بھلا کس رنگ کے اب خواب دیکھوں
مری سانس اَب اُکھڑتی جا رہی ہے
———
یہ میری آنکھیں سمندر ہیں، سوکھ جائیں گی
بہت رُلاتا ہے، ہر پل مرا قیاس مجھے
ان دو شعروں میں ایک طرح کی یاس انگیز فضا ملتی ہے۔ شاعری میں غم کے نقوش بھی ہوتے ہیں اور بہجت و شادمانی کے بھی۔ لیکن جب کوئی نوجوان اس نوع کے شعر کہتا ہے تو ایک طرح کی فکری بالیدگی کا احساس ہوتا ہے، ساتھ ہی خوف زا رنگ بھی اُبھرتا ہے کہ اس عمر میں ایسی اداسی اور اضمحلال کی کیفیت آخر کیوں؟ دراصل انسانی زندگی اور کائنات کے رشتوں کو سمجھنے کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔ ہمارے آس پاس سن رسیدہ بہت سے گھامڑ ہوتے ہیں جنھیں زندگی کے موٹے موٹے او رسامنے کے مسائل اور رموز سے واقفیت نہیں ہوتی بلکہ ان سے بے بہرہ اور نا بلد سے ہوتے ہیں۔لیکن نوید انجم کے مذکورہ بالا شعروں میں ان کا بالیدہ شعور ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ وہ زندگی اور کائنات کے رشتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اوپر والی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے:
میں ایک شور ہوں احساس کے تلاطم میں
بلائے مجھ کو خموشی نہ اپنے پاس مجھے
اور جب میں نے یہ شعر پڑھا جس کی ردیف ’منتشر‘ہے:
مجھ میں کہیں شعور ہے مدفون ان دنوں
ہوش و حواس، پیکرِ افہام منتشر
تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس نوجوان نے جذبوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ شعور کی تہوں میں اترنے کا ہنر بھی سیکھا ہے۔ خیر سیکھا بھی کیا ہوگا، بلکہ یہ ہنر یا سلیقہ مجھے لگتا ہے فطری ہے نہ کہ اکتساب کردہ۔ نوید انجم کا ایک شعر اسی غزل کا دیکھیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مرزا غالب سے بھی خوب فیض اُٹھایا ہے:
ہر ایک ابتدا ہے اسیرِ ہزار موج
ہر ایک انتہا کے بھی اوہام منتشر
’اسیرِ ہزار موج‘ کی ترکیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سطحی زبان سے اوپر اُٹھ کر لسانی ترفع (Language Sublimation)کی طرف گامزن ہیں۔ اسی ترفع میں ان کی فکری شعاعیں الگ الگ رنگ میں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ زیادہ تر مضامین ایک طرح کی اداسی اور اضمحلال کا ہالہ بناتے ہیں، لیکن اس میں بھی ایک طرح کی پاکیزہ چمک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
یہ جو ٹوٹے سے ہیں جذبات سبھی میرے ہیں
جتنے بکھرے ہیں یہاں ساز سبھی میرے ہیں
—
بہت دنوں سے بہت خشک ہیں مری آنکھیں
فسانہ درد کا چھیڑو ذرا،رلاؤ مجھے
اتنا جاگا ہوں کہ ڈر لگنے لگا ہے مجھ کو
میری آنکھوں سے ہی بستر نہ کہیں کھو جائے
—
اتنی ویرانیاں آنکھوں میں لیے جاؤ ں گا
پھر نہ ہوگا تمھیں وحشت کا گماں میرے بعد
ہر شاعر کے یہاں کچھ حاوی موضوعات ہوتے ہیں۔ نوید انجم کے یہاں آنکھیں ہیں، رات ہے، زندگی ہے، غم ہے وغیرہ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی دوسرے موضوعات ہیں۔ انھوں نے غزلوں سے زیادہ نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظموں پر بھی ایک طرح کی یاس انگیز فضا دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر ان کی نظمیں مسافت، چیخ، مات، رات رہزن ہے، آج پھر، اُداسی، ملک قاتل ہے، اُداسی کا فسوں، رات، وغیرہ دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مشاہدات اور جذبات دونوں کو رات کے پردے میں پیش کرنے کی کو شش کی ہے۔ رات یوں بھی بیشتر شعرا کے کام آئی ہے۔ اس کی مختلف جہتوں کو، اس کی پر اسرار ہیبتوں کو اور مسرت زا لمحوں کو اپنی تخلیقی ہنر مندی سے نوید انجم نے اپنی نظموں میں پیش کرنے کی کو شش کی ہے۔ ان کی نظم’افسردہ‘ محض گیارہ مصرعوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں نیم رومانی اور نیم فلسفیانہ تخیل سے ایک سحر انگیز فضا تعمیر ہوتی نظر آتی ہے:
رات افسردہ ہے،تاریک ہے، بے ساماں ہے
حسرت و یاس و امنگِ دل وحشی کا مزار
یوں تو خاموشی نے بُن رکھے ہیں تانے بانے
اس کی آغوش میں پنہاں ہے خیالوں کا جہاں
چند بے سود تمنّاؤں کے مبہم خاکے
آرزوؤں کے دُھندلکے میں کئی خواب نہاں
کتنی موہوم اُمیدوں کے ہیں بجھتے سے چراغ
اب سے پہلے تو سماں اور ہی کچھ تھا
لیکن رات کے ولولے تھے،
جوشِ طرب تھا کچھ اور
آگہی آئی دبے پاؤں مگر رات گئے
ذہن پہ جتنی بھی تصویریں تھیں لرزاں سی ہوئیں
دوسری نظموں سے دو دو تین تین مصرعے ملاحظہ کر لیجیے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ نوید انجم نے اس ’رات‘ کو اپنے لہو میں کس کس طرح سے حلول کیا ہے:
رات رہزن ہے، تعاقب میں لگی رہتی ہے
مجھ سے کہتی ہے کہ میں خود کو حوالے کردوں
(رات رہزن ہے)
سیاہ رات بلکتی ہے میری بانہوں میں
دلوں کو چیر سی جاتی ہیں اس کی سب چیخیں
عجب فسردہ سی اِک گیت کوئی گاتی ہوئی
جگر جلاتی ہوئی شامِ غم بڑھاتی ہوئی
(سیاہ رات)
رات ایسی کہ اداسی کی عبارت کوئی
کتنی بے کل ہے، یہ بے چین ہے، سنتی ہی نہیں
(رات)
رات پھر آئے تھے کچھ خواب کے تاجر ملنے
اَن گنت خوابوں کے منظر میں مجھے اُلجھایا
(خواب کے تاجر)
تیرگی کے ملبوں پر روشنی کا غلبہ ہے
رات کے اندھیرے میں کچھ چراغ جلتے ہیں
ظلمتِ شبِ غم سے کوئی جا کے یہ کہہ دے
خواب صبحِ نوَ کے تو اب بھی دل میں پلتے ہیں
(اُمید)
مذکورہ بالا نظموں اور غزلوں کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کے نوید انجم نے زندگی، کائنات اور انسانی جذبات میں ایک طرح کی ہم رشتگی قائم کرنے کی کو شش کی ہے۔ یہاں میں نے قصداً وہ اشعار یا دو تین ایسی نظموں کے ٹکڑے نہیں پیش کیے ہیں جن میں ایک طرح کے عشقیہ رموزیا ہلکی پُر کیف فضا بندی ملتی ہے۔ یوں بھی لمحۂ مسّرت پر لمحۂ اَلم ہمیشہ حاوی رہتا ہے۔ مسّرت اور غم کی دھوپ چھاؤں سے ہی زندگی کی تکمیل ہوتی ہے۔
اس مجموعۂ کلام کی اشاعت پر نوید انجم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُن ہی کے اس شعر پر رخصت چاہتا ہوں:
اتنی عجیب یادیں تھیں سب بھولنا پڑا
ہم جس جگہ سے آئے، وہیں کے نہیں رہے
(پروفیسر کوثر مظہری)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page