پہلے لاک ڈاؤن میں کرونا کےجان لیوا حملے کے شورنے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔لیکن ہم بہت سخت جان تھے موقع ملتے ہی گھر سے باہر اور پولیس دوڑاتی تو گھر کے اندراب دوسرےلاک ڈاؤن کا اعلان ہوا وہ بھی اسی طر ح گز رہا تھا کہ تیسرے کی خبر بھی میڈیا میں گشت کرنے لگی، اب آپ ہی بتائیں کہ چوبیس گھنٹے گھر کے اندر رہ کرایک ہی چہرہ کتنی بار دیکھیں اس لیے کوئی مناسب اور دم دار بہانہ بناکر نکل ہی جاتے ورنہ ہفتہ میں ایک بار تو آلو،پیاز اور سبزی لانے کے لیے بازار کا رخ کر نا ہی پڑتا تھا ۔گھر والوں کی تنبیہہ اور خاص کر بیگم کا حکم جن کا حکم ِحکم آخر، حکومت کی ہدایات کو تھوڑی دیر کے لیے نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر پولیس ،جس کا نام سن کرآیتہ الکرسی پڑھناواجب ہوجاتا ہے ،اس کایہ اعلان کہ بغیر ماسک لگائے باہر نہ نکلیں ۔اب کون تیس مار خان ہوگا کہ بغیر ماسک کے باہر نکلے ۔شروع شروع میں ماسک لگانے یا یہ کہیے کہ منھ چھپانے کی عادت ہی نہیں تھی۔گھر سے نکلے تو ماسک لگا نا ہی بھول گئے۔کبھی آدھے راستے میں اس کا خیال آتا تو کبھی کسی کے ٹوکنے پر اس کی فکر ہوتی تو پھر کبھی پولیس کے ڈنڈے کی یاد آتی تو الٹے پائوں گھر آکر ماسک پہننے کااہم فریضہ ادا کرتے۔اب توماسک کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ دور سے ہی دیکھ کر لوگ ہم کو پہچان لیتے ہیں ورنہ شروعاتی دنوں میں تو گھر کے دروازے سے انجان آدمی یا فقیر سمجھ کر ٹرخادیے جاتے تھے ۔ستم ظریفی یہ کہ بازار میں ماسک کی وجہ سے ہماری عمر کے لو گ ہمیں چچا کہہ کر پکارتے تھے کبھی ہم بھی اسی عمر کے لوگوں کودادا سمجھ بیٹھتے تھے ۔ایک دفعہ ایک قریبی رشتہ دار کی شادی میں جہاں صرف دس بیس مہمان ایک کٹھہ زمین پر بیٹھے ہوئےتھے ایک شخص جو کرونا کے ڈر سے سرپر انگوچھاباندھے اور چہرے پر ماسک لگائے میری آگے والی صف میں بیٹھا تھا ۔ ہم نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا،’’چچا ذرا آگے کی اور بڑھیں ‘‘وہ میری آواز سن کرآنکھیں پھاڑتے ہوئے گویا ہوا ’’ابے کیا بکتاہے ہم ہیں شوکت۔‘‘
کرونا جیسےخطرناک وبائی مرض کے پھیلنے سے ساری دنیا میں ہاہاکارمچ گیا ۔ہم نے اس وائرس کو بھگانے کے لیے تالی اور تھالی بھی بجائی لیکن کمبخت نہیں بھاگا ۔پھر ایک دن پورے گھر کو تاریکیوں میں دھکیل کر باہر روشنی کر دی تاکہ اگر گھر میں چھپا ہو تو جلدی سے نو دو گیارہ ہوجائے۔مگریہ کمبخت ایساسخت جان نہ ختم ہوا نہ ہی بھاگا بلکہ ہمیں ہی ادھر سے ادھر بھگانے ،چھپانے اور اللہ میاںسے ملانےپر تلا ہوا تھا۔نہ دعائیں کام آرہی تھیں نہ ہی کو ئی ٹوٹکا اورناکسی دوا کا اثر ہو رہا تھا اس پر نعرہ یہ کہ ’’کرونا کو بھگانا ہے کرونا کو ہرانا ہے‘‘ڈاکٹروں اور حکیموں نے اس مرض کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ امریکہ جیسے سوپر پاور کا پسینہ چھوٹ رہا تھا اٹلی سہما ہوا تھا۔چین کانپ رہا تھا۔اسپین ہانپ رہا تھا۔میڈیکل افسر نے اس سے بچنے کی ایک ہی ترکیب بتائی کہ لوگ اپنے اپنے چہروں پر ماسک لگائیں اور ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھیں۔اب تو موت کے ڈر سے ناک منھ چھپانے کے لیے لوگ ماسک کی خریداری میں ایک دم دل و جان سے جٹ گئے تھے۔بازاروں میں ماسک ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہونے لگے تھے۔پھل اور سبزی فروش بھی اپنی اپنی دکانوں میں ماسک سجاسجا کر بیچتے ۔ لوگ تو ایسے ماسک خرید رہے تھے جیسے عید اور پوجامیں کپڑوں کی خریداری کی جاتی ہے ۔ حیرت ہوئی کہ ایک لیڈیز کارنر میں چوٹی ،کاجل، کریم ،فیس پاؤڈر، لپ اسٹک اور فیس واش کی جگہ ٹکلی اور موتی سے جڑے ماسک سجے تھے ۔ہم نے اس کے مالک سے پوچھا ۔’’یہ کیا ماجرا ہے ؟‘‘۔اس نے مایوسی والے انداز میں جواب دیا ۔’’خواتین کو منھ ہی ڈھانکنا نا ہے تو یہ سب کون خریدے گا ؟‘‘اس بیماری نے توہمارا بیڑا ہی غرق کردیا ہے۔زیادہ تر دکانوں میں مکالے، پیلےنیلے ماسک گردن کٹی مرغی کی طرح جھول رہے تھے ۔دکانداروں کی بھی چاندی تھی ۔تھوڑے سے وقت میں زیادہ آمدنی ہوجاتی تھی۔پھرروز روز پولیس یہ مایکینگ کرتی کہ ماسک لگا کر نکلیں ورنہ جرمانہ لیا جائے گاساتھ ہی ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری چینلوں میں بھی عوام الناس کو ماسک لگانے اور دو گز کی دوری بنانے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔کسی کے روبرو بغیرماسک لگائے کھانسنا اور چھینکنا خود کومصیبت میں ڈالنا تھا۔اور اگر غیر دانستہ طور پر یہ عمل ہوجاتا تو لوگ ہمارےپاس سے اچھل کرچار فٹ پیچھے کی طرف ہٹ جاتے تھے۔ہم بھی ان کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر اور خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتے ۔اب رومال اور انگوچھا سے کام چلنے والا نہیں تھا۔ورنہ زیادہ مزدور طبقے اپنے رنگ برنگ کے انگوچھے سے اس طرح سر اور منھ کو باندھے ہوئے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے جیسے ڈاکوؤں کی ٹولی ہو ۔ماسک کی خریداری اتنی ضروری ہوگئی تھی جتنی خوردنی اشیاء کی خریداری۔ایک دن انہوں نے کہا کہ اب بنا ماسک کے ادھر ادھر جانا جان کو جوکھم میں ڈالنا ہے اس لیے درجن بھر ماسک خرید لائیں ۔ بس ہم نے منھ پر اس طرح رومال باند ھ لیا جس طرح گھوڑے کے منہ پر چارے کا تھیلا باندھ دیا جاتا ہے اور نکل گئے۔
ہر طرف بازار میں ماسک ہی ماسک رنگ برنگے ماسک ،بڑے میاں کے ساتھ چھوٹے میاں کے ماسک ،کم اور اونچی قیمت والے ماسک ،کپڑے کے علاوہ کاغذ اور پلاسٹک کے ماسک امرا ء کے لیے چاندی اور سونے کے ماسک بھی کسی کسی سونار کی دکان پر دسیتیاب تھے ۔ ایک دکان پر ماسک خریدنے کے لیے قطار میں چھتری لیے کھڑے ہوگئے وہاں دھکم دھکاکے ساتھ لوگ مول تول کراپنے من پسند ماسک کی خریداری میں جٹے ہوئے تھے۔ہم نے بھی منھ پر رومال کو مثلث مستا وی الساقین کے مانند باندھا اور لوگوں کو دھکیل کر ایک چھوٹی سی دکان پر بڑبڑاتے ہوئے ایک ماسک کی قیمت دریافت کی ۔دکاندار نے کہا ۔’’کتنی عدد چاہیے ‘‘۔دکاندار کے اس جملے سے میں حیرت زدہ تھا تب ہی دائیں بائیں کی دکانوں پر نظر دوڑائی تو دیکھتے ہیں کہ سبھی لوگ ڈھیر سارے ماسک پورے کنبے کے لیے اور کچھ فروخت کرنے کے لیے خرید رہے ہیں۔ہم نے بھی آنکھیں بند کئے گھر کے لو گوں کی گنتی کی کیوں کہ لاک ڈاؤن میں بہن بھی بال بچوں کے ساتھ میکے میں ہی پھنسی ہوئی تھی۔بھتیجہ،بھتیجی اوپر سے تین تین کام والی بس سمجھیے کہ ایک محلہ گھر میں بسا ہوا تھا۔ہم نے کہا ۔’’دو درجن‘‘۔اس نے کہا بغل کے گودام میں چلے جائیں۔باپ رے ۔ایسا لگ رہا تھا کہ دکاندار کو شہر کی پوری آبادی کی جانکاری تھی۔ ماسک گوڈاؤن میں بھر ا پڑا تھا ۔آٹھ دس لوگ ،جس میں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کون دکاندار ہے ،کون پھیری کرنے والا ہے کون میڈیکل والا اور کون عام آدمی ہے۔سب ماسک کے بنڈل کواپنی طرف کھینچےکہ یہ میرا بنڈل ہے۔ یہ میری گٹھری ہے۔ہر سائز ،ہر رنگ اور ہر ڈیزائن کے ماسک کا انبارلگا ہوا تھا۔کچھ ماسک تو ایسےتھے کہ منھ پر لگانے سے ہمارا منھ سور اور کتے جیسا معلوم ہوتا تھا۔ایک قسم کے ماسک پر نگاہ پڑی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے ناک کے اوپر ایک افریقی ناک بیٹھا دی ہو۔خیراوپر سے ایک بنڈل پھینکتے ہوئے ملازم نے کہا ’’یہ لیجئے بالکل نئےماڈل کا ہے‘‘۔ہاں بھئی یہ تو الگ قسم کا تھا ۔اس پر ہونٹ اور ناک کی جگہ چھوٹے چھوٹے درجنوں سوراخ تھے تاکہ ہم آسانی سے بات بھی کر سکیں اور سانس بھی لے سکیں۔بغل میں رکھے ہوئے ایک بنڈل پر نظر پڑی تو دیکھتے ہیں کہ ماسک میں ایک طرف غالباـسانس بھی کے لیے بڑےسے دائرہ یا نتھ کے مشابہت کی کوئی چیز لگی ہوئی تھی ۔حیرت کی بات یہ کہ الگ الگ سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی ماسک فروخت ہورہے تھے۔ایک ماسک پر گھاس پر اگے تین پھول اس طرح بنے ہوئےتھے کہ جب لوگ بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ہو ا کے جھونکے سے آہستہ آہستہ ڈول رہا ہے ۔ایک سفید اور سنہراماسک تو ایسا تھا کہ کوئی کالا کلوٹھا اسے اپنے منھ پر لگا لیتا تو ضرب المثل ’’کیچڑ میں کنول کھلتا ہے ‘‘سمجھانے اور سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی ۔کسی پر تو ایسی ہتھیلی بنی ہوئی تھی مانو کو ئی ہمارے منھ کو اپنے پنجہ سے دھکیل رہا ہو ۔ایک نیلے ماسک پر ہونٹ کی جگہ مچھلی بنی ہوئی تھی جسے پہن کر باتیں کریں تو معلوم ہوگا کہ اب مچھلی منھ کے اندر چلی جائے گی ۔دفاتر میں جہاں کبھی ہم ہیلمٹ اور ہماری کچھ خواتین برقعہ پہنے اندر داخل ہوتے تو گیٹ کیپر مشکوک نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اسے اتارے بغیر کبھی اندر جانے ہی نہیں دیتا تھا وہاں بھی اب ماسک پہنے بلا جھجھک اندر جانے کی اجازت تھی۔بعض دفعہ تو ہماری خواتین ان دفاتر کے گیٹ کیپر سے الجھ بھی جاتی تھیں کہ جو بھی ہو جائے چہرہ نہیں دکھاؤں گی مگر اب معاملہ بر عکس تھا۔اب توماسک کے ساتھ برقعہ اور اسکارف کی بھی مانگ بڑھ گئی ہے ۔ ماسک کی اندھا دھندفروخت کے مدِنظر گھروں میں بھی ماسک کی تیاری شروع ہوگئی ہے اب کیا بتائیں گھروں میں تو عورتیں لنگی،چادر،انگوچھا،شال،دوپٹہ اور پردہ کوکاٹ چھانٹ کر ماسک بناکر چھوٹے بڑے سب کے منھ میں باندھ دیتی ہیں مارے ڈر کے گھر کے بکرے اوربکریوں کو بھی بورے سے بنے ماسک پہنادیئے گئے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی باتیں ہواؤں میں گشت کررہی تھی کہ جانوروں سے بھی کرونا پھیل رہا ہے۔ہم نے توگھر کے مرغے اور مرغیوں پر اللہ اکبر ہی پڑھ ڈالے۔
خیر بہت سارے پڑوسی اور رشتہ دار بھی بازار میں ماسک کے لیے خاک چھان رہے تھے کیوں کہ چند گھنٹوں میں ماسک کا قحط پڑ گیا تھا۔ہم تو کسی طرح جان جوکھم میں ڈال کر دو کے بجائے تین درجن ہلکےنیلے رنگ کا ماسک گھرلے آئے۔اور اب پورے کنبے میں شیرینی کی طرح تقسیم کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں ہم تو ماسک صدقہ کر نے کا بھی سوچ رہے ۔
آئیے ہم اور آپ اس کا رِخیر میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |