عام طور پر افسانے کے ان ہی ناقدین کا حوالہ آتا ہے جو بہت نمایاں ہیں، افسانے کے فنی سفر کے ساتھ افسانے کی تنقید بھی آگے بڑھتی گئی لیکن افسانے کی تنقید میں ان ناقدین کا ذکر کم آتا ہے، جنہیں ہم افسانے کی تنقید کا بنیاد گزار کہہ سکتے ہیں۔ بے شک افسانے کی تنقید ابتدا میں ترقی یافتہ نہیں تھی مگر افسانہ جس طرح دھیرے دھیرے ترقی کرتا گیا افسانے کی تنقید بھی ترقی کے منازل طے کرتی چلی گئی۔اگر ہم افسانے کی ابتدائی تنقید کو سادہ اور معصوم کہتے ہیں تو ہمیں ابتدائی دور کے افسانوں کو بھی سادہ اور معصوم کہنا پڑے گا۔ لہذا افسانے کی ابتدائی تنقید اور ابتدائی دور کے افسانے دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔یہ باب اس لحاظ سے بھی اہم اور بامعنی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ افسانے کے ابتدائی نقادوں نے کس طرح افسانے کو دیکھا اور بعد کو جو افسانے کی تنقید لکھی گئی ، اس سے اس کا کیا رشتہ قائم ہوتا ہے۔
اردو افسانے کی تنقید پر پہلی تحریر 1903 میں شائع ہوئی، اس مضمون کا عنوان ’’اردو زبان اور افسانہ نگاری‘‘ ہے جسے سید غلام بھیک نیرنگ نے تحریر کیا ۔یہ مضمون رسالہ ’مخزن‘ لاہور کے مارچ 1903 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ترقی پسند تحریک سے قبل جن قلمکاروں کی تحریر افسانے کی تنقید پر شائع ہوئی، ان میں سے بیشتر حضرات کو بھلا دیا گیا ، چند ناقدین کو اگر شہرت حاصل بھی ہوئی تو ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے بعد۔ جن ناقدین نے اس دور کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے ان کی تحریروں کی تعداد بھی ایک یا دو مضامین تک محدود ہیں۔حالانکہ عبد القادر سروری کی دو کتابیں اور مجنوں گورکھ پوری کی ایک کتاب اس دور میں ضرور منظر عام پر آئی، مگر ان کتابیوں کی نوعیت تنقید سے زیادہ تبصرے کی ہے۔میں نے انہی مضامین اور کتابوں کی روشنی میں اس دور کی تنقید کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
ترقی پسند تحریک سے قبل افسانے کی تنقید کا کوئی اصول کوئی ضابطہ مقرر نہ تھا، اور نہ ہی اس جانب کوئی پیش رفت نظر آتی ہے، اس کی دو وجہیں سمجھ میں آتی ہیں اول تو افسانے کی عمر کم تھی دوئم ناقد ین کی بے توجہی ۔ ناقدین کی پسند اور نا پسند کو بڑا دخل تھا۔میں نے جن مضامین کا مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور کے ناقدین نے رومانوی افسانہ نگار یعنی سجاد حیدر یلدرم ، نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھ پوری جیسے معاصر افسانہ نگار کو نظر انداز کیا ، اور اس کی ایک بڑی وجہ ان ناقدین کی سرسید تحریک سے وابستگی یا اس کے اثرات کوبتایا جاسکتا ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ جن ناقدین نے رومانی افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے، اسے انہوں نے فحش نگاری کو فروغ دینے والا بھی بتایا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں خطوط داغ دہلوی کی بازیافت – ڈاکٹر نوشاد منظر )
سید مقبول حسین وصل بلگرامی
سید مقبول حسین کے مضمون کا عنوان گرچہ ’’افسانہ نگاری اور اردو زبان‘‘ (زمانہ کا جوبلی نمبر فروری 1928)ہے مگر اس مضمون میں انھوں نے افسانے کے ساتھ ساتھ داستان اور ناول کا بھی جائزہ لیا ہے۔ان کا مقصد دراصل افسانوی ادب کا مجموعی طور پر جائزہ پیش کرنا معلوم ہوتا ہے۔ افسانوی ادب کے محرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مقبول حسین لکھتے ہیں:
’’یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آغاز آفرینش میں سب سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز چیز انسانی زندگی نہ تھی، انسانی زندگی اس وقت بالکل سادہ تھی اور جو پیچیدگیاں کشمکش کے باعث بعد میں پیدا ہوئیں اس وقت بالکل مفقود تھیں، اس لیے انسان کی آنکھ پہلے پہل مادی اور بیرونی اشیا پر پڑی، لہٰذا آغاز آفرینش کی داستانوں میں مادی خلقت کا بیان رنگین افسانوں کے پیرائے میں ملتا ہے۔‘‘ (۱)
سید مقبول حسین کا اقتباس گرچہ داستان کی صورت حال کو بیان کرتا ہے مگر اردو میں افسانوی ادب کا آغاز چوں کہ داستانوں سے ہوتا ہے لہٰذا اس اقتباس کو کہانی کے آغاز کے حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری نظر مادی اور بیرونی اشیا کی طرف پہلے متوجہ ہوتی ہے اور ہم اپنے خیالات کا اظہار بھی ان ہی بیرونی اشیا کے پیش نظر کرتے ہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری ضرورتوں اور ہماری پسند ناپسند کے ساتھ ہماری فکر میں بھی ایک بڑی تبدیلی نظر آتی ہے ۔اور تبدیلی کا اثر ادب پر بھی پڑا اور افسانوی دنیا بھی متاثر ہوئی۔ سید مقبول حسین نے اپنے مضمون میں یونان اور یوروپ وغیرہ کے افسانوںکا بھی جائزہ لیا ہے ۔
سید مقبول حسین نے میرامن، شرر اور دیگر داستان گو کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ افسانوں کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’زمانہ ٔ حال کے افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے پریم چند کا نام ہرزبان پر آتا ہے۔ گو پنجاب کے نامور مصنف سدرشن نے بھی قریب قریب انھیں کا رنگ اختیار کیا ہے لیکن زبان کی صفائی پریم چند کے یہاں زیادہ ہے اور پریم چند کی ایک اور خصوصیت جو ان سے قبل شاید ہی کسی کو نصیب ہو ،ان کا ’’مقامی رنگ‘‘ ہے۔ ان کے یہاں مقامی رنگ کے ساتھ خیال بھی سادہ اور لطیف ہوتا ہے اور اس میں کلام نہیں کہ زبان اردو کو ایسے ہی افسانوں کی زیادہ ضرورت تھی اور ہے، انھوں نے جو زمین اپنے افسانوں کے لیے پیدا کی وہ پرلطف سادگی کی وجہ سے حد درجہ دلکش اور موثر ہے۔‘‘ (۲)
اس اقتباس کی سب سے توجہ طلب بات مقامی رنگ ہے۔ اس مقامی رنگ کو بعد کے ناقدین نے بڑی اہمیت دی ۔ مقامی رنگ کا اظہار سادہ ہی نہیںپیچیدہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پیچیدگی بذات خود افسانے کی بنیادی شرط ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں باتیںموضوع اور صورت حال کے سیاق میںزیادہ بامعنی ہوتی ہیں، مقامی رنگ کی اپنی طاقت ہے ۔ آج مقامیت پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے۔
پریم چند کے اسلوب نگارش کا بہت خوبصورت تجزیہ سید مقبول حسین نے کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں کا جو موضوع ہے وہ اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ افسانہ نگار اپنی تخلیقات کو زبان کی غیرضروری زیبائش وآرائش سے مزین کرے۔ پریم چند نے اپنے اردگرد کے ماحول اور غریب عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کی ترجمانی کی ہے۔ پریم چند کے یہاں جملے سادہ اور دلکش ہیں۔
پریم چند کے ہم عصر افسانہ نگاروںمیں جن کا ذکر آتا ہے، ان میں سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری قابل ذکر ہیں حالاں کہ ان لوگوں کے بیشتر افسانے ترجمہ ہیں۔ سید مقبول حسین لکھتے ہیں:
’’اسی طرح سجاد حیدر اور نیاز کا رنگ بھی ملتا ہوا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ سجاد حیدر کا رنگ تخیل زیادہ تر ترکی زبان سے ماخوذ ہے اور نیاز یونانیوں کے علم الاصنام سے متاثر ہوئے ہیں۔ چنانچہ سجادحیدر کی بہترین تخیل وہیں نظر آتی ہے جہاں وہ ترکی زبان کے خیالات کو اردو میں پیش کرتے ہیں اور نیاز کا صحیح رنگ اسی وقت جھلکتا ہے جب وہ جنس کے تحت میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ عریانی کو آرٹ کی صورت میں پیش کرنے میں دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں اور اس لیے دونوں یکساں بدنام ہیں۔ نیاز نے جن افسانوں کا ترجمہ غیرزبانوں سے کیا ہے، ان کا رنگ ان کے [طبع زاد] افسانوں سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے۔‘‘ ۳
سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کے یہاں جمالیاتی حسن ہے لہٰذا جس کو سید مقبول عریانیت کہہ رہے ہیں، وہ ان کے نزدیک آرٹ ہے ۔عریانیت کے بارے میں کسی کی کوئی رائے آخری نہیں ہوسکتی۔ تخلیق کار زندگی کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے۔ عریانیت اکثر اوقات متن سے باہر ہوتی ہے، کہیں متن کے اندر کوئی ایسا پہلو نکل آتا ہے تو فن پارے کو عریانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ کہانی یا کوئی تخلیق عریانیت کے باوجود کسی اخلاقیات کی حاصل بھی ہوسکتی ہے۔ سجاد حیدر اور نیاز فتح پوری کے یہاں زندگی اور اس کے حسن کو دیکھنے کا جو انداز ہے اسے ایک قاری کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے۔
