میں ہیرا ہوں
” میں ہیرا ہوں” کہا تم نے
تو ہیرا کھلکھلا اٹھا
کہ پتھر سے سفر ہیرے کا طے کرتے ہوئے
کیسے شکستہ پا ہوا تھا میں
سر مژگان لہو آلود راہ سنگ خارا سے
کبھی آنکھوں میں چبھتی ریت صحرا کی
بہ زعم خود
مجھے ہیرے کا رنگ و روپ دینے کو
تراشا جوہری نے کیسی بے دردی سے مجھ کو
سنیں تم نے کبھی چیخیں مری دل چیرنے والی
کبھی سینے میں گھٹتی سسکیاں، دم توڑتی آہیں
کہا تم نے "میں ہیرا ہوں”
یہی میرا بھی کہنا ہے”میں ہیرا ہوں”
مگر ہیرا تراشیدہ
فقط اک جوہری کے ہاتھ سے گزرا
کہ کوہ نور بنتے ہی
ملی تھی باریابی
بارگاہ ظل سبحاں میں
سنو!
ہیرا میں ایسا کہ
تراشا جارہا مجھ کو مسلسل
ٹپکتا خون میری روح سے ہر پل
کبھی مذہب کبھی تہذیب نامی جوہری سارے
ہنر کو آزمانے آگئے اپنے
کبھی یہ وقت نامی جوہری، ممکن نہیں جس کا
کبھی بھی مطمئن ہونا
مگر پھر ایک لمحے کو
سوال ایک ان کہا معصوم سا، ہیرے کے لب پہ آ ہی جاتا ہے
"وہ کاری گر وہ صناع ازل کیسا
مکمل مان لوں کیسے میں اس کے فن ناقص کو
مری تہذیب و آرائش
مری تکمیل کا کوہ گراں جس نے
اٹھا کر رکھ دیا شانوں پہ نائب کے”
3 comments
ہیرے کی آپ بیتی ہیرے سے بہتر کون بیان کر سکتا ہے اب تو ڈر ہے کہ کوہ نور ہیرے سے گوہر نایاب ہونے کا اعزاز چھین نہ لیا جائے
شکریہ انصاری کلثوم، سلامت رہیں اور ترقی کے مدارج طے کرتی رہیں۔ آمین
شکریہ