رینو بہل کا تعلق پنجاب کے کپور تھلا سے ہے۔ ان کی پیدائش 6 اگست 1958 کو ہوئی۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے علاوہ ایم اے پبلک ایڈ اور ایم اے پولٹیکل سائنس کی ڈگری نمایاں نمبرات سے حاصل کیا۔ 2000 میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کے ریسرچ کا موضوع ’’عصمت چغتائی کے افسانوں کا فنی و فکری جائزہ ’’تھا۔ جہاں تک ان کے ادبی سفر کا تعلق ہے تو رینو بہل نے شاعری کے ذریعے ادبی دنیا میں قدم رکھا مگر جلد ہی شاعری سے ایک فاصلہ بناتے ہوئے فکشن کی طرف قدم بڑھایا۔اگر ہم رینو بہل کی ناول نگاری کی بات کریں تو ان کا پہلا ناول‘ گرد میں اٹے چہرے’(2017)،‘ اور دوسرا ناول’ میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘(2017)ہے جوشائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ رینو بہل نے ترجمہ نگاری کے فن کے ساتھ ساتھ تنقید میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ رینو بہل ادبی دنیا کے لیے کوئی نیا نام نہیں بلکہ وہ پچھلی دو دہائیوں سے فکشن لکھ رہی ہیں۔
میرے پیش نظر رینو بہل کا ناول’ میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘ ہے۔ یہ رینو بہل کا دوسرا ناول ہے۔اس کا مرکزی موضوع انسانی سماج کی تیسری جنس ہے جنھیں ہم عرف عام میں مخنث،یا ہیجڑے کے نام سے جانتے ہیں۔
ناول ’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘ موضوع کے لحاظ سے نیا ہے۔ تیسری جنس کی زندگی پر مبنی یہ ناول سماج کے ایک ایسے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جسے ہم اور آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے آئے ہیں۔اس جنس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ نہ مہذب سماج نے انھیں قبول کیا اور نہ ہی ان کے اپنوں نے انھیں قبول کیا، یہاں تک کہ ان کے مسائل پر بھی کھل کر کبھی گفتگو نہیں کی گئی۔چند افسانوں میں انھیں موضوع ضرور بنایا گیا ہے مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انھیں ہر طرح سے نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حالانکہ ہندی میں چترا مدگل کا ایک ناول ’’نالہ سوپارا: پوسٹ بکس نمبر 203 میں تیسری جنس کو موضوع بنایا گیاہے۔اس ناول کی اشاعت 2016 میںہوئی تھی۔مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے توانسان کے اس جنس کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔
اردو میں شاید رینو بہل کا یہ پہلا ناول ہے جس میں تیسری جنس کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ناول ’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘ پر اظہار خیال سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم اس جنس کے بارے میں کچھ بنیادی باتوں کو سمجھ لیں جن کی زندگی پر یہ ناول مبنی ہے۔
قدرت کے نظام پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ نے ہزاروں قسم کی مخلوقات بنائی ہیں اور انسان کو اس میں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔جب ہم اللہ کی تخلیقات پر غور کرتے ہیں تو ان کی ایک نارمل شبیہ اور صورت ہوتی ہے جس سے ہم اس کی پہچان بھی کرسکتے ہیں اور دوسروں سے ممتاز بھی کرتے ہیں۔ مثلاً مختلف جانوروں، پیڑ پودوں کو ہم اس کی نسل اور شکل سے پہچانتے ہیں۔مگر کئی بار ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ شکل ایک جیسی ہونے کے باوجود ان میں کچھ الگ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے، اسے ہم Exception کہہ سکتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا مگر قدرت کا نظام دیکھیے یہاں ایک ایسی جنس بھی وجود میں آئی جس میں مرد اور عورت دونوں کی خصوصیات موجود ہیں۔انسان کی اس تیسری جنس کو ہم ہیجڑا، مخنث کے ناموں سے جانتے ہیں۔ ماہرین نے اس جنس کے حوالے سے تین صورتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسے افراد بچپن میں نارمل بچے جیسے ہی ہوتے ہیں، مگر سات آٹھ برس کی عمر میں ان کے اندرکی تبدیلی مختلف صورتوں میں نمایاں ہونے لگتی ہے۔اس طرح کے معاملے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مرد انہ جسم ہونے کے باوجود وہ انسان کچھ نسوانی مزاج یا نسوانی روح کو محسوس کرتا ہے یعنی میل باڈی وتھ فیمیل سول(Male body with Female soul)۔ ایسے لوگ ڈیل ڈول اور ظاہری قد و قامت کے لحاظ سے مرد نظر آتے ہیں مگر اپنی گفتگو کی لوچ اور حرکات و سکنات سے ان کے اندر نسوانی جھلک محسوس کی جاتی ہے۔ دوسری صورت بھی اس سے ملتی جلتی ہے یعنی ایک عورت اپنے اندر مردانہ روح کو محسوس کرتی ہے اور تیسری صورت میں ایک فرد میں جنس کی خصوصیات اس طرح موجود ہوتی ہیں کہ جراحی کے ذریعے کوئی بھی ایک جنس اختیار کرسکتا ہے۔ ایسے تمام افراد کو عرف عام میں ہیجڑا یا مخنث کہتے ہیں۔
ایسے افراد جو پہلے ہی نسوانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں ان کے متعلق ماہرین نفسیات نے کئی عوامل بتائے ہیں، جو ان کے مزاج اور نسوانی رویہ اختیار کرنے میں عموماً معاون ہوتے ہیں:
.1 ماں سے جسمانی اور جذباتی قربت کا احساس جس سے احساس تحفظ مضبوط ہوتا ہو۔
.2 باپ کا سخت گیر اور تکلیف دہ رویہ جو عموماً ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
.3 معاشرے کے غریب اور کم تعلیم یافتہ والدین کا ایسے افراد پر سے کنٹرول کا ختم ہو جانا۔
اگر ہم مذکورہ نکات پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تیسری جنس کے لوگوں کو غلط راہ پر جانے سے بآسانی روکا جا سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے ان نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے افراد جو نسوانیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ان کے ساتھ ہمدردی، پیار اور اپنائیت سے نارمل زندگی جینے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہمیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ انسان کی اصل شناخت اس کی روح سے ہوتی ہے مگرمعاشرہ اسے جسم سے پہچانتا ہے، اور جب کبھی جسم اور روح میں اتصال نہیں ہوتا تو ہم اسے ابنارمل کہتے ہیں۔ یہ ابنارملیٹی کا ذمہ دار وہ فرد نہیں بلکہ یہ ہارمونیک ڈس آرڈر کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ایسے لوگوں کو ہمیشہ اس بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بے قصور ہونے کے باوجود سماج کیا اپنے سگے رشتے دار بھی نہیں اپناتے۔
رینو بہل کا ناول ’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘ بنیادی طور پر تیسری جنس کی زندگی پر مبنی ایک نفسیاتی ناول ہے۔جس میں ان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی، نفسیاتی کشمکش، معاشی بدحالی اور جنسی الجھنوں کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ناول میں شیکھر عرف شیکھا، نرائن دت تواری، ماں، ستارہ عرف نورا، اور راشدکے کردار اہم ہیں۔مگر اس ناول کا مرکزی کردار شیکھر ہے۔ جوپیدائشی مخنث نہیں بلکہ نفسیاتی الجھن نے اسے شیکھر سے شیکھا بننے پر مجبور کیا۔ناول کا راوی خود شیکھر ہے، جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور مخنث سماج کی منہ بولتی تصوریر پیش کرتا ہے۔ راوی یعنی شیکھر یہ کہتا ہے کہ اس کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ بھائیوں میں اپنے گھر کا بڑا تھا، مگر اس کی ایک بہن بھی تھی، جو شیکھر سے عمر میں بڑی تھی اور شیکھر کو بہت چاہتی تھی۔جب شیکھر کی عمر محض سات آٹھ برس کی تھی تو اس کی زندگی میں ایک ایسا طوفان آیا جس نے اس کے پورے وجود کو ہلا دیا، اس کی روح اندر تک کانپ گئی۔شیکھر کی زندگی میں حیرانی، الجھن، کشمکش اور بے چینی کی ابتدا اسی عمر میں ہوئی۔ دراصل شیکھر اپنے ننھیال کی ایک شادی میں گیا ہوا تھا، وہاں وہ اپنے ہم عمر ماموں زاد اور دوسرے بچوں کے ساتھ موج مستی کررہا تھا کہ ایک شام ایک دور کے ماموں نے کمرے میں اسے ٹانگ دبوانے کے لیے بلایا اور پھر موقع دیکھ کر اس کے ساتھ بدفعلی کی۔ اقتباس دیکھیے:
’’……ایک شام دور دراز کے بڑی عمر کے ماموں نے کمرے میں ٹانگیں دبوانے کے لیے بلالیا۔ میں بھی خوشی خوشی ان کی ٹانگوں پر ایسے چہل قدمی کررہا تھا جیسے گھٹنے سے ٹخنے کی نہیں بلکہ کسی ڈھلان پر پھسل رہا ہوں۔ پھر نہ جانے انھیں کیا سوجھی کہ انھوں نے پھرتی سے اٹھ کر ایک دم سے مجھے دبوچ لیا۔میں چھٹپٹانے لگا، چلانے لگا تو انھوں نے اپنے بڑے سے دہانے میں میرا منہ بھر کر میری آواز بند کردی۔ میری سانس رکنے لگی میری آواز میرے اندر ہی گھٹتی رہی اور پھر انھوں نے اپنا وجود مجھ میں پیوست کردیا۔ درد سے کراہتا رہا، میری آنکھیں برستی رہیں۔ میں ان کی سرخ آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔ نادان معصوم بچہ سمجھ ہی نہ سکا کہ کھیلتے کودتے یہ میرے ساتھ کیا ہورہاہے۔پھر انھوں نے ہانپتے ہوئے مجھے اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے ڈرایا دھمکایا کہ اگر میں نے کسی کو بھی بتایا تو وہ میری اماں کو جان سے مار ڈالے گا۔‘‘
مذکورہ اقتباس کو پڑھتے ہوئے قاری اس درد و کرب کو بھی محسوس کرسکتا ہے جو اس بچے نے محسوس کیا ہوگا۔سات برس کے معصوم بچے کے ساتھ جو درد ناک واقعہ پیش آیا اسے پڑھتے ہوئے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شیکھر کی بے چینی، الجھن اور کشمکش کا یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ اس پورے واقعہ کا شیکھر کی زندگی پر بڑا گہرا اور برا اثر مرتب ہوا۔اس کی زندگی ڈر اور خوف کے سائے میں گزرنے لگی، وہ خاموش رہنے لگا، شادی کے ہنگاموں میں اس کی خاموشی کی جانب کسی نے توجہ نہیںدی،ایک دو بار ماں کو محسوس ضرور ہوا مگر انھوں نے بھی شیکھر کی خاموشی کی حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ وقت گزرتا گیا اور جب شیکھر ساتویں آٹھویں جماعت میں پہنچا تو اس کے اندر اور بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ وہ اندر سے بے چین رہنے لگا۔ اسے اپنی بے چینی اور بے قراری کے وجوہات کا بالکل بھی علم نہ تھا۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کے اندر کی بڑھتی بے چینی کے ساتھ ساتھ اب اس کی چال ڈھال، بات کرنے کے انداز میں بھی تبدیلی آنے لگی تھی۔ شیکھر یہ محسوس کرنے لگا کہ وہ اپنے ہم عمر لڑکوں سے مختلف ہے، یہی نہیں اسے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مردانہ جسم میں نسوانی روح قید ہو۔اس کی ان حرکتوں اور تبدیلیوں کو اس کے ہم عمر لڑکوں نے بھی محسوس کیا اور اسے چھکّا کہہ کر چھیڑتے۔ شیکھر کو گرچہ یہ مذاق ناگوار نہیں گزرتا تھا مگر اس کی اماں اور بابا پریشان ضرور رہنے لگے۔ ادھر شیکھر کی حرکتوں میں ہر روز نئی تبدیلی نظر آنے لگی۔ وہ ماں کی غیر موجودگی میں جب بھی ان کے کپڑے اور آرائش و زیبائش کی چیزیں پہنتا تو اسے اندر سے ایک سکون محسوس ہوتا ہے۔اقتباس دیکھیے:
’’جب کبھی میں اکیلا ہوتا تو کمرا بند کرکے میں اپنے دل میں چھپی خواہش کو چوری چھپے پوری ضرور کرتا۔ اماں کی الماری سے ان کے کپڑے نکالتا۔ چولی پہن کر خود کو آئینے میں دیکھتا اور خواہش ہوتی کہ کس طرح چھاتیوں میں ابھار آجائے۔ پھر بلاؤز ساڑی، اونچی ایڑی والی سینڈل پہن کر لچک لچک کر چلتا۔ اماں کی بندیاں، نیل پالش، لپ اسٹک لگاتا خود کو آئینے میں نہارتا اور اپنے ہی عکس پر عاشق ہوجاتا۔ مجھے محسوس ہوتا کہ عکس حقیقت ہے اور میں سراپا جھوٹ، چھلاوا۔‘‘
جب گھر والوں کو شیکھر کی ان حرکتوں کا علم ہوا تو سب نے اس کی سرزنش کی، مگر شیکھر کی چال ڈھال پر اس سرزنش کاکو ئی خاص اثر نہیں ہوا۔ کالج میں آنے کے بعد بھی اس کے اندر کی بے چینی کم نہیں ہوئی بلکہ کالج میں داخلہ لیتے ہی اس کے اندر بغاوت نے جنم لے لیا۔ وہ آزاد زندگی جینا چاہتا ہے مگر اسے سماجی بندشوں کا بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ بے چین و بے قرار رہنے لگتا ہے۔شیکھر کو اس بات کا علم ہے کہ اگر سماج اور اس کے رشتے داروں کو اس بات کا علم ہوگا کہ وہ تیسری جنس سے تعلق رکھتا ہے تو ایک طوفان آجائے گا۔ شیکھر کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے وہ یہ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر اسے کیا کرنا چاہیے۔وہ مرد بن کر ایک بے چینی محسوس کرتا ہے اور عورت کے روپ میں سماج کے نہ اپنانے کا ڈر بھی ہے۔وہ اپنی اس بے چینی کو کو دور کرنے اور خود کو مطمئن کرنے کے لیے ڈانس کلاسیز شروع کرتا ہے اور یہیں سے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔چونکہ ڈانس کرکے اسے ایک سکون ملتا ہے لہذا اس سکون کے لیے وہ کالج کے قریب کے ایک ڈانس بار میں لڑکیوں کے لباس زیب تن کرکے ڈانس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ عورتوں کے لباس میں ڈانس کرکے اسے ایک الگ قسم کا سکون ملتا ہے۔ وہ اپنے گھر سے شیکھر بن کر نکلتا اور باہر اس کی پہچان بدل جاتی۔ اسی ڈانس بار میں اس کی ملاقات ستارہ سے ہوئی، ستارہ کا تعلق بھی تیسری جنس سے ہے۔ ان دونوںمیں گہری دوستی ہوگئی اور ایک دن ستارہ،شیکھر کو اپنے ساتھ اس بستی میں لے گئی جہاں اس جیسے لوگ رہتے تھے۔شیکھر نے محسوس کیا کہ یہ اس کی اپنی دنیا ہے۔اپنی دوہری زندگی سے پریشان شیکھر اس بستی میں آکر ایک الگ قسم کا سکون محسوس کرتا ہے۔ اقتباس دیکھیے:
’’پہلی بار احساس ہوا کہ یہ دنیا میری دنیا۔ اب تک میں کیوں اس ماحول، اس دنیا سے دور تھا۔ یہاں مرد کے جسم میں عورت رہتی ہے جسے ہیجڑا نام دے دیا جاتا ہے۔ میں بھی جسمانی اور روحانی سطح پر ایسی ہی ایک آدھی ادھوری مخلوق ہوں جسے مکمل ہونا لازمی ہے۔‘‘
شیکھر کی یہ تبدیلی یوں ہی نہیں۔ شیکھر کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں کا علم جب گھر والوں کو ہوتا ہے تو گھر کے افراد کے جذبات و احساسات کو سمجھنے، اس کی کاؤنسلنگ کرنے کے بجائے اس سے دوری بنانے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی بڑی بہن جو اس کی نفسیاتی کیفیت سے مکمل طور پر آگاہ تھی بلکہ روح کے درد کو محسوس کرلینے کا دعوی کرتی تھی اسے بھی اپنی شادی کے بعد شیکھر کا وجود کھٹکنے لگتا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے شوہر کا سامنا شیکھر سے ہو۔ اس حقارت اوربے اعتنائی نے شیکھر کے اندر پرائے پن کے جذبے کو فروغ دیا، شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ شیکھر کے اندراجنبیت کا احساس مضبوط ہوتا گیا اور اسے ایک ایسے ہمدرد کی تلاش شروع ہوگئی جو ا س کے جذبات کو سمجھ سکے۔اور جب اس کی ملاقات ستارہ سے ہوتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس کا کوئی بچھڑا دوست اسے مل گیا ہو۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ ستارہ کا تعلق بھی تیسری جنس سے ہے۔وہ ایک غریب مسلم خاندان میں پیدا ہوئی۔ اس کا اصل نام نوراتھا۔یہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ بڑے دونوں بھائی ناکارہ تھے مگر نورا اپنی ماں کے کاموں میں مدد کیاکرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی ماں اسے زیادہ پیار کرتی تھی۔نورا کی عمر جب آٹھ نو برس کی ہوئی تو اس کے جسم میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ آہستہ آہستہ اس کے سینے میں ابھار آنے لگا۔ گلی محلے کے ہم عمر لڑکے اس کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتے۔ نورا اس چھیڑ خوانی کی مخالفت کرتا یہاں تک کہ نوبت مار پیٹ تک آجاتی۔ جب وہ لڑ جھگڑ کر اپنے گھر آتا تو گھر والے اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کی پٹائی کردیتے۔ یہ تماشا روز بروز بڑھنے لگا اور ایک رات اس کے باپ نے پریشان ہوکر اسے سو روپیہ کا نوٹ تھمایا اور گھر سے کہیں دورچلے جانے کو کہا، نورا بہت رویا گڑگڑایا مگر اس کے باپ اور گھر کے دوسرے لوگوں نے اسے دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔نورا نے اپنے درد کا بیان اس طرح کیا ہے:
’’بھلا کوئی باپ اتنے چھوٹے بچے کو اس طرح دربدر بھٹکنے کو گھر سے نکال سکتا ہے؟کبھی دیکھا ہے تم نے ایسا؟ میرے… باپ نے نہ صرف نکل جانے کو کہا بلکہ دھکے دے کر گھر سے نکلوادیا۔ بہت رویا بھی، فریاد بھی کی، گڑگڑایا بھی، یہ بھی کہا کہ رات کے اس پہر میں کہاں جاؤں گا؟
انھوں نے ایک ٹک جواب دیا’جدھر تمہارے سینگھ سما جائیں ادھر جاؤدنیا بہت بڑی ہے کہیں بھی چلے جاؤ۔ بس دوبارہ ادھر کا رخ مت کرنا۔ میں نے بڑی امید سے بے بس نظروں سے امی کو دیکھا جو چپ چاپ منہ میں آنچل ٹھوس کر روئے جارہی تھیں مگر ایک لفظ نہ بول سکیں۔بھائی نے کلائی پکڑ کر دروازے سے باہر کیا اور کنڈی لگادی۔‘‘ (ص25)
اور اس طرح وہ نورا سے ستارہ بن گئی۔
ستارہ اور شیکھا یعنی شیکھر کی زندگی میں ایک فرق یہ تھا کہ جہاں شیکھر کے گھر والے حقیقت جانتے ہوئے بھی اپنانے کو تیار تھے، وہیں نورا عرف ستارہ کے گھر والوں نے اس کو قبول کرنے سے صاف منع کردیا اور دھکے مار کر اسے نکال دیا۔
رینو بہل نے ناول میں جہاں ایک طرف مخنثوںکی زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اس سماج کے مسائل اور سماجی حیثیت کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے۔رینو بہل نے مخنثوں کی زندگی ان کے رسوم رواج کا مطالعہ جس باریک بینی سے کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
ہیجڑوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ یہ مختلف گروہوں میں بنٹے ہوتے ہیں جنھیں گھرانا کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ سات گھرانوں میں تقسیم ہوتے ہیں، ان تمام گھرانے کا ایک سردار ہوتا ہے جسے’ نائیک‘ کہا جاتا ہے، نائیک کے نیچے ہر گھر سے ایک ایک سردار ہوتا ہے جسے’ گرو‘ کہتے ہیں اور اس کا درجہ ماں کے برابر ہوتا ہے۔اس قبیلے میں داخل ہونے کے لیے کسی نہ کسی کو گرو بنانا پڑتا ہے۔جو شخص اس قبیلے میں آتا ہے اس کا استقبال گرو ماں کُم کُم لگا کر کرتی ہے، اسے ایک ساڑی پیش کی جاتی ہے جسے ’جوگ جنم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ساڑی گویا ایک علامت ہے کہ اب مردوں کا لباس ترک کرکے عورتوں کا لباس بلکہ عورتوں کی زندگی کرلینی ہے۔بعض موقعوں پر ایسے فرد کو کاسٹریشن سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔اس رسم کو’ نروانا‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں تالی بجانے کا مخصوص انداز سکھایا جاتا ہے، ساتھ ہی کس طرح لوگوں سے پیسے نکلوائے جاسکتے ہیں اس کی بھی ٹرینینگ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم رسم یہ ہوتی ہے کہ قبیلے میں آئے نئے فرد کو کو کم از کم سات گھروں میں بدھائی دینے جانا ہوتا ہے، تبھی اسے ہیجڑا سماج قبول کرتا ہے۔ رینو بہل نے اس سماج سے جڑی رسوم و عقائد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
شیکھر چونکہ تعلیم یافتہ ہے اس لیے وہ ان سب رسوم کو فضول سمجھتا ہے۔اسے لگتا ہے کہ یہ قبیلہ جہالت کی وجہ سے ان فضول رسم و رواج میں ڈوبا ہوا ہے۔ رینو بہل نے شیکھر کے ذریعے مخنثوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم کی کمی، احساس کمتری اور معاشرے کی جانب سے ٹھکرائے جانے کی وجہ سے بھی انھیں ایسے کام کرنے پڑتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا اور انھیں جسم فروشی اور ناچ گانا، بھیک مانگنا ہی ایک اکیلا ذریعہ معاش نظر آتا ہے۔ایک بار بدھائی میں ہوئی ذلت کے بعد شیکھر عرف شیکھا اور ستارہ کے درمیان ہونے والی گفتگو ملاحظہ کریں:
’’اتنی ذلت اتنی بے عزتی۔ کیا یہی طریقہ رہ گیا ہے رزق کمانے کا؟
ان پڑھ لوگوں سے کیا امید کرتی ہو؟بدھائی گاتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں، چوری بھی کرتے ہیں، چھینا چھپٹی بھی کرلیتے ہیں، جسم بھی بیچتے ہیں، اور بتاؤ کیا کرسکتے ہیں؟کام تو کوئی ہمیں دیتا نہیں۔‘‘
شیکھر چونکہ تعلیم یافتہ ہے، وہ اس قبیلے کی نا گفتہ بہ زندگی کودیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اس سماج اور قبیلے کی زندگی میں بہتری آئے۔ شیکھر کو اس بات کا علم ہے کہ تعلیم اور وسائل کی کمی نے انھیں جن کاموں کی طرف راغب کیا ہے اس سے مختلف بیماری اور زندگی کو بھی خطرہ ہے۔بدھائی دینے کے موقع پر بھی اس سماج کو ذلالت بھری زندگی سے گزرنا پڑتا ہے، یہی سبب کہ وہ اپنے دوست راشد کی مدد لیتی ہے۔ راشد ایک وائلڈ لائف فوٹو گرافر ہے، مگر وہ ہیجڑوں کی بستی میں جا کر ان کی زندگی کو کیمرے میں قید کرنا چاہتا ہے۔اسی دوران شیکھر عرف شیکھا اور راشد میں قربت بڑھتی ہے۔راشد کی مدد سے بہت سے ڈاکٹر اور ٹیچر بھی شیکھا کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ شیکھا کی محنت رنگ لاتی ہے، اور اس قبیلے کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر بیداری بھی پیدا ہوتی ہے۔ ٹیچر جہاں ایک طرف اس قبیلے کے افراد کو مختلف علوم کی تعلیم دیتے ہیں وہیں ڈاکٹر ہر روز تین گھنٹے ان لوگوں کا علاج اور کاؤنسلنگ کرتے ہیں۔رینو بہل نے شیکھر عرف شیکھا کے ذریعہ ایک ایسے ادھورے پن کا ذکر کرتی ہیں جو اسے مکمل عورت بننے نہیں دیتا:
’’ کبھی کبھی خود کو فریب دینا بھی کتنا ضروری ہوجاتا ہے۔ جب ہم کسی کو بے حد چاہنے لگتے ہیں تو اس کو کھونے کا خوف دل کے کسی کونے میں چوروں کی طرح چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ راشد کی محبت اس کی وفاؤں پر میں شک نہیں کرسکتی پھر بھی اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب تک والدین کا دباؤ برداشت کر پائے گا؟کب تک انھیں ٹال سکتا ہے؟انھیں خاندان کا وارث چاہیے اور آدھی ادھوری عورتیں سینے میں ممتا کا جذبہ تو رکھ سکتی ہیں زرخیز کوکھ نہیں۔ چھاتیاں تو ہیں مگر خشک۔ مردانہ جسم میں عورت کی روح تو بستی ہے، عورت کا دل سینے میں دھڑکتا بھی ہے تڑپتا بھی ہے۔ ماں کی ممتا، شفقت سے دل شرابور بھی ہے مگر مصنوعی نطفہ سے ماں تو نہیں بن سکتی۔’’
کسی بھی عورت کے لیے ماں نہ بننے کا درد کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ شیکھا کو بھی اپنے اس ادھورے پن کا شدت سے احساس ہے۔اور اس ادھورے پن نے اس کے اندر ایک لاچاری، غمگینی اور اداسی کو جنم دیا ہے۔
رینو بہل کا یہ ناول اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں جہاں ہیجڑوں کی زندگی کو پیش کیا گیا وہیں دوسری جانب ان اسباب کو بھی پیش کیا گیا جس سے یہ سماج متاثر ہے۔ ایسے افراد کا ادھورا پن کبھی قدرتی ہوتا ہے اور کبھی نفسیاتی۔ قدرتی ادھورے پن کو دور کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہے مگر جو لوگ نفسیاتی ادھورے پن کا شکار ہیں ان کو ٹھیک تو کیا جاسکتا ہے۔ ایسے افراد کو محبت اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے ہم کاؤنسلنگ کے ذریعہ ان کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کریں تو یقینا ایسے لوگ برائی کے اس دلدل میں پھنسنے سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ہم انھیں ایسے بچوں کی طرح قبول کرلیں جو کسی خاص عضو کے ادھورے پن سے متاثر ہیں تو بھی مخنثوں کی فکر کو بدلا جاسکتا ہے۔ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ دراصل یہ لوگ(خواجہ سرا یا مخنث)اسپیشل بچے جیسے یعنی گونگے، بہرے، اندھے اور دوسرے معذور بچوں جیسے ہی ہوتے ہیں، جس کی عادتوں کو دیکھ کر غیر تو غیر اپنے بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔اس بے رخی کا ان بچوں کی زندگی پر بے حد منفی اثر پڑتا ہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے اور اگر ان کے اندر پیدائشی طور پر کوئی کچھ خامیاں موجود ہوں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے علاوہ بچوں کی ہر کارکردگی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی کو فوراََ بھانپتے ہوئے بروقت مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سی خامیوں اور بیماریوں کا وقت پر علاج کرنے سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مخنثوں کی زندگی کا تعلق ہے تو اس کے پیچھے بھی نفسیاتی عمل کارفرما ہے۔ دیکھا جائے تو بچپن میں بچوں کے اندرپیدا ہونے والی تبدیلی پر عموماً ہم توجہ نہیں دیتے اور اگر کسی خامی پر نظر پڑ بھی جائے تواسے ایک عام تبدیلی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں، اور یہی ہماری بڑی غلطی ہوسکتی ہے۔مخنثوں کی تاریخ کاسائنسی مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہارمون کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج ناممکن ہو،ہاں اتنا ضرور ہے کہ دوسری بیماریوں کی طرح اس کی نشاندہی بھی وقت پر ہوجائے، اور ایسے مریضوں کے ساتھ ہمدردی، پیار اور خلوص کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔
رینو بہل کا ناول’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘ایک نفسیاتی ناول ہے جس میں مصنفہ نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مخنث اور ان کی زندگی کے مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس جنس کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے۔ بادشاہوں کے زمانے میں بھی حرم سرا میں ایسے لوگ موجود ہوتے تھے اور یہ آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان کی حالت ناقابل بیان ہے۔معاشرے میں انھیں کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ ان کے ساتھ ہر جگہ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ان کی حالت زندگی کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کے سبب انھیں ذلت بھری زندگی جینے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔گرچہ ہندوستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں تیسری جنس کی موجودگی کو تسلیم کیا جانے لگا ہے، اور آج مختلف فارم میں ان کے لیے کالم دیا گیا ہے، ساتھ ہی شناختی کارڈ وغیرہ بھی بنائے جا رہے ہیں۔مگر یہ کافی نہیں، بلکہ انھیں سماج میں وہی درجہ ملنا چاہیے جو مرد اور عورت کو حاصل ہے۔ رینو بہل نے اپنے ناول کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے تعلیم اور بیداری سے ان کی زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
رینو بہل کا یہ ناول محض تیسری جنس کے مسائل، سماجی اور گھریلو حیثیت کو پیش نہیں کرتا بلکہ انسان کے جسم اور روح کے رشتے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔معاشرہ ہماری پہچان جسامت سے کرتا ہے مگر انسان کی بنیادی پہچان اس کی روح سے ہے، جسم اور روح کی کشمکش کے ذریعے جس مسئلے کو ناول میں پیش کیا گیاہے، بحیثیت ایک قاری ہمیں اس پر اور بین السطور میں موجود مسائل کی مدھم لیَ کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اس جنس کے ہونے میں برائی کیا ہے۔اگر ہمیں ان کا وجود ابنارمل نظر آتا ہے تو اس ابنارملیٹی کے ساتھ ہی ہم اسے قبول کیوں نہیں کرلیتے۔ شیکھر عرف شیکھا کا کردار جاندار ہے جو اپنے سماج کے رہن سہن اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے، وہ آخر تک کامیاب تو نہیں ہوتا مگرقاری کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ معاشرہ اگران کے وجود کونفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے محبت کی نگاہ سے دیکھ لے تو ان لوگوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ ناول کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں زبان و بیان کی کوئی پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ ان کے کردارایسے ہیں جن کو قاری حقارت یا طنز کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ ایک ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ناول نگار نے جس طرح ایک نئے موضوع کا انتخاب کیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ اردوکی ادبی تنقید میں تیسری جنس اور اس کے مسئلے پر کھل کر گفتگو شروع ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page