اردو ایک لشکری زبان ہے، یہ ہندی، سنسکرت، بنگلہ، فارسی، عربی اور دیوناگری سے مل کر بنی ہے۔ عہد سلاطین اور عہدنوابین میں اس زبان کو پھولنے پھلنے کا موقع ملا۔ عہد مغلیہ میں بھی اس زبان کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر بذات خود شاعر تھے۔ اس کے علاوہ علماء اور شعراء کے قدر داں اور قدر شناس بھی تھے۔ اردو ہماری زبان ہی نہیں ہماری تہذیب ہے۔ ہماری ثقافت ہے۔ ہماری وراثت ہے۔ ہمارے اسلاف کی امانت ہے جو امیر خسروؔ سے لیکر بہت نشیب و فراز سے گذرتی ہوئی ہم تک پہنچی۔ اردو زبان کا تحفظ اور اس کی بقا ہمارے لیے لازمی ہے۔ اردو زبان سیکھنا بہت آسان نہیں۔ اس لیے تو سنہرے ماضی میں داغؔ دہلوی نے کہا تھا:
نہیں کھیل اے داغؔ، یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
میر تقی میرؔ اردو کے بہت مشہور شاعر گذرے ہیں۔ جن کی پیدائش 1724 ء میں شہر آگرہ میں ہوئی۔ شہر آگرہ اپنے لاثانی، شاہکار، فن تعمیری کی وجہ سے سای دنیا میں مشہور ہے۔ کیوں کہ یہی وہ شہر ہے جہاں شہنشاہ شاہ جہاں نے تاج محل جیسی خوبصورت عمارت بنوا کر شہرت حاصل کی۔ اور اس میں اپنی شریک ِ حیات کو دفن کر کے اسے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی بخشی۔ ناکام محبت میرتقی میرؔ نہ تو کوئی شہنشاہ تھے اور نہ ہی کسی شہنشاہ کے فرزند۔ محبت نے ان کے دل میں بھی ایسے ہی شگاف پیدا کیا جیسا کہ شہنشاہ شاہجہاں کے دل میں کیا تھا۔ لیکن وہ تاج محل جیسی خوبصورت اور شاندار عمارت تو تعمیر نہ کر سکے جس کا شما ر ہفت عجوبہ روز گار میں ہوتا ہے۔ لیکن اشعار کے گل و خشت سے ایسی عمارت تعمیر کر گئے جو خفیہ جوگی اور بہتی ندی کی طرح ددیش بدیش اور شہر بہ شہر چلی جاتی ہے۔ بلکہ آج digital India میں محض ایک ہلکے سے touch سے whatsapp اور دوسرے networking website کے ذریعہ سکنڈ بھر میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتی ہے۔ میرؔ کی شاعری کے تعلق سے مختلف شعراء کرام یوں رقم طراز ہیں:
غالبؔ : ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
داغؔ : میرؔ کا رنگ برتنا آساں نہیں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا کر دیکھئے دیواں اس کا
سوداؔ : سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل سمجھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
ذوقؔ : نہ ہو ا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
عہد ماضی میں اردو کے بہترین شعراء کرام اقبالؔ، غالبؔ، ذوقؔ، ناسخؔ، آتشؔ، مومنؔ، سوداؔ اور دیگر شعراء کرام نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ اور اردو ادب اور شاعری کو خونِ جگر سے سینچا ہے۔ اس ضمن میں دکن میں ولی دکنیؔ کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہوگی۔
شاعر یوں رقم طراز ہیں:
دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا
سوداؔ کے قصیدے نے مرا حسن بڑھایا
فانیؔ نے سجائے میرے پلکوں پہ ستارے
اکبرؔ نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے میرا نام، میں خسروؔ کی پہیلی
یہ با ت ہے تابناک اور درخشاں ماضی کی جس وقت شعراء کرام کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی۔ آج شعرا کی پیدائش digital India میں ہو رہی ہے اور اس حقیقت سے انکار ہرگز نہیں کہ آج اردو زبان بلکہ اردو اسکولس، اردو اخبارات جس تباہی کے دہانے پر ہیں ہو کوئی واقف ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں کا حال زار اپنی جگہ مسلّم ہے۔ معیارِ تعلیم، انفراسٹرکچر کی کمی ہے، مالی بحران ہیں۔ اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ کرام کو معقول مشاہرہ نہیں مل رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو اساتذہ کرام اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم دے رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کروانا نہیں چاہتے ہیں۔ اردو اخبارات کے پڑھنے والے بہت کم ہیں۔ اردو تو کیا دوسری زبانوں مثلاً ہندی، بنگالی، انگریزی اخبارات کے پڑھنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ اخبارات کی جگہ انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ جہاں تازہ نیوز ہر لمحے انٹر نیٹ کے ذریعہ ترسیل ہو رہے ہیں۔ تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اخبارات کے صفحے کی ورق گردانی کرے۔ شاید اب وہ دور نہیں رہا اور وہ لوگ نہیں رہے جب ایک کپ گرم چائے یا کافی اور ایک اخبار کے ذریعہ صبح کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ جاڑے کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھ کر گھنٹوں اخبارات کا مطالعہ کیا جاتا تھا اور صفحات کے صفحات نصف گھنٹے میں پڑھ لیے جاتے تھے اور اخبارات کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پڑھنے کا مزہ کچھ الگ ہی ہوا کرتا تھا۔ آج نئی نسل اخبارات پڑھنے سے قاصر ہے۔ اس کی جگہ mobile, t.v نے لے کی ہے۔ T.V پر بڑے بڑے news flash ہوتے ہیں۔ پھر کس کو ضرورت پڑی ہے کہ صفحے کو الٹ کر ورق گردانی کرے، صفحے کو الٹنا ہی گراں گذرتا ہے۔ اردو تو کیا، انگریزی، ہندی، بنگلہ اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کولکاتا سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات اب شائع نہیں ہو رہے ہیں۔ اور تقریباً ختم ہونے کے کگار پر ہیں۔ اردو میڈیم اسکولوں کے پست معیار کی وجہ سے طلباء کی ایک کثیر تعداد انگریزی یا بنگالہ میڈیم اسکولوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ کولکاتا میں بیشتر بنگالی میڈیم گورنمنٹ اسکولس ہیں جہاں فیس بہت کم ہے۔ معیارِ تعلیم اچھی ہے تو جو حضرات معاشی طور پر کمزور ہیں اس کا رخ کرتے ہیں۔ اور جو کچھ بھیafford کرتے ہیں وہ انگریزی میڈیم کا ہی رخ کرتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے تو ایسے ماحول میں طلبا کو انگریزی، ہندی اور بنگالی سیکھنا لازم ہوتا ہے جو school curriculum میں ہوتا ہے۔ اور صحیح طور پر سیکھنے میں 15 سے 16 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس طرح جب زبان کے پڑھنے والے ہی نہیں رہے تو زبان تو زوال پذیر ہونا ہی ہے۔ اردو زبان کسی خاص علاقے اور کسی خاص طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اردو کی طرف رجحان نہیں ہے کیوں کہ اردو کو معاش سے جوڑنے کی کوئی کوشش نہیں ہے بلکہ اسے مشاعرہ، قوالی، ڈرامہ parody کے طور پر محض entertainment کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں بنگالی برادران بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور ان کے لیے بھی تفریح طبع کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ یہ ہے اردو کی موجودہ پوزیشن۔ اردو کے مستقبل کے لیے ہم نے انگریزی زبان کے ایک ریسرچ اسکالر جس کی پرورش اردو کے ماحول میں ہوئی رابطہ کیا۔ ان سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات قارئین کی پیش خدمت ہیں۔
سوال اردو زبان کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں؟
اردو اخبارات کیوں زوال پذیر ہیں؟
جواب: اس کاصاف جواب ہے کہ جب اردو اخبارات، رسائل اور جرائد خریدنے والے لوگ نہیں رہیں گے تو law of economics کے تحت ”جہاں demand نہیں ہوگا تو سپلائی بھی نہیں ہوگی۔
سوال: آپ کے نظر میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟
جواب: تقسیم ہند کے بعد اردو زبان کی شناخت مسلمانوں کی زبان سے ہوئی۔ اور اس پر گہرا سیاسی اثررہا ہے۔اسے سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس کا مقام ہے کہ جو مسلمان انگریزی یا کسی دوسری زبان میں تعلیم دلوانا afford نہیں کرتے ہیں وہی اپنے بچے کو مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں۔
جبکہ ماضی میں اردو بولنے، لکھنے، پڑھنے والے امراء اور روساء بھی تھے۔ اس لیے اردو کی اہمیت تھی۔
اردو کے ایک بڑے اسکالر گوپی چند نارنگ نے کہا تھا ”اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں۔ مسلمانوں کی زبان عربی ہے اور اردو زبان ایک مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔
سوال: COVID-19 کی وجہ سے اردو پر کیا اثر پڑاہے؟
جواب : COVID-19 نے ایک بار پھر بتا دیا کہ ہم لوگ جس دنیا میں رہتے ہیں یہ ایک global village ہے اور اس global village میں survive کرنے کے لیے english کا جاننا ضروری ہے۔ اردو کا نہیں۔
آج 13/ جون 2020 ء کو معروف اردو شاعر پنڈت گلزار دہلوی کا انتقال ہوگیا۔ گلزار دہلوی کے انتقال پر معروف شاعر منصور عثمانی اور پروفیسر وسیم بریلوی نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کہا کہ ان کے انتقال سے نہ صرف اردو کا بلکہ تہذیبی وراثت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
Muzaffar Naznin
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |