یہ حقیقت آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہے کہ ہمارا ملک ” بھارت” ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں، مختلف مذاہب اور فکر و خیال کے لوگ یہاں بستے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تاریخ سے اپنی آنکھوں کا رشتہ ہموار کریں، یہ ساری حقیقتیں دو دو چار کی طرح عیاں ہوتی چلی جائیں گی، چند میل کے ہی فاصلے فاصلے پر مختلف بولیاں بولنے والے مل جائیں گے۔ کہیں بنگلہ، اردو ، میتھلی، کنڑ ،گجراتی اور پنجابی تو کہیں تیلگو، مراٹھی اور آسامی وغیرہ۔
اس بات سے ہم اور آپ ضرور واقف ہوں گے کہ ملک بھر میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کے فروغ و ارتقا کے لیے مختلف تنظیمیں اور ادارے قائم ہیں اور ان زبانوں کے ماہرین و محبین حسب استطاعت و لیاقت زبان و بیان کی خدمت کر رہے ہیں۔ انھیں زبانوں میں سے ایک پیاری اور شیریں زبان ” اردو” بھی ہے۔ اردو کی درست تاریخ کا اگر آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کی درست تعمیر و ترقی میں جہاں مسلم علما، طلبا اور اساکلرز نے نمایاں کردار کیا ہیں وہیں غیر مسلم شعرا، قلمکار و اسکالر نے بھی اس کی خوب آبیاری کی ہیں۔ پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، مالک رام، آغا حشر کاشمیری اور آتش وغیرہ ایسے سینکڑوں نام ہیں، جنھوں نے تا عمر اردو کی زلف برہم کو سجانے و سنوارنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہیں۔ ان کی تحریریں، افسانے، انشائیے، رپورتاژ، ڈرامے اور ناولیں وغیرہ آج بھی اردو دنیا میں ذوق و شوق سے پڑھی جا رہی ہیں اور طلبا و اساتذہ وغیرہ کی کثیر تعداد مشترکہ طور پر ان سے مستفید ہو رہی ہیں۔
۱۸، ویں صدی میں قائم ہونے والا”فورٹ ولیم کالج” نے ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی سربراہی میں اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اردو کی ابتدائی ترقی میں دکن نے اہم رول نبھایا اور وہیں سے اردو نے ملک بھر میں اپنے پر پھیلانا شروع کیا، مگر بعد کے زمانے میں سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے تحت اپنے با صلاحیت رفقا کے ہمراہ اردو کی آبیاری اس نہج پر کر دیں کہ وہ سلسلہ و طریقہ آج تک محمود و مستحسن گردانا جاتا ہے۔ آپ نے اردو کو بے جا لفاظی، صناعی اور رنگا رنگی سے پاک و صاف کر کے سادہ، عام فہم اور واضح لفظوں میں مدعا نگاری کی حسن روایت کی زبردست بنا ڈالی۔ میرا خیال ہے اس وقت تک ملک بھر میں کہیں بھی محض زبان و بیان کے نام پر بھید بھاؤ کا بازار اس طرح گرم نہ تھا، جیسا کہ رواں دور میں ہمیں آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ زبان جو اسی گنگا جمنی تہذیب کا سنگم کہے جانے والے ملک میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی، آج کھلے عام نفرت کے پجاری اسے دیس سے ہی نکالنے کی باتیں کرتے ہیں اور اس کو ایک کمیونٹی کی طرف منسوب کرکے نفرت و تشدد کا ماحول پیدا کرنے کی ہر آن کوششیں کی جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان کی حیثیت، محض ایک ہتھیار اور ذریعہ کی ہے، وہ کسی خاص مذہب اور فکر کی ترجمان نہیں ہوتی بلکہ اظہار و تعبیر کے لیے رابطے کا کام کرتی ہے۔ اس کے ذریعے اگر اچھی اور تندرست فکر و نظر کو فروغ دیا جا سکتا ہے تو وہیں فتنہ و فساد کا ہنگامہ بھی برپا کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر اردو تو سراسر ایک مشترکہ زبان ہے، مختلف زبانوں کی مدد سے اس کی خمیر تیار ہوئی ہے۔ ہندی کی سادگی، فارسی کی میٹھاس اور سنسکرت و عربی الفاظ کی شمولیت نے اس کی حسن و دلکشی کے فروغ میں نہلے پہ دہلا کا کام کیا ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسے صرف اور صرف ایک خاص طبقہ و گروہ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ آفس، دفتر، اسکول اور کالجز وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہر جگہ تعصبانہ برتاؤ کیا جاتا ہے۔
جی ہاں! تصویر کا یہ دوسرا رخ بھی کس قدر دردناک ہے کہ نفرت و شرانگیزی کے اس ماحول میں بھی وہ لوگ جو اردو کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں اور عہدے حاصل کیے ہوئے ہیں، سوائے چند مخلص افراد کے سب کے سب کھا پی رہے ہیں۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ ان لوگوں سے اردو کے فروغ کی امید باندھنا سراب کی امید پالنے جیسا ہے۔ آج غالباً ہر صوبے میں اردو کے فروغ و ارتقا کے لیے ” اردو اکادمی” ہوتی ہے، جس کے لیے سرکار کی جانب سے مالی امداد کی صورت میں فنڈ وغیرہ دیا جاتا ہے۔مگر آپ جب اس کے تحت ہونے والے کاموں کا منصفانہ جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے چند ہی ایسی اکادمیاں ہیں جو اپنے قواعد و ضوابط پر کھرا اترتی ہیں، ورنہ تو سب کی پیشانی پر مسئلہ بندر بانٹ کا بدنما داغ واضح طور نظر آتا ہے۔ یقیناً یہ ہماری نا اہلی ہی ہے کہ ہمیں جس دور میں اردو کی حفاظت و صیانت اور اس کے فروغ و ارتقا کے لیے راہیں ہموار کرنا چاہیے، اس کے لیے مواقع دستیاب کر کے اپنے نونہالوں و واقف کاروں کے دلوں میں اردو سے محبت و الفت کی جوت جگانی چاہیے تھیں، ہم خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں اور غیر منصفانہ طور پر اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے بری الذمہ تصور کرنے پہ بضد ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ تلخ حقیقت آپ کو پسند نہ آئے، ورنہ تو سچائی یہی ہے کہ آج ہمارے وہ لوگ بھی جو اردو کے نام پر پھل پھول رہے ہیں، ہر ماہ موٹی موٹی تنخواہیں پا رہے ہیں اور ان کی روزی و روٹی سے لے کر نمک پانی تک کے تمام مسائل اسی سے حل ہوتے ہیں، وہ بھی سر عام اردو کے پیر پہ کلہاڑی مارنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کے گھروں کا آپ جائزہ لے لیں حقیقت آشکارا ہوتے دیر نہیں لگے گی، وہ اپنے بچوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلا رہے ہیں یا نہیں؟ آپ کو اس کا بھی جواب مل جائے گا۔ جی ہاں! یہی تو المیہ ہے کہ ہم اپنا پیٹ تو بھر رہے ہیں اردو کے نام پر ، مگر اپنے جگر گوشوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلانے میں ننگ و عار اور جھجھک محسوس کرتے ہیں، اردو دنیا میں ہمیں ان کا مستقبل فوراً تاریک نظر آنے لگتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم ان کے لیے اردو ماہنامے یا پھر دلچسپ اخبار جاری نہیں کروا سکتے تا کہ وہ اسی بہانے اپنی مادری زبان ” اردو” سے کما حقہ شد بد حاصل کر لیں اور اس کے لکھنے و پڑھنے پر قدرت و تمکن حاصل کر لیں۔
محترم قارئین! آئیندہ سطور میں اپنے ٹوٹے پھوٹے افکار و خیالات کے دھاروں کو جوڑ کر ایسے ہی چند نکات و گوشوں پر روشنی ڈالنے میں قلم کی روشنائی صرف کروں گا کہ جن پہ عمل پیرا ہوکر ہم اردو کی زلف برہم سنوارنے کے قابل ہو سکیں گے۔ انشاءاللہ
[۱] ہمارے یہاں عام طور پہ اردو کی حفاظت و خدمت کا نعرہ بڑی زور و شور کے ساتھ لگایا تو جاتا ہے مگر اس پر کما حقہ عمل نہیں ہو پاتا ہے۔ اکثر افراد، صرف بیٹھے بٹھائے ہی اردو کی خدمت کا سہرا اپنے اپنے سر سجانا چاہتے ہیں، معاشرے میں اردو ادیب و خدمت گار کے طور پر متعارف ہونا اور منفرد شناخت قائم کرنا، ان کی دلی خواہش ہوتی ہے۔ یقیناً، کام کے بغیر اس طرح کی گھٹیا امیدیں وہی لوگ پالتے ہیں، جو خلوص و صداقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، انھیں صرف اور صرف شہرت کی بھوک ہوتی ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے اس رسمِ بد کے برخلاف وطن عزیز میں اب بھی ایسے باکمال افراد موجود ہیں جو بغیر کسی شہرت و حرص کے اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں، کتابیں تصنیف کرکے، رسالے و ماہنامے شائع کرکے اور پروگرام منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ ادبی و علمی نشستیں وغیرہ قائم کرکے اردو سے اپنی سچی محبت و وفا کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ضرور، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اردو کی خدمت کا جذبۂ صادق لیے ایسے لوگوں کی صفوں میں شامل ہوں اور دن رات صرف نام و نمود سے اپنے پیٹ بھرنے والوں کی دنیا سے بالکل الگ ہو کر خاموشی کے ساتھ اپنے حصے کا چراغ روشن کرتے جائیں۔
[۲] مشہور کالم نگار، پروفیسر اے رحمٰن (دہلی) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ ملک بھر میں اردو کے فروغ کے مقصد سے قائم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی تعداد اتنی ہے کہ گننے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر صرف ہوں۔ لیکن ساتھ ساتھ بڑی بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ کسی ادارے کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں جس کے تحت زبان کو واقعتاً فروغ دیا جا سکے”۔
یقیناً، مذکورہ بالا اقتباس کی سچائی کا علم آپ کو اس وقت ہوگا جب آپ اردو زبان و ادب کی خدمت کے نام پر ان اداروں کا تجزیہ کریں گے۔ آج ایسے مختلف ادارے ہیں جن کی بنیاد تو بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ جوش و جذبے کی اہم خمیر سے تیار کی گئی، مگر چند ہی دنوں کے بعد ان کے انتظامیہ اس طرح سرد مہری کا شکار ہو کر رہ گیے کہ یہ ادارے آج بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے للچائی ہوئی نظروں سے غیروں کی طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں دور میں اس طرف ہماری ذمہ داری کا پلا مزید بھاری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے اندر موجود اردو کی خدمت کا جذبہ؛ عشق کے توے پر اس طرح گرم کر لیں کہ اس نوعیت کے اداروں کو پھر سے حیات نو کی جاودانی سے شادکام ہونے کا موقع مل جائے۔
[۳] ہمیں اردو زبان و ادب کے فروغ کی ابتدا پہلے اپنے گھر اور سماج و معاشرے سے ہی کرنی چاہیے۔ ہم اور آپ اگر اردو لکھ اور پڑھ لے رہے ہیں تو ہماری یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ اپنے گھر والوں کو بھی اردو لکھنا اور پڑھنا سکھائیں۔ مادری زبان ہونے کی وجہ سے ہماری اکثریت اردو بول تو لیتی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد اب بھی نہ کے برابر ہے۔ اس تنزلی کی قوی وجہ جہاں ہماری بے حسی و تساہلی ہیں وہیں انگریزی و دیگر میڈیم سے حد سے زیادہ مرعوب ہونے کا بھی سائیڈ افیکٹ ہے۔
ابھی چند دنوں قبل راقم الحروف کی ایک ایسے ہی شخص سے ملاقات ہوئی، جس نے اپنی خوش قسمتی سے بی_ ٹی تو کر لیا ہے، مگر اب وہ کئی سالوں سے سی_ ٹیٹ امتحان میں کامیابی کی راہ تک رہا ہے، ہر مرتبہ امتحان میں ناکامی اس لیے اس کی مقدر بن جاتی ہے کہ وہ اردو مضمون میں شکست کھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ امر اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ جہاں ہم اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے میدان عمل میں آئیں وہیں اس کام کے لیے دوسروں کو بھی Motivate کریں، جس طرح ہم کثیر مال و دولت خرچ کرکے اپنے بال بچوں کو انگریزی میڈیم سے تعلیم دلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ہماری ترجیحات میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ ہم انھیں اردو سے روشناس کروانے کے لیے کچھ بہترین بند و بست کریں گے۔ جیسے: اردو کتابیں اور رسائل و جرائد وغیرہ جو انھیں پسند ہوں، خرید کر دیں گے تا کہ وہ اس خریداری کو اپنی ضروریاتِ زندگی کی فہرست میں شامل کر لیں۔
آج اکثر لوگوں کی زبان پر یہ شکوہ رقص کرتے ہوئے آپ کو نظر آئے گا کہ "اردو کے دشمنوں نے اردو کا رشتہ روزگار سے منقطع کر دیا”۔ مجھے لگتا ہے کہ اردو کی تنزلی میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جس سے شاید ہی کسی کو انکار کی گنجائش ہو۔ اسی لیے تو آج عمدہ تعلیمی نظام کے لیے اردو والوں نے بھی انگلش میڈیم اسکولس کا رخ کر لیا ہے۔ انھیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ہوتی ہے کہ وہاں اردو زبان و ادب کی تعلیم ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ در اصل اس ذہنیت کے والدین/گارجین اپنے دلوں میں یہ ارادہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اگر انھیں اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے اردو کو پس پشت ڈالنا پڑے تو وہ ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ادھر ایک/ دو دہائی کے اندر پڑھ لکھ کر جوان ہونے والی ہماری نسل اردو زبان و ادب کی چاشنی سے بالکل یتیم ہو کر رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی تو میں یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ ” ہمارا تو ایک بیش قیمت دینی سرمایہ اردو میں ہے، اور اب جب کہ نسل نو دھیرے دھیرے اردو سے دور ہوتی جا رہی ہے تو پھر ان سرمایوں کو پڑھے گا کون اور ان کی حفاظت و صیانت کی اہم ذمہ داری اٹھائے گا کون؟”۔
اس لیے ہمارے لیے یہ بات ایک اہم ضرورت بن کر سامنے آتی ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو دیگر زبانوں کے ساتھ اردو سے بھی واقف کرانے کا حسن فریضہ انجام دیں۔
[۴] ایک بڑی چیز جو اردو کے فروغ میں زبردست رکاوٹ بن کر حائل ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد ایسے ہیں جو اردو کو اس کے اپنے رسم الخط میں تحریر نہیں کرتے، بلکہ اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی میں رومن رسم الخط کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ بلا شبہ ہم اپنے اس عمل سے جہاں اردو لکھنے کے باب میں براہ راست اپنی کمزوریوں کا سامان فراہم کرتے ہیں وہیں اس پیاری و شیریں زبان کو اعلیٰ پیمانے پر پھلنے و پھولنے کے سنہرے مواقع نصیب نہیں ہونے دیتے ہیں۔ راقم الحروف کا ماننا ہے کہ کسی بھی زبان کی درست ترقی و ترویج کا راستہ اس کے رسم الخط سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی اردو لکھیں، کوشش یہ کریں کہ آپ اردو رسم الخط ہی کا استعمال کریں۔ کیوں کہ آج ہر نسل مثلاً: بچے، جوان اور معمر وغیرہ کثیر طبقے کے لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں اگر ایک طرف ہم دنیا کے حالات سے اپڈیٹ ہوتے رہتے ہیں تو وہیں دوسری طرف ثانیے بھر میں اپنے افکار و خیالات کے اجالوں سے دوسروں کے اذہان و قلوب بھی منور کر سکتے ہیں۔
[۵] ہاں! دور حاضر میں آپ صرف اور صرف اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہی سبک دوش نہیں ہو سکتے ہیں، بلکہ آپ کو انفرادی مسؤلیات سے بھی عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔ آپ صاحب استطاعت ہیں تو رسائل و جرائد اور اردو اخبارات اپنے آفس و دفتروں کے لیے بھی جاری کروائیں۔ یہ سادہ سی بات ہم سب جانتے ہیں کہ جب کوئی رسالہ یا جریدہ ملک بھر میں مقبولیت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس کے اشاعتی امکانات بھی وسیع تر ہو جاتے ہیں، عوام اس میں مختلف قسم کے اشتہارات شائع کروانا پسند کرتے ہیں اور اس طرح جہاں مذہب و ملت کی تفریق کیے بغیر اس سے افادہ و استفادہ کی گونا گوں راہیں وا ہوتی ہیں وہیں حکومت کے ایوانوں میں بھی یہ پیغام پہنچتا ہے کہ فلاں فلاں اردو اخبار و رسائل میں شائع ہونے والی بات قارئین کے ہر طبقے تک پہنچتی ہے۔ اس طرح ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اردو سے جڑا عدمِ روزگار کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے اور معاشی استحکام کے میدان میں بھی امیدوں کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں، اشاعتیں بڑھتی ہیں اور اردو پڑھنے و لکھنے والوں کے لیے سنہرے مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں۔
[۶] یہ بالکل واضح ہے کہ مادری زبان کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم و محقق ہے۔ ایک نو آموز بچہ جتنی جلدی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اتنی جلدی دوسری زبانوں میں ممکن نہیں ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد و ثمرات کو سماج و معاشرے کے سامنے بیان کرکے عام بیداری پیدا کریں، تاکہ ماحول سازگار ہوں اور عوام الناس اردو زبان و بیان میں اپنے نونہالوں کو تعلیم دلانے پر فخر محسوس کریں۔
[۷] اسی طرح اسکولس و کالجز میں ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد بھی بہت ضروری ہے۔ اس میں وہی لوگ بحیثیت خطیب و اسپیکر مدعو کیے جائیں جو اردو سے حد درجہ محبت کرتے ہوں اور اچھی لیاقت و صلاحیت کے مالک ہوں۔ ان پروگراموں میں اردو زبان کا موجودہ منظر نامہ، اردو زبان و ادب کا مستقبل، ان کے تدریسی مسائل، ترقی و بقا کے لیے ضروری اقدامات اور اس زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد جیسے عناوین و موضوعات پر مشتمل توسیعی خطبات سے سامعین و حاضرینِ مجلس کو روشناس کرایا جائے تو مجھے امید ہے کہ اردو دنیا خوشگوار نتائج و فوائد سے مالا مال ہو سکتی ہے۔
[۸] یہ حقیقت شاید ہم سب جانتے ہوں گے کہ آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس لیے یہ شئی وقت کی اہم ضرورت بن جاتی ہے کہ "ادب اطفال” کے طور پر بچوں کے لیے سائنسی موضوعات پر مشتمل بہترین کتابیں آسان اور سلیس اردو زبان و بیان میں تصنیف کی جائیں، تا کہ ان کی دلچسپی برقرار رہے اور وہ اسی بہانے اردو زبان و ادب کی لذت و چاشنی سے واقف ہو جائیں
[۹] اسی طرح یہ ذمہ داری بھی اہم ہے کہ ہم دورانِ گفتگو پر کشش اردو الفاظ، محاورات، کنایات و اشارات اور رموز و اوقاف وغیرہ کو سلیقے اور وقار و تمکنت کے ساتھ ادا کریں، سوشل میڈیا پر پیغام نشر کرنے کے لیے اردو زبان کو ترجیح دیں، اردو کے حوالے سے اہل مدارس کی زریں خدمات کو سراہیں، سرکاری دفاتر میں اپنے درخواست اردو میں بھی دیں اور ہم غیر اردو داں اشخاص سے جب بھی گفتگو کریں تو، کوشش یہ کریں کہ ان سے اردو میں بات چیت کریں تا کہ ہماری شیریں زبان سن کر ان کے دلوں میں بھی اس سے واقف ہونے کی تحریک پیدا ہو۔ جہاں تک ہو سکے اپنے گھر و سماج میں بھی اچھی اور سلیس اردو بولنے کی کوشش کریں، دوسروں کو بھی اس زبان کی میٹھاس سے آگاہ کرائیں، انھیں نفرت و حسد سے گریز کرنے کی تلقین کریں اور ان ساری چیزوں کی انجام دہی میں خلوص و وفا کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
محترم قارئین! مذکورہ بالا تجاویز و گوشے راقم الحروف کی ادنی سوچ ہے، مجھے اعتراف ہے کہ ماہرین اردو کے پاس اس سے بھی اعلیٰ تجاویز ہیں۔ میں نے ان صفحات میں اپنے ذہن میں موجود ناقص افکار کو پیش کرنے کی کوشش کیا ہے۔ مجھے ایقان کی حد تک امید ہے کہ اگر ہم اردو زبان و بیان کی عمدہ ترقی کے باب میں احساس کمتری کے کھول سے باہر نکل کر اس شیریں زبان کو اعلیٰ نہج پر پھیلانے میں کامیاب ہو گیے تو ہم ضرور سرخرو ہوں گے، ہر سمت ہماری ہی زبان کی دھوم ہوں گی اور لوگ بغیر کسی بھید بھاؤ کے اردو کی غیر معمولی حسن و دلکشی کی جانب کھینچے چلے آئیں گے__کہ [انشاءاللہ]
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
__________________________
وزیر احمد مصباحی [بانکا]
جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |