسین دے سکیں۔
تمام عمر جو ہونٹوں پہ رہ سکے قائم
مرے خدا تو مجھے ایسی اِک ہنسی دینا
سچ بولنے کی جو کبھی جرأت نہ کر سکے
کذب و ریا کے دور میں منصور ہو گئے
مدتوں بعد تبسم میں چھپایا غم کو
مدتوں بعد مجھے کوئی ہنر تو آیا
سنجیدہ زندگی میں ایک حساس ہنسی کی دعا کون کر سکتا ہے یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ حق گوئی کے دور میں اس سے اجتناب کر کے مزید اس کے بر عکس ریاکاری اور غلط سلط اعمال میں ملوث ہو کر بھی شاطرانہ طور پر کوئی ظاہری منصور بن جائے بھی تو کیا۔ فرشتے پل پل کا حساب و کتاب لکھ رہے ہیں۔ غم زدہ زندگی کو جھیلنے اور اللہ کی رضا کے ساتھ
راضی ہو کر اپنے کرب کو اپنے تبسم میں چھپانے کے ہنر کو کس ہنرمندی سے عظیم ؔ انصاری نے شعری لبادہ عطا کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک مشاق شاعر کا ہی خاصہ ہے۔ آئیے اس معتبر شاعر کی شاعری سے مزید محظوظ ہوا جائے۔
مدتوں بعد گرا دستِ دعا پر آنسو
مدتوں بعد مرے ہاتھ گہر تو آیا
مجھے یقیں ہے شہادت حیات بخشے گی
تمھیں گماں ہے کہ وہ شخص مرنے والا ہے
گماں تھا مجھے سانپ باہر کے ہوں گے
سبھی سانپ نکلے مری آستیں سے
چاند پر جاکے نہیں کوئی پنپنے والا
پیڑ تو اپنی زمیں پر ہی سدا پھلتا ہے
ملئے اگر کسی سے تو ملئے خوشی کے ساتھ
ایسا لگے کہ آدمی ہے آدمی کے ساتھ
ایسا نہیں کہ کھیلتا رہتا ہے ناخدا
موجیں بھی کھیلتی ہیں کبھی ناخدا کے ساتھ
راقم الحروف اپنے اس مضمون کو ان کے اُس شعر کے ساتھ مکمل کرنا چاہ رہا ہے جس میں کلام ِ الہی کی ترجمانی مولانا حالیؔ کے طرز پر اپنی شعری کاوش کا مظاہرہ کیا ہی خوب انداز میں عظیم ؔ انصاری نے کیا ہے کہ خالق ِقسمت وقت ضرورت کب اور کیونکر کچھ بدلتا ہے یہ صیغہ راز ہے۔ مگر اس کی ایک تمثیل ہے کہ ایک خدا داد صلاحیت کا حامل شاعر ہی کچھ یوں کہہ سکتا ہے جیسا کہ زیر نظر شعر میں موصوف کہتے نظر آرہے ہیں۔ ان کا شعر دراصل یوں ہے:
نہیں جس میں خود کو بدلنے کا شوق
خدا اس کی قسمت بدلتا نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page