تعلیم سے مراد علم کا حاصل کرنا ہے۔ یہ انسان کی خوش بختی ہے کہ خدائے واحد نے اسے اس قابل سمجھا کہ تعلیم کو اس کے لئے لازم قرار دیا اور اس کے سروں پر علم کا تاج سجایا۔ ورنہ یہ خدا کے اختیار میں تھا کہ وہ جسے چاہتا علم کی دولت سے نواز دیتا۔ دیگر مخلوقات پر انسانی فوقیت تعلیم کی وجہ سے ہی ہے۔ تعلیم سے ہی انسان کی پہچان ہے اور علم کی بدولت ہی انسان اشرف المخلوقات کہلانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک مہذب اور غیر مہذب انسان میں بڑا فرق تعلیم کی وجہ سے ہی ہے۔ تعلیم نہ صرف ہمیں تہذیب سے وابستہ کرتی ہے بلکہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا بڑا وسیلہ بھی بنتی ہے۔
تعلیم کا زبان سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کے لئےکسی نہ کسی زبان کا ہونا ضروری ہے۔ اگر زبان مادری ہو تو تعلیم و تربیت کے تمام تر مراحل با آسانی طے ہو جاتے ہیں۔ آپ کا خیال ہوگا کہ اتنا بڑا دعویٰ ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ مادری زبان کی نوعیت کو سمجھا جائے۔ ہم سبھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مادری زبان دراصل وہ زبان ہےجو بچہ پیدا ہونے کے بعد اپنی ماں سے سیکھتا ہے اور جو زبان بعد از پیدائش تاموت بولی، سمجھی اور لکھی جائے تو یقیناً اس زبان میں دیگر زبان کے مقابلے مہارت حاصل ہونا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہو تو بچے کو سیکھنے ، سمجھنے اور بہتر ڈھنگ سے اسے عملی زندگی سے وابستہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔
اگر اسی خیال کو ہم بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کے فلسفیانہ نظریات کے آئینے میں دیکھیں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ گاندھی جی نے بھی اپنے فلسفیانہ افکار میں تعلیم کو مادری زبان میں دی جانے کی وکالت کی ہے۔ گاندھی جی کے تعلیمی افکار میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اسکولی تعلیم کو سماجی ضروریات کے تقاضے کے پیشِ نظر بنانے پر زور دیا ہے۔ وہ ایک ایسا تعلیمی نظام چاہتے تھے جہاں بچہ خود کفیل ہونے کے ساتھ اپنی تعلیمی مقاصد کو بھی حاصل کر سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم و تدریس کا نظم ہو۔شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
"However virile the English language
may be, it can never become the
language of the masses of India.”
(Mahatma Gandhi,1981,Collected Words)
مادری زبان میں تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ ہندوستانی دستور کے دفعہ 350A میں کہا گیا ہے کہ ہر ریاست اور مقامی اتھارٹی کو کوشش کرنی چاہئےکہ "لسانی اقلیتی گروہوں سےتعلق رکھنےوالے بچوں کو تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم کے لئے مناسب سہولیات فراہم کریں۔”
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں جو عوامل سب سے زیادہ اہم رول ادا کرتےہیں ان میں مادری زبان کی الگ اہمیت ہے۔ درس و تدریس کی زبان اگر مادری ہوتو طلبہ نہ صرف اس علم کو بہتر طریقے سے سیکھ پاتے ہیں بلکہ موثر ڈھنگ سے اسے دوسروں تک ترسیل بھی کر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی مواد کا مادری زبان میں ہونا اشد ضروری ہے۔ ورنہ پھر بقول شاعر:
وہ علم جس سے اوروں کو فائدہ نہ ہوا
ہمارے آگے برابر ہے وہ ہوا نہ ہوا
قرآن کی روشنی میں بھی اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ ﷲ تعالی نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے، ان کا اپنی قوم سے ہی تعلق رہا اور انہوں نے اپنی قوم کی مادری زبان میں عبادت اور محبت کا پیغام دیا۔(یہ بھی پڑھیں گاندھی جی اور ہندی اردو کا مسئلہ – ڈاکٹر شاہ نواز فیاض )
دنیا میں دو ہی ایسی زبانیں ہیں جنہیں انسان بغیر اکتساب کے سیکھ سکتا ہے وہ ہے مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ یہ مادری زبان ہی ہے جو کسی قوم کی تہذیب و ثقافت، جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس لئے تو اردو کے مشہور شاعر آنند نرائن مُلّا نے کہا ہے کہ:
"اردو میری مادری زبان ہے، میں مذہب بدل
سکتا ہوں، مادری زبان نہیں۔"
سوچنے، سمجھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار میں مادری زبان کی اہمیت سے ہم روگردانی نہیں کر سکتے۔ مختلف علوم جیسے سائنس و تکنیک، فنون لطیفہ، سماجیات وغیرہ کے مطالعے میں مادری زبان بے حد موثر وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں مادری زبان میں درس و تدریس کا نظام رائج ہے۔ یونیسکو نے بھی مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے مفید قرار دیا ہے اور مادری زبان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہر سال ٢١؍ فروری کو "عالمی یوم مادری زبان "منایا جاتا ہے۔ یونیسکو نےکہا ہے کہ:
"برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو
بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا
کرتے ہیں شروع سے ہی ان کی کارگردگی بہتر
ہوتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک
نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔"
بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے مادری زبان کی ضرورت اور اہمیت کو آج مسترد اور فراموش کر دیا ہے جس کا شدید خمیازہ ہماری نسلیں بھگت رہی ہے۔ مادری زبان سے لا علمی اور بے توجہی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیمی پسماندگی پائی جا رہی ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اس حقیقت کا بھی خلاصہ ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی تعلیمی ناخواندگی کی شرح میں اضافہ کا ایک بڑا سبب مادری زبان میں تعلیم فراہم نہ کرنا ہے۔ آج ماہرینِ تعلیم کی ایک بڑی تعداد کثیر لسانی تعلیم پر زور دیتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بچہ پہلے مادری زبان میں ہی بہتر ڈھنگ سے ہر علم سے واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے مادری زبان میں مہارت اور عبوریت حاصل کی جائے اس کے بعد ہی کثیر لسانی تعلیم کا فارمولا کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر ہمیں صرف ناکامی اور تعلیمی پسماندگی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسکولی سطح پر مادری زبان میں تعلیم کا نظم کرکے تعلیم کو فروغ دیا جانا چاہئے مگر اقلیتی زبان خصوصاً اردو کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور اس حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ جہاں مادری زبان میں تعلیم نہ دی گئی وہاں ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ گا ندھی جی کے فلسفیانہ افکار اور بالخصوص تعلیمی افکار کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے اور ان کے فلسفوں سے فیض حاصل کرتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم کو نہ صرف بنیادی بلکہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم میں بھی عام کیا جائے۔ اسی سے ہماری تعلیمی پسماندگی کا ازالہ ممکن ہے اور اسی میں قوموں کی ترقی اور ملک کی فلاح و بہبود کا راز پوشیدہ ہے۔
حوالہ جات:
١۔ گاندھی، مہاتما، Collected Words، ١٩٨١
٢۔ تیمی منیر، ذیشان الٰہی، اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مادری زبان کی اہمیت، ٢٣؍ فروری ٢٠١٧
٣۔ جاوید، آصف، مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت، نیا زمانہ، ١٤؍مئی ٢٠١٧
٤۔ طاہر، فاروق، ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی کیوں؟، جسارت بلاگ، ٢٠١٧
۵۔ بہلول، ڈاکٹر محمد، مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت، ادبی میراث، ٢٣؍فروری ٢٠١٧
کمال الدین علی احمد
ریسرچ اسکالر
تری وینی دیوی بھلوٹیا کالج،
رانی گنج، پچھم بردوان، مغربی بنگال۔713347
موبائل نمبر – 8906364797
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
جی ہاں بلکل میں اِس بات سے متفق ہوں کہ مادری زبان میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ترقی کرنے سے لاچار ہے . بحیثت پٹھان میں پستو زبان میں سوچھتا ہوں اگر مجھے تعلیم و تربیت سکول اور کالج میں میری مادری زبان میں دی جاتی تو يقيناً اُستاز صاحب مجھے Physics اور biology کے فلسفے اچھی طرح سمجھا پاتے . اِسی بات کا ثبوت تمام ترقی یافتہ ممالک سے ہوتا ہے مثلاً چین ، روس، امریکہ ،
جاپان ، فرانس ، جرمنی ، ترکی، مالیشیا وغیره وغیره اِن سب میں ایک چیز خاص ہے کہ انہوں نے اپنی مادری زبان میں ہی ترقی کی ہے جن میں یہ بنیادی طور پر سوچھتے اور سمجھتے ہیں . شاید دنیا میں واحد پاکستان ہی ایسا ملک
ہوگا جو دوسروں کی مادری زبانوں میں ترقی کرے گا .
مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ ہمیں ایک قومی جز بے کی ضرورت ہے جو کہ عوام ناس میں شعور اُجاگر کرے کہ ہمارا انگریزوں کی زبان میں اگے کوئی ہمارا کوئی مسقبل نہیں ہے . بلکہ موجود ہ تعلیم و فنون کو اپنی مادری زبان میں لکھ کر بچوں اور نوجوانوں کو دی جائے تاکہ ہم اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو سکے .
اُمید کرتا ہوں آج آپ کا دن اچھا گزرے . وسلام