بہار میں افسانہ نگاری کا پہلا دور ترجمے کا دور تسلیم کیا جاتا ہے نیز کچھ طبع زاد افسانے بھی لکھے گئے لیکن فنی اعتبار سے سب کے سب افسانے کمزور تھے۔ ان میں صرف عشق و محبت کی روداد تھی۔ اس کے باوجود انہیں افسانہ نگاروں نے بہار میں اُردو افسانہ نگاری کے لئے راستہ ہموار کیا۔ اس کے بعد تین اہم افسانہ نگاروں کے نام ابھرتے ہیں۔ مسلم عظیم آبادی، ساقی عظیم آبادی اور جمیل مظہری۔ جمیل مظہری کا افسانہ ’’فرض کی قربان گاہ ‘‘ رسالہ ’’ندیم‘‘ گیا میں دو قسطوں میں شائع ہوا۔ پہلی قسط 1935 میں اور دوسری قسط ’’بہار نمبر‘‘ میں شائع ہوئی۔ مسلم عظیم آبادی کا افسانہ ’’الناظر‘‘ لکھنؤ میں ’’محبت و جاہ و ثروت کی کشمکش‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی دور میں چند اور نام بھی ابھر کر سامنے آئے۔ ان میں زبیر احمد تمنائی کا افسانہ ’’سماج کی قربان گاہ پر‘‘ 1936 ، حبیب اللہ جھٹکیاوی کا افسانہ ’’قربان گاہ رسم پر ایک بھینٹ‘‘ 1936 ، سید منظر الحق قادری سونبرساوی کا افسانہ ’’سوسائٹی کی قربان گاہ پر‘‘، اظہر الحق قادری کا افسانہ ’’قربان گاہ محبت‘‘ 1939 ، معین الدین دردائی کا افسانہ ’’آزادی کی قربان گاہ پر‘‘ 1940 اہم ہیں۔ تھوڑا سا آگے بڑھنے پر دو اہم نام افسانے کی دنیا میں سامنے آتے ہیں۔ اختر اورینوی اور الیاس اسلام پوری۔
بہار میں اُردو افسانہ نگاری کا دوسرا دور 1930 سے 1946 تک پھیلا ہوا ہے۔ جس میں محسن عظیم آبادی، اختر اورینوی، سہیل عظیم آبادی، شکیلہ اختر، شین مظفر پوری، جمیل احمد کندھائی پوری، الیاس اسلامپوری، اختر قادری، افسرماہ پوری، نسیمہ سوز، ح۔م۔ اسلم عظیم آبادی، رضیہ رعنا وغیرہ کے نام اہم ہیں۔مجموعی اعتبار سے یہ دور بے حد ممتاز دور ہے۔
محسن عظیم آبادی کا سب سے مشہور افسانہ ’’انوکھی مسکراہٹ‘‘ ہے۔ وہ اس افسانے کے بارے میں خود لکھتے ہیں :
’’انوکھی مسکراہٹ صرف میرا پہلا افسانہ نہیں بلکہ میری اوّلین افسانوی کوشش ہے۔ اس کے بعد میں نے اس دور کو ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر ایک دوسرے طرز کا افسانہ ’’مزدور کا بیٹا‘‘ لکھا جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنی ہر افسانوی تخلیق کو انوکھی مسکراہٹ کے طرز پر ڈھالنے کا فیصلہ کر لیا اور بعد میں جو افسانے لکھے مواد کے اعتبار سے ان میں ایک تسلسل قائم رکھا۔‘‘
(انوکھی مسکراہٹ، ص۔ 3)
اختر اورینوی اُردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’رتنا‘‘ ہے جو شائع نہیں ہوا۔ اس لئے ان کا پہلا افسانہ ’’بدگمانی‘‘ کو ہی تسلیم کیا جائے گا جو ’’بہارستان ‘‘، پٹنہ میں مئی 1931 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بقول پروفیسر عبدالمغنی ۔ جس وقت اختر اورینوی نے افسانہ نگاری شروع کی، پریم چند زندہ تھے، اور ان کے پیروؤں کی ایک پوری نسل بروئے کار آ چکی تھی۔ سدرشن،ا عظم کریوی اور علی عباس ابھر چکے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیاز فتح پوری کا جمالستان، اور سجاد حیدر یلدرم کا خیالستان سج چکے تھے۔ مجنوں گورکھپوری کا بیاباں بھی آ چکا تھا۔ حجاب امتیاز علی کا کوہ قاف نمودار ہو رہا تھا، سعادت حسن منٹو نے ابھی لکھنا شروع کیا تھا پھر اختر اورینوی کے لکھنا شروع کرنے کے دو تین ہی برسوں بعد کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور چند سال بعد عصمت چغتائی بھی میدان میں آگئیں۔ اس عہد میں احمد ندیم قاسمی بھی لکھنے لگے۔ اس طرح اختر اورینوی اُردو افسانہ نگاری کی دوسری نسل کی پہلی پشت میں وجود پذیر ہوئے۔
سہیل عظیم آبادی نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ ان کے افسانوں میں بہار کے گاؤں اور کسانوں کی زندگی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سہیل عظیم آبادی نے 1930 سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے افسانے ’’الاؤ‘‘، ’’اندھیرے اور اجالے میں‘‘،’’ دو مزدور‘‘، ’’کھویا ہوا لال‘‘، ’’جوار بھاٹا‘‘، ’’ٹوٹتا ہوا تارا‘‘، ’’چوکی دار‘‘، ’’شرابی‘‘، ’’وہ رات‘‘، ’’زنجیر تمام ’’بیچارہ‘‘، ’’جوانی‘‘،’’پیٹ کی آگ‘‘ اور ’’بھوک‘‘ میں کسان مزدور اور دبے کچلے لوگوں کی معاشرتی زندگی کی سچی تصویر ابھرتی ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’الاؤ‘‘ 1943، ’’نئے پرانے‘‘ 1944 اور ’’چار چہرے‘‘ 1977 میں شائع ہو چکے ہیں۔
شکیلہ اختر کا پہلا افسانہ ’’رحمت‘‘ 1936 میں ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں کے چار مجموعے ’’درپن‘‘، ’’آنکھ مچولی‘‘، ’’ڈائن‘‘ اور ’’آگ اور پتھر‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ شکیلہ اختر کے افسانوں کا پس منظر روز مرہ کی زندگی، روز مرہ کا نشیب و فراز ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’پیاسی نگاہیں‘‘، ’’آگ اور پتھر‘‘ ، ’’ننگی آنکھ‘‘، ’’بھٹکی ہوئی منزل‘‘، ’’ڈائن‘‘ وغیرہ کو شمار کیا جا سکتا ہے۔
الیاس اسلامپوری کا پہلا افسانہ 1935 میں ’’نگار ‘‘ میں شائع ہوا۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’الہامی آزادی’’،’’ تجدید محبت‘‘،’’ڈھائی سیر چنا‘‘، ’’پریم چند کی بھول بھلیاں‘‘، ’’نورو ظلمت‘‘، ’’چمار‘‘، ’’ماڈل ویلج‘‘،’’ہیروئن‘‘ ہیں۔ الیاس اسلامپوری کے یہاں حقیقت پسند رجحان زیادہ ہیں۔
نسیمہ سوز نے 1940 کے آس پاس لکھناشروع کیا۔ ان کے افسانے ’’ظالم فطرت‘‘، ’’ایسا کیوں‘‘، ’’سرگوشی‘‘، ’’اندھیرا‘‘، ’’یہ زندگی‘‘ اہم ہیں۔ جمیل احمد کندھائی پوری کا افسانوی سفر 1934 سے شروع ہوتا ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’فیروزہ‘‘ 1934 میں ’’عالمگیر‘‘ میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آغاز و انجام‘‘ 1941 میں شائع ہوا۔ ’’طلوع و غروب‘‘ اور ’’رباب شکستہ‘‘ دو مجموعے طبع زاد ہیں۔ جمیل احمد کندھائے پوری کے افسانوں میں مزدور، کسان اور دیہاتی زندگی کے مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان کا فنی نصب العین حقیقت پسندی ہے۔ اختر قادری کا افسانوی سفر 1932 سے شروع ہوکر 1945 تک پھیلا ہوا ہے، لیکن وہ بحیثیت شاعر زیادہ مشہور ہوئے۔ ان کے افسانوں میں ’’موت‘‘، ’’راز محبت‘‘، ’’فرض‘‘، ’’نقاب‘‘، ’’آہنسا‘‘، ’’پٹھان کا خواب‘‘ وغیرہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رضیہ رعنا کا افسانوی سفر 1937 سے شروع ہوتا ہے۔ ’’ندیم‘‘ اور ’’سہیل‘‘ میں ان کے افسانے شائع ہوتے تھے۔ ’’پریم کا بندھن‘‘، ’’احساس محبت‘‘، ’’طلسم خیال‘‘ اور ’’شریمتی جی‘‘ ان کے اہم افسانے ہیں۔ ان کے افسانوں میں رومانی فضا زیادہ ملتی ہے۔
ح۔م۔ اسلم عظیم آبادی در اصل ڈاکٹر سید محمد حسنین کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی مقبولیت بحیثیت انشائیہ نگار زیادہ اہم ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کا زمانہ 1940 سے 1968 تک محیط ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’جب رات کے گیارہ بجے تھے‘‘ تھا۔
شین مظفرپوری کے افسانے 1940 سے شائع ہونے لگے تھے۔ ’’کڑوے گھونٹ‘‘ اور ’’آوارہ گرد کے خطوط‘‘ دو مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔ بلقیس فاطمہ لکھتی ہیں :
’’۔۔۔۔۔۔ اس کے قلم کی ہر ادا ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال پر ایک حسرت ناک اور تنقیدی طنز ہے۔ وہ جنسی رنگینیوں اور رومانی دلآویزیوں میں ہمارے ذہن کو ابھار کر ان شرمناک کمزوریوں کو برہنہ کر دیتا ہے۔ جنہیں ہم قابل اصلاح تصور نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ اس کے قلم کی نوک سوسائٹی اور سوسائٹی کی جنسی مقبولیت کے اس پھوڑے کو کریدتی ہے جو کوڑھ میں منتقل ہو چکا ہے۔‘‘
(پیش لفظ ، از: بلقیس فاطمہ)
[نوٹ: بلقیس فاطمہ شین مظفر پوری کا فرضی نام تھا۔]
قیصر عثمانی بحیثیت شاعر زیادہ مشہور ہوئے۔ 1944 سے 1950 تک ان کا افسانوی سفر جاری رہا۔ پہلا افسانہ ’’خیام‘‘ لاہور ’’ میں ’’آوارہ ‘‘کے عنوان سے 1940 میں چھپا۔ ان کے کئی افسانے قابل توجہ ہیں۔ جیسے ’’پانچ انگلیاں‘‘، ’’نرگس کی ساڑی‘‘، ’’سوراج‘‘، ’’ایک کلسی ایک ہانڈا‘‘، ’’مریض‘‘ وغیرہ۔
بدیع مشہدی کے افسانے 1945 ہی سے شائع ہونے لگے تھے۔ ’’نقاش‘‘ کلکتہ میں لگاتار ان کے افسانے جیسے ’’ٹک ٹک‘‘، ’’آفت‘‘، ’’تصادم‘‘، ’’چسٹر‘‘ وغیرہ شائع ہوئے لیکن وہ جلد ہی ہندی کی طرف راغب ہو گئے اور ہندی فکشن میں کافی شہرت حاصل کی۔ بٹوارہ پر ان کا ایک شاہکار ناول ’’چھاکو کی واپسی‘‘ ہندی میں شائع ہوا۔ حال ہی میں راج کمل پرکاشن، دہلی نے اسی ناول کو ’’واپسی‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ بدیع مشہدی کا ایک اور ناول ’’ایک چوہے کی موت‘‘ بھی خاصہ مقبول رہا۔ وہ ترقی پسند تحریک سے ہمیشہ منسلک رہے۔ اس لئے ان کے افسانوں اور ناولوں میں حقیقت پسندی موجود ہے۔
انور عظیم اُردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ ترقی پسندی کے علمبردار انور عظیم تاحیات لکھتے رہے۔ ان کا افسانوی سفر 1943 میں شروع ہوا۔ شروع میں ان کے افسانے ’’ندیم‘‘ گیا اور ’’نقاش‘‘ کلکتہ میں شائع ہوئے۔ ابتدائی افسانوں میں ’’لال لال‘‘، ’’پھول اور کانٹے‘‘، ’’پرواز‘‘، ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ اور ’’چڑیلیں‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن جلد ہی وہ گیا سے دہلی منتقل ہو گئے۔ اور اس کے بعد روس تک گئے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ’’اجنبی فاصلے‘‘ 1994 ’’دھان کٹنے کے بعد‘‘ 1999 اور ’’لابو ہیم‘‘2000 شائع ہوئے۔
انور عظیم کا سب سے مشہور افسانہ ’’اونگھتی ڈیوڑھی جاگتے کھیت‘‘ ہے۔ اس افسانے کی اشاعت کے بعد ہی ان پر لوگوں کی نظر پڑنے لگی۔ دراصل اس میں ایک طرح کی طبقاتی کشمکش ہے۔ ایک تو وہ ہیں جو مسلسل استحصال کرتے رہتے ہیں گویا جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندگی کرتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو استحصال کے شکار ہیں، جن کا استحصال ہوتا رہا ہے۔
کلام حیدری اُردو افسانے کا ایک اہم نام ہے۔ 1950 کے آس پاس لکھنا شروع کیا۔ شروع میں وہ ترقی پسند تحریک سے جڑے رہے۔ اس لئے ان کے دو ابتدائی افسانوی مجموعے ’’صفر‘‘ اور ’’بے نام گلیاں‘‘ میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ اس دور کے مشہور افسانوں میں ’’بے نام گلیاں‘‘ ، ’’کلیاں اور شاخیں‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر نے ’’بے نام گلیاں‘‘ پڑھ کر لکھا تھا :
’’۔۔۔۔۔۔حالات کی کتنی اچھی خاصی عکاسی، کیسی پیاری زبان، عوام کا کتنا گہرا درد اور ان کی کیسی صحیح Understanding ۔۔۔۔۔۔ہماری تحریک اور ہمارے ادب کو ایسے لکھنے والوں کی بڑی ضرورت ہے۔‘‘
کلام حیدری جلد ہی جدیدیت کی طرف راغب ہوئے ’’الف لام میم‘‘ اور ’’گولڈن جوبلی‘‘ افسانوی مجموعے میں جدید رنگ کے افسانے موجود ہیں۔
غیاث احمد گدی نے 1946 سے لکھنا شروع کیا۔ ابتدائی افسانوں میں ’’بوجھ‘‘، ’’کلیوں کا خون‘‘، ’’کالے شاہ‘‘، ’’افعی‘‘، ’’میں اور کہانی‘‘ اور ’’پان‘‘ وغیرہ ہیں لیکن ’’بابا لوگ ‘‘نے انہیں بام عروج پر پہنچا دیا اور ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ نے فکرو فن کی وہ بلندی عطا کی جو ان کے ہمعصر افسانہ نگاروں کو نصیب نہیں ہوا۔ موضوع اور اسلوب کی سطح پر غیاث احمد گدی نے اُردو افسانے کو ایک وقار بخشا ہے۔
مشہور نقاد شکیل الرحمٰن نے ابتداء میں افسانے بھی لکھے تھے جو ’’بیسویں صدی‘‘ جیسے رسالہ میں شائع ہوتے تھے۔ چند افسانے جو پسند کئے گئے وہ ’’لینڈ سلائڈ‘‘، ’’آخری سجدہ‘‘، ’’قیصر‘‘، ’’گریز‘‘ اور ’’پتھر کی آواز‘‘ ہیں۔
زکی انور 1945 سے افسانے لکھ رہے تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’کندن‘‘ جدید اُردو کلکتہ 1945 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں تھکے اور آخری وقت تک لکھتے رہے۔ زکی انور بسیار نویس تھے۔ اس لئے ان کے یہاں افسانوں اور ناولوں کی تعداد اچھی خاصی ہے لیکن فکرو فن کی سطح پر انہوں نے کوئی کمال نہیں دکھایا۔ چند قابل ذکر افسانوں میں ’’لال پری‘‘، ’’کھوسٹ‘‘، ’’تین سال تین دن‘‘، ’’چلم‘‘، ’’تھکن‘‘، ’’ہنگاموں کی موت‘‘، ’’رند کے رند رہے‘‘، ’’ایک شعلہ‘‘اور ’’وفا‘‘ ہیں۔
انجم جمالی نے اپنا افسانوی سفر 1947 سے شروع کیا۔ وہ زود نویس افسانہ نگار رہے ہیں۔ ’’کاجل کی کوٹھری‘‘، ’’بازی‘‘، ’’رات کے ٹیلے‘‘، ’’استاد جی‘‘، ’’سیاہ کاغذ‘‘، ’’طاقت‘‘، ’’عورتوں کا زہر‘‘، ’’ریشم کی عورت‘‘، ’’سازش‘‘، ’’وفا‘‘ اور ’’میلے کی رات‘‘ وغیرہ توجہ طلب افسانے ہیں۔
ل۔م۔ شاہد نے 1945 سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے زیادہ تر افسانے اکہرے ہیں۔ ’’نیا قدم‘‘، ’’آواز کے سائے‘‘، ’’محبت دولت اور فنکار‘‘، ’’گھائل سپنے‘‘، ’’تین عورتیں ایک غم‘‘، ’’بات کہاں تک پہنچی‘‘ وغیرہ دلچسپ افسانے ہیں۔
گرو بچن سنگھ نے بہار میں افسانہ نگاری کے ارتقاء میں ایک اہم رول ادا کیا۔ ان کے افسانے ’’تہذیب‘‘، پٹنہ اور ’’صنم‘‘ وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔ ’’بہار لٹ گئی‘‘ اور ’’ہفتہ کے دن‘‘ وغیرہ ان کے اچھے افسانے ہیں۔
ش۔ اختر اپنے ترقی پسند رجحان کی وجہ سے خاصے مقبول ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کی بنیاد معاشرتی و سماجی احوال و کوائف پر رکھی ہے۔ زندگی کے مسائل، متوسط طبقے کی زبوحالی ان کے افسانے کے موضوعات رہے ہیں۔ ’’شانتی‘‘ ، ’’کہاسے اور کانٹے‘‘ ، ’’ہل اسٹیشن‘‘، ’’منزلیں‘‘، ’’عیسوکی مریم‘‘، ’’ردّ عمل‘‘ ان کے مشہور افسانے ہیں۔
صمد حمیدی نے 1953 سے لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’سماج کی چٹان ‘‘ ہے لیکن باضابطہ طور پر نہ لکھنے کی وجہ سے خاصے مشہور نہیں ہوئے۔ ان کے بعض افسانوں میں ’’ماسٹر غفور‘‘، ’’پربھو‘‘، ’’میرے بہرے اندھے گونگے خدا‘‘، ’’رقص حیات‘‘، ’’ خواب‘‘، ’’سناٹا‘‘، ’’شکستہ‘‘، ’’بھنگورے‘‘اور ’’شعلے اور شرارے‘‘ توجہ طلب ہیں۔
طارق ندیم نے 1958 سے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا لیکن زیادہ دور نہیں جا سکے۔ ’’شکن در شکن‘‘ اور ’’زیر و زبر‘‘ ان کے شروع کے افسانے ہیں۔ عبدالمتین نے 1952 کے آس پاس لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’چندن‘‘ ہے۔ ’’رنگوں کا تعاقب‘‘، ’’ائے خالق کائنات‘‘، ’’پیراڈوکس‘‘، ’’سفر‘‘، ’’سوال‘‘ اور ’’کائنات کی موت‘‘ ان کے دیگر افسانے ہیں۔
شفیع مشہدی نے 1956 سے لکھنا شروع کیا۔شفیع مشہدی نے ہمیں اس وقت متوجہ کیا جب ’’کرچیاں‘‘ اور ’’شونار ہرین‘‘ جیسی کہانیاں اشاعت پذیر ہوئیں۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے ’’شاخ لہو‘‘ اور ’’سبز پرندوں کا سفر‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ شفیع مشہدی کے اظہار کے دو دھارے ان کے مذکورہ افسانوی مجموعے کی کہانیوں کو دو حصے میں منقسم کرتے ہیں۔ شفیع مشہدی کے افسانے زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف مردوں کی نفسیات کی گرہیں کھولتے ہیں بلکہ عورتوں کی نفسیات کو بھی کھولنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے کے کردار بالکل سامنے کے ہوتے ہیں۔ جن کا ہر قدم پر ہمارا سامنا ہوتا ہے اور جو مسائل شفیع مشہدی اٹھاتے ہیں اس سے ہم روز جھوجھتے ہیں۔ وہ کہانی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ ان کی زبان بالکل سادہ ہے جدیدیت کے دور میں بھی وہ سپاٹ بیانیہ پر ڈٹے رہے اور آج بھی وہ اسی طرح کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔
شعیب شمس کا افسانوی سفر 1959 سے شروع ہوا۔ ان کے افسانے ’’صنم‘‘، ’’اشارہ‘‘، ’’بیسویں صدی‘‘ اور ’’شاعر‘‘ میں پابندی سے شائع ہوتے تھے۔ ان کے افسانے نیم رومانی اور نیم حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔
الیاس احمد گدی کا پہلا افسانہ ’’سرخ نوٹ‘‘، ماہنامہ ’’افکار‘‘ بھوپال 1948میں شائع ہوا۔ دو افسانوی مجموعے ’’آدمی‘‘ 1978 اور ’’تھکا ہوا دن‘‘ 1989 میں شائع ہو چکے ہیں۔ الیاس احمد گدی کے افسانوں میں فنی رکھ رکھاؤ زیادہ ملتا ہے۔
شمیم سیفی شروع میں رومانی افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے پھر حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوئے لیکن کوئی خاص پہچان نہ بنا پائے۔ ’’قصہ ایک بوڑھے کا‘‘ اور ’’فرشتہ‘‘ ان کے توجہ طلب افسانے ہیں۔ رفعت بلخی کے افسانوں میں معاشرتی، سماجی اور تمدنی مسائل زیادہ نظر آتے ہیں۔ ’’برف اور خوشبو‘‘، ’’صبح ہونے تک‘‘، ’زاویے‘‘ اور ’’آخری پلان‘‘ ان کے افسانے ہیں۔ محمود واجد نے 1958 سے لکھنا شروع کیا۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’خزاں کے پھول بہار کے دن‘‘ 1966 میں شائع ہوا۔ ان میں کچھ توجہ طلب افسانے ہیں جیسے ’’امن کا ہاتھ‘‘، ’’کانچ کا گلاس‘‘، ’’مجبوری‘‘، ’’ایک ربط ناشناس‘‘، ’’تیری آرزو بھی گلاب ہے‘‘ وغیرہ۔
ہربنس سنگھ دوست ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ مزدوروں، کسانوں اور دبے کچلے لوگوں کی زبوں حالی، ان کے دکھ درد افسانے کے موضوعات ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’گیت اور چیخ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ ’’ایٹم بم پھٹ گیا‘‘، ’’برش اور رنگ‘‘، ’’پردھان منتری کی بیٹی‘‘، ’’ایک رات کی بات‘‘ وغیرہ ان کے اہم افسانے ہیں۔
معین شاہد نے زندگی کو آدرش وادی کی طرح دیکھا ہے۔ اس لئے ان کا بیانیہ سیدھا سادا اور عام فہم ہے۔ ان کے کردار بھی بے حد معصوم ہوتے ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’پیتل کا لوٹا‘‘، ’’سودا‘‘، ’’طاعون‘‘، ’’جانے والا سپاہی‘‘، ’’ایک لاش تین کہانیاں‘‘، ’’کاجل اور آنسو‘‘، ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘‘، ’’ناسور‘‘، ’’رات اندھیری ہے‘‘، ’’انگڑائی‘‘ وغیرہ ہیں۔
قمرالتوحید کے افسانے زیادہ توجہ طلب نہیں رہے۔ شہاب دائروی کے یہاں دکھ درد کی کہانی ملتی ہے۔ ’’میں کیا کروں‘‘، ’’کھردرے ہاتھ‘‘ اور ’’دل ایک مندر‘‘ قابل مطالعہ افسانے ہیں۔
احمدیوسف افسانہ نگاری کی ابتداء1949 سے کرتے ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ’’پکا ارادہ‘‘، ’’نئی راہ‘‘ پٹنہ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد بہت سارے افسانے لکھے جو ہئتی اعتبار سے روایتی انداز کے ہیں اور موضوع کے اعتبار سے ترقی پسندی موقف کے علمبردار ہیں۔ ان کی یہ کہانیاں زندگی کی کربناکیوں کی تصویریں سامنے لاتی ہیں۔ ان میں انسانی استحصال کی داستانیں قلم بند ہیں۔ ان میں تہذیبی انحطاط پر اظہار ہے، تقسیم ہند کے بعد کی المناکیاں ہیں، خاندانوں کے انتشار کی کہانیاں ہیں۔ احمد یوسف کی ایسی کہانیوں کے بعد 1955 سے 1960 تک ایک خاموشی کا دور نظر آتا ہے۔ 1961 سے پھر نئے سرے سے افسانے کا آغاز کرتے ہیں۔ دراصل خاموشی کا زمانہ ان کے ادبی و فنی غور و فکر کا زمانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی خاموشی کے بعد آنے والی کہانیوں کا مزاج اور اسلوب بدلا ہوا تھا۔
ان کے افسانوں کے مجموعہ ’’روشنائی کی کشتیاں‘‘ میں جو افسانے شامل ہیں۔ وہ 1949سے لے کر1963 تک کے افسانے ہیں۔ دوسرا مجموعہ ’’آگ کے ہمسائے‘‘ ہے جس میں پہلے مجموعہ کی طرح پندرہ کہانیاں ہیں جو 1968کے بعد کی کہانیاں ہیں۔
ظفر اوگانوی نے اپنی افسانہ نگاری کی بنیاد ترقی پسندی پر رکھی لیکن جب جدیدیت کی ہوا چلی تو اس میں بہہ گئے۔ ظفر اوگانوی کا پہلا افسانہ’’مارواسی جھولے‘‘ رسالہ ’’صنم‘‘، پٹنہ 1958 میں شائع ہوا۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’بیچ کا ورق‘‘ 1977 میں شائع ہوا۔
