ایک لطیفہ کچھ اس طرح سے ہے:
کسی بستی میں، ایک شخص جھوٹ بولنے کی وجہ سے بہت بدنام تھا ۔ اس واقعہ کا علم ہونے کے بعد، ایک بوڑھی عورت، اصلاح کی نیت سے اس آدمی کے پاس جاتی ہے اور ہمدردی جتاتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ بہت بری بات ہے، میں نے سنا ہے کہ تم دنیا کے سب سے جھوٹے انسان ہو؟
یہ سن کر وہ آدمی پورے اعتماد کے ساتھ، اس عورت سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
"محترمہ، آپ دنیا کو دفع کریں۔ آپ کو دیکھ کر میں تو خود سخت حیرانی میں ہوں کہ اس عمر میں بھی یہ حسن، یہ جمال اور یہ دلکشی! ”
بوڑھی عورت شرماتے ہوئے، کچھ نہیں کہہ پاتی ہے، سوائے اس کے : ” ہائے اللہ، کتنے ظالم ہیں یہ دنیا والے کہ ایک اچھے بھلے انسان کو جھوٹا کہتے ہیں۔”
یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے کہ کس طرح، خوشامدی الفاظ کا خمار، کسی خود پسند انسان کو کتنی آسانی سے، اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
مذکورہ تخیلاتی باتوں کو کم یا زیادہ توکیاجاسکتاے، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارا معاشرہ، بڑے پیمانے پر، خوشامد، چاپلوسی یا جھوٹی تعریف جیسی برائیوں کا شکار ہوچکا ہے۔
موجودہ دور میں، ہبیشتر افراد تَمَلُّقْ (عربی) یا کاسہ لیسی(عربی) یا خوشامد (فارسی) یا چاپلوسی (فارسی ) یا فلیٹری (انگریزی)، یعنی خود غرضی کے زاویہ سے جھوٹی تعریف (false praise) کے نشے میں غرق پائے جاتے ہیں۔ یہ نشہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر عقلمند انسان بھی یہ سمجھنے سے قاصر رہ جاتےہیں کہ نشہ آخر نشہ ہی ہوتا ہے، خوش رنگ اور خوش ذائقہ ہونے کے باوجود، وہ بے ضرر کیسے ہوسکتا ہے؟
خوشامد کا شوخ و شیریں شربت، دراصل، ایک سست زہر یا سلو پوائزن (slow poison) کی مانند ہوتا ہے جو انسان جیسی مایہ ناز شخصیت کو بھی، آہستہ آہستہ، کھوکھلا، کمزور اور بے وقعت بنا دیتا ہے۔
حقیقتاً، جھوٹی تعریف کرنے یا سننے کی بری عادت کے مضر اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف محسوس ہونے لگتے ہیں، بلکہ اس مذموم عادت کی ہلاکت خیزی بھی ثابت ہو جاتی ہے، انسان کی شخصیت پر بھی اور معاشرہ کی صحت پر بھی ! خوش گوار احساس (perception) کے علاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں، نقصان مگر بہت زیادہ ہیں۔
خود غرضی اور دھوکہ دینے کے ضمن میں استعمال ہونے والے اپنے خاندان (family) کے تمام خوب صورت الفاظ کی نمائندگی، چوں کہ لفظ "خوشامد” بخوبی کرسکتا ہے، اس لیے، یہاں ساری بحث کا مرکزی مقام اسی کو حاصل ہے۔
زیر نظر مضمون میں، فلاح انسانیت کی خاطر، علوم دینیات، نفسیات اور سماجیات کے مختلف زاویوں سے اور ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں، موضوع کے مرکزی کردار کو سمجھنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ خوشامدی کلمات کے مضر پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے بچنے کی سعئی کی جاسکے۔
تجزیاتی طور پر، لفظ خوشامد یا بالفاظ دیگر، "خوش آمد” ، یعنی جس کی آمد خوش کرنے والی ہو، کی دلکشی سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے؟ مگر خود یہ لفظ اور اس کے خاندان کے دوسرے تمام دلکش نام جھوٹ اور منافقت سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ اس لیے، نہ صرف اللہ تعالی اور اس کے آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں، بلکہ شرف انسانیت اور پاکیزہ اخلاق و کردار کی نشونما کے دائرے میں بھی، خوشامد کوئی خیر کی چیز نہی۔ غور سے دیکھا جائے تو برعکس طور پر، یہ اخلاق و کردار کو پست کرنے والی ایک بڑی برائی ہے، اور اس کو برائی کی طرح ہی دیکھا اور سمجھا جانا چاہیے ۔ خوشامد یا اپنے کسی پوشیدہ غیر اخلاقی مفاد کے حصول کے تناظر میں "جھوٹی تعریف” ایک شیطانی فعل ہے۔ پھر اس میں خیر کیسے ہو سکتی ہے؟
بلا شبہ، شیطان انسانوں کا کھلا دشمن ہے ( الزخرف-43: 62)۔
اس کا دشمنی نبھانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو بے راہ کرنے کی غرض سے ان کے برے اعمال کو بھی ان کی نظر میں خوش نما کرکے دکھاتا رہتا ہے (الأنفال-8: 48)۔ گویا کہ شیطان بھی انسانوں کو صراط مستقیم سے ہٹھکانے کے لیے خوشامد کا طریقہ ہی اپناتا ہے۔
خوشامد چوں کہ خود جھوٹ اور منافقت کا ہی دوسرا دلکش اور خوب صورت نام ہے، اور جہاں تک جھوٹ کا تعلق ہے، اس میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک سنگین برائی ہے، نہ صرف آخرت کے پہلو سے، بلکہ دنیا کے معاملات میں بھی!
انسانوں کی نظر میں، جھوٹا آدمی ہمیشہ کے لیے بے اعتبار اور بے وقار ہوکر رہ جاتاہے، جب کہ اس کے حق میں، اللہ تعالی کی لعنت اس کے علاوہ ہے (آل عمران-3: 61)۔
ساتھ ہی، ایک جھوٹا اور منکر حق شخص اللہ تعالی کی ہدایت سے بھی محروم رہتا ہے (الزمر-39: 3)۔
جھوٹے انسانوں کی طرح ہی، قرآن پاک میں منافقوں کےلیے بھی درد ناک عذاب کا اعلان کیا گیا ہے (البقرہ-2: 10)۔
علاوہ ازیں، ایک منافق کے متعلق حدیث شریف کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے : ” جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے”( صحیح مسلم: 211)۔
خوشامدی انسان، دراصل "دوست” کی ضد ہوتا ہے۔ایک سچے دوست میں ہی یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوست کی برائیاں بیان کرسکے، اور اپنی حماقتوں کو سننے کا حوصلہ بھی کسی دوست میں ہی ممکن ہے۔ طالب علمی کے زمانہ تک یہ خوبی کافی حد تک ظہور پذیر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، مگر زندگی میں، مقام و منزلت حاصل ہونے کے بعد عموماً، اس کیفیت کا ‘فی صد’ بہت جلد نہ ہونے جیسا ہوجاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سچی دوستی ان اوصاف حمیدہ میں سے ہے جن کے دم پر ایک دوست اپنے دوست کے سامنے اس کے اچھے اور برے افعال کا فرق بغیر کسی تعصب کے واضح کرسکتا ہے، اور اس طرح وہ اپنے دوست کی شخصیت کو ہمیشہ ربانی نقشہ تخلیق کے مطابق بنائے رکھنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے(التین-95: 4)۔
اس کے بر خلاف، ایک چاپلوس انسان، کسی کا خیر خواہ ہونا تو بہت دور کی بات، خود اپنا بھی دشمن ہوتا ہے۔ افسوس، ایسا شخص کسی دوسرے شخص کی ان خصوصیات کی مدح سرائی کرتا رہتا ہے جو اس شخص میں ہیں ہی نہیں۔ اس طرح، وہ ہمیشہ، اپنی حقیر سی خواہشات کی تکمیل کی خاطر، اپنے باس یا معاشرہ کے کسی بڑے آدمی کی جھوٹی تعریف میں، لگا رہتا ہے۔ نتیجتاً، اپنی بیش قیمتی زندگی کو تباہی سے ہمکنار کر لیتا ہے، اور قرآن کی سورة التين میں مذکور اپنی "بہترین ساخت” کو ڈسکور ( دریافت) کرنے سے محروم رہ جاتاہے، یعنی خدائی تخلیق کے ” احسن تقویم” کے تناظر میں انسانی شخصیت میں پوٹینشیل (پوشیدہ ) کے طور پر اپنے لا محدود امکانات کا ادراک کئے بغیر ہی، قابل رحم زندگی گزار کر آخرش دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
خوشامد کرنے والے کے مقابلے، کیا خوشامد یا جھوٹی تعریف سننے والے کی حیثیت مختلف ہوتی ہے؟ نہیں، بلکہ زیادہ بری ہوتی ہے! خوشامد، خود پسند اور خود پرست آدمی کی انانیت (ego) کو مطمئن کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جھوٹی تعریف گویا کہ
"وہ خاص بات جو خود اس کی شخصیت میں نہیں،
وہ بات اس کو بہت خوش گوار لگتی ہے۔”
ایک شخص جب ذاتی طور پر یہ محسوس کرتا ہے کہ فلاں فلاں خوبیاں اس میں نہیں ہیں، اور اسی اثنا کوئی خوشامدی قسم کا آدمی وہی خصوصیات اس کی شخصیت میں بیان کرنے لگتا ہے، تب یہ لمحہ اس کی زندگی میں نازک موڑ بن کر داخل ہوتا ہے۔ یہاں پورا موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرکے ذہنی طور پر صحت مند افراد کی صف میں شامل ہو جائے، اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے نت نئے ترقی کے راستے ہموار کرنے لگے۔
مگر، خود پسندی کی نفسیات اس انسان کے اس اعتراف میں مانع ہوجاتی ہے کہ فلاں خوبی تو اس میں ہے ہی نہیں۔ اس فیصلہ کن موقع پر خاموش رہ کر وہ ایک چاپلوس انسان کے زیر دست آجاتا ہے اور زندگی بھر جائز، ناجائز کی تفریق کے بغیر اس کی باتوں کو من و عن قبول کرتے ہوئے، اس کے حق میں ترجیحی فیصلے کرتا رہتا ہے۔ اس طرح، دونوں فریق اپنے اپنے ریٹائرمنٹ تک، اپنے فرسودہ اخلاقیات کے گندے پانی میں نہ صرف خود غوطے لگاتے رہتے ہیں، بلکہ اپنے باطل طور طریقوں سے دوسرے بہت سے لوگوں کے ڈوبنے کا بندوبست بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام صرف دفاتر تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ عمل کے تمام میدانوں میں کم یا زیادہ کی نسبت سے اس کا مشاہدہ کیا جاسکتاے۔ چاپلوسی کرنے والا اپنی عادت کے چلتے، "غلام طبیعت” ہو کر رہ جاتاہے، اور ایک غلام طبیعت شخص کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے بھی "جی حضوری” کے الفاظ سنے بغیر خوش نہیں رہ سکتا۔
یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ عادتیں جب فطرت ثانیہ (second nature) کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں، تب انسان یہ سمجھنے کے لائق نہیں رہتا کہ کیا سہی ہے اور کیا غلط۔ بے انتہا بالقوہ صلاحیتوں (potential) کا مالک ایک شخص، بونے پن (dwarfism) کی زندگی جیتا رہتا ہے۔
جس طرح ایک ایٹم (atom) کی خصوصیات (properties) پورے مادہ(matter) پر اثر انداز ہوتی ہیں، بلکل اسی طرز پر، ہمارا معاشرہ بھی مجموعی طور پر خوشامدی طبیعت کا حامل ہوکر رہ گیا ہے، اور اپنی شرف انسانیت کے بر عکس، کمتر درجہ کی اخلاقیات میں جی رہا ہے ۔
اس تناظر میں، غور و فکر کی نظر سے دیکھیئے تو جھوٹی تعریف کرنے والے اور جھوٹی تعریف قبول کرنے والے، دونوں ہی فریق گھاٹے کا سودا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس پس منظر میں، خلاف واقعہ جھوٹی تعریف ہی ہمارے معاشرے کی شناخت بن کر رہ گئی ہے، گویا کہ مطابق واقعہ بات کرنے کا رواج لوگوں کی زندگیوں سے حذف ہو گیا ہے۔
جھوٹی تعریف کا کردار، فصل کے قیمتی پودوں کی قیمت پر گھاس پھوس کی پرورش کا بندوبست کرنے جیسا ہے۔
جھوٹی تعریف کے شیطانی طلسم میں قید ہونے سے بچنے کی ہر صورت سعئی کی جانی چاہئے، تاکہ معاشرہ میں بلند اخلاقیات پروان چڑھیں اور انسانی نسل اپنی شایان شان تہذیب و تمدن کی ہمہ جہت ترقی حاصل کرسکے۔
ابھی تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خلاف واقعہ جھوٹی تعریف پر مبنی اخلاقیات، "لغو و لا یعنی” باتوں سے زیادہ کچھ نہیں، جب کہ اس طرح کی لغویات کے متعلق ایک حدیث شریف کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے:
"کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے” (جامع ترمذی: 2317)
لغویات سے مکدر، انسانی زندگی اور اس کی اخلاقی پستی کے برعکس، اللہ تعالی اپنے بندوں کو اسی "خلق عظیم” کی تعلیم دیتا ہے جس پر اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فائز ہیں( القلم: 4)۔
انسانی علم نفسیات (psychology) کے مطالعہ میں دو انگریزی الفاظ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ یہ ہیں:
- Narcissism
- Sycophancy
پہلے لفظ کا اردو نام ہے "نرگسیت” اور اس کا مطلب ہوتا ہے:
انتہائی درجہ کی خود پسندی اور صرف اپنی تعریف۔ ایسا شخص صرف اپنے بارے میں ہی سوچتا ہے۔ ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا، صرف خود کے معاملات میں ہی دلچسپی لینا اور دوسرے لوگوں کے احساسات کی کوئی پرواہ نہ کرنا جیسی کیفیات اس کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔
دوسرا لفظ ‘سکو فینسی’ ہے۔ یہ پہلے لفظ کی الٹی سمت میں کام کرتا ہے، اور اس کا مطلب ہوتا ہے:
خوشامد، چاپلوسی اور جھوٹی تعریف و ستائش، خاص طور پر، سچ اور جھوٹ سے قطع نظر، خود غرضی کی نیت سے بولے گئے وہ سارے تعریفی کلمات جو سننے والے کے لیے خوش کرنے کا اور سنانے والے کے لیے کسی فیض کا باعث بنیں۔
الفاظ کے ان مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں افراد ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، اور معاشرہ میں خوشامد کے کاروبار کو پھلنے پھولنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
یہ دلیل کہ خود پسندی اور خوشامد سے اگر متعلقین کا ذہنی ارتقاء رک بھی جاتاہے تو کیا فرق پڑتا ہے، جب کہ دونوں آپس میں مطمئن ہیں، قابل التفات نہیں، کیوں کہ انسان آخر انسان ہے۔ جب تک تقویٰ اختیار نہ کر ے، وہ بغض و کینہ اور حسد و دشمنی کے جذبات سے خالی نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً، صرف چند لوگ بھی معاشرے میں انتشار کا سبب باقی رکھنے میں کافی ہو سکتے ہیں۔
خوشامدی کیفیت زندگی میں اخلاقی گراوٹ، بے مقصدیت اور خود اعتمادی کی کمی کا باعث بنی رہتی ہے۔ اس طرح، خوشامد کرنا اور سننا اچھا لگنے لگتا ہے۔ اپنی تعریف، دوسرے کی برائی، چغلی، غیبت وغیرہ سے جب کسی کی رغبت بڑھ جاتی ہے تب اس کو چاپلوسی کرنے والے اچھے لگنے لگتے ہیں۔ ان احمقانہ کیفیات کے زیر اثر، چغلی اور غلط بیانی کا سہارا لے کر خوشامدی لوگ کئی دوسرے بے گناہ لوگوں کا بڑا نقصان کردیتے ہیں۔ یہ سارے عوامل دل میں تنگی پیدا کرتے رہتے ہیں، جب کہ دل کی تنگی اچھی چیز نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
۔۔۔ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں(الحشر-59: 9)۔
خوشامد، چاپلوسی، جھوٹی تعریف، چغلی، غیبت جیسی ذہنی گندگی سے اکثر اوقات، دفتر آلودہ بنے رہتے ہیں، گویا کہ دفاتر معاشرہ کے منفی عوامل کی تجربہ گاہ (laboratories) ہیں۔
اپنی طویل سرکاری ملازمت کے دوران اس قسم کے متفرق واقعات میرے مشاہدے میں بھی آئے ہیں۔ دو دلچسپ مشاہدات بطور خاص، نصیحت و سبق اخذ کرنے کی غرض سے یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میری سروس کے شروعاتی دور میں ہی ان واقعات کا رونما ہونا، میری شخصیت کو داغدار ہونے سے محفوظ رکھنے کی ضمانت بن گیا۔
دوسرے ملازمین کے علاوہ، اسسٹنٹ برانچ منیجر کے طور پر میں اور برانچ منیجر کی حیثیت میں میرے باس تعینات تھے۔ وہ اکثر برانچ میرے حوالے کرکے بزنس بڑھانے کے نام پر باہر چلے جاتے تھے۔ بزنس میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکثر بڑے افسروں کی ڈانٹ بھی کھاتے رہتے تھے۔ کچھ دن کے بعد خود انہیں کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ روزانہ دوبار پاس کے شہر میں رہنے والے بینک کے ایک بڑے افسر کے بچوں کو گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر پہنچانے کا کام پابندی سے کرتے ہیں، اور ان کا تقریباً، پورا دن اسی قسم کی مصروفیات میں گزر جاتا۔ ان کی امیج ایک با وقار منیجر کے بجائے ایک گھٹیا چاپلوس آدمی کی ہوکر رہ گئی تھی۔ مگر اس سب کے باوجود، اپنی پرانی پڑگئی عادت سے مجبور، وہ اپنے طور طریقوں سے ہی مطمئن نظر آتے تھے۔ دم گھٹنے والے ماحول کے پیش نظر، میں نے اپنے ریجنل منیجر سے درخواست کی اور انہوں نے فوراً، بات کو سمجھتے ہوئے میرا ٹرانسفر اپنے آفس میں کردیا۔
دوسرے قصے میں جو کردار ہے اس کی اخلاقی پستی کے بارے میں سوچ کر آج بھی کراہیت ہوجاتی ہے۔
میرے ریجنل آفس میں تقرری کے دوران میں نے دیکھا کہ الگ الگ مواقع پر ایک برانچ منیجر ہمارے ریجنل منیجر اور ان کے طور طریقوں کی زبردست تعریف کرتا ہے اور ان کا ہر حکم ماننے کے لیے ہمیشہ تیار نظر آتا ہے۔
چوں کہ، ریجنل منیجر بذات خود بھی ایک اچھی شخصیت کے مالک تھے، اس لیے مجھے اس برانچ منیجر کے تعریفی کلمات میں کبھی کچھ غلط محسوس نہیں ہوا۔ مگر، آسمان گر پڑا جب ریجنل منیجر کے ٹرانسفر کے بعد ایک دن میں نے اس منیجر کی برانچ کا دورہ کیا۔ مذکورہ ریجنل منیجر کا ذکر آنے پر اس شخص نے متوقع الفاظ ستائش کے بجائے عرف عام میں گالی کے الفاظ استعمال کردیے۔ کیا اس واقعہ پر یقین کرنا آسان تھا؟ بعد ازاں، کئی سالوں تک اس بے وقعت انسان کی اسی ریجن میں تقرری رہی۔ جب بھی میں اسے دیکھتا، مجھے ادراک ہوتا کہ "منافق” کیسے ہوتے ہیں اور "لعنت زدہ” کیسے !
سطور بالا رقم کرنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ بہترین ساخت پر تخلیق کئے گئے انسان کے اندر خود پسندی، خوشامد، چاپلوسی اور جھوٹی تعریف جیسے مکروہ داعیات آخر کس طرح پیدا ہوتے ہیں؟ اپنی دریافت کو میں سطور ذیل میں نقل کررہا ہوں:
یوں تو انسان زندگی بھر نئی نئی چیزیں سیکھ سکتا ہے اور سیکھتا بھی رہتا ہے، مگر لائق و فائق شخصیت کا بنیادی ڈھانچہ (structure) بنانے کا سہی وقت وہی ہوتا ہے جو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم گزرتا ہے۔ پڑھائی کا یہی زمانہ بہت نازک اور آنے والی زندگی کی نظر سے فیصلہ کن ہوتا ہے۔ کیمپس لائف (period spent on the university campus) بہت ہی پر کیف اور دل فریب محسوس کی جاتی ہے ۔ اس کے بہت سے وجوہ ہو سکتے ہیں، مگر آدمی زندگی بھر کسی نہ کسی بہانے اسے یاد کرتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں، ہوسٹل میں رہنا، گویا کہ "سونے پہ سہاگہ”۔ ہزار مشکلوں کے باوجود، ہوسٹل میں رہنا بڑا سحر انگیز ہوتا ہے۔ عام طور پر نوجوانوں کے لیے ہوسٹل میں رہنا، گویا کہ جنت میں رہنا ہے۔
ساتھ ہی ہوسٹل کی آزادی اس مقولہ کا امتحان بھی ہوتی ہے کہ
Man can not afford absolute freedom
یعنی، آدمی مکمل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نظم و ضبط ( discipline) کی خاطر زندگی میں کچھ بندشیں ضروری ہیں۔ زندگی کو بے قید نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہاں جو بات کہنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی اور ہوسٹل کے چند سال طلباء کو دو جہتی مواقع فراہم کرتے ہیں، جس میں کچھ لوگ "پڑھتے” ہیں تو کچھ لوگ "بگڑتے” بھی ہیں!
یونیورسٹی میں، عمومی طور پر، اعلی تعلیم تو دونوں ہی قسم کے طلباء حاصل کرتے ہیں، یعنی وہ بھی جو پڑھتے ہیں اور وہ بھی جو بگڑتے ہیں۔ پڑھنے والوں سے میرا مقصد وہ افراد ہیں جو مستبقل بینی کے ساتھ تعلیم کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھائی کرتے ہیں، اور حاصل شدہ علم کو اپنی "دریافت” (discovery) بنا لیتے ہیں۔ اس طرح معیاری زندگی کے اہداف (targets) کے ساتھ وہ کائناتی وسعتوں میں جینے لگتے ہیں۔ اس طبقہ (category) کے لوگ چاپلوسی کرنا تو دور، چاپلوسی کروانے کا بھی تحمل نہیں کرسکتے۔ مثال کے طورپر، بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے متعلق سوچ کر دیکھا جاسکتاہے۔
اس صورت حال کے برعکس، اب ان کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے ‘بگڑنے’ کے ماحول میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔ یوں تو اس طبقے کے افراد بھی بڑے بڑے عہدے حاصل کر سکتے ہی نہیں، بلکہ کرتے بھی ہیں؛ مگر بڑی حد تک، کس ذہنی خلفشار (complex) کے ساتھ۔
انسان اپنی فطرت میں بڑائی اور برتری کے داعیات لے کر پیدا ہوتا ہے، اس لیے وہ لوگ بھی ہمالیائی بلندی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں، جو عملی طور سے اس مقام کے اہل نہیں ہوتے۔ مذکورہ طبقہ کے یہی وہ افراد ہوتے ہیں جن کے توسط سے معاشرہ میں خوشامد یا چاپلوسی کا کاروبار فروغ پاتا ہے۔
چاپلوسی، دراصل، احساس کمتری (inferiority complex ) کا ہی دوسرا نام ہے، جب کہ احساس برتری (superiority complex) اپنے آپ میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ کمتری کا ہی احساس ہے جو انسان کو ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگیوں میں الجھائے رکھتا ہے۔ ان پیچیدگیوں سے محفوظ شخصیت ہی مطمئن روح کہلاتی ہے۔
خوشامدی کارکن اپنے باس کو، اسی نفسیاتی کمزوری کے تناظر میں، اپنے تعریفی کلمات سے، گاہے بگاہے اسی کرسی پر بٹھاتے رہتے ہیں جو اس کے تصورات کا حصہ تو ہوتی ہے مگر استطاعت کا نہیں! استطاعت پیدا کرنے کا وقت انہوں نے دوسرے دوسرے لوازمات میں ذائع کردیا ہوتا ہے ۔
اسی پس منظر میں، جارج برنارڈ شا (George Barnard Shaw) کا قول ہے:
Try to get what you like, otherwise you will be forced to like what you get.
یعنی اپنی پسند کی جو چیز تم چاہتے ہو اس کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کرو، ورنہ آپ اس چیز کو چاہنے کے لیے مجبور ہو جائیں گے جو آپ کو مل جائےگی۔
معاشرہ کی اخلاقیات کو انسانی معیار پر استوار کرنے کے لیے کثیر تعداد میں سنجیدہ اور مخلص افراد کی ہمالیائی کوششوں کی ضرورت ہے ۔
انسان کی زندگی میں سچی تعریف کرنے کا دائرہ کار (اسکوپ) بھی کم نہیں ہے۔ ہر شخص منفرد خصوصیات کا مالک ہوتا ہے ۔ تعریف کا ہدف شخصیت کا وہی پہلو ہونا چاہیے جو فی الواقع وہاں موجود ہو۔ اس طرح کی گئی تعریف، سچائی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے دونوں فریقوں کے لیے، نہ صرف سچی خوشی کا باعث بنے گی، بلکہ منافقت کی پاداش میں ہونے والے عذاب سے حفاطت کی ضمانت بھی !
عبدالرحمٰن
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک، نئی دہلی )
9650539878
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page