ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام دوروزہ میر تقی میر قومی سمینار اختتام پذیر
پریس ریلیز
نئی دہلی، 14 مارچ (پریس ریلیز)۔ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام میر تقی میر کی سہ صدسالہ یوم پیدائش کے موقع پر دو روزہ قومی سمینار کے آخری دن آج چار اجلاس منعقد ہوئے اور ہر اجلاس میں تین تین مقالے پیش کیے گئے۔ آج کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر اخترالواسع نے کی۔ پروفیسر شہاب ظفر اعظمی نے اپنا مقالہ ’میر کا تصورِ عشق‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر کا سب سے پسندیدہ موضوع ’عشق‘ رہا ہے لیکن انھوں نے اس کا بیان رسمی طور پر نہیں کیا ہے۔ اُن کی شاعری اور تصور عشق میں جو صداقت، تاثیر اور شدت احساس ہے وہ دوسروں کے یہاں مفقود ہے۔ احسن ایوبی نے اپنے مقالے ’میر کی راتیں‘ میں کہا کہ میر کے یہاں رات اذیتوں کی آماجگاہ ہے، ساتھ ہی استغراق اور مواخذات کا ذریعہ بھی ہے۔ جناب ف س اعجاز نے اپنے مقالے ’یہ میرِ ستم کشتہ‘ کے عنوان سے پیش کیا اور کہا کہ میر کے یہاں اندرونی جذب و تحلیل کی کیفیت زیادہ پائی جاتی ہے۔ موت اور فنا کے تعلق سے میر کے کئی اشعار میں تصوف کا پہلو حاوی نظر آتا ہے۔ آج کے دوسرے اجلاس کی صدارت شریف حسین قاسمی نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انھوں نے کہا کہ میر کا دور ہندوستان میں ادبی تنقید کے آغاز کا دور تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میر قنوطی شاعر نہیں تھے بلکہ انھوں نے لطیفے بھی کہے ہیں۔ اس سیشن میں شمیم طارق نے اپنا مقالہ ’میر، میر کلچر اور غالب‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر کو فارسی شاعر ہونے پر فخر تھا مگر وہ اردو شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔ اُن کی شاعری میں احساس و جذبے کی فراوانی ہے۔ پروفیسر انتخاب حمید نے اپنے مقالے ’میر کا تصور بیگانگی‘ میں کہا کہ بیگانگی میر کے تخلیقی ویژن و وجدان اور ان کے شعری حسن و کمال میں مرکزی نقطہئ ارتکاز کا حکم رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ریشما پروین نے اپنا مقالہ ’تنقید میر کے مختلف ابعاد‘ کے عنوان سے پیش کیا اور کہا کہ میر تنقید کے سلسلے میں تذکروں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میر کی وفات کے بعد لکھے گئے تذکروں میں بھی ان کی عظمت اور بڑائی کے اعتراف کا سلسلہ قائم رہا۔
ظہرانے کے بعد آج کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عزیز پریہار نے کی۔ یہ سیشن انگریزی مقالوں پر مخصوص رہا جس میں پروفیسر انیس الرحمن، پروفیسر محمد عاصم صدیقی اور ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے اپنے انگریزی مقالے پیش کیے۔ آج کے چوتھے اور سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کی۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد حامد علی خاں نے ’میر کا نثری اختصاص‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ میر نے ’نکات الشعرا‘، ’ذکر میر‘ اور ’فیض میر‘ یا نثری تمہید ’مثنوی دریائے عشق‘ کو جس طرح پیش کیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر میں تحقیقی و تنقیدی بصیرت بدرجہ اتم موجود تھی۔ پروفیسر ابوبکر عباد نے اپنا مقالہ بعنوان ’میر تقی میر کی شاعری میں جنسی تلذذ‘ پیش کیا اور کہا کہ میر کی جنسی شاعری کی کائنات بے حد وسیع اور متنوع ہے۔ میر نے معشوق کی آنکھ کا ذکر کثرت سے کیا ہے۔ کہیں نیم باز آنکھوں کا، کہیں نیم خواب آنکھوں کا، کہیں مخمور آنکھوں کا تو کہیں مستی بھری آنکھوں کا، مزے کی بات یہ ہے کہ میر نے آنکھوں کے ساتھ جتنی صفات استعمال کی ہیں ان میں جنسی پہلو بہرطور شامل ہے۔ پروفیسر عباس رضا نیر نے اپنا مقالہ ’کلام میر کی نیرنگی‘ پیش کیا اور کہا کہ کلام میر کی نیرنگی اس قدر صد رنگ ہے کہ کسی رنگ کو مس کیا جائے تو اس کی نمی میں کوئی دوسرا رنگ ظاہر ہوجاتا ہے کیونکہ غزل کے ایمائی رنگ نے ان کے کلام کی موضوعاتی دنیا کو کافی وسیع کردیا ہے۔ آخر میں انوپم تیواری نے اظہار تشکر پیش کیا۔ کل اور آج کے اجلاس میں کئی اہم شخصیات نے شرکت کیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |