خطباتِ سید امین القادری: ایک تجزیاتی مطالعہ – وزیر احمد مصباحی
محترم مولانا عادل حسین مصباحی ہمارے ان رفقا میں سے ہیں جنھیں میں دس/بارہ سالوں سے جانتا ہوں۔ پہلی ملاقات غالباً تحریک اصلاح ملت، کوچنگ سینٹر [مظفرپور] میں "جامعہ اشرفیہ” کے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے دوران ہوئی تھی۔ لیکن اس شناسائی کے رشتے میں مزید نکھار اس وقت پیدا ہوا جب ہمیں چمنستانِ عزیزی میں داخلہ مل گیا۔ فرزندانِ اشرفیہ کے لیے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہاں نو داخل طلبا کے لیے ان کا پہلا سال کیسا صبر آزما اور جہد و سعی سے بھرپور ہوتا ہے۔ پہاڑ جیسا نصاب تعلیم ہی انھیں اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوستیاں بڑھائیں اور قہوہ خانوں پہ گفت و شنید کی محفلیں گرم کریں۔ راقم الحروف نے بھی یہ مشکل کی گھڑی دیکھی ہے، مگر خوش قسمتی یہ ہے کہ نصاب تعلیم اور امتحانی پریشر وغیرہ کے غم غلط کرنے کے لیے جن طلبا سے سلام و کلام ہوتا ان میں ایک رفیق موصوف بھی ہوا کرتے تھے۔ شروع ہی سے جہاں میں نے انھیں محنتی اور جفا کش انسان پایا وہیں خوش اخلاق و ملنسار بھی۔
اس وقت راقم الحروف کے سامنے موصوف کی اولین علمی کاوش بنام ” خطبات سید امین القادری” موجود ہے۔ یہ حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی کتابوں کی صف میں خوب چرچے میں ہے۔ خصوصاً مذہبی حلقوں میں علما اور طلبا کی جماعت اسے ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہیں۔ اس مقبولیت کی واحد وجہ شاید یہی ہے کہ یہ کتاب ان خطبات کا مجموعہ ہے جو مختلف دینی محفلوں میں اصلاح معاشرہ کے حوالے سے بے حد پسند کیے گیے ہیں اور یہ بھارت کے ایک ایسے مشہور و معروف خطیب کی طرف منسوب ہیں جو عوام و خواص میں یکساں مقبول ہیں۔
خطبات کے حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ اہل سنّت و الجماعت کے یہاں بزرگوں کے خطبات کی جمع و تدوین کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے، مگر ماضی قریب کے دعاۃ و مبلغین کی تقاریر کو مکمل کتابی صورت میں منصہ شہود پر لانے کا کام ادھر چند دہائیوں سے ہونے لگا ہے اور اب تو رفتہ رفتہ نو فارغ علما اس طرف بہت زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں تا کہ افادہ و استفادہ کی راہیں مزید کشادہ ہو سکیں۔
مجھے لگتا ہے کہ رفیق محترم نے بھی اسی جذبے میں زیر نظر کتاب منظر عام پر لانے کی سعی جمیل کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
"چناچہ دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ مختلف موضوعات پر قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں ایک کتاب مرتب کروں، جس سے لوگ استفادہ کر سکیں۔ لہذا میں نے ہندوستان کے مشہور عالم دین، خطیب اسلام حضرت مولانا سید امین القادری حفظہ اللہ[ نگراں: سنی دعوت اسلامی، مالیگاؤں] کی تقریروں کی جمع و ترتیب کا ارادہ کیا کہ جن کے بیان سے نہ جانے کتنے لوگوں نے توبہ کرکے راہ حق کو اختیار کیا۔ اس لیے میں نے نیٹ کا سہارا لے کر موصوف کے مختلف النوع موضوعات پر دئیے ہوئے بیانات کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔”
حضرت مولانا سید امین القادری نوجوان عالم دین اور تبلیغی اسرار و رموز سے خوب واقف ہیں، تحریک سنی دعوت اسلامی سے منسلک اور مالیگاؤں و ناسک وغیرہ میں اس کے نگراں اور ذمہ دار بھی ہیں۔ میری فہم کے مطابق تقریر و خطابت اور تبلیغ و ارشاد سے عشق کی حد تک لگاؤ ہونے کی ہی وجہ سے ملک و بیرون ملک آپ کے کثرت سے دورے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ زیر نظر مجموعۂ خطبات کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ آپ اسلامی حکایات و واقعات کی روشنی میں پند و نصائح کے گوہر لٹانے کا ہنر خوب جانتے ہیں، زبان و بیان میں یک گونہ سلاست و روانی اور میٹھاس موجود ہیں، جن کی وجہ سے باتیں سیدھے سامعین کے دلوں پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اب تک آپ کے دل پذیر خطبات سے متاثر ہو کر بہت سے غیر مسلم افراد نے موقع بموقع کلمۂ اسلام بھی پڑھ لیا ہے۔ سماج میں پھیلی برائیوں و گندگیوں پہ آپ سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں، خصوصاً نماز کے حوالے سے اکثر مجلسوں میں پرمغز خطاب فرماتے ہیں۔ مولانا موصوف کے خطابات کے حوالے سے مناسب سمجھتا ہوں کہ کتاب میں شامل تقدیم کا یہ اقتباس نقل کر دوں کہ:
” پوری کتاب میں صاحب کتاب مولانا سید امین القادری نے موضوع کا پورا پورا خیال کیا ہے، موضوع سے ہٹ کر گفتگو نہیں کی البتہ واقعات کی پیش کش میں کہیں کہیں قاری کو داستانوں کے اسلوب سے گزرنا پڑتا ہے کہ قصہ در قصہ کی پیشکش تھوڑی دیر کے لیے پریشانی میں ڈال دیتی ہے لیکن بہت جلد ہی اصل قصہ کی طرف مصنف لوٹ آتا ہے۔ مولانا سید امین القادری کے خطاب کی یہ خصوصیت معاصر خطبا سے ممتاز کرتی ہے کہ جذبات میں نہیں بہتے بلکہ وہ اپنی بات پوری جامعیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک نکتہ بیان کرنے سے بھی نہیں چکتے ہیں۔” [ص: ۲۰،از: مولانا ولی اللہ قادری، خادم دار القضا ادارہ شرعیہ، چھپرہ بہار]
دور حاضر میں جس قدر تیزی کے ساتھ نام نہاد میلاد خواں حضرات پنپ رہے ہیں اور من گھڑت واقعات نقل کر کرکے ممبر رسول کی حرمت پامال کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ روش پہ بندھ باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ خطبا مکمل دلائل کی روشنی میں گفتگو کریں اور اس بری رسم پر نکیل کسنے کے لیے بغیر کسی لومۃ و لائم کے پیش قدمی کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ زیر نظر مجموعہ اس جہت سے نہایت مفید ثابت ہوگا۔ [ان شاءاللہ]
کتاب کی ترتیب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب موصوف نے اس کی زیبائش و آرائش میں بڑی محنت و مشقت کے کام لیا ہے اور اہم عناوین ہی کو شامل اشاعت کرنے کا کام کیا ہے:
[۱] نماز
[۲] عورتوں کے حقوق
[۳] میاں بیوی کے حقوق
[۴] رزق حلال کی اہمیت
[۵] دولت کی اہمیت
[۶] علم کی اہمیت
[۷] عید میلاد النبی ﷺ
[۸] شب برات کی فضیلت اور ہماری ناقدری
[۹] بے حیائی اور اسلام
[۱۰] موت کا فلسفہ اور ہماری طرز زندگی
[۱۱] فکر آخرت اور اصلاح معاشرہ
[۱۲] غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی شان
[۱۳] تاریخ ہند میں ہمارے اسلاف کا کردار
یہ وہ عناوین و موضوعات ہیں جن سے آج ہمارے معاشرے کو خوب واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ مگر علم و جانکاری نہ ہونے کی ہی وجہ سے ہم انگنت معاصی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور ہمیں بھنک تک نہیں لگتی۔ دور حاضر میں تو یہ المیہ مزید توانا ہو گیا ہے کہ مقررین رات بھر عوام الناس کو صرف فضائل و مناقب سنا سنا کر ان سے موٹے و گاڑھے نذرانے اینٹھ لیتے ہیں اور جاہل عوام کو ذرہ برابر بھی اس بات کی بھنک نہیں لگتی کہ انھوں نے ان قیمتی ساعات میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ مگر زیر تبصرہ مجموعہ سے رشتۂ قرأت ہموار کرنے کے بعد یہ احساس گہرا ہوتا ہے کہ نہیں؛ سید صاحب کے یہاں تخویف و تنذیر کا پہلو غالب ہے۔ وہ اصلاح معاشرہ کے باب میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام تر برائیوں، سماج میں منتشر اخلاقی پستیوں، شریعت اسلامیہ سے انحراف اور مغرب پرستی کی آندھیوں سے نکلنے کا واحد راستہ تبشیر کی بجائے تنذیر کی دہلیز سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس حقیقت کی شعائیں پوری کتاب میں پھیلی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ بوقت مطالعہ ایک نرم دل قاری پہ لرزہ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباسات دیکھیں کہ تفہیم میں تخویف و تنذیر کا کیسا غازہ مل دیا گیا ہے:
[۱] ” اے میری قوم کے جوانو! وہ کون سا جرم ہے جو آج ہماری زندگی کے اندر موجود نہیں، آخرت کو بھول گیے، آخرت کو فراموش کر گیے، دنیا کے نرم نرم گدوں کی محبت میں فجر چھوٹ رہی ہے، دکان کی محبت سے مسجدیں ویران ہو رہی ہیں، طاقت اور دولت کے نشے میں لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا، یا رسول االلہ! جب اللہ حساب لے گا وہ ہم سے کیا کیا پوچھے گا؟۔۔۔میرے سرکار غیب داں ﷺ نے فرمایا: کہ کسی نے کسی کے دیوار کو کھرونچا ہوگا اور دیوار کو کھروچنے کے بعد اس کے ناخن میں جتنی مٹی آئے گی اس مٹی کے بارے میں بھی اللہ تم سے سوال کرے گا، اس مٹی کے بارے میں اللہ تم سے پوچھے گا۔” [ص:۳۴۴]
[۲] ” ان بطش ربک لشدید____ہاں! ہاں! گناہ کرنے والو! جب اس نے نمرود کو پکڑا تو لنگڑے مچھر کے ذریعے ہلاک کر دیا۔ جب اس نے فرعون کو پکڑا تو اس کو دریا میں ڈبو دیا۔ آج تک فرعون کو قبر تک میسر نہیں آیا۔ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے کہیں کا نہیں رکھتا۔ پھر اس کو کفن بھی نصیب نہیں ہوتا۔ پھر اسے قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ اسے درس عبرت بنا دیا جاتا ہے۔”
محترم قارئین! کتاب کی ترتیب میں مضامین کا انتخاب، الفاظ کا چناؤ، ٹائٹل پیج کی خوبصورتی اور فہرست سازی وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مجموعے میں شامل خطبات میں پہلی جگہ ” نماز” کے لیے مختص کرنے کا عمل مرتب موصوف کی حساس طبیعت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے آج معاشرے میں غفلت کی لہر عروج پر ہے، نوجوان نسل مغرب پرستی کے دلدادہ ہو چکی ہے جب کہ بارگاہ انام میں سب سے پہلا سوال ” نماز” سے ہی متعلق ہونا ہے
روزِ محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرسشِ نماز بود
بارِ اول میں جب کتاب نظر سے گزری تو خوشی محسوس ہوئی کہ رفیق موصوف نے مجموعے میں تخریج جیسا اہم کام بھی انجام دیا ہے، کیوں کہ دور حاضر میں کچھ ایسے بھی قلم کار و مصنف شدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو مکمل حوالہ جات کے بھنور میں ہچکولے کھانے کی بجائے بس یہ چاہتے ہیں کہ ساحل سمندر کے کنارے کنارے ہی چل کر صدف تک رسائی پا لیں۔ ہاں! اس عمل میں اگر انھیں کسی طرح کوئی ٹوٹے پھوٹے دو چند صدف بھی ہاتھ لگ گیے تو پھر وہ اسی کو اپنے نصیبے کی ارجمندی سمجھ کر بڑھتے قدم روک لیتے ہیں اور قناعت کی قبا اتنی جلدی زیب تن کر لیتے ہیں کہ آئندہ صبح ہی وہ معاشرے کی نظر میں مصنف و مرتب کی کرسی پہ جلوہ افروز ہو چکا ہوتا ہے۔
در اصل مطالعہ کرتے ہوئے یہ ساری باتیں یکا یک ذہنی دریچے میں اس لیے گردش کرنے لگی کہ مرتب موصوف نے بھی یہاں بڑی خوبصورتی سے تخریج کا وسیع دامن مختصر کرنے کی کوشش کی ہے۔ تخریج کا رشتہ صرف قرآن کریم کی آیات سے ملا کر کتاب میں موجود اسلامی واقعات و حالات، اقوال سلف اور احادیث مبارکہ وغیرہ سے آنکھیں موند لینا راقم الحروف کے نزدیک سراسر سہل پسندی کی غمازی کرتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب ہم کوئی علمی بیڑا اٹھائیں تو اس کے سارے خد و خال اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کریں، اگرچہ تاخیر ہی کیوں نہ ہوں۔ کیوں کہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جلدی جلدی کے چکر میں نہ تو ہم شفافیت کے علم بردار بن پاتے ہیں اور نہ ہی کما حقہ موضوع پہ خامہ فرسائی کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ اس ” چھوٹا منہ اور بڑی بات” سے اتفاق نہ کریں، کیوں کہ ناچیز کا یہ عمل آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی اس پہ قدرے توجہ تو دی ہی جا سکتی ہے کہ
گو سیہ بخت ہیں ہم لوگ پہ روشن ہیں ضمیر
خود اندھیرے میں ہیں دنیا کو دکھاتے ہیں چراغ
زیر نظر مجموعہ ۳۰۴/ صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک صفحہ شرف انتساب کے لیے بھی مختص ہے۔ ابتدا میں جہاں مولانا سید امین القادری کی شخصیت و سوانح پہ ایک جامع اور اہم مضمون شامل کیا گیا ہے وہیں آخیر کتاب میں مرتب موصوف کو بھی ایک نظر میں دکھانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں جدید اردو رسم الخط، کمپوزنگ اور دیگر خامیوں سے پاک صاف ہونے کا شبہ اس لیے بھی توانا نہیں ہو پاتا ہے کہ پروف ریڈنگ و نظر ثانی کے لیے اہل علم حضرات کی خدمات لی گئیں ہیں۔ مگر پھر بھی ممکن ہے کہ غلطیاں در آئیں ہوں کیوں کہ یہ مرتب کی اولین کاوش ہے۔ ہماری جماعت کی طرف سے رفیق موصوف یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اصلاح معاشرہ کے باب میں خلوص دل کے ساتھ اپنا اولین اور اہم حصہ ڈالا ہے۔ موصوف کی ذات سے ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وہ اسی طرح نوع بنوع علمی گل بوٹے سے ہمارے مطالعاتی میز کو زینت فراہم کرنے کا کام دلچسپی و لگن کے ساتھ کرتے رہیں گے۔
مجھے لگتا ہے کہ اتنا تعارف ہو جانے کے بعد اب نہیں لگتا ہے کہ مزید کسی تعارف کی ضرورت ہے۔ اس لیے اہل علم حضرات میں سے اگر کوئی اس گلدستہ سے استفادہ کرنے کی للک اپنے دل میں چھپائے بیٹھے ہیں تو وہ مصباحی اکیڈمی، مشرقی چمپارن بہار، مکتبہ حافظ ملت، مبارک پور اور مکتبۂ قادری، کسمبا روڈ، مالیگاؤں[انڈیا] وغیرہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
______________________________
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
2 comments
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خیریت سے ہیں حضرت
جی عرض یہ ہے کہ خطبات سید امین القادری PDF میں ارسال کریں مہربانی ہوگی
السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم امید کرتا ہوں کہ آپ خیرو عافیت سے ہونگے
عرض ہے کہ یہ کتاب مجھ کو pdf میں چاہیے اگر ممکن ہے تر ارسال فرمادیں آپکی بہت مہربانی ہوگی
میرا واٹس ایپ نمبر۔ 9214850829