گزشتہ کچھ دنوں سے فیس بک پر ’اردو بچاؤ مہم‘ کی ایسی آندھی چلی کہ ہم جیسے کمزور دل والوں پر غشی سی طاری ہوگئی۔آخر یہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کر ہوا؟ جیسے متعدد سوالات کی آندھی ذہنوں کے پرخچے اڑانے لگے۔ مہم کیا تھی؟ ’اردو کو اردو رسم الخط‘میں لکھیں۔ سب سے پہلے تو یہی سوال پیدا ہوا کہ اردو کو اردو رسم الخط میں نہ لکھیں تو کس رسم الخط میں لکھیں۔ پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ کالج میں امتحانات کے دوران کاپی پر یہ بھی درج ہوتا ہے کہ آپ اس رسم الخط کا ذکر کریں جس زبان میں آپ کاپیاں لکھ رہے ہیں، تو میں نے دیکھا کہ ہندی والے اپنی کاپیوں میں Devnagrikیعنی ’دیوناگرک‘لکھ رہے ہیں، کئی بچوں کو ٹوکا تو انہوں نے دیوناگری کیا۔ اسی طرح اردو والے زیادہ تر بچے ’رسم الخط‘ کی جگہ ’اردو‘ ہی لکھ رہے ہیں۔ انہیں بتایا کہ بھائی اردو ’فارسی رسم الخط‘ میں لکھی جا رہی، یہاں پر فارسی لکھیں۔ ایسا ہوہی رہا تھا تو ہمارے ایک سینئر استاد نے مجھے ڈانٹے ہوئے کہا کہ اب رسم الخط میں تبدیلی آگئی ہے۔ اب اردو کا رسم الخط’پرسو عربک‘ ہو گیا ہے، یعنی فارسی اور عربی کو ملا کر اسے پرسو عربک بنا دیا گیا ہے۔ تاہم ہم نے ان سے پوچھا کہ پرسو عربک کو اردو میں کیسے لکھیں گے تو انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز کی اردو ہی بنائی جائے۔ پرسو عربک ہی لکھ دینا کافی ہے۔پھر میں نے ان سے کہا اب تک ہم لوگ کیوں فارسی لکھا کرتے تھے، اس میں کیا برائی ہے۔ بات خط کی ہے تو فارسی ہی رہے اس میں عربی جوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے مجھ پر ایک رعب دار نظرپھیری اور غائب ہو گئے۔ تو یہ جو مہم چلی کہ اردو کو اردو رسم الخط میں لکھیں توپھر سے ہمیں وہ بات یاد آگئی کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اتنے زور و شور کے ساتھ اردو رسم الخط کو بچانے کی تحریک شروع ہو گئی۔ جس دانشور نے یہ مہم چلائی تھی، سب سے پہلے ان سے رابطہ کیا، انہوں نے کہا کہ آپ تو بیدار لوگ ہیں،کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ سوشل میڈیا میں لوگ اردو کو دیوناگری یا رومن میں لکھ رہے ہیں۔ ایسے میں اردو کے تقدس کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پھر میں نے ایک اور پوسٹ دیکھی جو نامور پروفیسر کی تھی انہوں نے بھی لکھا تھا کہ اردو کا رسم الخط ہی اردو کی روح ہے، پھر پدم شری اعزاز سے سرفراز ایک شخص نے بھی اردو کو یہ کہتے ہوئے بچایا کہ رسم الخط ختم ہوئی تو اردو بھی ختم ہو جائے گی۔ گویا تمام اہلیان اردو نے اردو کو بچانے کے لئے اردو رسم الخط کو بچاناضروری قرار دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اردو اس لئے ختم ہو جائے گی کہ اسے اردو رسم الخط سے دور کر دیا جائے گا اور کیا اردو صرف اس لئے تاحشر بچی رہے گی کہ اسے اس کے رسم الخط کے ساتھ لکھا جاتا رہے گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ گاندھی جی نے بھی جب ہندی اور اردو کو ملا کر ہندوستانی زبان کی حمایت کی تھی تو اس میں بھی رسم الخط کو چھیڑنے کی بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے یہی کہا تھا کہ زبان تو ہندوستانی ہو مگر اردو فارسی رسم الخط میں لکھی جائے اور ہندی دیوناگری میں تو آخر اس بات کو چھیڑنے اور اسے مشتہر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہاں اگر سرکار نے یہ کیا ہوتا یا پھر کسی سرکاری تنظیم کے ذریعہ اسے نوٹی فائڈ کیا جاتا یا پھر کسی ادارے یا کونسل نے ایسا اعلان کیا ہوتا تو پھر یہ تحریک ضروری تھی کیونکہ ہر زبان کی بقا اس کے اسکرپٹ میں پنہاں ہے، مگر صرف اس لئے کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا میں اردو کو دیوناگری یا رومن میں لکھ رہے ہیں تو تمام دانشوران اردو کی چھٹی حس جاگ جاتی ہے تب لگتا ہے کہ نہیں یہی موقع ہے جب اردو کے بچانے اور اردو کے فروغ کے لئے کچھ باتیں لکھی جائیں۔
ایک میرے دوست نے فیس بک پر ایک پوسٹ لکھا کہ جس نے ایئر کنڈیشنر بنایا وہ تو جہنمی ہے، لیکن اسی اے سی کو کوئی مسجد میں عطیہ کرتا ہے تو اسے ثواب ملے گا اور ہو سکتا ہے اسے جنت بھی مل جائے۔ گویا موجد تو جہنمی رہے مگر استعمال کرنے والے جنتی ہیں۔ ٹھیک یہی سوال ان لوگوں سے بھی ہے کہ موبائل یا کمپیوٹر پر اردو جب تک انٹروڈیوس نہیں ہوئی تھی تب کیوں نہیں سوچا جا رہا تھا کہ اس نئی ٹکنالوجی کے ساتھ اردو کو جوڑا جائے۔ان پیج بنایا گیا اور اب تک اس میں کئی طرح کی خامیاں ہیں، پھر کیوں نہیں مہم چلائی گئی کہ ارے کوئی ہے جو ان پیج کو یا موبائل پر موجود اردو ایپ کو مزیدبہتر بنانے کے لئے دماغ اور پیسے خرچ کریں۔ بنابنایا مفت میں کچھ بھی مل جائے تو خامیاں نکالنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اب بھی موبائل ایپ میں اردو تحریر کرنے میں کئی طرح کی پریشانیاں لاحق ہیں، لیکن اسے درست کرنے کی کوئی مہم نہیں چلائی جاتی اور تو اور اب بھی بڑے بڑے لوگ اپنے موبائل سے اردو میں ٹاٸپ نہیں کر سکتے ہیں تو کیا وہ اپنی بات سب کے سامنے رکھنے کے حقدار یا اہل نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں جب میں نے ایک دوست سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اردو کو اردو میں لکھنا اچھا ہے،، لیکن اگر اپنی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانی ہے تو اس کے لئے رومن یا ہندی میں لکھنا زیادہ بہتر ہے، تاکہ اپنی تشویشات، مسائل اور افکار دوسروں تک پہنچے جو اردو نہیں جانتے۔ یہاں پر ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ فیس بک پر تمام مسلم نام والے اردو والے نہیں ہوتے کہ آپ فوراً فیصلہ سنادیں کہ دیکھئے یہ اردو میں نہیں لکھ رہے ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ بھی کہ جولوگ اردو میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ درست املا نہیں لکھ پاتے تو آپ ہی جیسے لوگ اسے بھی ڈانٹ پھٹکار کر الگ کردیتے ہیں کہ آپ تو جاہل ہیں آپ کا املا ہی درست نہیں ہے۔
ایک بات جان لینی چاہیے کہ سوشل میڈیا، سوشل میڈیا اس لئے نہیں ہے کہ وہاں اردو یا ہندی کے املا درست کئے جائیں، وہ معلومات لینے اور دینے کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں اپنی سوچ رکھنے کاموقع ہوتا ہے نہ کہ اپنے آپ کو اردوداں ثابت کرنے کاموقع۔اردو سوشل میڈیا سے نہیں اسکولوں سے بچے گی۔ خاطر جمع رکھیں جو لوگ اردو جانتے ہیں وہ اردو رسم الخط میں ہی لکھیں گے اور جو نہیں جانتے وہ دباؤ میں اگر اردو رسم الخط لکھیں گے تو آپ کو ہی برا لگے گا۔ اردو کی بقا اس کی بنیادی تعلیم میں ہے۔ اردو بچانے کی مہم چلانی ہے تو اس کی جڑ میں جایئے۔ تمام اضلاع کے اسکولوں میں دورہ کیجئے اور وہاں کے ہیڈ ماسٹر، پرنسپل اور انتظامیہ پر دباؤ بنایئے کہ آپ اپنے اسکولی ادارے میں اردو پڑھانے کا نظم کیجئے، ورنہ تحریک چلائی جائے گی۔ اگر یہ نہیں ہوا تو رسم الخط تو کیا اردو کی کوئی رسم نہیں بچے گی اور یہاں پر میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کوئی نہیں کرے گا۔ اگر ایسا کرسکتے تو آج اردو کی یہ حالت ہوتی ہی نہیں۔ دردمندوں نے ہی اسے خطرہ میں ڈالا ہے اور پھر اسے خطرہ بتا کر دردمندی کا اظہار کر رہے ہیں۔
نوٹ۔ یہ مضمون ڈاکٹر زین شمسی صاحب کے فیس بُک پیج سے لیا گیا ہے۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page