ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اس آئینے میں ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔کچھ تصویریں جب ہمارے موافق آئینے میں نظر آتی ہیں تو ہم خوشی سے اچھل پڑتے ہیں اور جب کچھ ایسی تصویریں آئینے کی سطح پر نمودار ہوتی ہیں جن سے ہم نظریں چراتے ہیں تو اس وقت ہمارا جی چاہتا ہے کہ اس شیشے کو توڑ دیں جو ایسی بے وقعت اور بد مزہ نقوش کو ابھارتا ہے جس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔کبھی کبھی ہم ایسے شیشے کو توڑ بھی دیتے ہیں اور وقتی تسکین حاصل کرلیتے ہیں مگر ہمارے شیشے توڑ دینے سے یہ حقیقتیں نہیں ٹوٹتیں یہ اور دیو قامت ہو جاتی ہیں۔بس اس آئینے کو سامنے رکھنے کا مجرم سعادت حسن منٹو ہیں جبکہ انہوں نے آئینہ دکھانے کی سعی نہیں کی بس سامنے رکھا کیونکہ اس آئینے میں منٹو بھی گوشت پوست کا آدمی دکھائی دیتے ہیں نہ کہ کوئی فنکار۔ اس جرم کا مرتکب ہونے پر منٹو کے چہرے کو سیاہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی جب کہ منٹو خود انسان ہونے کے سارے شرائط پر پورا اترتے تھے،بشری کمزوریوں کا شکار اور کبھی اس سے بڑھ کر شاہکار بھی بنیں پھر ان کا مقصد قطعئی خود کو اچھا ثابت کرنا نہیں تھا وہ تو محض چند سوالات لئے محفل شرفاء میں کھڑے رہیں البتہ سوالوں کے جواب کے بدلے انہیں اذیتیں ملیں ہاں مگر منٹو نے سب کچھ یوں ہی خاموشی سے نہیں سہا بلکہ انہوں نے بھی اپنی کلائی پکڑے ہوئے ہاتھوں پر اپنے دانت دھنسا دئے۔
وقت گزرتا رہا منٹو کی باتیں کتابوں کی الماریوں سے چیختی رہیں اور پھر منٹو اپنے افسانے لئے دور حاضر میں آ کھڑا ہوئے اور اب بھی انکی زبان پر وہی سوالات تھیں۔اب ان سوالوں کے جواب ملنے شروع ہوگئے تھے اب ائینے پر ابھرے نقوش سے، بیدار اذہان نظریں ملا رہا تھا اور منٹو کے افسانوں کو حقیقت سے تعبیر دے رہا تھا۔یہ طرز فکر ادب کے حق میں نیک ثابت ہوا۔کسی بھی چیز کو خواہ وہ صنف ہو یا نظریہ نہ پوری طرح قبول کیا جاتا ہے اور نہ رد کیا جاتا ہے کیونکہ انسان کا کہا کبھی بھی حرف آخر نہیں ہو سکتا۔
منٹو بدذات خود اردو ادب کا ایک شاہکار ہیں۔ان کی زندگی کے مختلف گوشوں نے کئی ادبی چراغ جلائے، منٹو نے افسانے لکھتے وقت کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ فن پارے تحریر کر رہے ہیں انہوں نے انسانی سماج میں غیر انسانی روے کے خلاف اپنا احتجاج کیا، سماج میں پھیلے برائیوں کے خلاف احتجاج کیا اور سینہ تان کر احتجاج کیا۔
ڈاکٹر دیبا ہاشمی نے منٹو کے اس احتجاجی ادب کو اپنا میدان عمل چنا اور تحقیقی سفر کیا۔ڈاکٹر دیبا ہاشمی کا تعلق درس و تدریس کے مقدس پیشے سے ہے انہوں نے جس دیانتداری اور لگن کے ساتھ اپنے پیشے سے انصاف کیا ہے ویسی ہی لگن اور دیانتداری انہوں نے اپنے تخلیقی زندگی میں بھی دکھائی ہے۔
ڈاکٹر دیبا ہاشمی کےتھیتھس کا موضوع "منٹو:بحیثیت احتجاجی افسانہ نگار "رہا ہے ان کی کتاب "احتجاجی ادب اور منٹو” اس کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر دیبا ہاشمی سب سے پہلے اس کام کے لئے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو کسی طور آسان نہ تھا اپنی تدریسی خدمات اور دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ادب میں غوطہ زن ہونا سب کے بس کی بات نہیں اور دوسرا کام یہ کہ انہوں نے نہ صرف ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنے تھیتھس کو کتابی شکل میں منظر عام پربھی لایا۔انکے عزم و حوصلے کی داد پیش کرتا ہوں۔دو سو چھتیس صفات پر مشتمل یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلے باب میں موصوفہ نے اردو میں احتجاجی ادب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ادب میں اس کے مقام کا تعین کیا ہے نیز احتجاجی ادب کے مشہور افسانہ نگاروں پر عمیق مطالعہ اور سیر حاصل گفتگو کی ہے۔موصوفہ اپنی اس کتاب کے تعلق سے "چند باتیں”میں رقمطراز ہیں۔
"ایم-اے کے بعد جب میں نے پی ایچ-ڈی کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے موضوع کے انتخاب کا مسئلہ آیا۔چوں کہ افسانہ میرا پسندیدہ صنف رہا ہے اور سعادت حسن منٹو میرے پسندیدہ فسانہ نگار ،اس لئے میں نے "منٹو:بہ حیثیت احتجاجی افسانہ نگار”کو اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع بنایا”
موصوفہ کا یہ بیان اس ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اسی صنف اور فنکار کو چنا جو انکے پسندیدہ تھیں ظاہر بات ہے جب کوئی اپنے پسند کے مطابق کام کرتا ہے تو اس کام میں اس کے صرف ہاتھ ہی نہیں ہوتے وہ پورا کا پورا اس کام میں مصروف ہوتا ہے۔موصوفہ بھی اس کام میں ہمہ تن مصروف رہیں جس کا بین ثبوت ان کی یہ کتاب ہے۔ منٹو پر کام کرنا ویسے بھی آسان نہیں مگر انہوں نے اس مشکل کام کو کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔
باب اول میں موصوفہ نے احتجاج کے تعلق سے جو تعریف پیش کی ہے وہ قابل تعریف ہے اور کمال کی بات یہ ہےکہ ان کا اسلوب احتجاجی ادب کو بیان کرتے وقت خود ایک احتجاج معلوم ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے احتجاج اپنی زبان سے اپنی پہچان بتا رہاہوں۔
"احتجاج کیا ہے؟جب سے دنیا عالم وجود میں آئی اور انسان نے عقل و شعور سے آگہی حاصل کی ،تب سے ہی احتجاج کا وجود ظہور پزیر ہوا۔(لوگ ایک دوسرے کا)جب جب سماج کے ٹھیکےداروں نے مظلوموں پر ظلم رواں رکھا،جہاں جہاں بربریت،جور و ستم اور استبداد کی آندھیاں چلیں،جہاں جہاں روح انسانیت گھائل ہوئی،دلوں کے نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچی،وہاں وہاں احتجاجی صدائیں بلند ہوئیں۔احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔”
اس باب کے تحت موصوفہ نے اردو زبان میں احتجاجی ادب کے حوالے سے عمدہ بحث کی ہے۔افریقہ کے کالے گورے کا جھگڑا ہو یا کالی داس کی ابھی گیان شاکنتلم ،بنکم چندر چٹرجی ، بھارتندو،سرت چند چٹرجی،رابندر ناتھ ٹیگور،پریم چند،اقبال اور بھی دوسرے قلم کاروں کے یہاں احتجاجی ادب ملتا ہے۔موصوفہ نے احتجاجی ادب کے مشہور افسانہ نگاروں کا تزکرہ کرتے وقت کرشن چندر بیدی،اپندر ناتھ اشک،احمد ندیم قاسمی ،حیات اللہ انصاری،اختر اورینوی جیسے بڑے افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں احتجاجی پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔اس دوران انہوں نے ان تحاریک کا بھی احاطہ کیا ہے جو احتجاجی ادب کو پروان چڑھانے میں معاون رہیں۔
باب دوم میں مختصر افسانہ نگاری کی ترقی میں منٹو کی کردار کا تعین کیا گیا ہے۔منٹو کے افسانوں کےمتعلق اطہر پرویز مرتبہ "منٹو کے نمائندہ افسانے "کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں۔
"شخصیت کی بے باکی اور مزاج کی ضد نے ان کے افسانوں میں ایک تلخی اور تیکھا پن پیدا کردیا ہے اور یہی منٹو ا فن بن گیا ہے۔ہمیں منٹو کے فن کو سمجھنے کے لئے افسانہ نگاری کے اصولوں کے مطالعہ سے اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا جتنا خود منٹو کے افسانوں کے مطالعہ سے منٹو کے فن کا اندازہ ہوگا۔یوں بھی میں سمجھتا ہوں کہ ادب کا معیار نقادوں کے فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ہوتیں بلکہ خود ادب ہوتا ہے ،اور ان کی مدد سے ہی اس مخصوص فن کار کے فن کو سمجھا جا سکتا ہے”
( منٹو کے نمائندہ افسانے)اطہر پرویز ،ناشر ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ص:٩
منٹو اردو ادب کا وہ مایہ ناز افسانہ نگار ہیں جنہوں نے مختصر افسانے کو ایک نئی جہت دی،ایک نیا نظریہ دیا،ایک بیدار ذہن دیا۔منٹو کا بیانیہ لہجہ اور تیکھے تیور نے افسانوں کو دیکھنے،پڑھنے اور سمجھنے کا طریقہ بدل دیا۔منٹو نے وہ کہا جس کا سوچنا ممکن نہ تھا۔منٹو کے یہاں ایک تاثر کو افسانہ بنانے کا فن تھا جو منٹو کا جمالِ فن بھی تھا اور کمالِ فن بھی۔فحش نگاری کا الزام اٹھانے والے منٹو کے افسانوں میں احتجاجی روئے کے مظاہرہے کے حوالےسے موصوفہ نےان کے بہترین افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ہے اور ان کے افسانوں سے ان اقتباسات کو اخذ کرکے پیش کیا ہے جو منٹو کے احتجاجی ادب کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔موصوفہ نے بہت عرق ریزی سے ان افسانوں میں احتجاج ڈھونڈا ہے اور ایک بہترین محقق ہونے کا فرض ادا کیا ہے۔
منٹو کے اثرات کو دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی قبول کیا۔منٹو نے جو جو اثرات اردو ادب میں چھوڑے اس کا اثر دیر پا رہا اور ہر تحریک کے ہمنواؤں نے اسے خوش دلی سے اپنے افسانوں میں برتا۔موصوفہ نے قراۃالعین حیدر ،انتظار حسین ،جیلانی بانو،غیاث احمد گدی،بلراج مینرا ،سلام بن رزاق،شام بارکپوری وغیرہ کے افسانوں میں احتجاجی مظاہرے کو پیش کیا ہے جن کے تانے بانے منٹو کے افسانوں کی تکنیک سے ملتے ہیں۔
باب سوم کے تحت اردو کے مختصر افسانوں میں منٹو کے مقام کے تعین کے ساتھ ان کے افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔منٹو خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ افسانہ نہیں لکھتے بلکہ افسانہ انہیں لکھتا ہے۔منٹو نے جس تلخ حقائق کو پیش کیا اس میں ذرا بھی شکر نہیں ڈالا اسلئے اس کو گلے میں اتارنے میں بہت دشواریاں ہوئیں۔منٹو کو میں نفسیات کا افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔انسانی نفسیات کو منٹو نے جس شدت سے محسوس کیا شائد ہی کسی نے کیا ہو۔منٹو کو سماج سے دشمنی نہیں تھی بلکہ بے انتہا محبت تھی ان کے افسانوں میں جو irony پائی جاتی ہے اس میں درد کا ایک پہلو بسا ملتا ہے مگر بظاھر دکھائی نہیں دیتا۔موصوفہ نے منٹو کے افسانوں سے کچھ ایسے اقتباسات اخذ کئے ہیں جو اپنے آپ میں ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔موصوفہ نے منٹو کے اٹھائیس الفاظ پر مشتمل افسانہ(صدقے اس کے) کو پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بغیر تمہید اور فضا بندی کے منٹو نے کتنی گہری معنویت پیدا کی ہے۔اس افسانے کو پیش کرنا یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔
"مجرا ختم ہوا۔تماشائی رخصت ہوئے ۔استاد جی نے کہا سب کچھ لٹا پٹا کر آئے تھے لیکن اللہ میاں نے چند دنوں میں ہی وارے نیارے کردئے”(صدقے اس کے)
منٹو کی بے باکی منٹو کا فن تھا۔موصوفہ کا منٹو پر ان کی ذہانت اور بے باکی کے تعلق سے جو مضمون شامل ہے نہایت عرق ریزی سےلکھا ہوا مضمون ہے۔اس مضمون میں موصوفہ کا انفرادی طرز نگارش قابل رشک ہے۔مضمون میں مواد کی فراہمی بہت متاثر کرتی ہے۔
منٹو کے افسانوں میں ذہانت اور بے باکی کے تعلق سے موصوفہ کا یہ اقتباس دیکھیں۔
"تقسیم ہند سے ہونے والی تباہی اور آبرو ریزی اور اس سے انتقام کی آگ جو لوگوں کے دلوں میں بھڑکی،اس کی نمائندگی انہوں نے”شریفین”جیسے افسانوں میں کی ہے،جہاں عورتوں میں لاچاری سے سر اٹھانے والی بغاوت کی بات چلی تو وہاں انہوں نے”سو کینڈل پاور کا بلب”پیش کیا،جب جدیدیت کی بات ہوئی تو "پھندنے”کی کہانی پیش کی،جب مذہب کی ایمانداری کی بات چلی تو "گورمکھ سنگھ کی وصیت”ہمیں ملی۔جب جنسی پرور زن کی بات چلی تو مسز ل اور لتیکا رانی ہمارے سامنے آئیں۔”
منٹو سماج کی نبض پر ہمیشہ انگلی رکھے رہیں اور وقت اور حالات کے مطابق ایسے ہی افسانے پیش کئے یہ منٹو کی ذہانت پر دال ہے۔
منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کا تجزیہ بہت باریک بینی سے کیا گیا ہے اور منٹو فہمی خصوصی طور پر منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کے متعلق یہ مضمون دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ مضمون موصوفہ کے عمیق مطالعے اور محققانہ نگاہ کا ثمرہ ہے۔تجزئے کے دوران موصوفہ کی تحریر کی روانی،شگفتگی اور شائستگی بے حد متاثر کرتی ہے۔
منٹو کو انسانی نفسیات پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اپنی بڑی بہن اقبال بیگم جو بعد میں ناصرہ اقبال ہوگئیں۔ایک خط میں جب ان کی بہن نے ان کا ذکر نہیں کیا تھا تو منٹو کو اس کا دکھ ہوا تھا اور وہ اسے دانستہ کیا گیا کام سمجھتے تھے اس لئے اپنے خط میں اپنی بہن سے شکایتی لہجے میں کہتے ہیں۔
"باجی ! آپ کا بھائی غیر تمدن یافتہ ،ٹھوس،اور چڑ چڑا سہی مگر وہ اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے جس کی ہر حرکت میں”محبت”صرف محبت پوشیدہ ہے۔اس لئے اس کے لئےچھوٹی سی غلطی ایک عظیم واقعہ کے مترادف ے۔۔۔۔۔۔یہ "کمزوری”مجھے قدرت سے عطا ہوئی ہے اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔۔۔۔”
(منٹو کے نادر خطوط،کچھ اپنوں کچھ اوروں کے نام)تحقیق و ترتیب،فاروق اعظم قاسمی،ص:-8-7
آخری باب میں اردو کے احتجاجی ادب کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور منٹو کے کارواں کو دور رواں سے ملادیا گیا ہے۔احتجاج زندہ دل ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔وہ فن کار جو غلط کو غلط نہ بول سکے اور حقیقت نگاری کا دعویٰ کرے تو وہ دعویٰ جھوٹا ہوگا۔احتجاج انسانی خمیر میں ہے جب ظلم و ناانصافی کا باغ ہرا ہونے لگتا ہے تو سرکش طوفان کو بھی یہ دعوت دے دیتا ہے۔ ظلم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو اس کا احتجاج ہونا ضروری ہے اور ذی شعور ،بالغ نظر،حوصلہ مند اور دلیر لوگ ظلم سہتے نہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنی اپنی بساط کے مطابق۔مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج درج کرتے ہیں اور اپنے زندہ ضمیری کا ثبوت دیتے ہیں۔ایک فن کار کے احتجاج کا پلیٹ فارم اس کا فن ہوتا ہے،ایک سچا فنکار اپنی شعوری کوششوں کے باوجود بھی اپنے دل کو احتجاج سے نہیں روک پاتا ہے۔موصوفہ نے اردو کے احتجاجی ادب کا جائزہ لیتے وقت اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں کے تخلیقات کا احاطہ کیا ہے۔کرشن چند ،راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی،احمد عباس، احمد ندیم قاسمی ،انتظار حسین بلراج مینرا،سریندر پرکاش ،احمد ہمیش وغیرہ افسانہ نگاروں کے ہاں احتجاجی عنصر ڈھونڈ نکالا ہے۔اردو میں احتجاجی ادب کے حوالے سے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ڈاکٹر دیبا ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں انہوں نے منٹو کے احتجاجی ادب پر اپنی معیاری کتاب قارئین اردو ادب کو پیش کی۔کتاب کا گیٹ اپ جاذب نظر ہے۔ہاتھ میں آنے کے بعد چھوٹتی نہیں۔سرورق بہت معنی خیز ہے جس میں منٹو کی سب سے مشہور تصویر ہے اور تصویر کے نیچے احتجاجی کارواں کو دکھایا گیا ہے۔کمپوزنگ ،باننڈنگ لاجواب ہیں۔المختصر یہ کتاب نہ صرف منٹو شناسی میں مدد گار ثابت ہو گی بلکہ اردو ادب کے احتجاجی ادب کا بھر پور جائزہ لینے میں بھی بہت مفید ثابت ہو گی۔قوی امید ہے کہ ادبی حلقوں میں ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی اس کتاب کو بھر پور پزیرائی حاصل ہوگی۔
مختار کل سے دعا گو ہوں کہ ڈاکٹر دیبا ہاشمی کا قلم یونہی ادب کے صفحوں پر نت نئے نقش ونگار ابھارتا رہے۔آمین۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9،گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ(شمال) مغربی بنگال
پن۔743125
فون۔9339966398
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت خوب سر ۔۔۔۔۔اللہ آپکو شاد و آباد رکھے۔۔۔۔اور خوب اردو ادب کی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔آمین