سماج ایسا لفظ ہے جو معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا مترادف“Society” ہے۔ ہر تہذیب چاہے وہ قدیم ہو یا جدید اس کی خصوصیات فورا ہی ظاہرہو جاتی ہیں۔سماج دراصل لوگوںکی حرکات،رویے،کارناموں سے تشکیل پاتا ہے۔جسے ہم تہذیبی خصوصیات کہتے ہیں۔ سماج دراصل نیےء خیالات اور درجات کا نام بھی ہے۔ یہ انسانوں کا بہت بڑاگروہ ہے۔جو اپنے اندر خاص جغرافیای حدود سموئے ہوئے ہے۔ سماج کو بنانے میںتمام پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ویسڑ نیو انگلش ڈکشنری کے مطابق:
“Human being in general taken in relation to one another on original community, a body of pason united for some common purpose. The more cultivated or more fashionable part of community.”(1)
شعور عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی عقل،سلیقہ،تمیز،پہچان ہے۔ شعور کے متبادل انگریزی میں“Awareness” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سماجی شعور سے مراد آگاہی اور پہچان ہے۔سادہ سے لفظوں میں اگر بات کہی جاے تو سماجی شعور سے مراد معاشرتی بصیرت ہے۔چونکہ انسان سماج کے بغیر بے معنی ہے۔اس لیے سماجی تبدیلیوں کے ساتھ انسان میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئ ہیں۔ سماجی شعور کی تعریف
مندرجہ ذیل ہے۔
Social awareness is awareness of social situation in a shared environment, which can be physical, virtual or both people’s roles, activities positions and group process.”(2)
منشایاد کا اصل نام”محمد منشا“ ہے۔5 ستمبر 7391ء کو شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔15 اکتوبر 2011 کو وفات پائی۔ اردو ادب میں بطور افسانہ نگار مشہور ہیں۔ آپکی کتابوں میں،بند مٹھی میں جگنو،ماس اور مٹی،خلا اندر خلا،وقت سمندر،وگدا پانی، درخت آدمی، دور کی آواز،تماشا،خواب سراےاور ٹاواں ٹاواں تارا شامل ہیں۔فن افسانہ نگاری کی وجہ سے حکومت پاکستان نے 4002ء تمغہ حسن کاردکردگی دیا۔ 2006 میں بابا فرید ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔2010 میں آپکو رعالمی فروغ ادب سے بھی نوازا گیا۔منشا یاد کے افسانوں میں دیہاتی زندگی کا عکس پیش کیا گیا ہے۔دیہات میں عام طور پر برادری نظام اور جاگیردارانہ روایت پائ جاتی ہے۔ منشا یاد نے ایک ایسی فنکاری کی ہے جس میں دیہات کے لوگوں کے عقائد ، دیہات کی رسوم رواج اور سماجی مسائل پر عکاسی کی گئ ہے۔ منشا یاد افسانے ”تیرہواں کھمبا“میں دیہات کی منظر کشی کرتے ہوے لکھتے ہیں:
”درخت،فصلیں،پیدل جاتے ہوے دیہاتی آدمی، کھیتوں میں چرتے ہوے مویشی،بستی کو لوٹتے ہوے بھیڑبکریوں کے ریوڑ اور ریلوے لائن کے متوازی جاتی ہوئ شاہراہ اعظم کی بسیں،ٹرک، کاریں،بیل گاڑیاں اور شیشم کے درخت ،اس حساب سے نہ جانےکتنی بھیڑیں، کتنے ٹرک،کتنے ٹرک،کتنے درخت اور کتنے کھمبے حاصل ضرب تھا۔ اور نہ جانے اس حاصل پرضرب کو پندرہ میلوں پر تقسیم کرنا تھا پندرہ بکریوں پر۔مگر وہ تو گن رہا تھا۔ بارہ کھمبے اس نے ٹھیک طرح سے گن لیے تھے۔ تیرہویں کھمبے کا پگھلاہو گیا تھا۔ ایسے شمار میں نہ آسکنے والا کھمبا یاد آیا۔ بےچارہ تیرہواں کھمبا۔ بارہ برس پیچھے تو کوڑی کے بھی دن پھر جاتے ہیں۔لیکن اس بیچارے کھمبے کے دن کبھی نہ پھرے اسے پتہ ہی نہ چلا۔وہ پھر گانے لگا ہے۔ رت پھری پر دن ہمارے ،پھرے نہ ،پھرےنہ،پھرےنہ۔“(3)
منشا یاد کے ہاں میلوں ٹھیلوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ میلہ کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کے سماج پر عکاسی کی علامت ہوتا ہے۔ میلے ذریعے مختلف قسم کے رسوم و رواج بھی سامنے آتے ہیں۔ میلہ بھی علاقے میں سال میں ایک بار کگایا جاتا ہے۔ ملے کا مقصد دراصل لوگوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔ منشا یاد کے افسانے ”راستے بند ہیں“ میں میلے کا منظر بیان کیا گیا ہے۔ اور برایا ہے کہ میلے میں تھیڑ ،ناچتی گاتی عورتیں، سرکس،کنویں میں چلتی موٹرسائیکل اس قسم کی تقاریب پائ جاتی ہیں۔ چونکہ میلے کا تعلق درباروں سے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سماج ک عکاسی کرتا ہے۔ جو انسان روٹی کمانے چکروں میں ذہنی تذبذب کا شکار ہوجاتا تھا۔ا س کے لیے میلہ خوشی کی علامت ہے۔ میلے کا منظر بیان کرتے ہوے منشایاد رقمطراز ہے۔
”اور میلے میں دیکھنے کی سینکڑوں چیزیں ہیں۔ تھیٹر کے مسخرے،ناچتی گاتی عورتیں،سرکس کے جانوروں کے کرتب ،موت کے کنویں میں چلتی موٹر سائیکل اور چلانے والے کی گود میں بیٹھی ہوئ لیڈی،اوپر نیچے جاتے جھولے ،فلم کی سکرین پر دوگانے گاتے ہوے عاشق و معشوق اور مداری کے توپ چلاتے توتے۔لیکن اسے ان میں سے کسی چیز سے دلچسپی نہیںحالانکہ سرکس کے باہر فلمی ریکارڈوں کی دھنوں پر ناچتے مسخروں کو دیکھنے پرتو خرچ بھی کچھ نہیں آتا۔مگر اسے صرف کھانے پینے ک چیزوں سے دلچسپی ہے۔اسے پھلوں ،مٹھایئوں،فالودوں،آیسکریموں،سوڈا واٹر کی بوتلوں اور سیخوں میں پروے ہوے مرغوں کو دیکھنا ،گھورنا اور انکی خوشبو سونگھنااچھا لگتا ہے۔ اور حالانکہ دونوں وقت پیر صاحب کے ڈیرے پر اسے بھنڈارے کی دال روٹی مل جاتی ہے۔لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔“(4)
جہاں درویشی بھی عیاری ہو اور سلطانی بھی عیاری معلوم ہو وہاں خدا کے مظلوم بندوں کو ظلم و ستم سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ لوگوںنے خودکو فرقوں میں بانٹ دین اور عقیدے کا مذاق بنا رکھا ہے۔ لوگ قرآن و سنت کی بجاے اپنے مخصوص وضع کردہ بے دلیل عقائدکو مان بیٹھے ہیں۔ منشا یاد کے افسانوں میں مختلف عقائد کی پاسداری بھی ملتی ہے۔کچھ لوگ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر روپیہ کمانے کی سعی کرتے ہیں۔ اور ان کے چنگل میں سادہ لوگ آجاتے ہیں۔آج مذہب لوگوں کو نہیں بلکہ لوگ مذہب کے پرچار میں کوتاہی کرتے ہیں۔ لوگ مذہب کو بھی لیڈر شپ کے نام سے جانتے ہیں۔منشا یاد نے اپنے افسانوں میں مذہبی عقائد کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ”کچی پکی قبریں“اہم ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”جمعرات کا نیک دیہاڑا ہے مومنو! ساری نیک روحیںثواب کی آس لے کر اپنے وارثوں کے دروازوں پر کھڑی ہیں۔ قبرستان کا فقیر کوڈو بھی آپ کے دروازے پر آیا ہے۔ اور ہاتھ جوڑ کر سلام کرتا اور دعا دیتا ہے۔ دھن بھاگ ہوں ۔ آل اولاد کا صدقہ ۔ مال و جان کی خیر۔ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ساری روحیںقطار اندر قطار قبرستان میں واپس آجاتی ہیں۔ کوڈو ان سے پہلے قبرستان پہنچ جانا چاہتا ہے۔ اسے ڈر رہتا ہے کہ جھونپڑی کے دروازے پر کھڑی اس کے ماں باپ اور دادا کی روحیں مایوس ہو کر نہ لوٹ جائیں“۔(5)
ہمارا معاشرہ مختلف ذاتوں اور درجوں ست مل کر بنتا ہے۔دیہات کے ساتھ ساتھ شہری زندگی بھی ایک درجے کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیہات کی نسبت شہر مصروف زندگی کا منبہ ہے۔ جگہ جگہ چھوٹی فیکٹریاں،ٹی اسٹال اور بس اسٹینڈ بنے ہوے ہیں۔جس سے اس بات کی آگاہی ہوتی ہے کہ دیہات کی نسبت شہر میں آبادی زیادہ ہوتی ہے۔ منشا یاد انسان دوست فنکار ہیں۔ ان کی دوستی ادنیٰ طبقے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ طبقے کے ساتھ بھی ہے۔ انسان دوستی کا فن ان کے ہاں مقصد حیات ہےل وہ بنی نوع انسان اور انسانی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ اور ان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ زندگی ارتقائ طرف مائل ہو۔ان کی محبت اور دوستی انسانی جبلت میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کا حصہ بھی ہے۔ادب انسان دوستی کا پیامبر بھی ہے۔ جو احترام آدمیت سیکھاتا ہے۔ منشایاد نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی کے ساتھ ساتھ شہر میں ہونے والی برائیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔اس حوالے سے ان کا افسانہ”ماس اور مٹی“اہم ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
”رب نے ہر انسان کی روزی مقرر کی ہوئ ہے۔ و پتھر میں کیڑے کو بھی پالتا ہے۔ اس نے ہر آدمی کا حصہ زمین کے کہیں نہ کہیں چھپا کر رکھ دیا ہوا ہے۔ تاکہ وہ دنیا میں آئے تو اپنا حصہ تلاش کر لے۔کچھ لوگ اپنا حصہ تلاش نہیں کرتے اور بھوک سے مرجاتے ہیں۔یامانگ تانگ کر اور چھین جھپٹ کر وقت گزارتے ہیں۔بعض دوسروں کے حصے تلاش کر لیتے ہیں۔ پھر مانگنے والوں کو تھوڑا تھوڑا دے کر دعائیں لیتے اور ثواب کماتے ہیں۔چوروں کی یہ ٹولی بھی اپنا حصہ تلاش کرتی پھرتی ہے۔ اندازہ لگایاگیا ہے کہ اس ٹولی میں کم از کم چھ سات چٹورے آدمی ضرور ہیں۔ جو دس بارہ آدمیو ں کی خوراک ایک ہی وقت میں ہضم کر جاتے ہیں۔ ٹڈی دل کی طرح جہاں سے گزرے ہر چیز کا صفایا کر دیتے ہیں۔ مجھے شبہ ہے تاتوسانسی ان میں ضرور شامل ہے۔ میں نے اسے کئی مرتبہ بس اسٹاپوں،پھل فروٹ کی دکانوں اور سینیماؤ ں کے ٹی اسٹالوں پر دیکھا ہے ۔ اس نے بھی مجھے دیکھا ہے۔ لیکن شاید میرے لباس کی وجہ سے و ہ مجھے پہچان نہیں سکا یا پھر جان بوجھ کر اجنبی بنا رہا کہ سلام نہ کرنا پڑے“۔(6)
منشا یاد ایسے افسانہ نگار ہیں۔جنہوں نے افسانہ نگاری میں سماجی شعور کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کے امتزاج سے عریانی کا منظر پیش نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی منٹو کی طرح جنسی لذت سے آشنا کراتے ہیں۔ ان کے افسانے دیہاتی زندگی کی فضا اور دلکشی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ جہاں حسن فطرت کے ساتھ انسانی المیے بھی اجاگر ہوتے ہیں۔ جو انسانی قدروں کے پاکیزہ تصورات اور ابدی حقیقتوں کا گہرا شعور رکھتے ہوےء بنی نوع انسان کی بھلائ اور امن امان کا گہوارہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ منشا یاد معاشرے کی اصلاح کا جذبہ رکھتے تھے۔انہوں نے حقیقت کی آنکھ سے انسان اور انسانی مسائل کو دیکھا اور اپنے مشاہدے کی بنا پر اپنے افسانوں میں پیش کیا ۔سماج کے سنگین حقائق اور گھمبیر واقعات کو موئثر انداز میں پیش کرنے کا حق صرف منشا یاد نے ہی ادا کیا ہے۔ منشا یاد واحد افسانہ نگار ہیں جنہوں نے معاشرہ اور سماج کی ابترحالت کو حکمرانوں کے دلوں میں اتارا۔
حوالہ جات
• Kitabistan’s 20th Century Practical Dictionary:(page 14)
• Oxford English Dictionary 5th Edition 1961: (page 35)
منشا یاد ،تیرہواں کھمبا،مشمولہ منشایاد کے افسانے،اقبال آفاقی،ڈاکٹر،مثال پبلیکیشنز فیصل آباد 2009 (ص 47)
منشا یاد ،راستے بند ہیں،مشمولہ منشایاد کے منتخب افسانے،اقبال آفاقی،ڈاکٹر، مثال پبلیکیشنز فیصل آباد 2009ء(ص 51)
منشایاد ،کچی پکی قبریں،مشمولہ منشایاد کے افسانے،اقبال آفاقی،ڈاکٹر،مثال پبلیکیشنز فیصل آباد 2009ء(ص ( 75
منشایاد،ماس اور مٹی،مشمولہ منشایاد کے منتخب افسانے،اقبال آفاقی،ڈاکٹر،مثال پبلیکیشنز فیصل آباد ء2009ء(ص 71)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ماشاءاللہ ، اچھی کاوش ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