پریس نوٹ:
آج نئی دہلی میں ، مرکزی مکتبہ اسلامی ، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر کے سمینار ہال میں ڈاکٹر خان رضوان صاحب نے فخرالدین عارفی کے اعزاز میں ایک ایسی شاندار اور پروقار ادبی نشست کااہتمام کیا ، جس کے نقش و نگار بہت دنوں تک ذہن و دماغ میں تازہ بہ تازہ رہیں گے ۔ نشست کے انعقاد کے سلسلے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار جناب عشرت ظہیر بھی پیش پیش نظر آےء ، اس یاد گار نشست کی صدارت پروفیسر کوثر مظہری نے کی ۔ سب سے پہلے ڈاکٹر خان رضوان نے نشست کی غرض و غایت پیش کی اور حاضرین کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا ۔ انہوں نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ :
"فخرالدین عارفی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے متعدد افسانے اردو کے شاہکار افسانے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے افسانوں کا پہلا ہی مجموعہ ” سلگتے خیموں کا شہر ” اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ اس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ اس مجموعے میں متعدد افسانے ایسے ہیں جو سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر خان رضوان نے اس سلسلے میں افسانہ "ایک اور طوفان ” "لخت لخت ” اور "منظر بہ منظر ” کا خاص طور پر ذکر کیا ۔
ڈاکٹر خان رضوان کے تعارفی کلمات کے بعد عشرت ظہیر نے تحریری طور پر اپنا ایک تعارفی مضمون پیش کیا ، جس میں انہوں نے "سلگتے خیموں کا شہر ” کا ذکر کرتے ہوئے ، افسانہ ” دیوار ” "منصوبہ ” "سفر ” "تاریک راہوں کے ہمسفر ” "منصوبہ ” اور پھر بطور خاص کہانی "پستک ” کا ذکر کیا اور ان افسانوں کے تعلق سے اپنا تجزیہ پیش کیا ۔ عشرت ظہیر نے مزید کہا :
فخرالدین عارفی نہ صرف یہ کہ ایک اچھے افسانہ نگار ہیں ، بلکہ وہ ایک کامیاب ناقد ، مبصر اور بہترین مقرر بھی ہیں ۔ اس موقعے پر حقانی القاسمی ، ڈاکٹر ابرار رحمانی ( سابق مدیر ” آجکل ” خورشید اکرم ( سابق مدیر ، ” آجکل ” وغیرہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔ مشہور ناقد اور ادیب حقانی القاسمی نے کہا کہ ” میں فخرالدین عارفی کو گزشتہ چار دہائیوں سے جانتا ہوں ، وہ ایک باشعور اور ذہین افسانہ نگار ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں ” بزم سہارا ” سے وابستہ تھا تو ان کا ایک افسانہ ” خوف زدہ ” میں نے شائع کیا تھا ، جو کافی مقبول بھی ہوا تھا ۔ فخرالدین عارفی کے تمام افسانوں کے مقابلے میں یہ افسانہ ایک شاہکار افسانہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” بزم سہارا ” میں ان کے درجنوں مضامین بھی شائع ہوئے ، ان مضامین میں پروین شاکر اور جان نثار اختر پر ان کے مضامین کافی مقبول ہوئے ۔۔۔۔۔فخرالدین عارفی زبان بہت خوب صورت لکھتے ہیں ۔ ان کے مضامین خشک نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ ان کی تحریر بہت شگفتہ ہوتی ہے اور ان کے مضامین کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ زیر سطح ایک کہانی چلتی ہوئی اور آگے بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
مشہور افسانہ نگار خورشید اکرم ( سابق مدیر آجکل ) اور ڈاکٹر ابرار رحمانی ( سابق مدیر ، آجکل ) نے بھی فخرالدین عارفی کے تعلق سے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا اور ان کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا ۔
صدر نشست پروفیسر کوثر مظہری نے اپنی صدارتی تقریر میں فخرالدین عارفی کی شخصیت کے مختلف پہلو پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ صرف ایک اچھے افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ بہار کی اردو تحریک کے ایک اہم ستون بھی ہیں اور پروفیسر عبدالمغنی صاحب کے ساتھ رہ کر اور ان کی تحریک میں شامل ہوکر اردو کو بہار میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں اہم کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ماہنامہ ” مریخ ” کے ذریعہ بھی انہوں نے اپنا نمایاں صحافتی کردار ادا کیا ہے ۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اس بات پر کافی زور دیا کہ ماہنامہ ” مریخ ” کی اشاعت کی کوئی صورت نکلنی چاہیےء !
نشست میں بہت بڑی تعداد میں ادبا و شعرا اور دانشوران موجود تھے ، جن میں احسان الاسلام قاسمی ، ڈاکٹر عادل حیات ، جناب خورشید حیات ، پروفیسر شکیل اختر ، ڈاکٹر نوشاد عالم ، افسانہ نگار جناب تاج الدین محمد ، ڈاکٹرجاوید حسن ، ڈاکٹر نوشاد منظر ، ماہتاب عالم اور افتخار احمد ( مدیر انڈیا آپ تک ) کے اسماےء گرامی خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ ڈاکٹر خان رضوان نے آخر میں تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page