سید مقبول حسین نے سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کے اسلوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سجاد حیدر یلدرم کا تخیل اس وقت اپنے عروج پر نظر آتا ہے، جب وہ ترکی خیالات کو اردو میں منتقل کرتے ہیں۔ دراصل یہ فن ترجمہ نگاری کی عمدہ ترین مثال ہے۔ سید مقبول حسین نے پریم چند کے اسلوب نگارش اور سجادحیدریلدرم اور نیاز فتح پوری کی طرز اسلوب کو دو ادبی اسکول بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس طرح گویا اردو زبان میں افسانہ نگاری کے دو اسکول پیدا ہوگئے۔ ایک واقعاتی اور دوسرا تخئیلی یعنی ایک ’’مقامی‘‘ اور دوسرا ’’غیرمقامی‘‘ لیکن موخرالذکر میں سوائے یلدرم اور نیاز کے کسی کو کوئی قابل ذکر خصوصیت حاصل نہیں ہوئی اور اول الذکر میں بہت سے لکھنے والے پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘ ۴
پریم چند کی حقیقت نگاری سے ہم واقف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعد میں ترقی پسندوں نے انھیں اپنا امام تصور کیا ۔ مگر جہاں تک سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کا تعلق ہے تو مضمون نگار نے اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا کہ آخر ان کی پیروی نہ کرنے کی وجہ کیا رہی۔دراصل پریم چند کی پیروی کے لیے سازگار حالات تھے، ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا۔ سجاد حیدر اور نیاز فتح پوری نے جس اسلوب کو اپنایا وہ دوسرے تخلیق کاروں کے لیے غالباً اس لیے بھی مثال نہیں بن پایا کہ ان دونوں کی کہانیوں (مترجم کہانیوں) کا پس منظر غیرملک تھا اور وہاں کے ماحول سے بیشتر لوگ ناواقف تھے حالاں کہ مضمون نگار نے تخیل افسانہ نگار کے طور پر سلطان حیدر جوش کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تخئیلی افسانہ لکھنے والوں میں سلطان حیدر جوش کا نام بھی قابل ذکر ہے، ان کے افسانوں میں رومان (Romance) بہت کم ہے لیکن اس کمی کو ان کے ظریفانہ طرز تحریر نے بدرجہ اتم پورا کردیا ہے۔اور ان کے افسانوں کو دیکھ کر طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے۔ زبان اور تخئیل کے لحاظ سے بھی وہ امتیازی شان رکھتے ہیں۔‘‘ ۵
یہاں تخیلی افسانے سے مراد غیر تراجم افسانے ہیں۔سید مقبول حسین نے اس زمانے کے اہم لکھنے والوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ راشد الخیری کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ وہ زبان اور تاثرات دونوں ہی لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں مگر انسانی خصلت کے اظہار اول اور پلاٹ کی ترکیب میں بقول مضمون نگار راشدالخیری نے کچھ خاص کامیابی نہیں ملی۔ اسی طرح حسن نظامی کے متعلق لکھتے ہیں کہ فن افسانہ نگاری کے معیار پر یہ افسانے پورے نہیں اترتے۔
سید مقبول حسین کا یہ ایک اچھا مضمون ہے، اس میں انھوں نے اس زمانے کے اہم لکھنے والوں کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کے افسانوں پر اظہار خیال بھی کیا ہے مگر انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں افسانوں سے کوئی اقتباس درج نہیں کیاہے اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا مضمون کی معنویت میں اضافہ ہوتا، مضمون کی ابتدا میں داستان اور ناول کے قصوں کا ذکر بہت طویل ہے مگر افسانہ کے متعلق مواد کم نظر آتا ہے۔ لیکن اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ سید مقبول حسین کا یہ مضمون جب شائع ہوا تھا، اس وقت تک اردو افسانہ چند افسانہ نگاروں تک محدود تھا۔ اس مناسبت سے سید مقبول حسین کی یہ تحریر کافی اہم اور اس زمانے کے اہم افسانہ نگاروں کے فن پر غیر جانب دارانہ معلوم ہوتی ہے۔
ظفرہاشمی:
رسالہ ’’مخزن‘‘ نومبر 1930 میں ظفرہاشمی کا ایک مضمون ’’افسانہ زبان ندارد‘‘ شائع ہوا تھا۔ رسالہ ’مخزن‘ کا افسانے سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ابھی تک کی تحقیق کے مطابق اردو کے پہلے افسانہ نگار راشد الخیری ہیں۔ (حالاں کہ راقم الحروف کی نظر میں ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ اردو کا پہلا افسانہ اور سر سید احمد خان اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں) راشدالخیری کی جس تخلیق (نصیراور خدیجہ) کو اردو کا پہلا افسانہ تصور کیا جاتا ہے وہ رسالہ ’مخزن‘ لاہور کے دسمبر 1902 میں شائع ہوئی تھی۔ اس مناسبت سے اردو افسانہ اور رسالہ مخزن کا ایک رشتہ قائم ہوتا ہے۔
ظفرہاشمی کا مضمون ’افسانہ زبان ندارد‘ افسانے کے موضوعات سے بحث کرتا ہے۔ مضمون نگار کا لہجہ سخت اور طنز آمیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاصرافسانہ نگاروں کے موضوعات سے بہت ناراض اور خفا ہیں۔ ظفرہاشمی نے اپنے مضمون کا آغاز ’’نہ سہی!‘‘ ہم تو منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘ مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دورکو پیش نظر رکھے جس میں چند اہم موضوعات افسانے کا حصہ تھے۔ ظفر ہاشمی لکھتے ہیں:
’’اردو کی موجودہ ترقی میں’’ افسانہ نگاری‘‘ کو بہت دخل ہے مگر ہمارے افسانہ نگاروں نے ’’افسانہ، کی حقیقت اور ماہیت‘‘ کو سمجھنے کی بہت کم کوشش کی ہے، افسانے کا آج کل جو مفہوم عام ہے، اس کے خلاف جہاد کرنا بھی ’’صحت ذوق‘‘ کی دلیل ہے۔ ’’افسانے‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ ’’داستان معاشقہ‘‘ الفاظ کے الٹ پھیر سے ایک خاص قصہ بنادیا جائے۔ شباب کی ہنگامہ آفرینی اور اس کی لطیف معصیت صحیح سہی۔‘‘ ۶
ظفرہاشمی کا اشارہ ان افسانہ نگاروں کی جانب ہے، جنھوں نے حقیقت نگاری کے بجائے تخئیل کو اپنایا۔ اس زمانے کے افسانو ںکو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اسے دو ادبی اسکول میں منقسم کرسکتے ہیں۔ ایک کا تعلق پریم چند کی حقیقت پسندی سے ہے۔ اس حقیقت پسندی میں ماحول اور اردگرد کی وہ اشیا بھی شامل ہیں، جنھیں ہم مقامیت کا نام دے سکتے ہیں۔ پریم چند کا اسلوب اسے اور بھی جلا بخشتا ہے۔پریم چند کے اسلوب اور موضوعات کو اس لیے بھی پسند کیا گیا کیوں کہ اسے پڑھتے ہوئے غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی زندگی اور مٹی کی سوندھی خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ اسی عہد میں سجادحیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری بھی افسانے لکھ رہے تھے۔ ان کے افسانوں کا اصل موضوع انسان ہے اور اسلوب کی پیش کش میں سادگی بھی ہے اور فطری پن بھی۔ دوسرے ادبی اسکول کا تعلق سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری سے ہے۔ اسی عہد میںسجاد حیدریلدرم اور نیاز فتح پوری نے چوں کہ غیرملکی زبانوں کے افسانوں کو اردو میں منتقل کرنے کی ابتدا کی تھی لہٰذا جب انھوں نے افسانے لکھنے شروع کیے تو اس میں ان تراجم افسانوں کے اسلوب بھی در آئے مگر اس نئے اسلوب کو قبول کرنے کے بجائے ناقدین نے اسے غیرمقامی کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی۔ ظفرہاشمی نے ان افسانوں کی عدم مقبولیت کے اسباب یوں بیان کیے ہیں:
’’اردو کے انسانی تخیل اور افکار کا زیادہ تر انحصار تقلید اور تتبع پر ہوا کرتا ہے، اور اس کا بڑا حصہ اجتماعی معلومات، مشاہدات اور تجربات سے وابستہ ہے اگر یہی چیزیں نا مکمل ہوتیں تو اس جذبہ کی نامعقولیت میں کوئی شبہ نہ ہوگا۔‘‘ ۷
ظفرہاشمی کا خیال ہے کہ فن پارہ اس وقت تک عروج حاصل نہیں کرپاتا جب تک اس میں اجتماعی تجربات شامل نہ ہوں۔ یہ مضمون ترقی پسند تحریک کے قیام سے تقریباً چھ برس قبل تحریر کیا گیا تھا۔ظفرہاشمی کا خیال ہے کہ افسانوں میں نئے موضوعات کا داخل ہونا کوئی عیب نہیں مگر ان کا اعتراض ان افسانہ نگاروں پر ہے جن کے یہاں جنسی موضوعات ہیں۔ ظفرہاشمی افسانہ میں مقصدیت کے قائل تھے، ان کا خیال ہے کہ بعض افسانہ نگار ایسے ہیں جو افسانے کے فن سے بالکل ناواقف ہیں، مگروہ افسانہ تخلیق کررہے ہیں۔ اس عہد کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ظفر ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ایک عورت اور مرد کو نشانۂ تحریر بنالیا اور فرضی ’’عشق ومحبت‘‘ کے قصہ کو طول دینا شروع کردیا، اس میں ’’ہوس پرستی‘‘، آغوش اشتیاق، ہجرووصال، درد وفراق اور خلوت میں ’’بوسہ بازی‘‘ وغیرہ حیاسوز منظر اس طرح دکھائے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا بیٹھا بیٹھا بے تاب ہو جاتا ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔
یہ ہے ہمارے افسانہ نگاروں کا ’’حسن مذاق‘‘ یہ ہے ’’ارتعاش رنگین‘‘۔ یہ ہے آشوب خیال‘‘ جو ہمارے تصورات شوق ادب کو اس دور آویزش میں فرسودہ کررہا ہے، ان گناہ آلود ’’ہوس ناکیوں‘‘ کا نام ’’حسن خیال‘‘ رکھا گیا ہے، اﷲ ہمارے نوجوانوں کو اس ’’رنگینیٔ فکر‘‘ سے بجائے__!!۔‘‘ ۸ ( یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر)
ظفرہاشمی بامقصد ادب کے قائل ہیں حالاں کہ انھیں نئے موضوعات سے گریز نہیں مگر وہ افسانوں میں فرسودہ مضامین اور جنسیت کی پیش کش کو ماحول کے لیے ضرر رساں تصور کرتے ہیں۔ دراصل جس وقت یہ مضمون تحریر کیا گیا، اس وقت اجتماعی مسائل کی پیش کش ضروری تھی، ناقدین کا ایک طبقہ اس بات کا حمایتی تھا کہ ادب ایک مثالی معاشرہ کی تعمیر میں معاون ہونا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ جب سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری جیسے افسانہ نگاروں نے نئے موضوعات کو اپنایا تو بعض لوگ چراغ پا ہوگئے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض افسانہ نگاروں نے رومانیت کے نام پر جس قسم کے افسانے لکھے، اس میں فنی اعتبار سے بھی کئی خامیاں تھیں۔ ’’جوانی کی راتیں‘‘، ’مرادوں کے دن‘ جیسے عنوانات فکری سطح پر بدلی ہوئی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ان عنوانات سے بھی موضوعات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سید ظفرہاشمی افسانے کے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’افسانہ نگاری جس قدر لوگوں کو آسان معلوم ہوتی ہے، یہ اسی قدر مشکل ہے۔ ’’افسانہ نگاری‘‘ کو شاعری اور جذبات سے جس قدر تعلق ہے اور کسی چیز سے نہیں۔ اس کا دامن اگر ایک طرف ’’تاریخ‘‘ سے اٹکا ہوا ہے، تو دوسری طرف اس کا سب سے بڑا معاون ’’تاثر شعری‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ افسانہ نگاری میں شوخی اور سنجیدگی بھی باہم حصہ دار ہیں، جس افسانہ میں کسی قسم کا سبق یا عبرت نہیں۔ وہ افسانہ نہیں بلکہ ایک محنت رائیگاں ہے__!!۔‘‘ ۹
سید ظفر ہاشمی کا یہ اقتباس کئی معنوں میں اہم ہے۔ اس میں ترقی پسندی کی اجتماعیت بھی ہے اور جدیدیت کی انفرادیت بھی۔ افسانے کی تعریف لکھنے والوں نے افسانے کی ایک اہم خوبی وحدت تاثر کو بتایا ہے ۔70۔ 60 کی دہائی میں یہ بحث کافی گرم رہی کہ افسانے کے معنی ومفہوم تک رسائی کا کون سا عمل صحیح ہے۔’’ فکشن اور شاعری کی ٹوٹتی حد بندیاں ‘‘کے نام سے بلراج کومل نے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں شاعری اور فکشن کے ان عناصر کا ذکر تھا جو دونوں اصناف کو ایک دوسرے سے قریب کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے سید ظفرہاشمی اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس زمانے میں افسانے میں تاثر شعری کی بات کی جب جدیدیت کا اردومیں وجود بھی نہیں تھا۔
سید ظفر ہاشمی افسانہ نگاروں کو افسانہ تحریر کرنے سے قبل ’’محاکات افسانہ‘‘ پر غور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سیدظفرہاشمی جمالیات افسانہ کو تاثرات کا دوسرا نام بتاتے ہیں۔ وہ روح کی خالص لذت، اخلاق کی نشوونما اور بلندی کو افسانے کی اہم خوبیوں میں شمار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جس وقت افسانہ نویس اپنے افسانہ کا باریک ولطیف خاکہ کھینچتا ہے اور اسے جمالی پہلو میں لاکر ’’واقعیت‘‘ کا لباس پہنانا چاہتا ہے اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کو سلجھاتا ہے اور خیال خود اس کی اجمالی خوبیوں کا تسلسل پیرایۂ تحریر میں آرائش وتزئین کے ساتھ بناتا ہے، پھر اس کے ساتھ ساتھ حسن وعشق، فراق ووصال، درد ومحبت، انبساط وغم نیز اس کے تنوع کے تمام جزوی خصوصیات مربوط کردیتا ہے۔ کیوں کہ جذبہ عشق کی ترجمانی آغاز کائنات ہی سے انسان کا ایک دلچسپ مشغلہ رہا ہے اور سب سے پہلے اس کے اظہار کا ایک ہی ذریعہ پیدا ہوا۔ یعنی افسانہ یا قصہ نویسی__!!۔‘‘ ۱۰
ظفرہاشمی کے پیش نظر افسانے کا ایک خاص تصور تھا ۔ افسانے کے تعلق سے آج جتنا مواد موجود ہے، وہ اُس وقت نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ظفرہاشمی ایک خاص پیرائے میں افسانے کی تفہیم کرتے ہیں۔ جب یہ مضمون تحریر کیا گیا تھا، افسانہ اپنے ابتدائی مراحلے سے گزر رہا تھا اور مجموعی طور پر افسانہ عشق ومحبت کی داستان سے باہرنہیں نکل پایا تھا بلکہ عشق کے فرسودہ موضوعات کو نئے لکھنے والے اپنے افسانوں میں پیش کررہے تھے، ایسے میں ان افسانوں پر اعتراض کرنا غیرفطری نہیں تھا۔ افسانے میں اجتماعی زندگی کے تصورات پیش کیے گئے ہوں یا انفرادی مسائل کو بیان کیا گیا ہو،اصل میں افسانے کا افسانہ ہونا ضروری ہے۔حالی نے ’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں ’ مطالعۂ کائنات‘ کو شعرا کے لیے اہم قرار دیا ، مگر اس کا اطلاق افسانہ نگاروں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ افسانہ نگار وںکا’ مطالعۂ کائنات‘ جتنا وسیع ہوگا اس کی تخلیق میں اتنا ہی حسن پیدا ہوگا۔ کوئی بھی فن پارہ محض موضوع سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ افسانہ نگار کا مطالعہ، اسلوب اور مختلف علوم وفنون سے اس کی وابستگی موضوع کوبڑااور نیا بناتا ہے۔افسانہ نگار جب تخلیق کا ارادہ کرتا ہے تو بقول سید ظفر ہاشمی افسانے کا باریک اور لطیف خاکہ اس کے ذہن میں کھینچ جاتا ہے۔ افسانہ نگار اس باریک خاکے کو جمال کا پیکر عطا کرتاہے۔ سید ظفرہاشمی کا نظریۂ فن اصلاحی ہے۔ لہٰذا وہ لکھتے ہیں:
’’اس جذبۂ لطیف ’’یعنی عشق کو، ہمارے نوجوان اور افسانہ نگار طبقہ نے کس قدر رسوائی کی منزل تک پہنچادیا ہے کہ روز بروز عام وبا کی صورت اختیار کررہا ہے، کوئی افسانہ ایسا نہیں ہوتا، جس میں اسی قسم کے گندے عشق ومحبت کے سوا کچھ اور ہو، ہمارے افسانہ نگار سمجھتے ہیں کہ ہم اردو کی بہترین خدمت کررہے ہیں مگر حقیقت میں انھوں نے رعنائی ادب میں اپنی فرسودہ قلمی سے اس قدر لغویات اور فضولیات بھردی ہیں کہ… مذاق سلیم آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے، اردو زبان کی روز افزوں ترویج و اشاعت کے باوجود تنزل پذیر ہونا حیران کن نہ ہو، تو کیا ہو؟ کیا ہم اسے اردو زبان کی حقیقی ترقی کہہ سکتے ہیں…؟؟ نہیں! بلکہ یہ ترقی منکوش ہے، جس کی بنا سراسر انحطاطی ہے۔‘‘ ۱۱
سید ظفرہاشمی فرسودہ مضامین سے سخت برہم نظر آتے ہیں اور وہ بار بار فن پارے کے اصلاحی نقطۂ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔حالانکہ افسانہ نگار کا کام نہ تو اصلاحی ہوتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر کی طرح سماج کی برائیوں کا علاج کرنا۔مجموعی طور پر سید ظفر ہاشمی کا یہ مضمون اچھا ہے حالانکہ ان کا نظریۂ فن محدود ہے۔باوجود اس کے انھوں نے معاصر افسانے، موضوعات اور اسلوب پر جو گفتگو پیش کی ہے، اس سے افسانے کی ابتدائی شکل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بشمبر ناتھ کوشک (مترجم )غلام رسول صاحب حیدرآبادی
رسالہ ’ہمایوں‘ ستمبر 1934 میں غلام رسول حیدر آبادی کا ایک مضمون بعنوان ’’حسن کاری اور افسانہ نویسی‘‘ شائع ہوا۔ یہ دراصل بشمبرناتھ کوشک کا مضمون ہے جسے غلام رسول حیدرآبادی نے ترجمہ کیا ہے۔ بشمبرناتھ کوشک افسانے میں حسن کو اہم بتاتے ہیں۔ انسان کے اندر جمالیاتی حس بچپن سے ہی موجود ہوتی ہے، بعض موقعوں پر انسان کی جمالیات ہی کسی چیز کے انتخاب میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں تک ادب اور جمالیات کا تعلق ہے تو ’’جمالیات‘‘ ایک خاص اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اب وہ تنقید کی باضابطہ ایک شاخ بن گئی ہے۔ حسن کاری کی ضرورت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بشمبرناتھ کوشک رقمطراز ہیں:
’’میرے حسن وجمال میں بھی افادیت موجود ہے، اگر کوئی چیز حسین وجمیل ہے تو وہ نظربازوں کا دل خوش کرتی ہے۔‘‘ ۱۲
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نظر سب سے پہلے کسی شے یا انسان کے ظاہری خدوخال اور اس کی خوبصورتی پر پڑتی ہے۔ بعدازاں ہم اس کی اہمیت اور فنی لوازمات پر غور کرتے ہیں۔ اگر کسی شے میں وہ حسن موجود نہ ہو جو اپنی طرف متوجہ کرسکے تو اس کو حسن وجمال کا پیکر تو نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں تک فن پارے میں موجود حسن کاری کا تعلق ہے تو اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر بعض ناقدین نے ابتدا سے اس جمالیات کو اپنی تنقید کا حدف بنایا۔ بشمبرناتھ کوشک کا تعلق اس گروہ سے ہے جو ادب میں حسن کاری کو اہم بتاتے ہیں۔ بشمبرناتھ کوشک لکھتے ہیں:
’’اس قول (جو حسن کاری اور جمالیات کو ادب کے لیے ضروری نہیں سمجھتے) کے حامیوں کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ناظرین کو چاہئے کہ وہ حسن کاری کو حسن کاری کی نظر سے دیکھیں۔ اس میں افادیت یا نصب العین یا تعلیم کو نہیں تلاش کرنا چاہئے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی مصور نے ایک آدمی کی تصویر بنائی تو ناظرین کو فقط یہ دیکھنا چاہئے کہ تصویر میں ناک کان، ہاتھ پائوں وغیرہ ہیں یا نہیں، بس۔ اگر یہ سب ہیں تو مصوری ختم شد۔ اب اگر کوئی ناظر مصور سے یہ کہے کہ ’’استاد ناک تم نے ذرا لمبی بنادی اگر ذرا چھوٹی ہوتی تو زیادہ خوبصورت ہوتی، تو مصور اسے جھڑک کر کہے کیا بکتے ہو، صرف یہ دیکھو کہ یہ ناک ہے یا نہیں، تو ناظر بچارا جواب دیتا ہے، ہاں ناک تو ضرور ہے، اس پر مصور کہے ’’تو بس جھگڑا ختم ہے آگے تمھیں کچھ کہنے کا اختیار نہیں ہے، ناک کو صرف ناک کی نظر سے دیکھو۔‘‘ ۱۳
مضمون نگار کا خیال ہے کہ مصور کی بنائی ہوئی تصویر اسی وقت اچھی ہوتی ہے جب اس میں ہرچیز متعین مقدار میں ہو۔ ادب کا معاملہ بھی ویسا ہی ہے۔ جہاں تک افسانے کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہوتی ، افسانہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیرضروری تفصیلات سے اجتناب کرے۔ دراصل مضمون نگار افسانے میں حسن کاری کی ضرورت پر اس لیے زور دیتے ہیں، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ افسانہ دراصل دلچسپی کے لیے کہا اور پڑھا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’افسانے کا پہلا مقصد یہ ہے کہ اس میں قاری یا سامع کے لیے دلچسپی کا سامان موجود ہو۔ اگلے زمانے میں جب کتابیں بمشکل دستیاب ہوتی تھیں، راجائوں، مہاراجوں اور متمول لوگوں کے ہاں داستان گو رہتے تھے۔ وہ رات کے وقت کہانیاں کہا کرتے تھے۔ بچے یا بالغ کہانیاں سننے کے شوقین ہوتے ہیں اور رات میں بغیر کہانی سنے انھیں نیند نہیں آتی۔ افسانوں کی اس قدر کثرت اشاعت اس لیے ہے کہ ان سے عوام کا دل بہلتا ہے۔ جی خوش ہوتا ہے۔ لہٰذا افسانے میں دلچسپی کی خوبی کا ہونا ضروری ہے۔‘‘ ۱۴
اقتباس کا پہلا جملہ افسانے کی ابتدائی تنقید کا بھی ایک اہم حوالہ ہے۔ دلچسپی پیدا کرنے کے مختلف وسائل ہوسکتے ہیں۔ افسانے کے وجود میں آنے سے قبل ہمارے یہاں داستانوں کی روایت تھی۔ داستانوں کے سننے سنانے کا مقصد اگر دل بہلانا ہے تو اس سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ جہاں تک داستانوں اور قصہ گوئی کا تعلق ہے تو اس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے واقعات مافوق الفطری قصے اس طرح پیش کیے جاتے تھے کہ سامع کی دلچسپی قائم رہے مگر افسانے کا جہاں تک تعلق ہے تو افسانے کی دنیا بہت وسیع ہے۔ داستان گوئی اور افسانہ موضوع، اسلوب اور دائرہ کار تینوں لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہے، مضمون نگار کے یہاں ادب کی جمالیات کی واضح شکل نہیں ہے، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر افسانہ نگار فی الواقع حسن کار ہے تو وہ ایسا افسانہ لکھے گا جو خواندہ اور ناخواندہ، جاہل اور عقلمند، حسن کاری کے نقاد اور حسن کاری سے بے بہرہ سب لوگوں کے پسند خاطر ہو سب کی تفریح طبع کا باعث ہو، سب کے دلوں کو خوش کرسکے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو اس میں ضرور نقص ہے، وہ افسانہ کی تعریف واصلاح سے محض نابلد ہے۔‘‘ ۱۵
مطالعے کا عمل ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتا اکثر تحریریں ایسی بھی ہوتی ہیں جس کے مطالعہ سے ذہن پراگندہ اور اداس ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کسی فن پارے سے یہ امید کرنا کہ اس کا مطالعہ دل لگی کا سامان مہیا کرائے گا یہ مناسب نہیں۔ آج افسانے کی دنیا موضوع اور اسلوب دونوں لحاظ سے کافی وسیع ہوگئی ہے مگر جس زمانے میں یہ مضمون لکھا گیا، اس وقت کا ماحول آج سے بالکل مختلف تھا۔ دراصل بشمبرناتھ کوشک کا تنقیدی شعور اصلاحی تھا، وہ افسانوں میں شہوانیت کو پسند نہیں کرتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ انھوں نے مصور اور اس کی تصویر کی جو مثال دی ہے، اس میں بھی عریانیت کا ایک پہلو پوشیدہ ہے۔ جب افسانے کی تنقید شروع ہوئی تو اکثر ناقدین نے افسانے کو اپنے طور پر دیکھا، فن کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ اگر غور کیا جائے تو احساس ہوگا کہ بعض لوگوں نے صنف افسانہ کو مضمون کی طرح استعمال کرنا چاہا، اس کا ایک بنیادی نقصان یہ ہوا کہ ابتدائی دنوں کے افسانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بشمبرناتھ کوشک کا نظریہ بھی اپنے معاصر ناقدین کی طرح غیرواضح اور غیرمنطقی ہے۔ تنقید میں اگراستدالال نہ ہو، وہ بہت دیر تک اپنا اثر قائم نہیں رکھ سکتی۔
مشرف عالم آرزو جلیلی
افسانے کی تنقید سے متعلق ابتدائی مضامین رسالہ ’’ساقی‘‘ دہلی میں بھی شائع ہوئے ۔ رسالہ ساقی کے نومبر 1934 کے شمارے میں مشرف عالم آرزو جلیلی کا ایک مضمون بعنوان ’’اردو کی افسانہ نگاری شائع ہوا تھا۔مشرف عالم آرزو جلیلی کا یہ مضمون حمو رابی کے مضمون ’’عہد حاضرہ کے افسانہ نگار‘‘ کے جواب میں لکھا گیا تھا ، جو رسالہ نگار کے مئی 1934 میں شائع ہواتھا۔حمورابی نے اپنے مضمون میں افسانہ نگار کے یے جو تعریف کی ہے، وہ مناسب نہیں۔ اس مضمون کے جواب میں آرزو جلیلی نے یہ مضمون ’’اردو کی افسانہ نگاری‘‘ تحریر کیا تھا۔مضمون کا آغاز بے حد چونکانے والا ہے۔
’’اردو کی صحافتی دنیا میں ’’افسانہ نگار‘‘ کا لقب اس شخص کو دیا جاتا ہے جو غیرزبانوں سے ترجمے کیا کرے۔‘‘ ۱۶
اس نہایت مختصر سے اقتباس میں دو باتیں قاری کو چونکادیتی ہیں، اول صحافتی دنیا، دوم افسانہ نگار اس شخص کو کہا جاتا ہے جو تراجم کرے۔صحافتی ادب اور افسانوی ادب بالکل دو الگ چیزیں ہیں، دوسرے لفظوں میں صحافتی ادب کو غیر افسانوی ادب میں شامل کیا جاتا ہے اور افسانہ کا تعلق افسانوی ادب سے ہے۔ صحافت میں حقیقی واقعات پیش کیے جاتے ہیں مگر افسانوں کی دنیا مختلف ہے۔ افسانوں کا مرکزی خیال کسی حقیقی واقعہ سے ماخوذ تو ہوسکتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ افسانے میں واقعات حقیقی ہوں۔انہوں نے مترجم کے لیے افسانہ نگار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مشرف عالم آرزو جلیلی نے حمورابی کے مضمون سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں اور ان کی روشنی میں افسانہ نگار کی صحیح تعریف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔حمورابی کا اقتباس ملاحظہ کریں:
’’سجادحیدریلدرم: آپ اپنے ترکی افسانوں کے لحاظ سے دنیائے افسانہ میں ممتاز شخصیت کے مالک ہیں… طبع زاد افسانے بھی آپ لکھتے ہیں۔‘‘ ۱۷
مشرف عالم آرزو جلیلی نے جمورابی کے مضمون سے چند اور اقتباس پیش کیے ہیں۔ یہ اقتباس دراصل اعظم کریوی، حامد اﷲ افسر میرٹھی اور لطیف الدین احمد (ل۔احمد) کے متعلق ہیں۔ ان اقتباسات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جمورابی نے افسانہ نگاروں کی جو تعریف وضع کی ہے، وہ مغالطے پر مبنی ہے، ورنہ اتنی بات تو ادب کا ہر طالب جانتا ہے کہ مترجم کو تخلیق کار نہیں کہا جاتا۔ ان اقتباسات کا تجزیہ کرتے ہوئے مشرف عالم آرزو جلیلی رقمطراز ہیں:
’’حمورابی صاحب کے خیال میں کسی افسانے کا ترجمہ، مترجم کی ملکیت ہوتی ہے۔ یعنی مترجم ہی اس افسانے کا لکھنے والا یا مصنف ہوتا ہے۔ گویا افسانہ نگار وہ شخص ہے جو افسانوں کا ترجمہ کیا کرے۔ مترجم صرف افسانہ یا کسی مضمون کا ترجمہ کرتا ہے۔ خیالات تو اصل مصنف کے ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ افسانہ کے مترجم کو افسانہ نگار کہا جائے جبکہ پلاٹ اس نے نہیں مرتب کیا۔ کرداروں کو اس نے نہیں پیش کیا اور واقعات کو اس نے نہیں قلم بند کیا۔‘‘ ۱۸ ( یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )
مترجم کا تخلیق کار ہونا ضروری نہیں ۔ دراصل کسی تخلیقی فن پارے کا ترجمہ کرتے وقت مترجم کے پیش نظر کئی عوامل ہوتے ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں زبانوں سے واقف ہو ورنہ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ تخلیقی فن پارے کی تمام فکری وفنی خوبیوں کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں۔مشرف عالم آرزو جلیلی نے اس ضمن میں تفصیلی بحث کی ہے اور یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ان کا ارادہ مترجم کو رسواکرنا نہیں ہے بلکہ وہ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ترجمہ شدہ افسانوں کے مترجم کو مصنف کہنا خود اس مترجم کے ساتھ غیرمنصفانہ عمل ہے۔ مشرف عالم آرزو جلیلی ان افسانہ نگاروں سے خائف نظر آتے ہیں جو ترجمہ کیے گئے افسانوں کو طبع زاد افسانے کی طرح پیش کرتے ہیں۔ آرزو جلیلی لکھتے ہیں:
’’اردو میں افسانہ نگاری نے ابھی تک خاطرخواہ ترقی نہیں کی ہے۔ ہمارے ادبا قوت متخیلہ سے کام نہیں لیتے ہیں اور نہ غوروخوض کے عادی بنتے ہیں۔ اکثر حضرات کی عادت یہ ہے کہ وہ کسی غیرزبان کے افسانے کے پلاٹ کو درہم برہم کرکے اپنا بنالیتے ہیں اور کسی ادبی رسالے میں شائع کرادیتے ہیں۔ افسانہ اس طرح شائع ہوتا ہے کہ گویا ان کا طبع زاد افسانہ ہو، یعنی افسانے کے ساتھ یہ اعلان نہیں کیا جاتا کہ یہ افسانہ فلاں افسانے کا ترجمہ ہے لیکن انداز بیان اور الفاظ کی بندش سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ افسانہ کسی غیرزبان کے افسانے کا خاکہ ہے۔‘‘ ۱۹
یہ مضمون 1934 میں تحریر کیا گیا تھا، اس وقت افسانے کی عمر ضرور کم تھی مگر اس نے اپنی نشوونما کے کئی منازل طے کر لیے تھے۔ پریم چند کی بیشتر کہانیاں شائع ہوچکی تھیں، سجادحیدریلدرم، نیاز فتح پوری کے تراجم اور طبع زاد کہانیوں کے علاوہ اعظم کریوی، حامد اﷲ افسر میرٹھی، لطیف الدین احمد کے افسانے بھی منظرعام پر آچکے تھے۔ ترقی پسندوں کا منشور کہا جانے والا افسانوی مجموعہ ’’انگارے‘‘ بھی شائع ہوچکا تھا، ایسے میں آرزوجلیلی نے جس طرح پورے افسانوی سرمایے کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے، وہ غیرمناسب ہے۔ مشرف عالم آرزو جلیلی کو ان افسانہ نگاروں کی نشاندہی بھی کر نی چاہیے جن کے افسانے طبع زاد نہ ہونے کے باوجود طبع زاد معلوم ہوتے ہیں۔ایک اقتباس دیکھئے:
’’اردو میں طبع زاد افسانے سمجھنے والو ںکی کمی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں، افسانویت کا فقدان ہوتا ہے۔ اردو کے افسانوں کا فرسودہ موضوع ’محبت‘ ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان محبت، جس کا لازمی نتیجہ شادی ہے، جو لوگ اخلاقی یا اصلاحی افسانے لکھنا چاہتے ہیں، وہ بھی زیادہ ترناکام رہتے ہیں۔ منشی پریم چند کے افسانے محض اخلاقی یا معاشرتی مضامین ہیںکیوں کہ وہ واقعات میں دلکشی اور تسلسل نہیں قائم رکھ سکتے۔ البتہ ہندوئوں کی اجتماعی زندگی اور ان کی طرز معاشرت کو انھو ںنے بڑی خوبی سے دکھایا ہے۔‘‘ ۲۰
مشرف عالم آرزو جلیلی کا نظریہ پوری طرح واضح نہیں ہے۔ وہ ’محبت‘ جیسے موضوع کو افسانوں کے لیے غلط بھی بتاتے ہیں اور پریم چند کے افسانے انھیں محض اخلاقی اور معاشرتی مضامین جیسے لگتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ’محبت‘ کا موضوع ہمارے ادب کے لیے نیا نہیں۔ اردو شاعری کا بیشتر حصہ عشق ومحبت کے مضامین سے پر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرزو جلیلی اس موضوع کو قابل اعتنا کیوں تصور کرتے ہیں۔اگر محبت کا لازمی نتیجہ شادی ہے تو اسے غیراخلاقی اور غیرمعاشرتی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ آرزو جلیلی نے ’افسانویت‘ کی کمی کا ذکر تو کیا ہے مگر ان افسانوں کے عنوانات تک نہیں بتائے ۔ مشرف عالم آرزو جلیلی نے یہی رویہ پریم چند کے تعلق سے بھی اختیار کیا ہے۔ منشی پریم چند کے افسانوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ محض اخلاقی اور معاشرتی مضامین ہیں، یہ پریم چند کے ساتھ ناانصافی ہے۔پریم چند کے افسانوں میں معاصر معاشرے، عوام اور زندگی کے مختلف گوشوں کو نہایت سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔بے شک ایک معنی میں ان کے افسانے اخلاقی بھی ہیں اور معاشرتی بھی ، مگریہ افسانے بھی تو ہیں۔ آرزو جلیلی نے شاید جلد بازی میں یہ لکھ دیا کہ پریم چند کے یہاں تسلسل کا فقدان نظر آتا ہے۔ آرزو جلیلی کی نظر میں اچھا افسانہ وہ ہے جس کا پلاٹ گٹھا ہو،اور قارئین پر اس کی گرفت اخیر تک قائم رہے ۔ جہاں تک پریم چند کا تعلق ہے تو اتنی بات ضرور ہے کہ پریم چند پر بہت لکھا گیا مگر کفن، پوس کی رات وغیرہ پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ۔ آرزو جلیلی نے بھی پریم چند پر گفتگو کرتے ہوئے جلد بازی اور عدم توازن کا ثبوت دیاہے۔ آرزو جلیلی کو طبع زاد افسانوں میں فرسودگی کا احساس تو ہوتا ہے مگر وہ ان افسانوں کو بطور مثال بھی پیش کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور نہ ہی افسانوں کی اہم خصوصیات پر بحث کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ادب میں افسانہ کا درجہ بہت بلند ہے، اس کا مرتبہ شاعری سے کم نہیں، زبان اور ادب کو ترقی دینے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ افسانہ، تخلیقی ادب Creative Literature کی روح رواں ہے۔ ‘‘ ۲۱
سید وقار عظیم:
اردو افسانے کے اولین نقادوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بیشتر ناقدین ایک خاص وقت کے بعد منظرنامے سے غائب ہوگئے ۔ سیدوقارعظیم کا معاملہ مختلف ہے، انھوں نے اپنی تنقید کا آغاز ترقی پسند تحریک سے قبل ہی کردیا تھا مگر ترقی پسند تحریک کے بعد افسانے کی تنقید پر ان کی باضابطہ کتابیں منظرعام پر آئیں۔ میری تحقیق کے مطابق 7مارچ 1936 سے قبل ان کے پانچ مضامین شائع ہوچکے تھے۔
’’افسانہ کی تنقید‘‘ رسالہ ساقی کے جولائی 1935 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔یہ شمارہ ’’افسانہ نمبر‘‘ تھا۔ سید وقار عظیم کا مذکورہ مضمون کئی اعتبار سے اہم ہے۔ انھوں نے افسانے کی تنقید کے لیے کچھ اصول بتائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہماری زبان اور ادب کو ترقی کی شاہراہوں پر پہنچنے کے لیے بہترین نقادوں کی ضرورت ہے۔ ایسے رہبروں کا ہونا ضروری ہے جو اپنا یہ فرض سمجھیں کہ بھولے بھٹکوں کو راستہ بتائیں۔ برے راستے پر چلنے والوں کو سخت سے سخت ہدایتیں کریں کہ وہ اس راستے کو چھوڑدیں لیکن ان سب باتوں کے لیے سب سے پہلے خود آنکھوں میں روشنی اور دل میں علم اور دیانتداری کی چمک ہونی ضروری ہے۔‘‘ ۲۲
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھی تنقید قاری کی رہنمائی کرتی ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی اچھا فن پارہ کسی تنقیدی رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے وجود میں نہیں آسکتا۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے تو وقارعظیم کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ناقد کے پیش نظر مختلف علوم وفنون کے اعلیٰ نمونے ہوں اور ساتھ ہی اس کے اندر دیانتداری ہو تاکہ وہ کسی فن پارے کا تجزیہ تعصب کے بغیر کرسکے۔ ناقدین کو چاہئے کہ وہ اپنا ایک معیار قائم کریں۔ وقار عظیم کا خیال ہے کہ ناقد کو چاہئے کہ وہ ’’تخلیق کار کو سخت سے سخت ہدایت دے۔‘‘ یہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ادب کا براہ راست تعلق ہماری زندگی سے ہے لہٰذا زندگی کی طرح ادب کے موضوعات میں تبدیلی کا ہونا غیرفطری نہیں۔ ہر تخلیق کار کا علم، اس کا تجربہ اور کسی واقعے کے سلسلے میں اس کا زاویہ نگاہ مختلف ہوتا ہے لہٰذا تخلیق کار سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کسی خاص نقطۂ نظر کو واضح کرے مناسب نہیں، ادیب کی آزادی بہرصورت ضروری ہے۔ وقار عظیم فن کی بلندیوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’افسانے کے صنف کا تعلق جہاں ایک طرف اس کی مجموعی حیثیت اور اثر سے ہے، وہاں افسانہ نگار کو دوسری طرف اس با ت کا سب سے زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کے مختلف حصے بھی فن کی بلندیوں سے خالی نہ ہوں۔‘‘ ۲۳
دراصل ناقد کا کام ہی فنی محاسن کی تلاش ہے۔ تخلیق کی رہنمائی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ناقد ایک خاکہ کھینچ دے کہ تخلیق کار اسی خاکے کو بنیاد بناکر فن پارہ تخلیق کرے۔ ناقدین کا سروکار تخلیق کار کے ذہنی رجحان کے ساتھ فن پارے کے اسلوب اور طریقۂ کار سے ہے۔ ناقدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن پارے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھے کہ تخلیق کار نے جس واقعے یا اپنے جس مقصد کے پیش نظر فن پارہ تخلیق کیاہے، اس میں وہ کتنا کامیاب ہوا ہے۔وقارعظیم نے مواد کی فراہمی پر خاص توجہ دینے کی بات کی ہے ، تاکہ فن پارے میں کوئی ایسی چیز موجود نہ رہے، جس کی صورت اضافی ہو۔ بے جا تفصیلات بھی فن پارے کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں۔ وقار عظیم لکھتے ہیں:
’’دوسری چیز جو افسانے کی تنقید میں سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے وہ اتحاد ہے۔ افسانہ میں عمل، مقصد یا تحریک، زمان ومکان ( Time & Place) ہرچیز میں اتحادپر توجہ کرنے کی ضرورت ہے، وہ اتحاد اثر (Unity of Impression) ہے۔ افسانہ پڑھتے وقت ہماری توجہ شروع سے آخر تک ایک ہی بات پر رہے، ایک ہی بات ہمارے دل ودماغ اور جذبات پر قبضہ کیے رہے۔ ذراسی دیر کو بھی اس کا اثر ہمارے ذہن سے دور نہ ہونے پائے، اس میں افسانہ نگار نے صرف ایک خاص بات کہی ہو اور وہی خاص بات ہمارے ذہن ودماغ پر مسلط رہے۔ اس کی ابتدا سے لے کر انتہا تک افسانہ نگار نے منطقی اور نفسیاتی پہلوئوں کو نظر میں رکھتے ہوئے افسانے کو جس طرح شروع کیا ہے، اسی طرح ختم کیا ہو۔ اس کی ابتدا یا تحریکی مقصد میں فرق نہ آیا ہو۔ اگر یہ سب چیزیں افسانے میں ایک جگہ موجود ہیں تو اسے اچھا افسانہ کہا جاسکتا ہے۔‘‘ ۲۴
وقار عظیم کے ان خیالات اسے یوں تو اتفاق مشکل ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابتدا میںاتحاد اثر Unity of Impression کی بہت اہمیت تھی۔ افسانے میں اتحاد اثرکی مثالیں ہیں، اس لیے ایک معنی میں اتحاد اثر کوئی ایسی شئے نہیںجسے نئے افسانے اور نئی تنقید کی روشنی میں یکسر مسترد کردیا جائے۔
وقار عظیم کے اس نظریے یعنی’ وحدت تاثر‘ سے بعد کے ناقدین نے بہت استفادہ کیا۔ ترقی پسندوں نے ایک مخصوص نظریۂ حیات اور نظریۂ فن کے سیاق میں ’وحدت تاثر‘ کی بڑی اہمیت بڑھا دی۔ کیوں کہ ترقی پسندوں نے جس خاص مقصد کے لیے افسانے تخلیق کیے، اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ قاری بھی اسی مفہوم تک پہنچے۔ وقار عظیم کا خیال ہے کہ افسانے کی بنیاد کسی نہ کسی تحریکی جذبے پر ہوتی ہے۔ دراصل وقار عظیم مقصدی ادب کے قائل نظر آتے ہیں، خواہ مصنف نے جو بھی اسلوب اختیار کیا ہو۔ افسانے کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’افسانہ نگار کی فطرت کا ایک بڑا عیب جو افسانے کے لطف، دلکشی اور حسن کو پامال کردیتا ہے، عموماً اپنے موضوع سے علیحدگی یا (Digerssion)ہے۔ Digeression سے افسانے میں بہت سے عیوب پیدا ہو جاتے ہیں۔ اتحاد اثر، توجہ فن، وفاشعاری اور اس قسم کی اور دوسری چیزیں جو افسانے کو ہر حیثیت سے بلند بناتی ہیں۔‘‘ ۲۵
یہ موقف ایک خاص عہد کے تناظر میں درست ہے۔ جہاں تک مقصد کا تعلق ہے تو افسانہ نگار کا مقصد اگر واضح ہو جائے تو اسے کمزور افسانہ ہی کہا جائے گا۔ سید وقار عظیم نے سادگی کو افسانے کے لیے ضروری قرار دیا۔ ان کا خیال ہے کہ قوانین فطرت اور قوانین حسن کے نزدیک اس میں تصنع، رنگینی اور مبالغہ میں اگر سادگی نہ ہو تو یہ افسانے کے عیوب میں شامل ہے۔ سید وقار عظیم نے افسانے کے لیے بھی اسی تیزی، بلند آہنگی کو ضروری قرار دیا ہے، ان کا خیال ہے کہ افسانے کا پلاٹ مختصر ہوتا ہے لہٰذا افسانہ نگار کو چاہئے کہ وہ افسانے میں جذبات میں گہرائی پیدا کرے تاکہ قاری پر وہ اثر انداز ہو۔ ( یہ بھی پڑھیں وارث علوی کی فکشن تنقید : جدید افسانہ اور اُس کے مسائل ‘‘کے حوالے سے – محمد شفیع گنائی )
سید وقار عظیم ان افسانہ نگاروں پر سخت تنقید کرتے ہیںجو تقلید میں افسانہ لکھتے ہیں، وہ ناقدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے تخلیق کاروں کو جو تقلیدی افسانہ لکھتے ہیں، انھیں افسانہ لکھنے سے باز رکھا جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ انھوں نے افسانے کی جن شرطوں کو بنیاد بنایا ہے، اس میں تقلید کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ وہ مقلد افسانہ نگاروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف کمزور لکھنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔سیدوقار عظیم کا اقتباس اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ فن پارے کا مطالعہ تنقیدی اصولوں کی روشنی میں کیا جانا چاہیے، مگر اس سے پہلے تخلیق کار، ناقد اور قاری تینوں کی ذہنی تربیت بے حد ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید ہر شخص کے لیے برابر ہونی چاہئے لیکن میرے پاس اس کا صرف یہی جواب ہے کہ ہم تنقید جیسی بلند چیز کو صرف ایک بلند مقصد کے لیے کام میں لاسکتے ہیں۔ اگر صحیح اصول تنقید سے ہماری زبان اور ادب کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو ہم مجبوراً ایسے اصول وضع کریں گے جن کی ہمیں اس وقت سخت ضرورت ہے اور اس دور کے نکل جانے کے بعد افسانہ نگاری کو اس کے یکساں معیار تک پہنچانے کے بعد ہم بھی اسی اصول تنقید کو برتیں گے جو ہر زمانے اور ہروقت کے لیے یکساں ہے۔‘‘ ۲۶
ناقد کا کام فن پارے کے فنی محاسن کی تلاش کرنا ہے۔یہ ضروری نہیںکہ بڑے تخلیق کار کی ہر تخلیق بڑی ہو، اور نئے لکھنے والوں کی ہر تخلیق دوئم درجے کی ہو۔
سید وقار عظیم کا ایک مضمون ’’افسانہ کی کہانی خود اس کی زبانی‘‘ ہے جو رسالہ ہمایوں کے دسمبر 1934 میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے آغاز میں سید وقار عظیم کا ایک نوٹ بھی درج ہے جس کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضمون حامد صاحب کی فرمائش پر تحریر کیا گیا۔ سیدوقارعظیم کے اس نوٹ سے واضح ہوتا ہے کہ حامد صاحب نے مضمون میں دلچسپ اسلوب کو اپنانے کی گزارش کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھو ںنے فرحت اﷲ بیگ کی تقلید میں اس مضمون کا عنوان ’’افسانے کی کہانی خود اسی کی زبانی‘‘ رکھا۔
سید وقار عظیم نے اس مضمون میں خود کلامی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ یعنی افسانہ خود اپنے آپ سے اور اپنے قارئین سے محو گفتگو ہے۔ مضمون کے آغاز میں ہی مصنف نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ افسانے کا آغاز یونان سے ہوا جتنی جلدی اس صنف کو وہاں مقبولیت ملی، اسی تیز رفتاری کے ساتھ اس کا زوال بھی ہوگیا۔ سید وقارعظیم کا خیال ہے کہ افسانہ کو بطور صنف مصر میں نہ صرف اپنایا گیا بلکہ اس کی قدر دانی بھی خوب ہوئی۔ سید وقارعظیم نے افسانے کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افسانہ یونان سے شروع ہو کر مصر، فرانس، انگلستان، جرمنی اور روس کے راستے بھارت میںآیا۔ مگر ان تمام مقامات پر افسانے کی مقبولیت یکساں رہی۔ اس مقبولیت کی اصل وجہ افسانے کا فنی اسلوب ہے۔ سید وقارعظیم نے ہندوستان میں افسانے کی مقبولیت کی اصل وجہ اس زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشی طرززندگی کو بتایا ہے، ان کا خیال ہے کہ جس زمانے میں افسانے کا آغاز ہوا، ہندوستان میں اردو کا نہ صرف ڈنکا بج رہا تھا بلکہ مغرب کی ہر چیز خواہ شعری صنف ہو یا نثری صنف، اسے قبول کیا جارہا تھا۔ سیدوقارعظیم نے ہندوستانی ادیب ودانشور کی اس تقلیدی روش کو افسانے کے وجود کے لیے خطرہ بتایا ہے۔ سیدوقارعظیم لکھتے ہیں:
’’اسے میری بدنصیبی کہیے یا خوش قسمتی سمجھئے کہ جس زمانہ میں اردو ادب پر مغرب اور مغربیت اپنا گہرا اثر کررہی تھی، قوم نے مغرب کی پرستش شروع کردی۔ اسلاف کے کارنامے، ان کی صداقت، جوانمردی اور بہادری کے مرقع دھندلے ہوتے چلے جارہے تھے اور ہندوستانی ہر قدم پر، ہر بات میں، ہر کام میں، کھانے میں، پینے میں، چلنے میں، اٹھنے میں اور بیٹھنے میں مغرب کی تقلید پر آمادہ تھے۔ اپنی تہذیب کی اچھائیوں کو بالکل بھلا دیا تھا۔ سچی بات ہے کہ ادب پر مغرب کا جو اثر پڑرہا تھا، وہ تو ہر حیثیت سے مفید تھا لیکن سوسائٹی کے دلوں پر اس کا اتنا گہرا قبضہ نہ دیکھنے والوں کو اچھا لگ سکتا تھا اور نہ خود سوسائٹی کے لیے مفید ہوسکتا تھا، اس لیے ملک کے ہر گوشہ سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔‘‘ ۲۷
اردو اصناف پر مغرب کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ اصناف ترقی کررہی تھی، ملک پر انگریزی حکومت کا تسلط قائم تھا اور یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ جو زبان حاکم کی ہوتی ہے، وہی محکوم کی بن جاتی ہے، حالاں کہ اس مقولے کا تعلق زبان سے ہے مگر حاکم کی طرز زندگی کے اثرات محکوم کی زندگی پر مرتب تو ہوتے ہی ہیں، لہٰذا انگریزی ادب کی مختلف اصناف سخن سے متاثر ہو کر اردو ادب میں اضافہ ہوا۔جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے تو بہت سے ادیب انگریزی ادب سے متاثر ہوئے، اس ضمن میں سجادحیدریلدرم اور نیاز فتح پوری کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ان دونوں نے چوں کہ غیرملکی زبانوں میں تحریر کیے گئے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا لہٰذا ان کے یہاں بھی حسن وعشق کے مختلف واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ حالاںکہ اس زمانے کے بیشتر ناقدین نے ان دونوں افسانہ نگاروں پر طنز کیے، یہاں تک کہ انھیں جنسی موضوعات کا نمائندہ بتایا۔ دراصل اس عہد کے ماحول میں ان موضوعات کی گنجائش کم ہی تھی، اس عہد میں ادب کی مختلف اصناف میں مقصدیت کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ سید وقارعظیم لکھتے ہیں:
’’جب زمانہ نے اور ترقی کی تو اس اصلاحی مقصد کی تصویروں پر بھی اور رنگ وروغن چڑھایا جانے لگا اور روح میں ذرا تازگی کے آثار پیدا ہوئے۔ آپ پوچھیں گے کہ آخر وہ کون سی تصویریں تھیں۔ خدا بھلا کرے پریم چند کا انھوں نے اصلاحی مقصد کو اپنے سامنے رکھا لیکن اس اصلاحی مقصد میں، صرف مغرب کے لیے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کا صحیح جذبہ خود ان کی قوم کی محبت تھی۔‘‘۲۸
سید وقارعظیم خود بھی مقصدی ادب کے حمایتی تھے، دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جس زمانے کی افسانہ نگاری کا ذکر اقتباس میں موجود ہے یہ وہی عہد تھا جب ہندوستان غلامی اور حکومت کے تشدد سے پریشان تھا اور اس سے نجات کے لیے کوشاں تھا۔ ادیب اور دانشور کی ایک بڑی جماعت نے ادب کو ایک وسیلہ اور انگریزوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پریم چند کا جہاں تک تعلق ہے تو ان کے فن پر گفتگو کے کئی جہات ہوسکتی ہیں مگر صحیح معنوں میں دیہی زندگی اور زمیندارانہ نظام کے خلاف جو رویہ پریم چند کے یہاں نظر آتا ہے۔ اسے ہندوستانی عوام اور انگریزی حکومت کے ظلم وجبر کے سیاق میں بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں کہ اس وقت محض اصلاحی افسانے ہی تحریر کیے جارہے تھے۔ سجادحیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری بلکہ مجنوں گورکھپوری کے افسانوں کے مطالعہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اصلاحی افسانوں کے علاوہ بھی دوسرے موضوعات پر افسانے تخلیق کیے گئے۔ سجادحیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ انھوں نے پہلے پہل غیرملکی افسانوں کے تراجم کیے۔ ان تراجم کا ایک پہلو یہ رہا ہے کہ ان کے یہاں اصلاحی موضوعات کے علاوہ دوسرے موضوعات بھی در آئے۔ سیدوقارعظیم نے لکھا ہے کہ افسانے کا فن اور تقلیدی رویے میں جنم کا بیر ہے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ جس نے دوسرے افسانہ نگارو ںکی تقلید میں افسانے لکھے وہ بحیثیت فن ادھورا یا نامکمل ہوگا۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ تقلید کی روایت بہت پرانی ہے۔ بعض افسانہ نگاروں نے یوروپ یا دوسرے ممالک کے افسانوں کی تقلید میں افسانے لکھے۔ خواہ وہ موضوعات کی تقلید ہو، زبان وبیان کا معاملہ ہو یا پھر اسلوب اور طرز نگارش کا ۔ ایسا ہرگز نہیں کہ جن افسانہ نگاروں نے تقلیدی روش اختیار کی ان کے افسانے فنی طور پرکمزور ہیں بلکہ بعض افسانہ نگاروں اور ان کی تخلیقات نے تقلیدکے باوجود اپنے مخصوص اسلوب سے افسانے کو ایک الگ شکل عطا کی ہے اور آخری بات یہ ہے کہ تقلید کوئی بری شے نہیں، ہاں اتنا ضروری ہے کہ تقلید میں اندھی عقیدت نہ ہو۔ سیدوقارعظیم نے افسانوں کے بدلتے مزاج کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ جب میں پہلے پہل ہندوستان آیا تو میری طبیعت بہت گھبرائی۔ ہروقت پرانی باتوں کی یاد دل کو ستاتی رہتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ہندوستان کی محبت ایسی بڑھی کہ میں اپنے پرانے عیش وآرام بھول گیا لیکن اب کوئی چھ سات برس سے میرے شیدائیوں نے ایک نئی روش اختیار کی۔ اب تک مغرب کا صرف ظاہری اثر تھا، اب مغرب کی روح بھی افسانوں میں داخل ہوگئی۔ چیخوف اور اسی طرح کے دوسرے علمبرداروں نے ہندوستانیوں کے دلوں پر اتنا گہرا اثر کیا کہ وہ اپنی فطرتوں کو بھول گئے۔‘‘ ۲۹
اس مضمون کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی سن اشاعت کوبھی پیش نظر رکھنا چاہئے، یہ مضمون دسمبر 1934 میں شائع ہوا، ظاہر ہے اس وقت ترقی پسند تحریک کی ابتدا تو نہیں ہوئی تھی مگر ادیبوںا وردانشوروں کا ایک بڑا طبقہ روسی انقلاب کے اثرات کو نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ اس سے پر امید بھی تھا کہ ہندوستان میں بھی انقلاب آئے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت بھی عمل میں آچکی تھی لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کی باضابطہ کوئی شکل گرچہ موجود نہ تھی مگر فکری سطح پر تبدیلی آرہی تھی، اصلاحی اور مقصدی فن پارے سامنے آرہے تھے ۔ روس میں چوں کہ چند برس قبل (1917) ایک بڑا انقلاب رونما ہو کر پوری دنیا پر یہ ظاہر کرچکا تھا ، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادیب ودانشوروں نے روس اور فرانس کے ادیبوں کی تحریروں سے کچھ اس طرح استفادہ کیا کہ تقلید کے باوجود مقامیت متاثر نہیں ہوئی۔
عبدالقادر سروری
ابتدائی ناقدین افسانہ میں عبدالقادر سروری کا نام اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے ، انھوں نے مضامین کے علاوہ افسانہ نگاری کے فن پر دو باضابطہ کتابیں (1936 سے قبل) بھی تحریر کیں۔ حالاں کہ مجھے ان کی محض ایک کتاب ہی مل سکی، دوسری کی تلاش میں ہوں۔ میرے پیش نظر ان کا مضمون ’’فن افسانہ نگاری‘‘ اور ان کی کتاب ’’دنیائے افسانہ‘‘ہے۔
مضمون ’’فن افسانہ نگاری‘‘ رسالہ نگار کے دسمبر 1926 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مضمون نگار نے اپنے مضمون کو چار ضمنی عنوانات (1)افسانوں کی اہمیت (2)افسانہ اور ادب (3)افسانہ کی تخلیق (4)حقیقت اور افسانہ میں تقسیم کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون کا آغاز ان جملوں سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دنیا مجموعہ اضداد ہے، جہاں بدتر سے بدتر شئے کے قدردان موجود ہیں۔ وہیں بعض اشخاص بہترین اشیا کے مخالف بھی نظر آتے ہیں، ایک گروہ انسان کی وحشیانہ حالت سے تمدنی تبدیلی کو دنیا کی ترقی کا ثبوت اور دوسرا پستی کی دلیل سمجھتا ہے۔ انقلاب فرانس کو ایک شخص احساس آزادی کا بہترین مظہر اور دوسرا شرارتوں کا ماخذ ٹھہراتا ہے، اس افراط وتفریط کی اصلی وجہ اختلاف طبع ہوسکتی ہے۔ افسانوں کے مخالفین کا موجود ہونا کوئی نئی اور تعجب خیز بات نہیں ہے، بہت سے ایسے بزرگوار ہیں جن کے پاس باوجود اس کی جگر کاوی کے افسانہ نویس کو وہ رتبہ نہیں ہوسکتا جو ایک ماہر موسیقی، مصور یا شاعر کو حاصل ہے۔‘‘ ۳۰
عبدالقادر سروری نے بالکل درست لکھا ہے کہ انسانی زندگی میں فکر کی سطح پر اضدادی صورت کا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی یک رخی ہو جائے تو اس کی رعنائی و خوبصورتی جاتی رہتی ہے۔ اختلاف رائے کا ہونا فطری بھی ہے اور ضروری بھی، جہاں تک دو مختلف اصناف کے تقابل کا تعلق ہے تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ہر صنف کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں، ناول کا فن اور افسانے کا فن یکساں نہیں۔ عبدالقادر سروری کو ان لوگوں سے شکایت ہے جو افسانہ نگار کو دوئم درجے کا ادیب مانتے ہیں۔ یہ ان دنوں کی تحریر ہے جب افسانہ نگاری اپنے ابتدائی مرحلے سے گزر رہی تھی، اس وقت تمام ناقدین اس صنف کی اہمیت سے پوری طرح واقف بھی نہیں تھے۔ عبدالقادر سروری کو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ افسانے پر توجہ دینا تو دور اس پرعمومی گفتگو بھی کرنا ناقدین کو گوارہ نہیں تھا۔ ویسے ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں جن لوگوں نے بھی افسانے کے فن کو موضوع گفتگو بنایا، ان کے نزدیک افسانہ سے مراد ناول بھی ہے اور افسانہ بھی۔عبدالقادر سروری کے نزدیک بھی افسانہ کوئی الگ شے نہیں، انھوں نے اپنی بات کی تائید میں جتنی مثالیں دیں ہیں بیشتر کا تعلق ناول سے ہے۔ انھوں نے افسانے کی تعریف بھی پیش کی ہے جوروایتی ہے۔
عبدالقادر سروری کی ترقی پسند تحریک سے قبل دو کتابیں شائع ہوئیں۔ ’’دنیائے افسانہ‘‘ کا تعلق اسی دور سے ہے۔ یہ کتاب تعارفی ہے جس میں افسانہ بحیثیت فن کے علاوہ ناول نگاری کے فن پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے افسانہ کو مختصر افسانے کا نام دیا ہے۔ مضمون کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز کے چند برسوں میں افسانے کا تعارف پیش کرتے ہوئے ناول نگاری کے فن پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’مختصر قصوں میں پلاٹ اور اشخاص قصہ جب تک نہایت ڈرامائی نہ ہوں، قصے کا لطف جاتا رہتا ہے، ایک آدھ منظر نہ صرف موسمی کیفیت کے سمجھانے کے لیے کافی ہے بلکہ واقعات کی نوعیت بھی بتلادیتا ہے، اشخاص قصہ سادہ اور کرداروں کی ارتقا سے عاری ہوتے ہیں۔‘‘ ۳۱
افسانے کا فن دوسری اصناف سے بالکل مختلف ہے بلکہ شاعری میں جس طرح غزل کا ہر شعر معنوی اعتبار سے مکمل ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح افسانے کا فن بھی ہے۔ افسانہ نگار ایجازواختصار کے ذریعے زندگی کے کسی ایک پہلو پر گفتگو کرتا ہے حالانکہ آج کا افسانہ انسانی زندگی کی روداد نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے افسانے میں ہرقسم کے موضوعات پیش کیے جارہے ہیں۔ عبدالقادر سروری نے افسانے کے جن اجزا کا ذکر کیا ہے گرچہ اس کی معنویت آج اس طرح باقی نہیں رہی ۔ باوجود اس کے عبدالقادر سروری کایہ اقتباس کئی معنوں میں اہم ہے۔ عبدالقادر سروری نے افسانے کے اسلوب پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’اسلوب بیان کے اعتبار سے مختصر قصوں میں اس کی ضرورت ہے کہ الفاظ اور تفصیلات میں کفایت شعارانہ انداز اختیار کیا جائے، اس کامل فن نقاش کی طرح جس کی ایک جنبش قلم سے ایک مکمل شکل پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ ۳۲
یہ سچ ہے کہ افسانے کا فن طوالت کی اجازت نہیں دیتا۔ افسانے کے اختصار کو غزل کے اختصار سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی گئی، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ناقدین نے غزل اور افسانے میںاختصار کی بنیاد پر مماثلت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس طرح غزل اور افسانے کا تقابل شروع ہوگیا۔ عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:
’’غزل کی طرح مختصر قصوں میں چند واقعات کو جو مصنف کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر ایک تصویر پیش کی جاتی ہے، اس تصویر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والوں پر بھی اسی قسم کا اثر مرتب کرے، جیسا کہ خود مصنف کے دل ودماغ پر طاری ہے۔‘‘ ۳۳
عبدالقادر سروری نے نہایت جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افسانے کا تقابل غزل سے کیا ہے۔ جس نکتے کی وجہ سے عبدالقادر سروری کو لگتا ہے کہ افسانہ غزل سے قریب ہے وہ بھی۔ اگر افسانے کے لیے وحدت تاثر ضروری ہے تو اس کا تقابل غزل سے کرنا نامناسب ہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض غزلوں میں وحدت تاثر کی کوئی صورت ہوسکتی ہے، مگر اس کے باوجود غزل انتشار کا فن ہے۔ شاعر کے ذہن میں کسی شعر کے تعلق سے جو خیالات رہے ہوں عین ممکن ہے کہ اس شعر کا قاری اس کے بالکل برعکس مفہوم کی نشاندہی کرے، باوجود اس کے عبدالقادر نے افسانے کو غزل سے قریب بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مختصر قصے مسلسل غزل سے بھی مشابہت رکھتے ہیں اور وہ اس امر میں کہ جس طرح غزل میں ایک ہی خیال اور ایک ہی واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح مختصر قصوں میں بھی وقت واحد میں ایک ہی خیال کو پیش کرنا مدنظر ہوتا ہے۔‘‘ ۳۴
عبدالقادر سروری کے بیانات سے اختلاف کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ابتدائی دنوں میں افسانے کا لفظ ان کہانیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا جو دراصل داستان میں پیش کیے جاتے تھے۔ بہرکیف عبدالقادر سروری کی تنقید اہم ان معنوں میں ہے کہ افسانہ تنقید پر (میری تحقیق کے مطابق)یہ پہلی کتاب ہے، وہ دوسرے معاصر ناقدین کی طرح مغالطے کا شکار ضرور ہیں مگر اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب یہ کتاب لکھی گئی اس وقت افسانے کی شعریات کی کوئی واضح شکل ان کے سامنے موجود نہ تھی۔
حوالہ جات
۱۔(افسانہ نگاری اور اردو زبان، سید مقبول حسین، زمانہ 1928)
۲۔ (افسانہ نگاری اور اردو زبان، سید مقبول حسین، زمانہ 1928)
۳۔ (افسانہ نگاری اور اردو زبان، سید مقبول حسین، زمانہ 1928)
۴۔ (افسانہ نگاری اور اردو زبان، سید مقبول حسین، زمانہ 1928، صفحہ:101)
۵۔ (افسانہ نگاری اور اردو زبان، سید مقبول حسین، زمانہ 1928،صفحہ:101-102)
۶۔(افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:58)
۷۔ (افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:58)
۸۔ (افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:59)
۹۔ (افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:60)
۱۰۔ (افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:61)
۱۱۔ (افسانہ زبان ندارد، ظفر ہاشمی، رسالہ ’مخزن‘ نومبر 1930، صفحہ:61)
۱۲۔ ’’حسن کاری اور افسانہ نویسی‘‘ غلام رسول حیدر آبادی ،رسالہ ’ہمایوں‘۔ ستمبر 1934 (صفحہ:740)
۱۳۔ (حسن کاری اور افسانہ نویسی، بشمبرناتھ کوشک ، ہمایوں، ستمبر 1934، صفحہ:740)
۱۴۔ (صفحہ:571)
۱۵۔ (صفحہ:742)
۱۶۔ (اردو کی افسانہ نگاری، مشرف عالم آرزو جلیلی، رسالہ ساقی، نومبر 1934، صفحہ:57)
۱۷۔ (بحوالہ………)
۱۸۔ (بحوالہ…صفحہ:57)
۱۹۔ (صفحہ:58)
۲۰۔ (صفحہ:58)
۲۱۔ (صفحہ:59)
۲۲۔مضمون ’’افسانہ کی تنقید‘‘ رسالہ ساقی کے جولائی 1935 کے شمارے میں شائع ہوا تھا(صفحہ:18)
۲۳۔ (صفحہ:18)
۲۴۔ (صفحہ:18-19)
۲۵۔ (صفحہ:20)
۲۶۔ (افسانے کی کہانی خود اسی کی زبانی، سید وقارعظیم، ہمایوں ، دسمبر 1934)
۲۷۔ (صفحہ:945)
۲۸۔ (صفحہ:950)
۲۹۔(فن افسانہ نگاری، عبدالقادر سروری، رسالہ نگار، دسمبر 1936)
۳۰۔ (’’عبدالقادر سروری، دنیائے افسانہ، صفحہ:132)
۳۱۔(صفحہ:133)
۳۲۔ (صفحہ:130)
۳۳۔ (صفحہ:130)
۳۴۔ صفحہ 130
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
سر۔۔۔۔۔۔۔۔! ۱۹۸۰ کے بعد اردو نظموں میں دیہاتی سماج کی عکاسی ۔اس پر اگر کوئی مضمون شائع ہوا ہے۔تو براے کرم ارسال کریں