اُردو ادب میں رشید حسن خاں کی شناخت عموماً محقق کی ہے۔لیکن رشید حسن خاں نے تحقیق کے ساتھ ساتھ تدوین ،تنقید،کو بھی اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا۔اُردو املا کی رمز شناسی کے علاوہ موصوف نے ہم عصر اُردو مصنفین اور اُردواداروں سے شائع ہونے والی کتابوں پر اپنی بے باک اور دو ٹوک راے پیش کر ان کی اہمیت،افادیت و معنویت پر سوالیہ نشان قائم کیے۔ان کے تحقیقی و تنقیدی تبصروں کی بدولت اہم پروجیکٹوں کو بند کرنا پڑا یا ان میں اصلاح کی گنجایش پیدا کی گئیں۔ رشید حسن خاں کے تبصروں نے ادبی دنیا میں جو بھونچال پیدا کیا اُس کی دھمک ،گونج اور باز گشت آج تک سنائی دیتی ہے۔ان تبصروں میں رشید حسن خاں نے جو ادبی پہلو اور نکات نمایاں کیے ان کی معنویت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان تبصروں کو پڑھ کر نئی نسل ششدر رہ جاتی ہے۔در اصل رشید حسن خاں نے اُردو تبصرہ نگاری کی نئی تعریف اپنے تبصروں کے ذریعے قارئین تک بہم پہنچائی ۔ ان تبصروں میں رشید حسن خاں کی سخت جاہی اور وسعت مطالعہ کے دیدار ہوتے ہیں۔ خاں صاحب کے ان تبصروں کو ہم ادبی تحقیق کے اعلا نمونے قرار دے سکتے ہیں۔موصوف کی نظر میں ادبی تحقیق مکر شاعرانہ کا دوسرا روپ تھی۔رشید حسن خاں نے اپنے تحقیقی مشاغل کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے رسالہ اظہار ،ممبئی میں لکھا:
’’ادبی تحقیق اب میرا پسندیدہ ترین موضوع ہے۔میں اُس تنقید کا قطعاً قائل نہیں۔جس میں انشائیہ نگاری کا اندازہ ہوا ور وہ اسلوب ہو جو منافق کی سخن آرائی کا ہوتا ہے۔اس طرح میں اس تحقیق کو مکر شاعرانہ کا بدل سمجھتا ہوں جس میں صاف گوئی کے بجائے لیپنے پوتنے کا انداز ہو۔چوں کہ حالات نے اب بیش تر افراد کو دنیا داری کے پھیر میں مبتلا کر رکھا ہے۔اس لیے تحقیق کا یہ سادہ اور صاف انداز اُن کو پسند نہیں آتا اور اس کے لیے ان حضرات نے منفی انداز نظر کی ایک اصطلاح وضع کی ہے۔مطلب یہ ہے کہ جو لوگ جھوٹ کو جھوٹ کہیں اور دو ٹوک انداز میں راے ظاہر کریںوہ تو منفی انداز والے ہوئے۔اور جو لوگ ادب کے نام پر تجارت کو اور جہالت کو فروغ دیں،وہ مثبت انداز نظر والے ہوئے۔آپ چور کو چور کہیں تو وہ بہت واویلا مچائے گا۔یہی حال ان تاجرانِ ادب کا ہے۔‘‘ ( یہ بھی پڑھیں ادب،تہذیب اور ثقافت کا امین میرٹھ کا”میلا نوچندی“ – ڈاکٹرابراہیم افسر )
(رسالہ اظہار،شمارہ 5،بمبئی ،پانچویں کتاب ،ترتیب باقر مہدی،جنوری 1984،ص22)
1939میںآر ڈیننس کلودنگ فیکٹری شاہ جہاں پور(عرف عام میں درزی خانہ) میںبہ حیثیت مزدور بھرتی ہونے کے بعد رشید حسن خاں کی بالواسطہ طور پر پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔گھریلو مالی حالات کے بہتر نہ ہونے کے سبب انھیں کسی اسکول میں داخل نہ کرایا جا سکا۔درسِ نظامی کی تعلیم بھی نا مکمل ہی رہی۔علم کی اہمیت سے واقفیت کے سبب آر ڈیننس کلودنگ فیکٹری میں لنچ کے دوران انھوں نے اپنے ذوقِ مطالعہ کو تقویت بخشی ۔ طلسم ہوشربا اور آب حیات جیسی کتابوں کو اپنے مطالعے میں شامل کیا۔ساتھ ہی نیاز فتح پوری کے رسالے’نگار‘‘کی تحریریں پڑھ کر اپنے ادبی ذوق اور مطالعے میں گہرائی اور گیرائی پیدا کی ۔در اصل رشید حسن خاں کے اندر نیاز فتح پوری کی تنقیدی تحریروں کے سبب ہی تنقیدی صلاحیت اور شعور پیدا ہوا۔اس بات کا اعتراف رشید حسن خاں نے اپنے کئی مضامین اور انٹرویوز میں بہ بانگ دُہل کیا۔ رشید حسن خاں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز نقادکے طورپر کیا۔شعرا کے کلام پر تنقید کرنا ان کا پسندیدہ شغل رہا ہے ۔
آر ڈیننس کلودنگ فیکٹری شاہ جہاں پورکی ملازمت سے نکالے جانے کے بعد رشید حسن خاں نے بریلی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ’’ ندرت ‘‘میں بھی ملازمت کی۔دہلی یونی ورسٹی میں ملازمت ملنے سے قبل انھوںنے کئی معمولی معمولی ملازمتیں کیں۔شاہ جہاں پور کے مدرسہ فیض عام میں بھی انھوں نے فارسی، اُردو استاد کی حیثیت سے کام کیا۔اسی مدرسے میں کام کرتے ہوئے رشید حسن خاں نے کئی معرکے سر کیے۔ملک اور بیرون ملک کے ادبی رسائل اور جرائد میں ان کے مضامین شائع ہونے لگے۔ادب کے سنجیدہ قارئین نے ان کی تحریروں کی جانب متوجہ ہونا شروع کیا۔ رسالہ تحریک، نئی دہلی میں فیض کی شاعری کے حوالے سے جب ان کا مضمون شائع ہوا تو ملک گیر پیمانے پر ان کے نام اور کام کی شہرت راتوں رات ہو گئی۔رسالہ تحریک کے بند ہونے تک اس میںخاں صاحب کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے۔
رشید حسن خاںنے 1950کے بعد لکھنے والوں میں اپنا نام جلی حرفوں میں لکھوایا۔ہندوستان اور پاکستان کے ادبی رسائل میں ان کے مضامین کے شائع ہونے کا انتظار رہتا۔ان کی کھری کھری، مدلل اور بے لاگ تحریروں کے سبب بہت سے اہل قلم ان سے خفا رہنے لگے۔ یہاں تک کہ انھیں کئی مرتبہ نظر انداز بھی کیا گیا۔لیکن رشید حسن خاں کی علمیت اور اہلیت کا اعتراف ان کے تمام مخالفین نے بھی کیا۔رسالہ نگار اگست 1952کے شمارے میں حفیظ الرحمن واصف کے مضمون’’اُردو زبان کے مترادف الفاظ‘‘کے خلاف ان کا مضمون’بہ عنوان’اُردو کے مترادف الفاظ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔اس مضمون میں رشید حسن خاں نے واصف صاحب کے مضمون پر اعتراض کیا تھا۔اس مضمون کے شائع ہونے کے 22سال بعدجب رشید حسن خاں کی کتابیں ’’اُردو املا‘‘اور ’’زبان و قواعد‘‘منظر عام پر آئیں تو مولانا حفیظ الرحمن واصف نے ایک پوری کتاب ’’ادبی بھول بھلیاں‘‘ (1979) متذکرہ دونوں کتابوں کے رد عمل کے طور پر رقم کی۔ڈاکٹر ابو محمد سحر نے بھی رشید حسن خاں کی مذکورہ دونوں کتابوں کے رد عمل کے طور پر ’’اُردو املا اور اس کی اصلاح ‘‘اور’’زبان و لغت‘‘جیسی کئی کتابیں بھوپال سے شائع کیں۔
1950اور1959کے درمیان رشید حسن خاں نے اُردو شاعری اور شاعروں کے مجموعوں پر خوب لکھا۔جن شاعروں پر خاں صاحب نے قلم اُٹھایا ان میں ،فیض احمد فیضؔ،احمد ندیم قاسمی، جوشؔملیح آبادی،مجروح ؔسلطان پوری،اختر انصاری وغیرہ کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔میں یہاں صرف رشید حسن خاں کے اُس زمانے کی بات کر رہاہوں جو دہلی یونی ورسٹی میں ملازمت ملنے سے قبل کا ہے۔دہلی یونی ورسٹی میں ملازمت ملنے کے بعد رشید حسن خاں صحیح معنوں میں تعمیری کام میں مصروف ہوئے۔جس کا اعتراف اور احترام تمام اُردو دنیا آج تک کرتی ہے۔۔خاں صاحب کو شاہ جہاں پور کی شعری فضاؤں سے والہانہ شغف تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس زمانے میں شاہ جہاں پور میں شعر و شاعری کا زیادہ غلغلہ تھا۔اس شاعرانہ رنگ کو رشید حسن خاں نے اپنی زندگی میں قبول کیا۔اسی وجہ سے ان کا پہلا مضمون بھی شاعری کی تنقید کے تعلق سے تھا۔شاعری ان کے خون میں رچی بسی تھی ۔اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شاہ جہاں پور کے مشہور شاعر عابدؔ شاہ جہاں پوری کے منتخب کلام کو جولائی1953میں، رسالہ الحمرا(لاہور)کے مدیر حامد علی خاںکو ایک نوٹ کے ساتھ ارسال کیا تھا۔اس انتخابِ کلام سے میں صرف ایک غزل کے چند اشعار قارئین کی نذر کر رہا ہوں تاکہ آپ رشید حسن خاں کے ادبی ذوق کا اندازہ لگا سکیں:
مرسلہ رشید حسن خاں
شاہ جہاں پور
’’ذیل میں دلؔ صاحب کے ایک محنتی شاگرد جناب عابد شاہ جہاں پوری کی تین غزلوں کا انتخاب درج ہے۔اگر آپ ’’الحمرا‘‘ میں شامل کر سکیں تو بسم اللہ۔
رشید
1
چُپ ہوں اُٹھا کے پردہ در کُچھ نہ پوچھئے
ٹکرا گئی نظر سے نظر کچھ نہ پوچھئے
تنہائیوں کا لُطف کہاں راہِ عشق میں
ناصح بھی ہے شریکِ سفر کچھ نہ پوچھئے
دیر و حرم سے کوئی تسلی نہ ہو سکی
مجھ سے مرا مذاقِ نظر کچھ نہ پوچھئے
(رسالہ الحمرائ،جولائی1953،ص25)
رشید حسن خاںنے شاعری کو تنہائی میں سننے اور گنگنانے کی چیز تسلیم کیاہے۔شید حسن خاںنے اخبارات و رسائل کے لیے کچھ انٹرویو بھی دیے تھے۔ان انٹرویو میں رشید حسن خاں نے اپنی علمی،ادبی اور ابتدائی زندگی کے بارے میں صاف صاف بتایاکہ انھوں نے اپنی زندگی میںکئی ادبی کارنامے انجام دیے ہیں۔موصوف نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز اور پہلے مضمون کی اشاعت کے متعلق ایک انٹرویومیں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’بھئی یہ تو مجھے اچھی طرح یاد نہیں، لیکن یہ بات خوب یاد ہے کہ میرے لکھنے کا آغاز شاعری کی تنقید سے ہوا تھا۔ شاعری آج بھی مجھے پسند ہے اور تنہائی کے لمحوں میں میں شعری مجموعہ ضرور پڑھتا ہوں۔ وہ میرا بہترین رفیق ہوتا ہے۔ مجھے اپنا ایک پرانا مضمون یاد آتا ہے۔ جو غالباً 1950 میں نگار میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کا عنوان تھا ’شبلی کی فارسی شاعری‘۔ اسی زمانے میں یا اس سے کچھ پہلے یا بعد میں ایک مضمون احمد ندیم قاسمی کی قطعات نگاری پر میں نے لکھا تھا۔ تو میرے لکھنے کا آغاز شاعری کی تنقید سے ہوا اور اس سے مجھے اپنے ذوق کی تربیت میں بہت مدد ملی۔‘‘
( ہماری زبان انجمن ترقی اُردو (ہند)نئی دہلی، رشید حسن خاں نمبر،ص 20 ، یکم تا28 ؍ستمبر ،2006)
رشید حسن خاں کا رجحان ابتدا ہی سے شاعری کی زبان و بیان کی جانب تھا۔’’شبلی کا فارسی تغزل‘‘مضمون کے شائع ہونے سے پہلے اور بعد میںبھی رشید حسن خاںرسائل و جرائد میں شاعری کی زبان و بیان پر اپنا اظہار خیال پیش کر چکے تھے۔ رسالہ الحمرا ئ کا جولائی1952کے شمارے میں رشید حسن خاں نے غزلوں اور نظموں اسلوب و زبان پر اظہارِ خیال خط کی شکل میں پیش کیا۔مدیرِ رسالہ حامد علی خاں کے نام لکھے گئے اس خط میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ موجودہ دور میں شاعر حضرات شاعری کی زبان اس کے بیان اور اسلوب کی جانب توجہ مبذول نہیں کر رہے ہیں۔رشید حسن خاں کے اس طویل خط کا شاعری سے متعلق ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ کیجیے کہ خط لکھتے وقت رشید حسن خاں کی عمر محض27برس ہے ۔لیکن خط کی سطور پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی 60سال کا عمر رسیدہ اور تجربہ کار شخص پُر مغزاور عالمانہ باتیں تحریر کر رہا ہے: (یہ بھی پڑھیں شہناز نبی ؔکی شاعری میں تانیثیت کے بنیادی مسائل اور مباحث: ایک تجزیہ (شعری مجموعہ’’ اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ کے تناظر میں) – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
’’دوسری بات یہ ہے کہ آج کل نئے غزل گو شعرا ،میں ایک عجیب رجحان بڑھ رہا ہے۔یہ حضرات غزل اور نظم میں اسلوب و زبان کے اعتبار سے کوئی فرق محسوس نہیں کرتے نتیجہ یہ ہے کہ ان کی غزلیں حسن تغزل اور شیرینی و گداز سے معرا ہوتی ہیں۔غزل کی زبان ،نظم کی زبان سے بالکل علاحدہ ہوتی ہے لیکن یہاں ہر چیز ایک ہی میزان پر تولی جاتی ہے۔غزل بڑی کافر صنفِ سخن ہے اس میں اُس وقت تک نکھار پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کہ دل خون نہ ہو جائے۔اس شمارہ میں دوسری غزلوں کے علاوہ تاجور صامری کی غزل خاص طور پر محل نظر ہے۔انھوں نے اس کی ردیف ہی غیر متغزلانہ کہی ہے،پھر اور کس چیز کو کہا جائے۔‘‘
(رسالہ الحمرائ،لاہور،مدیر حامد علی خاں،جلد 5،جولائی 1953،ص43)
جیسا کہ میں ما قبل عرض کر چکا ہوں کہ رشید حسن خاں نے ادبی رسائل و جرائد میں بھی کام کیا۔دہلی یونی ورسٹی کے جریدے ’’اُردوے معلی‘‘میں ان کا نام مشاورتی کونسل میں شامل تھا۔غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے ششماہی مجلہ ’’غالب نامہ ‘‘میں موصوف قیام دہلی تک مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔غالب نامہ میں رشید حسن خاں نے نہ صرف لا تعداد کتابوں پر تبصرے کیے بل کہ غالب شناسی کے حوالے سے مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔اس ادارے نے رشید حسن خاں کی خدمات کے عوض 1979میں غالب ایوارڈ سے نوازا۔ساتھ ہی ان کے نا مکمل پروجیکٹ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘کی تین جلدیں،( جلد اول 2017، جلد دوم2018اور جلد سوم2019،بہ اشتراک انجمن ترقی اُردو (ہند )نئی دہلی ) شائع کی ہیں۔
رشید حسن خاں نے ادبی صحافت کے معیار و افتخار کو بلند کرنے کے کچھ تجاویز بھی قارئین کے سامنے رکھیں۔یہ تجاویز اصل میں ان کے مضمون ’’ادب اور صحافت‘‘میں موجود ہیں۔اس مضمون میں رشید حسن خاں نے ادب اور صحافت کے دبیز رشتے پر اپنی راے کا اظہار کیا ہے۔ان کی نظر میں ادب اور صحافت ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ادبی تحریروں اور اخباری خبروں میں زمین اور آسمان جیسا فرق نمایاں ہوتا ہے۔رشید حسن خاں نے اخبار کے اداریے کو اخبار کی جان قرار دیا۔صحافتی خبروں کے ضمن میںان کا ماننا ہے کہ صحافی فساد سے متعلق ہر ایک واقعے کوتجارت کے زاویے سے جب کہ ادیب اسے معاشرے میں رونما ہونے اثرات اور تبدیلیوں کے طور پر دیکھتا ہے۔حادثہ کن لوگوں کی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟کو ن افسانہ نگار بہتیرین طریقے سے ادبی تحریروں کے ذریعے افسانے کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتا ہے؟ان تمام باتوں کا احاطہ رشید حسن خاں نے اس طرح کیا ہے:
’’یہ مشہور بات ہے کہ صحافت اور ادب میں تضاد کی نسبت ہے۔روزانہ اخبار کا پہلا صفحہ اگر ہمارے سامنے ہو تو اپنے آپ معلوم ہو جائے گا کہ اخبار ی خبروں میں اور ادبی تحریروں میں کیا فرق ہوتا ہے۔اخبار کا اڈیٹوریل بڑی اہم چیز ہوتا ہے،مگر یہ بھی مبنی ہوتا ہے کسی خاص خبر پر ،اگر چہ اصل خبر کے مقابلے میں وہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ایک اخبار میں اگر اڈیٹوریل کے دو یا تین حصے ہیں یعنی دو یا تین عنوانوں کے تحت دو یا تین مختلف تحریریں ہیں ،تو وہ سب بھی کسی نہ کسی خاص خبر ہی سے متعلق ہوں گی۔خبروں میں اور اُس نوٹ میں جو فرق ہوتا ہے اُس کو انداز پیش کش سے متعلق سمجھا جا سکتا ہے۔اس صورت میں مطلب یہ نکلے گا کہ سارا معاملہ’کیسے لکھا گیا ہے‘سے تعلق رکھتا ہے۔اس کے با وجود روزانہ اخبار کے شاید ہی کسی اڈیٹوریل کو ادبی تحریر کہتے ہوں،اور اس سے ظاہر ی طور پر یہی مطلب نکلتا ہے کہ ادبیت کے لیے صرف انداز پیش کش کا مختلف ہونا کافی نہیں،اصل بات کو بھی ادب کے دائرے سے متعلق ہونا چاہیے۔مگر یہاں ایک اور مشکل صورت حال سے ہم کو دو چار ہونا پڑتا ہے ۔مثلاً اخبار میں کسی فساد سے متعلق ایک خبر چھپی ،ایڈیٹر نے اُس پر ایک پُر زور اداریہ لکھا۔اس کے کچھ دنوں کے بعد اسی فساد پر مبنی ایک افسانہ چھپا اور اب معلوم ہوا کہ اس خبر اور اس اڈیٹوریل نوٹ کو اس افسانے سے کوئی نسبت ہی نہیں،جب کہ بنیاد ان تینوں کی ایک ہی ہے۔افسانہ تو ادب پارہ قرار پایا اور وہ دونوں تحریریں اخباری چیزیں بن کر رہ گئیں۔‘‘ ( یہ بھی پڑھیں ڈرامہ ’’ضحاک‘‘کی عصری معنویت – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
(اُردو صحافت اور امکانات،مرتب ڈاکٹر ہمایوں اشرف،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2006،ص 55)
رشید حسن خاں نے ادیب اور صحافی کے مابین فرق کو مثالوں سے واضح کیا۔انھوں نے اس ضمن میں 1912میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے مسئلے پر ہونے والی گرما گرم بحثوں کو بہ طور مثال پیش کیا۔ان کا ماننا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے متعلق جو رپورٹیں مولاناابوالکلام آزاد نے25اگست1912سے 12اپریل1913تک ’’الہلال‘‘میں ’’تشنۂ شام کی نصف شب ‘‘ اور’’حدیث الغاثیہ ‘‘کے عنوان سے شائع کیں،ان کی اہمیت سو سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مسلّم ہے۔لیکن اگر ہم اسی زمانے کے کسی اخبار کو دیکھیں جن میں علی گڑھ سے متعلق رپورٹیں شائع ہوئی ہیں تو معلوم ہوگا کہ آج ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔اس کے لیے رشید حسن خاں نے اسلوب اور رنگِ سخن،اندازِ فکر کو ذمہ دار ٹھہرایاہے۔
رشید حسن خاں نے اُن ادیبوں پر بھی تنقید کی جنھوں نے ادیب ہوتے ہوئے صحافتی رنگ میں ڈوب کر افسانے اور غزلیںلکھیں۔دوسرے لفظوں میں ادیبوں نے ادب کو کاروبار بنایا۔ایسے تاجر ادیبوں نے جہاں ایک جانب ادب کو نقصان پہنچایا وہیں دوسری جانب انھوں نے صحافت کا بھی حق ادا نہیں کیا۔رشید حسن خاں نے کرشن چندر کی افسانہ نگاری اور ان کی صحافتی خدمات کی مثال قارئین کے سامنے پیش کی۔رشید حسن خاں کے نزدیک کرشن چندر نے شہرت کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد اپنے افسانوں میں صحافیانہ رنگ پیش کیا۔ اس کے بر عکس خواجہ احمد نظامی کی صحافیانہ سوجھ بوجھ اور ان کی ادبی خدمات کے رشید حسن خاں معترف ہیں۔مولانا محمد علی جوہر کی ادبی اور صحافتی خدمات کے بھی وہ قائل تھے۔ادب اور صحافت کے اس امتزاج کو واضح کرتے ہوئے رشید حسن خاں یوں رقم طراز ہیں:
’’اُردو میں صحافیانہ ادب کی کمی نہیں ۔اس سرمایے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب لوگ یا تو وہ تھے جو ادب کو صحافت کے انداز سے تجارت کا مال خیال کرتے تھے،یا وہ لوگ تھے جن کے یہاں یہ دونوں لہریں اٹھتی ،پھیلتی تھیں،یوں کبھی ادبیت چمک جاتی تھی،کبھی صحافیانہ انداز غالب آ جاتا تھا۔اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ بڑا ادیب اور سچّا ادیب وقتی اور ہنگامی مفاد کو مطمح نظر قرار نہیں دیتا۔اس سطحیت کو وہ اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے جو خسار ے کا سودا کرنے کے قائل نہیں ہوتے اور ہر قیمت پر اور ہر انداز سے دنیا وی کامیابی کو اصل چیز سمجھتے ہیں۔آخر میں یہ بات بھی کہنے کی ہے کہ’’ادبی صحافت‘‘اور ’’صحافیانہ ادب‘‘میں جو فرق ہے ،اسے ضرور رکھنا چاہیے۔اس لفظ یعنی ’’ادبی صحافت‘‘کو اگر ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر اس کا اطلاق ادبی یا نیم ادبی رسالوں پر بہتر طور پر ہوگا۔مگر یہ ایک الگ اور ایک مستقل موضوع ہے جو ایک مفصل مقالے کا طلب گار ہے،اسی لیے میں اس تحریر میں جس کا مقصد ادب اور صحافت کے ربطِ باہم پر کچھ گفتگو کرنا ہے،ادبی رسائل یا یوں کہیے کہ ادبی صحافت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا۔
(اُردو صحافت مسائل اور امکانات،مرتب،ڈاکٹر ہمایوں اشرف،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی، 2006،ص61)
رشید حسن خاں نے اُردو اخبارات و رسائل کو جتنے بھی انٹرویو دیے اُن سب میں موصوف نے ان باتوں کا تذکرہ ضرور کیاجن کا واسطہ ان کی ادبی زندگی اور کارناموں سے تھا۔انھوں نے اپنے پاکستانی دوروں کے دوران وہاں کے رسائل و اخبارات کے لیے خصوصی انٹرویو عالمی ادب کے بدلتے منظر نامے اور اُردو املا کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے دیے۔ان انٹرویوز میں رشید حسن خاں نے ادبی صحافیوں کے سوالات کے جواب تفصیل کے ساتھ دیے۔رسالہ نقوش کے لیے رشید حسن خاں کا انٹرویو جب ریکارڈ کیا گیا تو اُس میں سب سے زیادہ سوال اُردو املا اور رسم الخط پر پوچھے گئے۔اس انٹرویو میں جن لوگوں نے حصہ لیا اس میں اکرام چغتائی،عطا الحق قاسمی،تحسین فراقی بیدار سرمدی،معین الرحمن،رفیع الدین ہاشمی ،اور محمد طفیل جیسے مایہ ناز قلم کار اور ادیب شامل تھے۔اس انٹرویو میں کُل 16بار رشید حسن خاں مذکورہ بالا ادبی شخصیات سے مخاطب ہوئے۔اکرام چغتائی نے اس انٹرویو میں سوالات کی ابتدا کرتے ہوئے رشید حسن خاں سے اُردو املا کے موضوع پرسوال پوچھا۔اس سوال میں یہ بھی معلوم کیا گیا کہ اُردو املا پر انجمن ترقی اُردو نے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مرحوم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔اس کے بعد اُردو بیورو(دہلی)نے بھی ایک ایسی ہی کمیٹی بنائی ۔ان کمیٹیوںکی سفارشات کے بعدآپ نے ایک ضخیم کتاب ’’اُردو املا‘‘تحریرکی۔آخر اُردو املا کے موضوع پر لکھنے کے لیے آپ کے سامنے کیا محرکات تھے؟اس سوال کے جواب میں رشید حسن خاں نے بڑے بے باک انداز میں اُردو املا اور اس سے وابستہ افراد کی سرگرمیوں اور کارکردگیوں پر جواب دیے۔رشید حسن خاں نے اپنے جواب میں بتایا کہ موجودہ دور میں ایک ایک لفظ کی کئی کئی شکلیں کاتب حضرات کی مہربانی سے رائج ہیں۔یہاں تک کہ اساتذہ کو بھی معلوم نہیں کہ کس لفظ کو کس طرح لکھا جائے۔ان تمام باتوں کے مد نظر میںنے اُردو املا کی جانب توجہ مبذول کی ۔رشید حسن خاں نے مزید یہ بھی بتایا کہ انھوں نے اپنی جانب سے کوئی نیا کام نہیں کیا ہے بل کہ1944میں جو کمیٹی اُردو املا کے متعلق بنائی گئی تھیں ،اُسی کی سفارشات پر میں نے عمل کیا ہے۔رشید حسن خاں نے یہ بھی کہا کہ اُردو املا اور اُردو رسم الخط دونوں الگ الگ ہیں۔اکثر لوگ ان دونوں کو ایک ہی شے تسلیم کر لیتے ہیں ۔انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی کتاب اُردو املا کی روشنی میں افسانہ نگاروں اور شاعروں کے علاوہ اخبارات و رسائل میں اب وہی املا رائج ہے جس کی سفارش انھوں نے کی تھی۔اُردو املاسے متعلق مزید تفصیلات کے لیے رشید حسن خاں کا جواب ملاحظہ کیجیے:
’’ اُردو کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک کوئی لغت جدید اصولوں کے مطابق مرتب نہیں ہوئی۔اس بنا پر اُردو الفاظ کے معانی کا تعین تو ہوتا ہے۔لیکن املا کا تعین نہیں ہوتا بالعموم ہماری کتابیں کاتب لکھتے ہیں۔اگر ایک کتاب چار جلدوں میں ہے اور اسے چار کاتبوں نے لکھا ہے ممکن ہے کہ ایک لفظ کی ایک سے زیادہ املا کی شکلیں ان جلدوں میں پائی جائیں ۔انگریزی کی کوئی لغت اُٹھا لیں اس میں آپ کو ہجے کا تعین ملے گا۔معانی کا تعین ملے گا اور استعمال کا تعین ملے گا۔اس کے بر عکس اُردوکی لغت دیکھیں تو اس میں استعمال کا تعین ہوگا،معانی کا تعین ملے گا۔لیکن املا کا تعین نہیں ہوگا۔کیوں کہ یہ کاتب پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں اسرار گاندھی کا افسانہ ’’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘‘کا تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹرابراہیم افسر )
سب سے پہلے انجمن نے اس پر توجہ کی ۔کیوں کہ زبان کے لیے یہ بات باعث خوبی نہیں ہے کہ اس میں املا کے ضابطے تعین نہ ہوں۔میرے خیال میں تھا کہ اُردو لغت مرتب کرتے وقت تو الفاظ کو کیسے لکھا جائے گا۔اب دیکھئے کہ لغت میں لفظ درج ہوتے ہیں ۔حروف تہجی کی نسبت سے مثال کے طور پر میں ایک لفظ لیتا ہوں’مہندی‘۔مہندی کو کچھ لوگ لکھتے ہیں(م ن ہ د ی)۔کچھ لوگ لکھتے ہیں(م ہ ن د ی)۔۔۔لغت میں یہ لفظ دوسری فصل میں آئے گا۔جب تک آپ یہ طے نہیں کریں گے کہ اس لفظ کا معیاری املا کیا ہے؟اس وقت تک لغت میں اس لفظ کے اندراج کی صحیح شکل متعین نہیں کی جا سکتی ہے۔
اس صورتِ حال نے مجھے متوجہ کیا کہ میں اس موضوع پر کچھ کام کروں۔چناں چہ میں نے1960کے اواخر میں اس موضوع پر با قاعدہ طور پر کام شروع کیا۔مرحوم ڈاکٹر عبدالستار صدیقی اس زمانے میں زندہ تھے اور وہ واحد شخص تھے جو املا کے معاملے میں اپنی ساری عمر صرف کر چکے تھے ۔میں نے ان سے ہدایت اور رہنمائی کی درخواست کی تو انھوں نے بڑی خوشی سے ہاں کر دی۔1972میں مسلسل 12سال کی کوشش کے بعد میں اپنی کتاب ’’اُردواِملا‘‘کو مرتب کر سکا۔جس میں ان ساری چیزوں کو یکجا کر دیا گیا ہے جو اب تک لکھی گئیں تھیں۔ان میں بنیاد بنایا گیا ہے انجمن ترقی اُردو کی املا کمیٹی کے اس فیصلے کو جو1944میں کیا گیا تھا۔اس کتاب میں ،میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہی میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے اور وہ مستند قابل قبول اور معیاری ہے۔اسے یکجا کر دیا جائے اس میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ املا اور رسم خط دو الگ چیزیں ہیں ۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو گڈ مڈ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ہم رسم خط میں اصلاح چاہتے ہیں ۔حالاں کہ رسم خط میں اصلاح نہیں ہوتی۔۔۔اصلاح ہوتی ہے املا میں ۔رسم خط نام ہے روش کا۔۔۔املا نام ہے لفظوں میں حرف کے تعین کا۔اور اس کے لکھنے کے طریقے کا۔غرض اس سات سو صفحات کی کتاب میں میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اس میں سارے مسائل یکجا ہو جائیں۔مجھے مسرت ہے کہ اس زمانے میں جب کہ زبان اور قواعد کی طرف توجہ کم ہے اس کتاب کی۔بڑے اثرات ظاہر ہوں گے علاوہ اور اثرات کے۔۔۔مجھے بہت تعجب ہوا کہ بمبئی سے دو افسانہ نگار وں کے مجموعے آئے۔ان دونوں مجموعوں کے سر ورق پر لکھا ہے کہ اس کتاب کا املا رشید حسن خاں کی کتاب اُردوا ملا پر لکھا گیا ہے۔ہمارے یہاں جب کوئی شخص لکھنے بیٹھتا ہے تو اس وقت وہ سوچتا ہے کہ میں کیسے لکھوں۔یہ خیال اس سے پہلے نہیں آتا یعنی املا نے ہمارے یہاں موضوع کی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔میں نے کوشش کی ہے کہ اس کو یہ اہمیت حاصل ہو جائے اور آدمی جب لکھنے بیٹھے تو اس کے ذہن میں ہو کہ اس لفظ کو کیسے لکھنا ہے۔‘‘
اُردواملا،تنقید اور تحقیق کے متعلق ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے رشید حسن خاں سے ایک طویل انٹرویو 25جنوری 1989کو خدا بخش لائبریری ،پٹنہ میں لیا ۔اس انٹرویو میں خاں صاحب نے تحقیق ،تدوین اور اُردو املا کے اُن محرکات اور اسباب کی جانب زیادہ توجہ مبذول کی جن کی طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا۔باور رہے کہ ایک زمانے میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ،رشید حسن خاں سے اُردو املا کے مسائل اور ان کا حل سے متعلق سوالات بہ ذریعہ خطوط معلوم کرتے تھے۔جب تک رشید حسن خاں زندہ رہے تب تک ممتاز احمد خاں ان سے مستفیض ہوتے رہے۔ممتاز احمد خاں نے رشید حسن خاں کو 40سے زائد خطوط ارسال کیے جو ’’رشید حسن خاں کے خطوط ‘‘جلد اول مرتب ڈاکٹر ٹی ۔آر۔ رینامیں شامل ہیں۔اس انٹر ویو میں ڈا کٹرممتاز احمد خاں نے قاضی عبدالودود اور امتیاز علی خاں عرشی جیسے بزرگ محققین کے بعد اُردو تحقیق کی سمت و رفتار کی حالتِ زار پرسوال دریافت کیے۔جب ممتاز احمد خاں نے رشید حسن خاں سے یہ سوال معلوم کیا کہ آپ نے تحقیق کا کام کس کس میدان میں کیا ہے؟یعنی شاعری کی تحقیق ،تلفظ و املا اور محاورات کی تحقیق اور تحقیقی غلطیوں کی تحقیق وغیرہ۔اس سوال کے جواب میں رشید حسن خاں نے فرمایا کہ میری زیادہ تر توجہ کا مرکز ادبی تحقیق ہے۔در اصل رشید حسن خاں تحقیق کو گم شدہ حقائق کی بازیافت کو ہی اصل تحقیق گردانتے ہیں۔اپنے جواب میں رشید حسن خاں نے سوال قائم کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دانش گاہوں میںجو تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں ان میں سے کتنے مقالے تحقیق کے زمرے میں آتے ہیں؟ کتنے طالب علم صحیح معنوں میں تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔رشید حسن خاں زندہ لوگوں پر تحقیقی مقالے لکھنے کے سخت مخالف تھے۔اس انٹرویو میں خاں صاحب نے ادبی تحقیق ،املا اور تلفظ پر بہت ہی کا رآمد باتیں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کو بتائیں۔ان تمام باتوں کی مزید وضاحت کے لیے موصوف کا جواب ملاحظہ کیجیے:
’’میری توجہ زیادہ تر ادبی تحقیق پر رہی ہے ۔ادبی تحقیق ایک جامع لفظ ہے ،اس میں سب کچھ شامل ہے ،ادب کی ساری اصناف اور ان سے متعلق حقائق ۔جیسا کہ آپ معلوم ہے تحقیق در اصل گم شدہ حقیقتوں کی باز یافت کا دوسرا نام ہے، یعنی وہ حقیقتیں جو موجود تھیں لیکن اب ہم کو صحیح طور پر معلوم نہیں ۔ان کو دوبارہ دریافت کرنا تاکہ علم میں صحیح طور پر اضافہ ہو سکے اور واقعات کو صحیح طور پر ترتیب دیا جا سکے ۔تحقیق کا یہی مقصد ہوتا ہے۔یہاں پر ضمنی طور پر میں ایک بات کہہ دوں ،میں نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور لکھی ہے کہ زندہ لوگوں کو جو تحقیق کا موضوع بنایا جاتا ہے میں اس کو تحقیق کے لیے زہرِ قاتل سمجھتا ہوںاور اسے نہایت درجہ غیر تحقیقی کام قرار دیتا ہوں یا یہ کہ ایسے عنوانات جو تحقیق کے ذیل میں دراصل نہیں آتے ان کو اختیار کیا جاتا ہے مثلاً ’’پریم چند کے ناولوں میں عورت کا کردار‘‘،’’کرشن چندر کے ناولوں میں سماجی حقیقت نگاری‘‘ ایسے کام کو ہم تحقیق کے ذیل میں نہیں لا سکتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اور ایسے سب موضوعات تعبیرات پر مبنی ہوتے ہیں۔تحقیق حقائق کی باز یافت ہے۔محقق حقائق کی تشکیل نہیں کرتا حقائق کا سراغ لگاتا ہے اس لیے کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ہمیں پوری طرح یا صحیح طور پر معلوم نہیں۔چوں کہ میں عربی اور فارسی کا ذوق ساتھ لے کراس میدان میں آیا تھا ،ان زبانوں میں ان چیزوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے اس لیے مجھے اس کا خاص خیال رہتا تھا کہ جب کوئی لفظ میری زبان سے ادا ہو یا میرے قلم سے نکلے تو مجھ کو یہ بات معلوم ہو کہ اس لفظ کا تلفظ کیا ہے؟اس کا املا کیا ہے؟اس کے معنی کیا ہیں؟اور اس کا محلِ استعمال کیا ہے۔تو مجھے یہ ذوق پیدا ہوا کہ یہ سب باتیں معلوم کروں اور اس میں چیزیں بڑھتی گئیں۔‘‘ (یہ بھی پڑھیں ’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘خاکوں کا گنجینۂ گوہر- ڈاکٹر ابراہیم افسر )
رشید حسن خاں زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے کے قائل نہیں بل کہ اس امر کے سخت مخالف ہیں۔اپنے مخالف رویے کی ایک وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے سے تحقیق کا حق ادا نہیں ہوتا اُلٹاتحقیق کا وقار اس کی عزت و آبرو مجروح ہوتی ہے۔ خاں صاحب کے نزدیک ایسی تحقیق، تحقیق نہیں بل کہ تحقیقی کاروبار ہے یعنی ’’منجملہ سامانِ تجارت‘‘۔اس کاروبار میں ایسے اساتذہ مہارت رکھتے ہیں جن کے پاس تحقیق کے لیے وقت ہی نہیں۔وہ اپنی آسانی کے لیے طلبہ کو زندہ لوگوں پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی صلاح دیتے ہیں۔اس وجہ سے طلبہ زندہ لوگوں پر اپنی تن آسانی اور اُستاد کی خوشی کے لیے تحقیقی مقالہ تحریرکرتے ہیں۔جب کہ تحقیق ایک صبر آزما کام ہے۔رشید حسن خاں کا یہ بھی ماننا تھا کہ زندہ لوگوں پر تحقیق کرنے سے سچ سامنے نہیں آتا ۔بل کہ زندہ شخص اپنے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں بتاتا ہے۔رشید حسن خاں نے اس پورے عمل کو’’ چور دروازہ‘‘ قرار دیا۔ان تمام باتوں کا احاطہ رشید حسن خاں نے شبنم رومانی،مدیر رسالہ اقدار(کراچی)کو دیے گئے انٹرویو میں کیا۔اس انٹرویو میں شبنم رومانی نے تحقیق کے علاوہ شاعری اور تدوین پر بھی سوالات معلوم کیے۔رشید حسن خاں نے بڑے ہی خندہ پیشانی سے شبنم رومانی کے سوالات کا جواب دیا۔اس اہم گفتگو کے چند پیرا گراف ملاحظہ کیجیے جن کا تعلق زندہ شخصیات پر تحقیق کرانے سے ہے:
’’یہ سوا ل اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ یہ اصول تحقیق ہی کا نہیں ،بل کہ تحقیق کی عزّت و آبرو کا بھی مسئلہ ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کی دانش گاہوں کے اس سلسلے میں ضابطے کیا ہیںاور وہاں احوال کیا ہے، لیکن یہ میں خوب جانتا ہوں کہ ہندوستان کی دانش گاہوں میںاس غیر تحقیقی کاروبار کی بڑی گرم بازاری ہے۔اس وقت جو ایک لہر چلی ہے آسان پسندی کی اور اُس کے تحت یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ابھی زندہ ہیں اُن کو موضوعِ تحقیق بنایا جائے ۔آپ نے ایک ٹیپ ریکارڈر لیا،ایک سوال نامہ مرتب کیا ،کچھ گفتگوئیں ٹیپ کر لیں،کچھ سوالوں کے جواب لکھوا لیے اور مقالہ تیار ہو گیا ۔کئی لحاظ سے یہ نہایت درجہ غلط طریقۂ کار ہے۔اُس کی زندگی مکمل نہیں ہوئی،آدمی کے خیالات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔سو آپ ایک نا تمام اور نا مکمل زندگی کے متعلق جو کچھ کر رہے ہیں ،چند روز کے بعد اس کی کیا حیثیت ہوگی؟‘‘
رشید حسن خاں نے تحقیق کے اصول اور طریقۂ کار سے متعلق بھی اس گفتگو میں سوالات کے جواب دیے۔موصوف صاحب حیثیت اور صاحب اقتدار لوگوںپر تحقیق کرنے کے بھی مخالف تھے۔ان کی نظر میں ایسے لوگ تحقیق کا حق ادا نہیں کر پاتے۔اس ضمن میں ان کا ماننا تھا:
’’اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ۔اُس میں سچ بولنا بہت مشکل ہے۔جو شخص زندہ ہے ،وہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ اقتدار بھی ہے،یا کسی بھی حیثیت سے وہ شہرت رکھتا ہے،اُس کے متعلق آپ صحیح بات معلوم کر سکیں۔یا معلوم ہو جائے تو اس کو کہہ بھی سکیں یہ مشکل ہے۔اگر تحقیق حقیقت کی باز یافت کا کام ہے جیسا کہ ہے ،تو بازیافت کا عمل مکمل اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ اُس کو پیش کریں،لیکن اگر آپ اظہار پر قادر نہیں ،تو ساری بازیافت بے کا ر ہو جائے گی ۔ایک بات اور :ہم جب اصولِ تحقیق پڑھاتے ہیں تو اپنے طالب علم کو ایک یہ بات بھی بتاتے ہیں کہ عام طور پر آدمی سب سے زیادہ جھوٹ بولتا ہے اپنے متعلق یا اپنے خاندان کے متعلق ۔جن لوگوں نے ایسے بیانات دیے ہیں،اِسی لیے ہم اُنھیں بلقطہہ اور بجنسہٖ قبول نہیں کرتے۔ہم تحقیق کرتے ہیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے،صحیح بھی ہے کہ نہیں۔
اس سے زیادہ اندوہ نا ک بات یہ ہے کہ جس طالبِ علم نے کسی زندہ شخص کو موضوع تحقیق بنایا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے آسان پسندی کا خوگر ہوجاتا ہے۔وہ اس کا بھی اعلان کرتا ہے کہ وہ اصولِ تحقیق سے با خبر نہیں اور دوسرا اس کانقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی فخر کے ساتھ اپنی اس کاوش کو پیش نہیں کر سکتا۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ اکثر صورتوں میں اُس غریب کی محنت اور کاوش کا فائدہ پہنچتا ہے اُس کے نگراں کو،یا اُس صدر شعبہ کو جس نے وہ موضوع تجویز کیا ہے۔اِس وقت اِس طرح کی تحقیق یعنی زندہ لوگوں کو موضوعِ تحقیق بنانا،یہ ایک طرح سے ’’منجملہ ٔسامانِ تجارت‘‘بن گیا ہے۔طالب علم غریب کے حصے میں کچھ نہیں آتا،لیکن جس شخص کو موضوعِ تحقیق بنایا گیاہے اس سے وہ نگراں یا استادِ اعلا مختلف سطحوں پر یا مختلف نسبتوں اور واسطوں سے دنیا وی فائدے اُٹھاتا ہے اور اُس کی اُس طالبِ علم کو تو خبر بھی نہیں ہوتی۔ (یہ بھی پڑھیں ”ذہن زاد“ کا تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
پھر ایک بات اور:آپ ایک فہرست بنایئے ایسے لوگوں کی جن کو اب تک موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے اور ابھی تک زندہ ہیں۔آپ دیکھیں گے کہ اُن میں اکثر یت ایسے ایسے بے تہہ اور کم رُتبہ لوگوں کی ہے جن کی کسی موضوع میں کوئی حیثیت نہیں۔ ہاں اِس دُنیا کے اقتدار کے لحاظ سے،یا شہرت کے لحاظ سے ،یا کسی اور نسبت سے ،ان کی ایک حیثیت ہے۔تو یہ بات بجاے خود اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کا فی ہے۔دیکھیے ہم تحقیق کی تعریف پڑھا تے ہیں کہ تحقیق حقائق کی بازیافت کا نام ہے۔اس کا مطلب کیا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ جو کبھی ظہور پذیر ہوا تھا لیکن جس کے متعلق ہماری معلومات یا تو نہیں ہیں یا نا تمام اور نا قص ہیں،اُس کو صحیح صورت میں دریافت کیا جائے۔یہ بڑا صبر آزما کام ہے ۔یہ کیسی عجیب صورتِ حال ہے کہ آپ چند آدمیوں سے یا کسی ایک ایک شخص سے چند بیانات لے کر سمجھیں کہ آپ نے حقائق کی باز یافت کا حق ادا کر دیا !یہ ہو نہیں سکتا۔ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں آپ اُن لوگوں کی ایک فہرست بنایئے جو بہت مشہور ہیں۔اقبالؔ سے لے کر ابوالکلام آزاد تک ۔یہ بہت مشکل ہے کہ دونوں معاشروں میں آپ ایسے لوگوں کے متعلق صحیح حقائق کو بلا تکلف اور بلا تامّل پیش کر سکیں۔زندہ لوگوں کو موضوعِ تحقیق بنانایہ ایک ایسا عمل ہے ،جو ایک طرف تو طالب علم کو تحقیق کے حقیقی مقاصد سے بے خبر کر کے اُسے آسان پسندی کا خوگر بناتا ہے اور ہمیشہ کے لیے اُس کو اعلا نقطۂ نظر سے محروم کر دیتا ہے۔اس غیر تحقیقی عمل سے خود تحقیق بے آبرو ہو کر رہ جاتی ہے۔ایک بات اور:اب میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ بعض موجودہ اور سابق صدور شعبہ کی ذاتِ والا صفات پر اُن کے طالب علم بے طرح توجہ مبذول فرما رہے ہیں اور موصوف بہ خوشی اس کی اجازت دے دیتے ہیںکہ اُن کو موضوعِ تحقیق بنا یا جائے۔ستم بالاے ستم یہ کہ بعض حضرات پر تو بیک وقت دو دو طالب علم جو معاشی طور پر پریشان حال ہے اور مستقبل میں کسی سہارے کا خواہاں ہے،وہ سمجھتا ہے کہ شاید اسی طرح پتھر پگھل جائے اور اُسے آیندہ اس توسط سے ملازمت مل سکے۔‘‘
ڈاکٹر اطہر فاروقی نے رشید حسن خاں سے دو انٹرویو لیے۔پہلا انٹرویو1988میں اور دوسرا1990میں۔ڈاکٹر اطہر فاروقی کی شناسائی رشید حسن خاں سے زمانۂ طالب علمی سے رہی ہے۔پہلے انٹرویو میں خالص ادبی گفتگو ہے اور دوسرے انٹرویو میں سیاسی گفتگو۔در اصل رشید حسن خاں ہندوستان میں ہونے والی ہرادبی اور سیاسی تبدیلی سے با خبررہتے تھے۔ اطہر فاروقی نے اپنے پہلے انٹرویو میں رشید حسن خاں سے اُردو کی بقا ،اُردو تحقیق اور اُردواداروں میں رو نما ہونے والی ادبی سرگرمیوں سے متعلق سوالات دریافت کیے۔اُردو اداروں کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے رشید حسن خاں کا موقف یہ تھا کہ اُردو اداروں میں 31مارچ تک رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔اور یہ ادارے جہاں رقم خرچ ہونی چاہیے وہاں رقم خرچ نہیں کرتے۔اُردوادارے اب منصوبے اس اعتبار سے بناتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی رقم کو کس طرح سے اِدھر اُدھر کیا جائے۔رشید حسن خاں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب کوئی اہم پروجیکٹ اُردو اداروں کو ملتا ہے تو وہ اس کام کی جانب تب توجہ دیتے ہیں جب اس کے مکمل ہونے کی تاریخ نزدیک آنے لگتی ہے۔ایسی صورت میں پروجیکٹ کس طرح مکمل ہوگا یعنی جلد بازی میں کیے گئے کاموں میں غلطیاں ہی غلطیاں ہوں گی۔
رشید حسن خاں اُن طلبہ سے بھی خفا ہیں جو پی ایچ ڈی کی ڈگری صرف ملازمت پانے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔اس بارے میںان کا کہنا ہے کہ تحقیق تا عمر چلنے والا عمل ہے۔جو طلبہ صرف نوکری کے لیے تحقیق کے میدان میں آتے ہیں وہ اپنے اصل مقصد سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ایسے تمام افراد جن کے نزدیک تحقیق سہل پسندی کا نمونہ ہوتی ہے وہ تحقیق کے حقیقی معنوں سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے رشید حسن خاں کا مشورہ ہے کہ وہ تحقیق کے وقار کو مجروح نہ کریں۔اسی ضمن میں رشید حسن خاں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو شخص محقق نہیں وہ مدون بھی نہیں۔کیوں کہ تدوین ،تحقیق سے آگے کی چیز ہے۔رشید حسن خاں کے مطابق جو لوگ مشرقی علوم بالخصوص فارسی زبان سے نا بلد ہیں وہ تدوین کا حق ادا نہیں کر سکتے۔اُردو ادب کا قیمتی سرمایہ فارسی زبان میں ہی ہے۔ڈاکٹر اطہر فاروقی نے جب رشید حسن خاں سے یہ معلوم کیا کہ ہماری دانش گاہوں میں پی ایچ ڈی کے موجودہ نظام نے تنقید اور تخلیق کو خلط ملط کر دیا ہے ۔خود آپ سے یہ معلوم کرنا چاہوں گا کہ تنقید اور تحقیق کے دائرے کہاں کہاں ملتے ہیں؟تو موصوف نے تحقیق اور تنقید کے باہمی رشتے پر بڑے ہی طمطراق سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’تنقید اور تحقیق کے رشتوں کے خلط ِمبحث کی وجہ سے اُردو کے طالب علموں کے ذہنوں میں بڑا خلفسار ہے۔تحقیق کے تمام موضوع الگ الگ ہیں یعنی تحقیق،تنقید اور تدوین ۔تحقیق نام ہے سچایئوں کی تلاش کا، حقائق کی باز یافت کا اور تنقید ادبی شہ پارے کی قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے ۔یہ بالکل دوسری چیز ہے اور تدوین جسے اڈیٹنگ کہتے ہیں کسی پُرانے متن کو اصول اور آداب کے ساتھ مرتب کرنا ۔یہ تو سب الگ الگ چیزیں ہیں۔ہمارے یہاں جو زندگی کے دیگر شعبوں میں غلط مبحث ہے وہی یہاں بھی ہے۔تحقیق لفظ استعمال کرکے ہم کبھی تدوین مراد لیتے ہیں اور کبھی اس سے تنقید مراد لیتے ہیں۔یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اب ہمارے یہاں جتنے بھی موضوعات دانش گاہوں میں ایم فل اورپی۔ایچ ۔ڈی کے مقالوں کے لیے اختیارکیا گیا کہ’’کرشن چندر کے افسانوں میں سماجی حالات ‘‘تو اس موضوع کا تحقیق سے کچھ تعلق نہیں ۔ایک اور بات یاد رکھئے کہ تنقید میں اختلاف راے ہمیشہ رہے گا کیوں کہ تنقید تعبیرات کا نتیجہ ہوتی ہے جس میںنقاد کی ذاتی پسند نا پسند اور اس کی مزاجی کیفیات بڑا اہم رول ادا کرتی ہیں۔ایک مصنف کی ایک کتاب سے ایک نقاد جو نتیجہ اُخذ کرتا ہے ضروری نہیں کہ دوسرا بھی وہی نتیجہ اُخذ کرے۔ایک افسانہ ایک نقاد کی نظر میں بہت اچھا ہے مگر وہی دوسرے کی نظر میں بہت معمولی ہے۔لیکن تحقیق میں یہ اختلاف ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ اس میں صرف حقائق ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کس تاریخ کس سن میں پیدا ہوئے وہ یا تو غلط ہوگا یا صحیح ،اس میں تعبیر کی گنجایش ہیں۔یوں تحقیق تو حقائق سے بحث کرتی ہے ،تنقید صرف تعبیرات پر مبنی ہوتی ہے ۔یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ تنقید کو تحقیق کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر تحقیق سارے حقائق کا پہلے سے تعین نہیں کر دے گی تو تنقید اپنے کام کو انجام دے نہیں سکتی اور اگر اس کے بغیر انجام دے گی تو بڑے مغالطے پھیلیں گے۔مرحوم مجنوں گورکھپوری نے اس شعر کی روشنی میں میرؔ پر ایک مضمون لکھا تھا:
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
اور اس شعر کے حوالے سے میرؔکے ذہن کا تجزیہ کیا گیا تھا ،جب بتایا گیا کہ یہ میرؔ کا شعر ہی نہیں ہے بل کہ ایک دوسرے شاعر کا ہے تو تجزیے کی ساری عبارت زمیں بوس ہو گئی۔تو ہمارے یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ حقائق کا تعین کیے بغیر ہماری تنقید ہوا میں گرہ لگاتی ہے ۔تحقیق پہلے حقائق کا تعین کرے گی اور تنقید حقائق کی ان بنیاد پر نتیجہ نکالے گی ۔تنقید،تحقیق کی ہر حال میں محتاج ہے،جب کہ تحقیق تنقید کی نہیں ہے ۔مثلاً آپ یہ کہیں کہ قلی قطب شاہ کے کلام کا جائزہ لیں ،اس کے شعری محاسن کا تعین کریں،اس کے یہاں جو اجزا پائے جاتے ہیں :مثلاً رسموں کا بیان اور روایتوں کا بیان اور موسموں کا بیان اور جتنی چیزیں ہیںیہ سب تنقیدی حصہ ہیں،تحقیق سے اسے کوئی واسطہ نہیں تو یہ غلط ہے۔یہ تعین تو تحقیق ہی کرے گی کہ وہ تمام چیزیں قلی قطب شاہ کی ہیں بھی کہ نہیں۔ہمارے یہاں اُستاد اور طالب علم دونوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ تنقید اور تحقیق کے دائرے کہاں ملتے ہیں اور کہاں سے الگ ہو جاتے ہیں۔یہ بہت ضروری ہے کہ ادب کے طالب علموں کے ذہن میں یہ واضح ہو کہ تحقیق ایک الگ چیز ہے ،تنقید بالکل دوسری اور تدوین یعنی Editingیہ بالکل مختلف فن ہے۔‘‘
ڈاکٹر اطہر فاروقی کو دیے گئے دوسرے انٹرویو(1990)میں رشید حسن خاں نے ملک کے سیاسی اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر اظہارِ خیال پیش کیا ہے۔مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک سبب ان کے نزدیک تعلیم کے میدان سے مسلمانوں کا غائب ہو جانا ہے۔اس کا ذمہ دار انھوں نے حکوت کو بھی مانا ہے۔
ڈاکٹرصاحب علی(اُستاد ،شعبۂ اُردو ممبئی یونی ورسٹی) نے رشید حسن خاں کا ایک انٹرویوممبئی میں1998کو لیا۔یہ انٹرویو روزنامہ انقلاب ،ممبئی کے شمارے میں شائع ہوا۔در اصل رشید حسن خاں اپنی بیماری کا علاج کرانے کے واسطے ممبئی جاتے تھے۔ممبئی میں ان کی رہایش اپنے ادب نواز دوستوں کے گھر ہوتی تھی بالخصوص پروفیسر عبدالستار دلوی کے یہاں وہ زیادہ دنوںتک ٹھہرتے تھے۔دہلی یونی ورسٹی سے ریٹائر منٹ کے بعداور اس سے قبل خاں صاحب اکثر ممبئی آتے جاتے رہے۔ممبئی یونی ورسٹی ہی میں انھوں نے فروری مارچ1992میں بہ حیثیت وزیٹنگ فیلو کام کیا۔اس کے علاوہ خاں صاحب نے اصول تحقیق پر شعبہ اُردو ممبئی یونی ورسٹی میں 24تا28فروری 1986میں پانچ لیکچر دیے۔1995میں مشرقی شعریات پر3لیکچر،1995میں ہی کلاسکی ادب کی تفہیم پر 3لیکچردیے۔اس کے علاوہ موصوف دکنی ادب کے سمینار پر بھی مقالہ پیش کیااور انٹرنیشنل املا سمینار میں بھی ان کی شرکت رہی۔یعنی رشید حسن خاں کا ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو سے رشتہ بہت خاص رہا۔
ڈاکٹر صاحب علی نے اس انٹرویو میں رشید حسن خاں سے اُردو زبان کے فروغ اور اس کے سمٹتے ہوئے دائرے کے بارے میں کافی سوال کیے۔جب ڈاکٹر صاحب علی نے رشید حسن خاں سے اُردو ادب کے معیار کے پست ہونے کے بارے میں سوال کیا تو خاں صاحب نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ایسا کہنا مشکل ہے۔کچھ اچھی چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ایک دوسرے سوال میں ڈاکٹر صاحب علی نے معلوم کیا کہ اُردو اخبارات ادب کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ تو اس بارے میں رشید حسن خا ں کا کہنا تھا کہ اُردو زبان و ادب کے فروغ میں اُردو اخبارات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔کیوں کہ اخبارات بالخصوص اُردو اخبار،اُردو زبان کے محافظ ہیں ۔خاں صاحب نے اس انٹرویو میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ اُردو کے پُرانے مراکز میں اُردو کا دائرہ سمٹ رہا ہے اور اس زبان کے نئے مراکز اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں۔خاں صاحب کا یہ بھی ماننا تھا کہ موجودہ زمانے میں ہماری یونی ورسٹیوں کو ایسے ٹیکنکل کورسیز اور ڈپلومہ شروع کرنا چاہئیں جو اُردو زبان و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کریں۔اس گفتگو میں خاں صاحب نے والدین کو اُردو زبان کے تئیں سنجیدہ رویہ اپنانے پر زور دیا تاکہ نئی نسل اُردو رسم الخط بہ خوبی واقف ہو جائے۔ان کے نزدیک رسم الخط کسی بھی زبان کی شناخت ہوتی ہے۔اگر شناخت یا پہچان ختم ہو گئی تو زبان کا وجود خود بہ خود ختم ہو جائے گا۔اس انٹرویو کے آخری سوال میں ڈاکٹر صاحب علی نے خاں صاحب سے انھیں ملنے والے یوپی اُردو اکادمی کے سب سے بڑے اعزاز ’’مولانا ابوالکلام آزاد انعام‘‘ کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بر جستہ یہ کہا کہ میں نے یہ انعام صرف انعام سمجھ کر قبول نہیں کیا بل کہ اس کے ساتھ ملنے والی خطیر رقم کو لینے کے لیے قبول کیاہے۔انعام کے بارے میں خاں صاحب نے مزید کہا کہ میرا کسی بھی گروپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے پھر مجھے اکادمی نے اس لائق سمجھا میں اکادمی کا شکر گزار ہوں۔اس انٹرویو کا آخری جواب ملاحظہ کیجیے جس میں رشید حسن خاں نے مولاناابوالکلام آزاد انعام1998(یو پی اُردو اکادمی ،لکھنؤ)کی روداد بڑے ہی دل چسپ انداز میں بیان کی ہے:
’’دیکھئے صاحب ! میں نے اس ایوارڈ کو کوئی اعزاز سمجھ کر قبول نہیں کیا۔یہ سمجھ کر قبول کیا کہ اچھی رقم ملے گی جو میرے کام آئے گی۔پیسوں کی ضرورت سب کو ہوتی ہے مجھے بھی ہے۔میرے ایک دوست نے کہا کہ اچھا تمہیں انعام ملا ہے جو تم سے پہلے فلاں صاحب کو مل چکا ہے۔میں نے کہا ،ہاں بھئی! وہی انعام ملا ہے لیکن میں نے اسے اعزاز سمجھ کر نہیں قبول کیا ہے بل کہ یہ سمجھ کر قبول کیا ہے کہ اس کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کا نام وابستہ ہے جو دانش ور تھے اور ادیب تھے اور یہ بھی کہ اس کے ساتھ ایک بڑی رقم ہے۔صرف اعزاز کا معاملہ ہوتا تب مجھ پر آپ کے طنز کا کوئی اثر ہوتا۔البتہ مجھے اس پر تعجب ہوا تھا کہ میرا نام کیسے آ گیا۔میں تو کسی گروپ میں شامل نہیں public relationکا آدمی بھی نہیں ہوں ۔تعلقات بیش تر لوگوں سے خراب ہیں۔جن سے تعلقات خراب نہیں ہیں خوش وہ بھی نہیں رہتے۔اس کے با وجود میرے نام پر غور کیا گیا اس کے لیے میں ایوارڈ کمیٹی کے سبھی ممبروں کا شکر گزار ہوں۔‘‘
(روز نامہ ’انقلاب‘،بمبئی اڈیشن،13اکتوبر1998)
عارف ہندی اور جاوید انور نے رشید حسن خاں سے ایک انٹرویو ان کے دولت کدے(شاہ جہاں پور)پر 27نومبر2004بروز اتوار لیا۔اس انٹرویو میں تقریباً ستائیس سوال معلوم کیے گئے۔گفتگو کا آغازخاں صاحب کے تبصرے علی گڑھ تاریخ ِ ادب اُردوسے کیا گیاجسے انھوں نے 1963میں رسالہ تحریک کے لیے تحریر کیا تھا۔اس تبصرے کے منظرِ عام پر آنے سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو بازار سے تاریخ ادب اُردو کی تمام کاپیاں واپس منگوالی گئی تھیں۔رشید حسن خاں نے اس گفتگو میں یہ بھی بتایا کہ اُردو تحقیق کا با ضابطہ آغازحافظ محمود خاں شیرانی کے تحقیقی مضامین1920سے مانا جاتا ہے ۔شیرانی صاحب کے بعدامتیاز علی خاں عرشی اور قاضی عبدالوود نے تحقیق کے معیار کو بلند کیا۔ان ادبی بزرگوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اُردو تحقیق کی رفتار اور وقار میں کمی آئی ہے۔دورِ حاضر میں ان تحقیقی بزرگوں کے پائے کا کوئی دوسرا شخص دور دور تک نظر نہیں آتا۔جب رشید حسن خاں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اچھے محقق کو کس قسم کی زبان استعمال کرنا چاہیے ؟قاضی صاحب بلا شبہ بڑے محقق ہیں لیکن انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے اُسے عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا ؟اس سوال کے جواب میں رشید حسن خاں نے کہا کہ قاضی صاحب کے یہاں لفظی کفایت شعاری نہیں ہے ۔اس لیے قارئین ان کی تحریروں کو پڑھتے وقت اُلجھ جاتے ہیں۔قاضی عبدالودود کی بہ نسبت رشید حسن خاں مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی زبان کو فصیح مانتے ہیں۔یہاں تک کہ کلیم الدین احمد کی تنقیدی زبان کے بھی خاں صاحب مداح ہیں۔ان تمام باتوں کو رشید حسن خاں نے اپنے مخصوص انداز میں یوں بیان کیا:
’’دیکھیے قاضی صاحب کے یہاں لفظی کفایت شعاری بہت زیاد ہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے لوگ انھیں پڑھتے وقت اُلجھتے ہیں۔وہ جس طرح کی علامتیں استعمال کرتے ہیں،وہ بھی اُلجھنوں میں ڈالتی ہیں کیوں کہ قاضی صاحب ایک صفحے میں جوبات کہناچاہتے ہیں وہ عام طور پر لوگ بیس صفحات میں کہتے ہیں۔میں قاضی صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں اور اُنھیں اپنا معنوی اُستاد بھی تصور کرتا ہوں ۔میں نے اخذ نتائج کا ہُنر تو قاضی صاحب سے ہی سیکھا ۔تحقیق کا طریقۂ کار کیا ہونا چاہیے یہ بات بھی میں نے قاضی صاحب سے ہی سیکھی۔اُن کی گفتگو سے ،اُن کی تحریروں سے،میں نے بڑے استفادے کیے۔ماخذ کو کیسے دیکھا جائے ،حقائق کو کیسے سمجھا جائے،ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سچ بولنے پر کتنا اصرار کیا جائے۔یہ سب میں نے اُنہی سے سیکھا ،لیکن قاضی صاحب کا جو اسلوب ہے ،جو اندازِ بیان ہے ،اس کو میں نے اختیار نہیں کیا۔پہلی بات تو یہ کہ وہ میرے بس کی بات نہیں تھی،اتنا علم اگر میرے پاس بھی ہوتا تو شاید میں بھی استعمال کرتا۔دوسری بات یہ کہ ایمان داری سے میں یہ سمجھتا ہوںکہ قاضی صاحب کا جو اندازِ تحریر رہا ہے،وہ اُلجھن میں بہت مبتلا کرتا ہے۔اُن کے اندازِ تحقیق نے بنیادی حیثیت سے بہت شہرت پائی۔ان کی وجہ سے تحقیق بہت مشہور ہوئی ۔ہم سب اس کو مانتے ہیں ۔لیکن اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے اندازِ نگارش سے تحقیقی انداز نگارش نے شہرت نہیں پائی ۔(تحقیق)جیسا کہ تنقید کا مسئلہ ہے کہ تنقید میں ایک تو مرصع زبان ہے۔جو عام طور پر لکھی جاتی ہے۔ایک تنقید کی اپنی زبان ہے ،صفات سے خالی صاف اور دوٹوک ،براہ راست ۔جو کسی طرح کی اُلجھن پیدا نہیں کرتی ۔یہی مسئلہ تحقیق کا ہے ۔تحقیق میں حافظ محمود خاں شیرانی جن کو میں اُردو کا پہلا محقق تسلیم کرتا ہوں ۔جس کا ذکر میں نے کیا بھی تھا ۔اس کے بعد مولانا عرشی یا ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ان لوگوں کی زبان تحقیق کی معیاری زبان ہے۔ہم لوگ اس زبان کی تقلید بھی کرتے ہیں۔اس میں اختصار پسندی اتنی نہیں ہے کہ جو ذہن کو اُلجھا دے،اس لیے میں قاضی صاحب کی زبان کو بہت معیاری تو تصور تو کرتا ہوں لیکن بہت صاف سُتھری نہیں۔ایک بات اور،تنقید میں کلیم الدین سے بہت اختلاف کیا گیا۔میری تو کلیم الدین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے،با وجود اس کے میں اُن کے نظر یات سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن کلیم الدین نے جو زبان لکھی ہے وہ تنقید کی سچی زبان ہے ۔ایچ پیچ سے الگ ،صاف بالکل براہ راست اس طرح تحقیق میں ادا کئی لوگوں کی زبان ہے لیکن یہ سچ ہے کہ قاضی صاحب کی زبان نے فروغ نہیں پایا ۔مجھ جیسا نیاز مند بھی ان کی تقلید نہیں کر سکا۔شیرانی صاحب ،عرشی صاحب اور ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ،ان دونوں کی زبان اور اسلوب کی میں تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
عارف ہندی اور جاوید انور نے جب رشید حسن خاں سے یہ معلوم کیا کہ معتبر اور غیر معتبر کلام کا تعین کرتے وقت مدون کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تو موصوف نے عالمانہ اندازمیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے مدون کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ (جس پر وہ کام کر رہا ہے)فلاں شاعر کے کلام کے کتنے نسخے دستیاب ہیں اور کہاں کہاں کس لائبریری میں موجود ہیں۔ان نسخوں کی زبان سے بھی مدون واقف ہو۔عارف ہندی اور جاوید انور نے جب ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کا زور اس بات پر ہے کہ تحقیق اور تدوین دو مختلف دائرے ہیں جب کہ گیان چند جین صاحب تدوین کو تحقیق کا اور تحقیق کو تدوین کا ایک ذیلی شعبہ قرار دیتے ہیں ۔آپ کی راے کیا ہے؟تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں تحقیق اور تدوین کے علاوہ تنقید کا بھی الگ دائرہ مانتا ہوں۔خاں صاحب کے نزدیک تحقیق اور تدوین دونوں الگ الگ شعبے ہیں۔بل کہ تحقیق سے آگے کی چیز تدوین ہے۔اس سوال کا مفصل جواب دیتے ہوئے رشید حسن خاں یوں گویا ہوئے:
’’دیکھیے میں بنیادی طور پر یہ نہیں مانتا ۔کیوں کہ ان کے اپنے اپنے دائرے ہیں جو کسی دوسرے دائرے کو کاٹتے نہیں اس میں داخل نہیں ہو سکتے تو وہ ایک دوسرے کے ذیلی شعبے کیسے ہو سکتے ہیں؟میں نے ابھی بتایا کہ تحقیق کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کسی شخص یا تخلیق کے متعلق پورے پورے حادثات و واقعات کو من و عن درج کردے اور تدوین کے فرائض بھی میں نے بتائے۔تو میری ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ میں تدوین کو تحقیق کو بل کہ تنقید کو بھی الگ الگ دائرہ کار مانتا ہوں۔ان سب کا آپس میں باہمی رشتہ ضرور ہے لیکن ذمے داریاں سب کی الگ الگ ہیں ۔یہ تینوں تین مختلف شعبے اور تین مستقل دائرے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی دائرہ کسی دوسرے دائرے کو کاٹتا نہیں ۔یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔لیکن ان کے مماثل نہیں۔ممکن ہے ایک ہی شخص کے اندر یہ تینوں صلاحیتیں تین الگ الگ لوگوں کا حصہ ہوں۔یہ تو ذہنی مناسبت پر منحصر ہے کہ کس کی دل چسپی کس میں ہے۔قاضی عبدالودود ہیں۔جن کو ہم بہت بڑا محقق مانتے ہیں لیکن انھوں نے تدوین کاایک بھی کام نہیں کیا ۔بنیادی طور پر جو شخص حقائق کا تعین صحیح صحیح کر دے و ہ محقق اور جو متن کی صحت کو جانچنے پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو،وہ مدون ۔ضروری نہیں کہ جو شخص متن کے الفاظ اور اس کے سارے متعلقات پر گہری نظر رکھے وہ تحقیق کے کاموں کو بھی اچھی طرح انجام دے سکے۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ تحقیق اور تدوین الگ الگ دائرۂ کار ہیں۔‘‘
رشید حسن خاںکے دورۂ پاکستان1987 کے دوران ایک مذاکرے کا انعقاد بہ عنوان’’اُردو زبان میں تحقیق کی اہمیت اور موجودہ صورتِ حال‘‘کیا گیاا۔اس مذاکرے میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں محمد اکرام چغتائی،سجّاد باقر رضوی،کشور ناہید، پروفیسر جیلانی کامران،ذاالفقار احمد تابش،ڈاکٹر معین الرحمن کے نام شامل ہیں۔اس مذاکرے کو ہندوستان میں ماہ نامہ کتاب نما،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کے گوشۂ رشید حسن خاں جلد30،شمارہ8اگست1990میں شاہد علی خاں نے شائع کیا۔اس مذاکرے میں رشید حسن خاں نے ہندوستان اور پاکستان کے ادب اور ادیبوں کے ساتھ تحقیق و تدوین کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔شرکائے مذاکرہ نے ان کی علمی و ادبی فتوحات کا بر ملا اعتراف کیا۔جب شرکائے مذاکرہ نے اُردو املا کی اصلاحات کے بارے میں کی گئی ان کی سفارشات کے بارے میں سوال کیا تو رشید حسن خاں نے اعتراف کیا کہ ہمارے یہاں اُردو املا کی اصلاح کے باب میں مولانا احسن مارہروری نے1905میں کام کیا۔انھوں نے اپنے اصولِ املا میں بیسویں صدی کی ابتدا میں ہی الفاظ کو ملا کر لکھنے کے بجائے اسے الگ الگ لکھنے پر زور دیا۔مولانا احسن مارہروری نے ’’دلکش‘‘ میں ’’دل‘‘کو الگ لکھنے اور’’کش‘‘کو الگ لکھنے پر زور دیا۔رشید حسن خاں سے اکرام چغتائی نے جب ان کی کتاب ’’اُردو املا‘‘ کے دوسرے اڈیشن کی اشاعت اور اس میں کی گئی اصلاحات کے بارے میں معلوم کیا تو خاں صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس میں مثالیں بڑھا دیں ہیں اور الفاظ کا گوشوارہ بنا دیا ہے۔ڈاکٹر معین الرحمن نے 1955کے بعدرسالہ’’آج کل کے تحقیق نمبر‘‘کے ایک اہم مضمون ’’اُردو تحقیق کے چار اساطیر‘‘کے بارے میں خاں صاحب سے دریافت کیا کہ ہم ان چار محققین میں سے تین سے محروم ہو چکے ہیں اور آپ کے علاوہ کوئی اور دوسرا بزرگ بھی ہے جو ادبی تحقیق کے مسائل پر غور و فکر کر رہا ہو؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشید حسن خاں نے کہا کہ موجودہ عہد میں درویش صفت محققین کا ملنا دشوار ہے۔1950اور 1960کے بعد جو سماجی تبدیلیاں آئی ہیں اس کے نتیجے میں لوگ ہوس کا شکار ہو گئے ہیں۔لوگوں نے اکثر پڑھنا چھوڑ دیا ہے،لکھنا اختیار کر لیا ہے۔اس روش نے اُردو تحقیق کو نقصان پہنچایا ہے۔تحقیق کے اس زوال پر ذوالفقار تابش نے جب رشید حسن خاں سے یہ سوال معلوم کیا کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بعد دونوں ملکوں میں تحقیق کی کیا صورتِ حال ہے اور تخلیقی جوڑ توڑ کا تحقیق پر کتنا اثرپڑا؟تو اس سوال کے جواب میں رشید حسن خاں نے کہا کہ تخلیق کا عمل اندرون سے تعلق رکھتا ہے خارج سے نہیں جب کہ تخلیق خالصتاً اکتسابی عمل ہے۔اس اہم سوال کا جواب رشید حسن خاں نے کچھ اس انداز میں دیا:
’’یہ سوال بڑا اہم ،معنی خیز اور دل چسپ ہے۔وہ بات جو میں بھول گیا تھا آپ نے یاد دلا دی۔تخلیق اور تحقیق دو مختلف راستے ہیں،جو کہیں آکر نہیں ملتے۔میں اگر چاہوں تو لفظ جمع کر کے شعر بنا سکتا ہوں لیکن شعر کہہ نہیں سکتا،کیوں کہ تخلیق کا عمل بڑا مختلف عمل ہے جو اندرون سے تعلق رکھتا ہے،خارج سے نہیں۔جب کہ تحقیق خالص اکتسابی اور خارجی عمل ہے جو شخص تخلیقی صلاحیت نہیں رکھتا ،وہ کتنا ہی بڑا محقق ہو،تحقیق کرے یا نہ کرے ،تخلیق تو کر ہی نہیں سکتا اور جو شخص تخلیق کار ہے ،وہ کتنا ہی سر پیٹ لے ،تحقیق کا کام نہیں کر سکتا۔ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ 1947کا جو حادثہ ہوا ہے،اس نے حدِّاصل کھینچ دی ہے وہاں سے یہ چیزیں شروع ہوئیں ہوں یا نا ہوئی ہوں ،لیکن وہ ان کے شروع ہونے کی تمہید بن گیاہے۔اس طرح وہ پورے نظام کے بدلنے کی بھی تمہید بنا ہے۔نظام کے بدلنے نے صورتِ حال کو بدل دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ بنیادی تعلیم ختم ہو گئی۔اب یہ بات کہ مزاجی مناسبت ،تو پہلے ہی کم تھی۔1920سے لے کر 1938تک ایک اکیلے شیرانی صاحب کھڑے ہیں ۔یہ وہ زمانہ ہے کہ جب چیزیں بدلی نہیں ہیں،1947والا عمل نہیں ہوا ہے۔در اصل تحقیق کا کام پہلے بھی محدود دائرے میں تھا اور ہمیشہ محدود دائرے میں رہے گا اور اس میں وہی لوگ آئیں گے جن کے اندر قلندری ہو گی۔اگر علم کے ساتھ قلندری کا جز شامل نہیں ،تو کتنا ہی بڑا آدمی ہو،تحقیق نہیں کر سکتا۔ہاں ترقی اُرود بورڈ اور مجلس ترقی ادب کی کتابیں مرتب کر سکتا ہے۔‘‘
رشید حسن خاں نے اس اہم ادبی مذاکرے میں شاعری سے متعلق سوالات کے بھی اطمینان بخش جواب دیے۔خاص طور سے کلامِ امیر خسرو کی دستیابی کے حوالے سے۔
رشید حسن خاں نے مختلف اداروں ،رسائل و جرائد کے علاوہ ریڈیو پر بھی انٹرویو اور مذاکرے کیے۔آل انڈیا ریڈیو کے لیے رفعت سروش نے رشید حسن خاں سے ایک ادبی مذاکرہ (1965)کے علاوہ ایک اور انٹر ویو (1988-89)بھی ریکارڈ کیا۔رفعت سروش کے رشید حسن خاں سے ادبی مراسم اُس وقت سے ہیں جب سے وہ دہلی میں مستقل طور پر آئے۔رفعت سروش نے رشید حسن خاں کو جب ادبی مذاکرے کے لیے آل انڈیا ریڈیو،نئی دہلی میں مدعو کیا تو ان کی فیس 25روپے مقرر کی گئی۔رشید حسن خاں اس بات پر ناراض ہوئے کہ نقاد کا رتبہ شاعر سے بڑا ہوتا ہے۔رفعت سروش نے اس مذاکرے کے بعد اگلی مرتبہ خواجہ احمد فاروقی (صدر شعبۂ اُردو دہلی یونی ورسٹی) کے مقالے پر تنقید کر نے کے لیے آل انڈیا ریڈیو میں بلایا ۔اس دونوں واقعے کو رفعت سروش نے قلم بند کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’ریڈیو میں میں اُردو مجلس کا پروڈیوسر تھا،وہاں میں ایک پروگرام شروع کیا تھا’’بزمِ ادب‘‘جس میں ایک شاعر یا افسانہ نگار کو اپنی تخلیق پیش کرنے کی دعوت دی جاتی تھی اور اس پر بر جستہ بحث کی جاتی تھی۔اس مباحثہ میں حصہ لینے کے لیے ہم لوگ ایک نقاد کو بھی بُک کرتے تھے ۔ایک بار شہاب جعفری کو نظم پڑھنے کے لیے بلایا اور رشید حسن خاں کو تنقید کے لیے۔یہ بات65کے آس پاس کی ہے۔شہاب جعفری پرانے براڈ کاسٹرتھے اور ان کی فیس تھی تیس روپے،جب کہ رشید حسن خاں نسبتاً نئے تھے اور ان کی فیس تھی پچیس روپے۔ خاں صاحب یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے ۔مجھ سے سنبھالے نہ سنبھلے ۔فی الحال تو کنٹرکٹ کو نہیں بدلا جا سکتا۔پھر وہ پہنچے اس پورے معاملے کی شکایت کرنے علی جواد زیدی کے پاس جن کا دفتر ہماری ہی بلڈنگ میں تھا۔زیدی صاحب کا ریڈیو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔مگر وہ ہم دونوں کے بزرگ تھے۔میں نے ان کو اپنی مجبوری بتلائی۔خاں صاحب کا کہنا تھا کہ کہ نقاد کا رتبہ شاعر سے بڑا ہوتا ہے۔ بہر حال زیدی صاحب کے سمجھانے پر وہ مان گئے اور اور پروگرام میں حصہ لیا اور بعد میں میں نے ایک خصوصی نوٹ لکھ کر اگلے پروگرام کے لیے ان کی فیس بڑھوا دی۔یہ میرے علم میں نہ تھا کہ خاں صاحب اور خواجہ احمد فاروقی کے باہمی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔خواجہ صاحب تھے صدر شعبۂ اُردو اور خاں صاحب لائبریری کلرک،،مگر انھوں نے اپنی علمیت کا لوہا منوایا تھا ۔اتفاق سے کچھ عرصہ بعد میں نے بزمِ ادب پروگرام میں خاں صاحب کو بہ حیثیت نقاد پھر بُک کیا اور اس بار انھیں خواجہ احمد فاروقی کے مقالے پر تنقید کرنا تھی۔ریکارڈنگ کے لیے آئے مگر ایک دل چسپ بات شکایت کے انداز میں کہی بولے’’ رفعت صاحب ! اگر چہ لوہے کے قلم سے لکھتا ہوں ،مگر میری آنکھوں میں مروت ہے۔‘‘میں سمجھ گیا اور میں نے مسکراتے ہوئے کہاخان صاحب !آپ سے اسی توازن کی اُمید ہے اور میں نے ریکارڈنگ میں دیکھا کہ خاں صاحب نے کئی موقعوں پر اپنی’’خان صاحبیت‘‘کی روش بدلی۔‘‘
رفعت سروش نے بزم ادب کے تحت کئی ادبی پروگرام خاں صاحب کے ساتھ کیے۔ڈاکٹرمحمد حسن کے مضمون پر رفعت صاحب نے جب ان سے لکھنے کے لیے کہا تو خاں صاحب نے تاریخی جملہ ادا کیا،کہا’’رفعت صاحب میں رائفل سے چڑیوں کا شکار نہیں کرتا۔‘‘۔رشید حسن خاں کے دہلی یونی ورسٹی سے ریٹائر منٹ سے قبل 1988یا1989میں رفعت سروش نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔اس انٹرویو میں بہ قول رفعت سروش خاں صاحب کی شخصیت کے نئے گوشے وا ہوئے۔اس انٹرویو میں رفعت سروش نے خاں صاحب کی ادبی Boldnessپر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
رشید حسن خاں سے ایک انٹرویو پروفیسر یونس اگاسکر اور پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے سہ ماہی رسالہ’’ ترسیل‘‘کے مشترکہ شمارہ جنوری تا جون 1999میں شائع کیا۔اس انٹرویو میں دونوں صاحبان نے رشید حسن خاں کی ادبی زندگی کے علاوہ ان کی نجی زندگی کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔اس انٹرویو میں متن کی ملکیت اور لفظیات پر تفصیلی بحث شامل ہے۔ساتھ ہی تنقید و تحقیق کی زبان میں اصلاحات اور موجودہ ادبی منظر نامے پر گفتگوہے۔اس مکالمے میں رشید حسن خاں نے اپنی شادی کے بعد کے واقعات میں ’’طلسم ہوش ربا اور آب ِ حیات ‘‘کے مطالعے کو اہمیت دی ہے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر میں آرڈیننس کلودنگ فیکٹری شاہ جہاں پور میں کام نہ کرتا تو مارکسسزم کے نظریے سے واقف ہی نہیں ہو پاتا۔ یہاں تک کہ ٹریڈ یونین کے لیڈروں کے دوہرے کرداروں سے میں خفا رہتا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی باتوں اور عمل میں تضاد تھا۔وہ کہتے کچھ اور تھے اور کرتے کچھ اور تھے۔ جب رشید حسن خاں ٹریڈ یونین کے لیڈروں سے ان مسائل پر گفتگو کرتے تو فیکٹری کے لیڈر ان کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔لیکن رشید حسن خاں کے ذہن میں نظریۂ مارکسسزم کے خلاف کچھ نہ کچھ سوالات جنم لیتے ہی رہتے تھے۔درا صل مدرسے کی پڑھائی اور ان کا تحقیقی رویے نے انھیں مارکسسٹ بننے سے روکے رکھا۔انھیں ’’دنیا کے مزدوروں ایک ہو جاؤ‘‘کا نعرہ بھی کھوکلا اور فرضی لگتا تھا۔کیوں کہ رشید حسن خاں کی نظر میں دنیا کے مزدوروں کے مسائل ایک جیسے نہیں ہوتے۔رشید حسن خاں نے اس انٹرویو میں ایسی بہت سی باتوں کا انکشاف کیا ہے جن سے اُردو دنیا واقف نہیں تھی۔میں یہاں پروفیسر معین الدین جینا بڑے کے سوال’’خاں صاحب آپ کا جو مدرسے سے ٹریڈ یونین تک کا سفر ہے وہ ایک طرح سے یقین اور تشکیک تک کا سفر ہے اور یہ تشکیک جو ہے علمی شخصیت کا جز تو رہی ہے لیکن شخصی اور نجی اور مذہبی سطح پر یہ سفر آپ کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوا‘‘اور خاں صاحب کا جواب قارئین کی خدمت میں حاضر کر رہا ہوں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ رشید حسن خاں نے اپنے ابتدائی دور سے ہی تشکیک کا دامن پکڑ لیا تھا۔ تشکیک نے ہی انھیں اُردو تحقیق و تدوین میں منفرد مقام عطا کرایا:
’’دیکھیے بھائی(رُک کر)دیکھیے بھائی،مدرسے کی تعلیم کے زمانے میں ذہن میں بعض سوالات پیدا ہوتے تھے جن کا جواب نہیں ملتا تھا ایک تو ہم لوگ اپنے اساتذہ سے ڈرتے تھے تو زیادہ سوال پوچھ نہیں سکتے تھے اور ایسا ویسا سوال پوچھتے تو ڈانٹ پڑتی تھی مثلاً ہم شراح و قافیہ پڑھ رہے تھے اس میں ایک جگہ پہ غلاموں کو آزاد فرار کرنے کے احکام آئے۔تو میں نے بہت ڈرتے ڈرتے دبی زبان سے اپنے اُستاد سے کہا کہ ’’غلامی تو اب ہمارے یہاں ہوتی نہیں اور شاید ہوگی بھی نہیں تو ان کے احکام ہم کیوں پڑھیں ؟‘‘بہت ناراض ہوئے ۔مطلب یہ کہ سوال تو ذہن میں پیدا ہوتے تھے ۔پتا نہیں ذہن شروع سے ایسا تھا ،کیا تھا کہ سوال پیدا ہوتے تھے۔کنویں کا مسئلہ پڑھ رہے تھے پاک ہونے کا بڑا کنواں ہے اور چھپکلی گر جائے اور ناپاک ہو جائے ،تو اتنے ڈول نکال دو تو پاک ہو جائے گا۔تو اب اُستاد سے تو کہنے کی ہمت تھی نہیں ایک طالب علم ساتھ کے تھے اس سے کہا کہ’’یار یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پانی تو تھوڑا بہت باقی ہے تو نیا پانی آئے گا تو ملے گا نا اس میں؟‘‘۔کہنے لگے’’کیا کافروں جیسی باتیں سوچتے ہو؟‘‘تو ذہن میں استفہام تو ہلکے ہلکے پیدا ہوتے تھے لیکن ان کو روشنی نہیں ملتی تھی اور بڑھاوا نہیں ملتا تھا۔ٹریڈ یونین میں گئے تو کھلی فضا ملی وہاں۔اسی لیے میرا اختلاف ہوا مارکسزم سے۔ورنہ میں مارکسسٹ ہوتا آج۔میں نے شام کو جو میٹنگ ہوتی تھی اس میں ایک بار پوچھا کہ یہ جو نعرہ ہے، ہم سے لگوایا جاتا ہے کہ’’دنیا کے مزدوروں ایک ہو جاؤ‘‘لیکن دنیا کے مزدوروں کے مسائل تو ایک جیسے نہیں۔امریکہ کے کارخانے کا جو مسئلہ ہے وہ ہمارے کار خانے کا نہیں ہے۔ کان پور کے کارخانے کا وہ مسئلہ نہیں ہے جو شاہ جہاں پور کے کار خانے کا ہے۔تو کوئی شافی جواب نہیں دیا بل کہ کہا’’ارے یہ تو سرمایہ داروں کے پھیلائے ہوئے خیالات ہیں،کس میں گرفتار ہو گئے تم؟‘‘۔مولوی صاحب جیسے ڈانٹ دیتے تھے یہ دوسرے انداز کی ڈانٹ تھی ۔ترقی پسندوں نے بھی اور مارکسسٹوں نے بھی وہی رول ادا کیا ہے جو کٹھ ملّا ادا کرتا تھا کیوں کہ جواب ان کے پاس تھا نہیں کوئی۔جہاں میں نے نیاز کی تحریریں پڑھیں تو اچانک وہ سارے سوالیہ نشانات روشن ہو گئے۔ہاں !اس پر شکر ادا کرتا ہوں خدا کا کہ میرا مطالعہ نیاز کی تحریروں تک محدود نہیں رہا اگر وہیں تک محدود رہتا تو انکار محض ہوتا۔حسنِ اتفاق سے تحقیقی ادب اور تحقیقی ذخیرہ جتنا ہمارے یہاں ہے،مولانا عرشی،شیرانی صاحب ،قاضی صاحب ،ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ان سب کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ شک کا مقصود کیا ہے؟ وہ کب پیدا ہو نا چاہیے،کب پیدا ہونا نہیں چاہیے ؟انکار کی طاقت کیا ہے؟اس کا صحیح محلِ استعمال کیا ہے؟یقین کیوں ضروری ہے؟اور کیوں غیر ضروری ہے؟ان سب لفظوں کی تعریف جب معلوم ہوئی جب ان کا محلِ استعمال معلوم ہو ا تو ذہن کی تربیت ہوئی اگر تربیت کا یہ عمل نہ ہو تا تو شاید میں تحقیق اور تدوین کے کام کو صحیح طور پر انجام نہ دے سکتا۔یا تو انکار ہوتا یا تشکیک ہوتی یا پھر وہ یقینِ محض ہوتا جو تصوف کے واسطے سے ہندوستان میں پھیلا ہے اور جس نے ذہنوں کو مجہول بنا دیا ہے پوری قوم کے۔‘‘
یہاں میں اُس انٹرویو کا بھی ذکر کرنا گزیر سمجھتا ہوں جسے پاکستان کے قلم کارحافظ صفوان محمدچوہان نے اپنے مضمون ’’رشید حسن خاں صاحب اور عصری دانش کی مشارکت‘‘میں شامل کیا ہے۔یہ مضمون احقر کی مرتب کردہ کتاب ’’رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں،جلد اول، اشاعت2019کے صفحہ211تا244پر شامل ہے۔اس مضمون کو ذکیہ مراد نے ’’رسالہ مخزن‘‘کی فائل سے نکلوا کر میرے استفسار پر یکم اپریل 2017کو بہ ذریعہ ای میل ارسال کیا۔میرا ماننا یہ ہے کہ حافظ صفوان محمد چوہان کا رشید حسن خاں سے یہ سب سے آخری انٹرویو ہے۔اس انٹرویو کے ساڑھے پانچ مہینے بعد رشید حسن خاںاس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔یہ انٹرویو 17ستمبر2005کی رات کو 10بج کر10منٹ پر بہ ذریعہ ٹیلی فون لیا گیا۔اس انٹرویو کی مدت بقول حافظ صفوان محمد چوہان تقریباً40منٹ رہی۔در اصل اس انٹرویو کو لینے سے قبل حافظ صفوان محمد چوہان نے ایک طویل خط جولائی2005کے آخر میں رشید حسن خاں کے نام ارسال کیا تھا ۔اس سوال نامے میں 15سوالات، رشید حسن خاں کی زندگی ،تحقیق،تدوین،املا،زبان و قواعداور دیگر ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے معلوم کیے گئے تھے۔لیکن موصوف نے حافظ صفوان محمد چوہان کے سوال نما خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔حافظ صفوان محمد چوہان نے اوائلِ ستمبر2005کو رشید حسن خاں سے بہ ذریعہ ٹیلی فون اس تاخیر(سوال نامے کا جواب نہیں دینے) کی وجہ دریافت کی تو موصوف نے انھیں بتایا کہ ان کی طبیعت آج کل بہت ہی خراب ہے ۔اس وجہ سے میں لکھ کر کوئی جواب نہیں دے سکتا۔خاں صاحب نے ہی حافظ صفوان محمد چوہان کو ٹیلی فون پر سوالات کے جواب دینے کا وقت مقرر کیا۔اس طرح ایک اہم انٹرویو ٹیلی فون پر لیا گیا ۔اس انٹرویو میں بہت ہی اہم مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔لیکن میں یہاں صرف اس سوال کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں جو شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’لغاتِ روز مرہ‘‘(اشاعت اول2003)کے بارے میں ہے۔در اصل اس کتاب میں پہلی بار صفحات کے نمبر بائیں سے دائیں جانب لکھے گئے(500کو005)۔حافظ صفوان محمد چوہان نے اس عمل کو بدعت تسلیم کیا۔اور خاں صاحب سے اس معاملے میں رد عمل جاننا چاہا۔ساتھ ہی یہ بھی معلوم کیا کہ تحقیق اور تدوین میں کیا یہ عمل صحیح ہے یا غلط۔رشید حسن خاں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔اس اہم ادبی گفتگو کا میں ایک حصہ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ سوال اور جواب کے انداز سے بہ خوبی واقفیت حاصل کی جا سکے:
’’اگلا سوال یہ تھا کہ میں نے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے لغاتِ روزمرہ (اِشاعتِ اوّل:2003) میں پہلی مرتبہ ایک ’’بدعت‘‘ دیکھی ہے، کہ اِس میں متن میں حوالے کے طور پر صفحات کے جو نمبر دیے گئے ہیں وہ دائیں سے بائیں لکھے گئے ہیں، یعنی مثلاً صفحہ نمبر ۵۰۰ کو ۰۰۵ اور صفحہ نمبر ۱۵۸۰ کو ۰۸۵۱ لکھا گیا ہے، علیٰ ہٰذا۔ جب کہ اِس کتاب کے اپنے صفحات کے نمبر مروّجہ متداول ترتیب (بائیں سے دائیں) میں لکھے گئے ہیں۔ میں نے اب سے پہلے ایسا کیا ہوا کہیں نہیں دیکھا، اِسی لیے اِسے ’’بدعت‘‘ کہا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اِس کام کے لیے اُکساوا کس نے دیا۔ کیا آپ حوالے کے صفحات کے نمبر لگانے کی اِس ’’غریب‘‘ ترتیب کی، جو اِس کتاب کے ہر پڑھنے والے کو صریحاً کوفت میں مبتلا کردیتی ہے اور تدوین و تحقیق کے پہلے سے ہی مشکل کام کو ایک اور الجھن اور بے برکتی کی پخ لگادیتی ہے، حمایت کرتے ہیں؟ خاں صاحب نے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب اور ڈاکٹر خلیق انجم کے بارے میں بہت بلند الفاظ کہے لیکن سوال کا جواب بہرحال ٹال دیا۔ (یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ لغاتِ روزمرہ میرے مستقل استعمال میں رہتا ہے۔ میرے خیال میں جو شخص بھی ایک بار اِسے استعمال کرنا شروع کردے گا، اِسے کبھی نہ چھوڑسکے گا۔شان الحق حقی صاحب کے فرہنگِ تلفظ کے بعد یہی لغت ہے جو مجھے سب سے زیادہ کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زبان کو نتھارنے والے اِس لغت کو مرتب کرکے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے بہت بڑا احسان کیا ہے؛ یہ اُن لغات میں سے ہے جن کی ضرورت دائمی ہے اور عام قاری سے لے کر اساتذۂ ادب تک کسی کو اِس سے اِستغنا نہیں۔ ‘‘
اب آخر میں ،میں اُن ادبی مددگار صاحبان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی بدولت یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچی۔سب سے پہلے میں انجمن ترقی اُردو (ہند)نئی دہلی کے تمام اہل کاروں کا شکریہ دارمے، درمے اورسخنے کرنا چاہتا ہوں۔اگر اُردو گھر کے سب سے اہم ستون محمد عارف خاں(نائب مدیر،ہفت روزہ ہماری زبان اور سہ ماہی اُردو ادب)اس جانب میری توجہ مبذول نہ کراتے تو یہ مقالہ تحریری شکل میں نہ آ پاتا۔ساتھ ہی اُردو گھر کے کاتب اعلا عبدالرشید صاحب کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے نیک مشوروں سے مجھے مستفیض کیا۔عبدالرشید صاحب سے میں نے کتابت کے آداب سیکھے۔ناسپاسی ہوگی اگر میں اُردو گھر کے لائبریرین جناب اختر الزماں کا شکریہ ادا نہ کروں۔میں جب بھی اُردو گھر کی لائبریری (شبلی لائبریری) جاتا تو بڑی ہی خندہ پیشانی سے وہ میری مطلوبہ کتابوں اور رسائل و جرائد کی فائلوں پر نظر ثانی کرنے کی اجازت دیتے۔میں ڈاکٹر زمرد مغل،جاوید رحمانی(سیکریٹری،انجمن ترقی اُردو ،ہند،نئی دہلی) اور انجمن کے معتمد اعلا ڈاکٹر اطہر فاروقی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اپنے دونوں انٹرویوز کو شامل کتاب کرنے کی اجازت دی۔
IBRAHEEM AFSAR
WARD NO-1,MEHPA CHAURAHA
NAGAR PANCHAYAT SIWAL KHAS
DISTT MEERUT (U.P)PIN 250501
MOB 9897012528
EMAIL:ibraheem.siwal@gmail.com
٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] متفرقات […]