انسان نے جب سے اس دنیا میں قدم رکھا ہے تب سے آج تک اسے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لیے طرح طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے راتوں کو بھوکوں سونا پڑتا ہے۔یہ بھوک و افلاس انسان کی ذلّت ، رسوائی اور لعن طعن کا سبب بھی بنتی ہے۔اُردو ادب میں بھوک سے متعلق شاہ کار افسانے تخلیق کیے گئے اور کیے جاتے رہیں گے۔دور حاضر یعنی اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اسرار گاندھی کے افسانوی مجموعے ’’ایک جھوٹی کہانی کا سچ اور دوسرے افسانے‘‘(سنِ اشاعت2017)میں ان کا افسانہ ’’اخبار میں لپٹی روٹیاں ‘‘شامل ہے۔اس مجموعے میںافسانوں کی تعداد 26ہے اور افسانہ ’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘کا نمبر شمار15واں ہے۔اس افسانے کا عنوان قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوا ہے۔اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ اگر قاری نے اسے ایک بارپڑھنا شروع کیا تو اسے پوراپڑھے بغیر چین و سکون حاصل نہیں ہوگا۔اسرار گاندھی نے اس افسانے میں انحطاط پذیر معاشرے کے اُس کالے سچ کومنظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے جس سچ سے ہم روزانہ منھ موڑ لیتے ہیں۔کہانی کا بیانہ اور مکالمے اتنے رواں اور دل چسپ ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی لڑکا بھوک سے لاچار ہوکر ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔جو بار بار ہم سے یہ سوال معلوم کر رہا ہے کہ میں آج بھوکا رہ جاؤں گا یا میرے پیٹ میں جو آگ سلگ رہی ہے اسے یو ں ہی جلنے دیا جائے تاکہ میں انسانیت کے علم برداروں سے پوچھ سکوں کہ میچ جیتنے کی خوشی میں جو پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں یا مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ان سے کتنے مفلوک الحال انسانوں کا پیٹ بھرتا ہے یا بھرے ہوئے پیٹوں کی بھوک میں مزید اضافہ ہوتا ہے؟کچھ ایسے ہی تیکھے ،چبھتے اور سلگتے ہوئے سوالات کو اگر صفحۂ قرطاس پر افسانوی انداز میں پیش کیا جائے تو اسے حیات نو اور حیات جادوانی مل جاتی ہے۔’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘صرف ایک افسانہ نہیں ہے بل کہ یہ وہ کہانی ہے جسے ہم روز اخباروں میں پڑھتے ہیں ،ایسے واقعات کو ہم اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بے شرمی کے ساتھ اپنا رخ دوسری جانب کر لیتے ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔اسرار گاندھی نے اس افسانے میں اپنے مشاہدے،تجربے اور تخیل کی تثلیث کے سہارے افسانے کے تانے بانے کو بنا ہے۔’بھوک‘اس کہانی کی بنیادی تھیم ہے۔بھوکا انسان زندگی کے اُن لمحات کو جینے سے قاصر ہوتا ہے جسے اُسے جینے کا حق ہوتا ہے۔اسرار گاندھی نے اس افسانے میں کر کٹ ٹسٹ میچ کے بہانے بہت سارے سوالات لوگوں کے سامنے رکھے ہیں جن کا جواب دینا مہذب معاشرے اور تہذیب یافتہ انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔کیا ہمارامعاشرہ صرف کرکٹ میچ جیتنے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے کا عادی ہو چکا ہے؟اس معاشرے کو سڑک پر گھومتے ہوئے بے یار و مدد گار لوگوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔سڑک پر بچھائے گئے کول تارکو کھرچ کر اسے فروخت کرکے اپنی بھوک کی جوالہ کو ٹھنڈا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔بھوک اور پیاس کے چکر میں اس لڑکے کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ماں باپ کون تھے۔جب چوکی دار اس سے سوال کرتا ہے کہ ’کیوں بے تیرا باپ کیا کرتا ہے‘‘تو لڑکے کا جواب سن کر قرئین کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔اسرار گاندھی نے فنی چابک دستی سے اس مفلوک الحال لڑکے سے جو جواب دلوائے ہیں وہ اس افسانے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔افسانے کے سوال جواب والے منظر کو ملاحظہ کرنے کے بعد قاری کا تاثر بھی بدلا ہوا نظر آتا ہے:
’’کیوں بے تیرا باپ کیا کرتا ہے ؟‘‘چوکی دار نے ہولے ہولے کراہتے بہوئے پوچھا۔’’ہمارا کوئی باپ نہیں ہے۔‘‘’’ارے !اور تیری ماں؟‘‘ ’’اوکیر بھی کونہ پتا نا ہی ہے۔‘‘’’اے تو پل کر اتنا بڑا کیسے ہو گیا؟‘‘’’جیسن سڑک پر پل کر لاکھن بچہ بڑا ہا جات۔سڑک مور ماں۔سڑک مور پاب۔‘‘
افسانہ ’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘میں میلا کچیلا پندرہ سولہ سال کا لڑکا اس افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔جسے اپنی پھوک کو مٹانے کے لیے روزانہ اس بے حس دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔اور ظالم دنیا اس کی حالتِ زار پر ترس کھانے کے بجائے اسے دتکارتی ہے ،پھٹکارتی ہے اور لتاڑتی ہے۔لیکن یہ لڑکا اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے کھینچنے کی جد و جہد میں لگا رہتا ہے۔بھارت کے کرکٹ میچ جیتنے کا منظر اسرار گاندھی نے اس انداز میں بیان کیا کہ اس لڑکے کی زندگی بھی اس میچ کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔اسٹیڈیم کے اندرمیچ دیکھنے آنے والے تماش بین اور سائقین اپنے ساتھ جو اخبارات لاتے تھے انھیں میچ ختم ہونے کے بعد یہ لڑکا اکٹھا کر کے بازار میں فروخت کر کے اپنی بھوک کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔کر کٹ میچ کے ختم ہونے کے بعد گراؤنڈ میں پھیلائی گئی گندگی کو صاف کر کے اپنے لیے جینے کا سہارا تلاش کر نا کوئی آسان کام نہیں۔اخبار اکٹھا کرنے کے دوران لوگوں کی گندی گندی گالیاں سننا اس کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا ۔اخبار اکٹھا کرنے کے لیے بھی اسے گراؤنڈ کے چوکی دار کو رشوت دینا ہوتی ہے۔اخبار فروخت کرنے کے بعد جو رقم اسے حاصل ہوتی، اس میں چوکی دار کا پچاس فی صد کمیشن ہوتا۔ساتھ ہی چوکی دار کے پاؤں دبانا بھی مشروط تھا۔ٹانگیں دبانے کے ساتھ اس کام جسمانی استحصال مفت میں تھا۔یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسرار گاندھی نے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح جن کے افسانوں میں جنس کی چاشنی نمایاں ہوتی ہے کو سرسری طور پر یا علامت بنا کر پیش کیا ہے۔جنس کی لذت کو گھناؤنے طریقے سے پیش کرنا اسرار گاندھی کا طرۂ امتیاز ہے۔استحصال کے منظر کے چند مکالمے قارئین کی پیش خدمت ہیں تاکہ آپ خود اندازہ لگائیے کہ کرپشن انسانوں کی روح میں کس وقدر سرائیت کر چکا ہے:
’’اچھا سن جو پیسہ ملے اس میں آدھا تیرا آدھا میرا۔نہیں تو کل سے تو یہاں گھس نہیں پائے گا ۔وہ کرتا بھی کیا راضی ہو نا پڑا ۔’’جون آپ کہیں۔‘‘اس کی آواز میں مجبوری کا سُر ملا ہوا تھا۔ایک بات اور ہے ۔چوکی دار بولا۔’’کا‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے چوکی دار سے آنکھیں ملائیں۔’’تمھیں ہمارے پاؤں بھی دبانے پڑیں گے بہت درد ہو رہا ہے۔چوکی دار عجیب طریقہ سے مسکرا تا ہوا بولا۔اس نے چُپ چاپ اقرار میں گردن ہلا دی۔‘‘
کرکٹ میچ کی جیت ہار کے معنی لڑکے کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہیں ۔اسے تو بس یہی فکر ہے کہ کب میچ ختم ہو اور اسٹیڈیم سے تما ش بینوں کے جم غفیر کے جانے کے بعد وہاں سے اخبار اکٹھا کر کے اپنی بھوک مٹانے کا بندو بست کیا جائے۔لیکن جیسے ہی وہ پان کی دکان پر لگے ہوئے ٹی۔ وی پر دیکھتا ہے کہ آج بھارت کے میچ جیتنے کی خوشی میں تماش بینوں نے اخبارات کو اسٹیڈیم میں جلا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے ویسے ہی اس کا جسم ٹھنڈا ہونا شروع ہوگیا۔اخباروں میں لگی آگ کی لپٹیں اس کے ٹھنڈے ہوتے جسم میں کوئی گرماہٹ پیدا نہ کر سکیں۔اسرار گاندھی نے اس موقع کی منظر کشی اتنی دل چسپ اور موثر انداز میں کی کہ قاری و اہ کی بجائے آہ کی سسکیاں لینے پر مجبور ہے۔کرکٹ ٹیسٹ میچ کے آخری دن کے نظارے اور سائقین کے شور شرابے ،تالیوں کی آوازوں کے درمیان ایک زندگی کے خاموش ہونے کے واقعات انسانیت کے ماتھے پر ایک بد نما داغ کی مانند نظر آتے ہیں:
’’آج میچ کا آخری دن تھا۔کل سے کیا ہوگا،یہ سوچ کر اس کا دل ڈوبنے لگا۔اچانک پان کی دکان پر بڑی زور دار تالیاں بجنے لگیں اور ایک شور فضا میں بھر گیا۔بھارت میچ جیت گیا تھا۔وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا اور پان کی دکان کی طرف تیزی سے بھاگا پھر وہان کھڑے ہوئے لوگوں کی ٹانگوں کے درمیان سے گھستا گھساتا پھر ٹی ۔وی کے سامنے پہنچ گیا۔اس نے دیکھا کہ اسٹیڈیم کے اندر موجود لوگ تالیاں بجا رہے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے اُن اخباروں میں آگ لگا رکھی ہے جسے وہ اپنے اپنے گھروں سے لائے تھے۔اس منظر کو دیکھ کر اس کا دل تیزی سے ڈوبنے لگا کہ آج صبح سے اسے کھانے کے نام پر کچھ بھی نصیب نہ ہوا تھا۔اسے اُمید تھی کہ شام۔۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں بہار میں اردو افسانہ – ڈاکٹر احمد صغیر )
اسے لگا کہ جیسے یہ اخبار نہ جل رہے ہوں بل کہ اس کے حصے کی روٹیاں جل رہی ہوں۔اچانک اسے ایک زور کا چکر آیا اور وہیں پان کی دکان کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔لوگ بھارت کی جیت پر اب بھی تالیاں بجا رہے تھے اور ہر طرف تابڑ توڑ پٹاخے چھوٹنے کے شور سے فضا میں گونج ہی گونج تھی۔‘‘
روٹی، انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔روٹی کے لیے انسان کیا کیا جتن کرتا ہے اسے کتنے پاپڑ بیلنے ہوتے ہیں ۔کوڑا بین کر،اخبار فروخت کر کے اور نہ جانے ایسے کتنے ہی کام جنہیں مہذب معاشرہ اپنے لیے توہین گردانتا ہے ،کو کرنے کے بعد دو جون کی روٹی اسے نصیب ہوتی ہے۔اسرار گاندھی نے کرکٹ میچ کے بعد اسٹیڈیم میں پھیلائی گئی گندگی کے سہارے زندگی میں نئی جان پھوکنے کے عمل کو قارئین کے سامنے پیش کر ایک نئے مسئلے کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔اس افسانے کے مطالعے کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل گھومنے لگتے ہیں۔روزانہ ہم سڑکوں پر ایسے لاتعداد افراد کو دیکھتے ہیں جو اپنی زندگی کے نقوش ،کوڑوں،غلاضت اور گندگی کے ڈھیر میں تلاش کرتے ہیں۔ہمیں ’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘افسانہ اس بات کا درس دیتا ہے کہ انسانوں کو اپنے ارد گرد بالخصوص چھوٹی بستیوں اور نا خواندہ طبقے پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے ۔اگر وقت رہتے ان پر توجہہ نہیں دی گئی تو یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ تو ہے ہی ساتھ ہی معاشرے کے غیر مساوی حالات اور باتیں ہمارے لیے ندامت کا سبب بن جائیں گی۔میں اس موقع پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس افسانے کی قرأت کرتے وقت ہمارے ذہن میں نظیر اکبر آبادی کی نظم’’روٹیاں‘‘کی یاد یں تازہ ہو جاتی ہیں۔اس حوالے سے میں یہاں پر نظیر اکبر آبادی کی نظم ’روٹیاں‘سے ایک بند پیش کرتا ہوں تاکہ ’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘کا بنیادی ماخذ ہمارے اذہان کے نہاں خانوں میں پیوست ہو جائے:
روٹی نہ پیٹ میں ہو، تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر، خواہشِ باغ و چمن نہ ہو
بھوکے، غریب دل کی، خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ، بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
٭٭٭
ڈاکٹرابراہیم افسر
وارڈ نمبر1،مہپا چوراہا ،نگر پنچایت سِوال خاص،
ضلع میرٹھ(یو پی)250501
موبائل9897012528
ای میلibraheem.siwal@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |