حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر بھیجے گئے تب ہماری زمین بےشمار مراحل سے گزر کراس قابل ہو چکی تھی کہ انسان یہاں سانس لے سکے اورصدیوں پر محیط تغیر و تبدل کے ساتھ اولاد آدم نے بھی یہاں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا_
احکام الہی پر عمل پیرا ہوکر ابتدائے حیات سے ہی فنا ہو جانے والی اس دنیا پر ابدی زندگی کے حصول کی ترغیب انسان کو دی گئی پھر حق و باطل کی کشمکش شروع ہوگئی چونکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ شیاطین بھی اسی زمین کے مکین تھے.
باطل جب حد سے بڑھنے لگتا تو صدائے حق کے ساتھ نبیوں او رسولوں کے ذریعہ نیکی اور بدی کی حدیں مقرر کی جاتیں یوں مختلف ادوار میں تاریخ انسانی نے اخلاقی تنزلی کی سینکڑوں مثالیں دیکھیں اور اس تنزلی و ابتری سے نکالنے کے لیے علیہم السلام کے لائے گئے ہزاروں انقلابات بھی دیکھے_
اسی سلسلے کی آخری کڑی وہ عظیم انقلاب ہے جس کی شروعات بعثت نبوی صلی اللی علیہ وسلم سے ہوئی_
__زمانے کی فضا میں انقلاب آخری آیا…
٢٣ سال کے اس مختصر وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے کے سیاسی سماجی اور معاشی نظام میں تبدیلیاں لاکر ایک عظیم ترین انقلاب برپا کیا، لوگوں کو اللہ رب العزت کی بندگی کی طرف بلایا اور جن لوگوں نے یہ دعوت قبول کی ان کی کتاب اللہ اور حکمت کے ذریعہ تربیت کی_ اس طریقہ کار کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے،
"جیسا کہ ہم نے تم لوگوں میں وہ رسول بھیجا جو تم لوگوں کو ہماری آیات تلاوت کرکے سناتا ہے اور تم لوگوں کو کفر و شرک کی غلاظت سے صاف کرتا ہے اور تم لوگوں کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جو کہ تم لوگ نہ جانتے تھے”
پس حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیں تو سینکڑوں مثالیں ہم کو مل جائیں گی کی کس طرح آپ ص نے احکام الہی کو مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز میں میں پیش کیے ہیں_
آپ کی تعلیمات کی بنیاد دلیل، برہان، مشاہدہ فطرت، کردار کی پاکیزگی اور نفسیاتی تقاضوں پر رکھی گئی جس کی وجہ سے کفار و مشرکین اگر آپ کی چند باتیں بھی سن لیتے تو اپنی ذہنی اور عقلی کیفیت میں تغیر محسوس کرتے_
دشمنان اسلام نے ہر طرح سے آپ کی تعلیمات پر بند باندھنے کی کوششیں کیں لیکن آپ ص نے نے فرمایا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسے پر سورج رکھ دیا جائے تب بھی میں دعوت اسلام سے باز نہیں آؤں گا آپ ص نے مخالفین کی مخالفت اور ان کی شدت کم کرنے کے لیے ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ رکھا.
ابو سفیان جو کہ آپ کے مخالفین میں شامل تھے آپ ص نے ان کی صاحبزادی سے شادی کرلی جس کے بعد وہ کبھی آپ کے مقابلے میں نہیں آئے_ فتح مکہ کے بعد حضور ص نے کعبہ میں داخل ہو کر ایک ایک بت پر ضرب لگائی لیکن اہل مکہ سے خطاب کیا کہ، "تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو” آپ کی اس حکمت عملی نے مکہ کے ساتھ ساتھ اہل مکہ کے دلوں کو بھی فتح کر لیا.
__جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ….
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت انقلاب وہ واحد انقلاب ہےجس کے تمام مراحل آپ کی حیات دنیوی میں مکمل ہوئے لیکن جس کا اثر تا قیامت رہے گا….
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |