جذبات، احساسات اور خواہشات کے اظہار کا مستقل ذریعہ جس زبان کو بنایا جائے وہ ’’مادری زبان ‘‘ہے۔مادری زبان کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ سیاست، اخلاق، تہذیب اور معاشرت سب ہی اس سے متائثر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ زبان کے ساتھ قوموں کا اجتماعی اور ان کے افراد کا انفرادی جذباتی لگائو بڑا گہرا اور شدید ہوتا ہے ۔مادری زبان ایک امانت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ انسان اسے اپنے خاندان اور سماج کا مقدس ترکہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ مادری زبان ان کے رگوں میں پیوست ہوتی ہے مادری زبان کے ساتھ فرد اور سماج کی ایسی والہانہ تعلق ہی کا نتیجہ ہے کہ زبان اسے ترقی کے مدارج بآسانی طے کراتی ہے اور آڑے وقتوں اس کے کام آتی ہے۔ زبانوں کی ترقی و تنزلی کی کہانیاں قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے ہمیشہ وابستہ رہی ہیں۔زبان قوموں کی ذہنی، علمی اور نظریاتی زندگی کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیتی ہے۔یہ فکرو نظر کے سانچے میں ڈھالتی ہے جن میں ہماری معاشرت اور تہذیب کے تاج محل تیار ہوتے ہیں۔زبان قومی شعور کو تہذیبی لب و لہجہ سکھاتی ہے جس سے قومی وسعتوں اور حوصلوں کو تقویت ملتی ہے
ماہرین تعلیم کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان کے ذریعہ جس آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے وہ غیر زبان کے ذریعہ ممکن نہیں۔مادری زبان کے علاوہ کسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے پہلے اس غیر زبان کو سیکھنا پڑے گا اور ایسی صورت میں متعلم کی توجہ دو طرف بٹے گی ۔ اس غیر زبان کی طرف اور دوسرے مضمون کی طرف ۔ مادری زبان ذریعۂ تعلیم ہو تو یہ دقت نہ ہوگی۔ چین ، فرانس، جاپان اورجرمنی جیسے ممالک کی ترقی کی ایک خاص وجہ ان ممالک میں ذریعہ تعلیم مادری زبان ہے۔ان ممالک میں مادری زبان اور سائنسی ارتقا ء کے درمیان ایک باہمی ربط ہے۔اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ مادری زبان معاشرے کی ترقی میں اہم کردارادا کرتی ہے اور شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کا سب سے آسان نسخہ مادری زبان کا فروغ ہے۔
ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی مادری زبان ارد وہے ۔کڑوروں کی تعداد میںاس زبان کے ذریعہ اپنی مافی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں ۔ مادری زبان ارود رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی مادری زبان کے نشیب و فراز اور ادبی شاہکارروں سے کما حقہ، واقفیت حاصل کریں تاکہ اپنے احساسات و جذبات اور خواہشات کا اظہار بہتر سے بہتر طریقے سے کر سکیں اور اس زبان کے ذریعہ دوسروں کے پیش کردہ خیالات کو اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ جن لوگوںکی مادری زبان اردو ہے وہ اپنے تہذیب و تمدن کی جھلک اس میں پائیں گے دوسری زبان کے مطالعہ سے ان کو یہ سب حاصل نہیں ہو سکتا بقول آل احمد سرور’’ کسی قوم کی مادری زبان کا ادب اس قوم کے تہذیب و تمدن اور عروج و زوال کا آئینہ دار ہوتا ہے ‘‘
مادری زبان کی تعلیم خاطر خواہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ربط ماضی سے قائم نہیں رہ سکتا ۔ ادب زندگی کا تخلیقی ترجمان ہوتا ہے۔ ماضی کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن ،حال کی قدروں اور مستقبل کا عکس ہم ادب ہی کے آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں۔مادری زبان کی تعلیم کا مقصد ہی ہے کے ہم زبان پر عبور حاصل کر کے اپنے شعور کو پختہ کریں۔ آج اردو جس نازک دور سے گذر رہی ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ایسے نازک دور سے اردو کو کبھی نہیں گذرنا پڑا تھا اگر آج ہم نے اپنی مادری زبان کی تعلیم سے غفلت برتی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔آج اردو کو سہارا کی ضرورت ہے۔ اسے سہارا نہ دیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا تہذیب و تمدن ، ہماری مذہبی و اخلاقی روایات اور ہمارے شاہکار سب میوزیم کی زینت بن کر رہ جائیں گے۔
دنیا بھر میں۲۱ فروری اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اور اس دن کو منانے کا مقصددنیا کی مادری زبانوں اور با لخصوص اقلیت کی مادری زبانوں کو فروغ دینا ہے۔عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر اردو جیسی مادری زبان کی تعلیم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔اردو زبان نے ہندوستان میں جو ترقی کی وہ سال دو سال کی بات نہیں۔ ترقی کے مدارج طے کرتے کرتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اردو کی تعلیم سے غفلت کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنے اسلاف کی صدیوں کی محنت برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے صدہاسال تک اردو کو خون جگر سے سینچا ہے تب اردو اس منزل پر پہنچی ہے ۔
اردو کا ماضی شاندار رہا ہے اس کی حلاوت، جاذبیت، جامعیت،رنگینی و خوبصورتی کے گن بلا مذہب و ملت ہر شخص نے گائے ہیں۔ اردو کا حال کچھ سیاسی وجوہات کی بنیاد پر پیچیدہ مراحل میں ہے۔ حال ہی مادری زبان اردو کو لازمی زمرے کی فہرست سے نکال کر اب اختیاری زمرے کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے جس سے اردو آبادی میں زبردست اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اہل اردو صبرو استقلال کے ساتھ اس کا دامن تھام لیں۔ خلوص دل سے اس کی ترقی کے لئے کو شش کریں۔انشاء اللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے
اردو آج بھی دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔و طن عزیز کی قومی زبان ہے اوریہ مقام صرف اردو کو حاصل ہے کہ وہ ملک کے ہر صوبہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ملک کے چند صوبوں میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فروغ اردو کے لئے کوشش کریں۔ اردو بولیں، پڑھیں، لکھیں، اور اس پر فخر محسوس کریں۔ اپنی مادری زبان سے محبت کرنا اور انھیں سیکھنا بھی ایک قابل قدر کام ہے۔ اردو کی ترقی جب ہی ممکن ہے جب پوری قوم مل کر کوشش کرے۔
حافظ معراج المو مینین ۔
دوگھرا ، دربھنگہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page