مدارسِ اسلامیہ اسلامی معاشرت اور دین وایمان کے تحفظ کے حوالے سے مضبوط قلعے تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ مدارسِ اسلامیہ ہی تھے جہاں پر جمود کو توڑنے والی، انقلاب پیدا کر نے والی ، زندگی بخشنے اور حرکت وعمل پیدا کرنے والی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں۔
دور حاضر میں مدارسِ اسلامیہ کا تحفظ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ مسلم قوم کی انتہائی غفلت ہے ۔ یہ بات صرف ہندوستانی مسلمانوں پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ کم وبیش بحیثیتِ مجموعی اپنے عددی تناسب کے بالمقابل دوسری قوموں باالخصوص معاصر قوموں سے نہ صرف پیچھے بلکہ بہت پیچھے ہے ۔
یقیناً ہماری تنزلی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں دیگر اسباب وعوامل کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر عزم و حوصلہ، امنگ اور ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر جذبہ ایثار کی کمی ایک اہم سبب ہے۔ کسی فرد یا قوم کی عزت وعظمت کا راز اس کی تعلیمی اور اقتصادی حالت پر ہوتا ہے اور بد قسمتی سے ہماری قوم ان دونوں اوصافِ عالیہ سے بے بہرہ ہے ۔ اس میں کلام نہیں کہ من حیث المجموع ہمارے اندر دین داری اور مذہبیت دیگر اقوام سے زیادہ ہے، لیکن مذہب کا وہ مفہوم جو ہمارے اندر رائج ہے صحیح مذہبیت سے قطعاً دور ہے ۔ ہم نے مذہب نام رکھ چھوڑا ہے بے حوصلگی، کم ہمتی، کورانہ تقلید اور زود اعتقادی کا۔ تعلیم کے فقدان نے ہمارے اندر غور وفکر کی صلاحیت باقی نہیں رکھی، مذہب کے غلط مفہوم نے ہمارے اندر سے بہت سے انسانی اوصاف چھین لئے، ہم نے پستی اور گمنامی کو عین مذہب سمجھ لیا۔
مقام فکر یہ ہے کہ ہمارا مقابلہ جن اقوام سے ہے وہ کتنی آ گے ہیں۔
قوم یہود پوری دنیا کی آ بادی کا بہت تھوڑا حصہ ہے۔ اسرائیل کے ارد گرد 57 عرب ممالک ہیں جن کی آ بادی اس چھوٹے سے اسرائیل سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن آ ج پوری دنیا کے اندر اس قوم کا بول بالا ہے۔ ہر جگہ اور دنیا کے اہم اداروں پر اس کا کنٹرول ہے۔ یہ اسی قوم کی داستان ہے جو ماضی میں چار ہزار سال تک بے خانماں رہی ہے، اپنا کوئی وطن نہیں بنا سکی ۔ یورپین ممالک میں یہ نہایت حقارت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی، دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمن کے ہٹلر نے تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ وہی راندہ درگاہ قوم آ ج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، تعلیم اور ذرائع ابلاغ پر قابض ہے۔ آ خر وجہ کیا ہے ؟ یہ ان کے علم و فن اور غیر معمولی محنت کا نتیجہ ہے۔ سیاسی وسماجی علوم سے لیکر میڈیکل اور انجینئرنگ کے ہر شعبہ میں ان کے ماہرین موجود ہیں، دنیا کا سب سے بڑا علمی اعزاز نوبل انعام حاصل کرنے والے ستر فیصد یہودی ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی ضرورت: مولانا اشرف علی تھانویؒ کا نقطہ نظر- ڈاکٹر وارث مظہری )
مسلم طلباء کی ایک بڑی تعداد مدارسِ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرتی ہے جہاں اسلامی خطوط پر ان کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے، لائق شکر مقام یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے اور کسی حد تک عصری تعلیم کو شاملِ نصاب کیا جارہا ہے۔ لیکن جیسا کہ مشاہدے سے ثابت ہے کہ زندگی کی کشاکش میں کامیابی کا تمام تر انحصار عمدہ ملکات پر ہوتا ہے ، جو تعلیم و تربیت سے ہماری طبیعتوں میں راسخ ہو جائے۔۔ بلند حوصلگی، محنت، استقلال، عزم مصمم یہ ایسے ملکات ہیں جو محض کتابوں کی ورق گردانی یا اساتذہ کی بلیغ تقریر سے کسی شخص میں پیدا نہیں ہوسکتے۔ ان کے لئے ایک پاکیزہ اور ایمان پرور ماحول کی ضرورت ہے، جو طلباء میں ان ملکات کی پرورش کرے اور اساتذہ کا فیض صحبت ان میں راسخ کردے ۔
قرآن میں لفظ” حکمت” سائنس کے لئے استعمال ہوا ہے اور متعدد جگہوں پر اپنے ماننے والوں کو زمین وآسمان میں غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔
ایک امریکی مفکر اور پروفیسر کے انکشاف کے مطابق قرآن پاک کے تراجم اور تفاسیر مختلف زبانوں میں یورپی ممالک کے ماہرین کے اداروں میں موجود ہیں۔ لیکن چونکہ وہ علم معرفت سے نا آشنا ہیں، اس لئے وہ اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ ہو چکے ہیں، وہ نفرت و عداوت ، بعض وعناد اور ظلم کے خوگر ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سودج کی شعاعوں کو گرفتار کر نے کا دعویٰ کیا، ستاروں اور سیاروں پر پوری زندگی تحقیق میں گزاری لیکن وہ اپنی حقیقت کو نہ پاسکے، راز حیات سے نا آشنا رہے، حتیٰ کہ اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ کر نے سے بھی قاصر ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں علم و تحقیق کا زوال اور فضلائے مدارس – ڈاکٹر وارث مظہری )
اسلامی تعلیم ایک مہذب اور پڑھے لکھے انسان اور حیوان میں فرق قائم رکھتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا جس دور میں جس قدر مذہب سے تعلق مضبوط اور مستحکم رہا اسی قدر علمی دنیا پر چھائے رہے ، علم و فنون کی گلیوں میں چرچا تھا، دنیا پر رعب و دبدبہ تھا ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر کنٹرول تھا، صالح، پاکیزہ اور صاف سماج و سوسائٹی فراہم تھی۔۔ لیکن آ ج اخلاقی تباہی کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی حالت بھی تنزلی کا شکار ہے، علم و فن کے فقدان نے ہمارے اندر اس قدر غلط استغنا پیدا کردیا کہ ہم دنیا اور اس کی ضروریات کو بالکل لا یعنی اور گناہ سمجھنے لگے۔
مدارسِ اسلامیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ عصری علوم کو کبھی نظر انداز نہ کریں، جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور جسے حاصل کئے بغیر ہم دیگر اقوام پر اپنی برتری ثابت نہیں کرسکتے۔ نت نئے سائنسی ایجادات میں مسلم سائنس دانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ مسلمان اسلامی دائرہء اثر میں رہ کر سائنسی انقلاب لا سکتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ایک ایک طالب علم اپنے وقت کی قیمت کو پہچانے ، اپنے تعلیمی معیار کو بلند سے بلند تر کرے ، دوسروں سے بہت آ گے بڑھنے کا عزم پیدا کرے اور اپنی پسماندگی کو دور کرنے کی کم از کم تعلیم کی حد تک ممکن کوشش کرے ۔ تاکہ ہم جس کمزوری کا برسوں سے رونا رو رہے ہیں اس کی کچھ تلافی ہوسکے۔
ہمیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ہم اس اسلام کے پیروکار ہیں جس نے سارے جزیرہ نما عرب کو اپنا مطیع بنا لیا، آ دھی صدی گزری تھی کہ جزیرہ نما سے نکل کر ایران اور مصر پہنچ گیا۔ ایک صدی میں دنیا کے تین بر اعظموں پر چھا گیا، جس نے سماج کی ہر برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ایک سو سال میں لاکھوں حافظ، قاری، محدث، مفسر، فقیہہ، مؤرخ، جغرافیہ داں، فلسفی، منطق داں، ریاضی داں، ماہر اقتصادیات، ماہر فلکیات اور سائنس داں پیدا کر دیے ۔ ہزاروں مدارس قائم ہوگئے، صدہا کتابیں تالیف ہوگئیں۔ دوسری زبانوں سے علوم اخذ کرکے انہیں بھی محفوظ کردیا گیا۔۔ وہی اسلام آ ج بھی دعوت عمل دیتا ہے کہ ہم وقت کی ضرورت کے پیش نظر جدید علوم حاصل کرکے اسلام کی برتری کو ثابت کریں۔۔
وہ زمانہ جسے تاریخ میں خیرالقرون کہا گیا ہے، یعنی عہد رسالت ۔ پھر خلافتِ راشدہ کا دور آ یا، پھر تابعین کا زمانہ، اس وقت اسلام تاریخ، تہذیب، معاشرت غرض زندگی کے ہر پہلو پر حاوی تھا اور سب کچھ اسلام کے زیر نگیں تھا، مدارس اسلامیہ انسانی معاشرت و معیشت کا لائحہ عمل مرتب کیا کرتے تھے۔۔ پھر آ ہستہ آ ہستہ وہ زمانہ آ تا گیا کہ مختلف تہذیبیں، نظریات ، اسلامی عقائد پر اثر انداز ہونے لگے اور یہیں سے مدارسِ اسلامیہ ایک محدود دائرے میں سمٹنے لگے ۔
مگر اب دنیا میں خود کو منوانے کے لیے ہمیں اسلام کے وسیع مقاصد کے تحت صحیح اسلامی خطوط پر دینی علوم کے ساتھ جدید علوم سے آراستہ ہونا ضروری ہے تاکہ ہماری اہمیت و افادیت پھر سے ثابت ہوسکے۔۔
تہذیب ابرار، بجنور، یوپی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] اسلامیات […]