ظفر اوگانوی جدید افسانہ نگاروں میں ایک اہم افسانہ نگار تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن شروع میں وہ ترقی پسند تحریک سے جڑے رہے۔ اس لئے نہ ترقی پسند وں نے انہیں وہ مقام دیا اور نہ ہی جدیدیوں نے گھاس ڈالی لیکن کہا جاتا ہے کہ ’’بیچ کا ورق‘‘ میں جو افسانے ہیں۔ وہ اس دور میں کسی جدید افسانہ نگار نے بھی ویسے افسانے نہیں لکھے تھے۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’بیچ کا ورق‘‘، ’’اہرام‘‘،’’پہاڑ پر ایک حادثہ‘‘اور ’’اپنا رنگ‘‘ وغیرہ ہیں۔
منظر کاظمی کا پہلا افسانہ ’’زہر کی پوٹ‘‘ کے عنوان سے 1959 میں شائع ہوا۔ 1962 کے بعد اُردو افسانے کی نئی کروٹ منظر کاظمی کے افسانوں کی بھی نئی کروٹ ہے۔ منظر کاظمی نے مسائل کو محض ایک تماشائی کی طرح نہیں لکھا بلکہ خود کو ان میں حل کر لیا۔ ان کے یہاں الفاظ کی نئی معنویت نظر آتی ہے۔
شفیع جاوید کا پہلا افسانہ’’آرٹ اور تمباکو‘‘ ماہنامہ’’اُفق‘‘، دربھنگہ ، 1953 میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دائرے سے باہر 1979 ، ’’کھلی جو آنکھ‘‘ 1982 ، ’’تعریف اس خدا کی‘‘ 1964 ، ’’رات شہر اور میں‘‘ 2004 اور ’’بادبان کے ٹکڑے‘‘ 2013 میں شائع ہوئے۔ شفیع جاوید ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے بہت ٹھہر ٹھہر کر لکھا ہے۔ اس لئے ان کے افسانوں میں ٹھہراؤ ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’تعریف اس خدا کی‘‘، ’’نارسی‘‘، ’’اندھیرے اُجالے‘‘، ’’تاریکی کا دامن‘‘، ’’بادبان کے ٹکڑے‘‘، ’’دشت میں شبنم‘‘، ’’خواب نگر کے باہر‘‘ وغیرہ ہیں۔ شفیع جاوید جدید افسانہ نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذکیہ مشہدی کے مشہور افسانوں میں ’’چرایا ہوا سکھ‘‘، ’’ایک تھکی ہوئی عورت‘‘، ’’نروان‘‘، ’’وہ ایک صبح‘‘، ’’شکستہ پروں کی اُڑان‘‘، ’’کالے میگھا پانی دے‘‘، ’’کاغذی رشتہ‘‘ اور ’’آنٹی ایملی‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ذکیہ مشہدی آج بھی فعال ہیں اور ان کے افسانے رسالوں کی زینت بن رہے ہیں۔ ان کا تازہ مجموعہ ’’یہ جہان رنگ و بو‘‘ 2013 میں منظرعام پر آچکا ہے۔ذکیہ مشہدی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پرائے چہرے‘‘ 1984ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سے آج تک وہ فعال ہیں اور لگ بھگ تمام ادبی رسالوں میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ذکیہ مشہدی نے اپنے عہد کی عورت‘ اس کے معاشرے اور اس کے روزمرہ کے گزرے لمحات کو صحیح ادبی تناظر میں پیش کیا ہے۔
جابر حسین اردو ‘ ہندی اور انگریزی زبانوں میں لکھتے رہے ہیں۔ اب تک سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں انہوں نے اردو فارسی اور ہندی زبان کی 44 تخلیقات کی ترتیب و اشاعت کا کام سر انجام دیا۔ اُردو میں ’’دستاویز‘‘ کے علاوہ ’’خبرنامہ‘‘ بھی نکالتے رہے ہیں۔ دستاویز کاؤنسل کی کارگذاریوں پر محیط ہوتا تھا۔ اردو مرکز کے ادبی رسالہ ’’ترجمان‘‘ اور ’’اردو نامہ‘‘ کے اڈیٹر رہے ہیں۔ ان کی اردو تصنیف و تالیف اس طرح ہیں۔
ایک ندی ریت بھری (شاعری 1992ء)‘ بہار کی پسماندہ مسلم آبادیاں (تجزیہ 1994ء) ‘ سن اے کاتب (ڈائری 1997ء)‘ ریت پر خیمہ (ڈائری 2002ء)‘ بے اماں (ڈائری 2002ء)۔ ’’ریت پر خیمہ‘‘ پر انہیں ساہتیہ اکادمی کا انعام بھی مل چکا ہے۔’’یہ شہر موہے لاگے بن‘‘،’’انگارے اور ہتھیلیاں‘‘ تازہ ترین مجموعے ہیں۔
اُردو افسانے کے سفر میں 1970 کے بعد جن افسانہ نگاروں نے اپنی مخصوص فکری اور انقلابی پہچان بنائی ہے اس میں شوکت حیات کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اصلاً سائنس کے طالب علم رہے ہیں لیکن اُردو کے افسانوی ادب میں ان کی دلچسپی ابتداء سے ہی تھی۔ سہیل عظیم آبادی ، احمد یوسف، کلام حیدری جیسے بزرگ افسانہ نگاروں سے تحریک حاصل کرکے جس طرح انہوں نے افسانوی سفر کا آغاز کیا وہ خاصہ اہم اور غور طلب ہے چونکہ وہ عوامی اور احتجاجی تحریکوں سے وابستہ رہے ہیں۔ اس لئے وہ ایک خاص سیاسی نظریہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’گنبد کے کبوتر‘‘ 2011 میں شائع ہو چکا ہے۔شوکت حیات کے مشہور افسانوں میں ’’ڈھلان پر رُکے ہوئے قدم‘‘، بانگ‘‘، ’’صدیوں کے لمحے‘‘، ہاسٹل لیٹربکس کی تلاش‘‘، ’’کاغذ کا درخت‘‘، ’’بکسوں سے دبا آدمی‘‘، ’’دوسرا‘‘، ’’شہر‘‘، ’’پاؤں‘‘، ’’خواب‘‘، ’’صرف سیاہ چادریں اور انسانی ڈھانچا‘‘، ’’موم بتی پر رکھی ہتھیلی کے نام ایک خط‘‘ اور ’’تین مینڈک‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
عبدالصمد نے اپنا ادبی سفر 1961 سے شروع کیا لیکن پہلا افسانہ 1965 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے چھ افسانوی مجموعے ’’بارہ رنگوں والا کمرہ‘‘ 1980 ، ’’پس دیوار‘‘ 1983، ’’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘‘ 1996 ، ’’میوزیکل چیئر‘‘ 2000 ، ’’آگ کے اندر راکھ‘‘ 2011 اور ’’بقلم خود‘‘ 2013 میں شائع ہو چکے ہیں۔عبدالصمد کے افسانوں میں کردار نگاری کا انوکھاپن پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کو دھندلی فضا میں پیش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔
حسین الحق نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1959 سے کیا۔ شروع میں وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھتے رہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’پسند‘‘ماہنامہ ’’جمیلہ‘‘ دلّی میں 1965 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے پانچ افسانوی مجموعے ’’پس پردۂ شب ‘‘، ’’صورتحال‘‘، ’’سوئی کی نوک پر رکا لمحہ‘‘، ’’بارش میں گھرا مکان‘‘ اور ’’نیو کی اینٹ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ حسین الحق ان افسانہ نگاروں میں ہیں جنہوں نے علامت کو تخلیقی بدل بنا کر اساطیری اور ڈرامائی اسلوب کی فضا تیار کی اور مذہب و تصوف کے پس منظر نے جن کے یہاں اعتبارات کی حیثیت اختیار کی اور جنہوں نے فرد کی بے سکونی اور کم مائیگی کا جواز مذہبی اور تہذیبی اقدار کے انقلاب میں تلاش کیا۔ وہ وسیع نظریات جن کا تعلق روحانی ارتقا، سماجی اور تمدنی بین الاقوامیت اور مابعد الطبیعاتی انقباط سے ہے۔ حسین الحق فرد کے کرب سے شانہ ملا کر موضوعات کی تشکیل کرتے ہیں اور ان کے یہاں ایک پراسراریت پورے تخلیقی ماحول پر طاری رہتی ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں انور آفاقی کے افسانے: نئی راہ نئی روشنی کے حوالے سے – کامران غنی صباؔ )
شفق کا پہلا افسانہ ’’میں قاتل ہوں ‘‘جون 1962میں ’’سوز‘‘ کلکتہ میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے ’’سمٹی ہوئی زمین‘‘ 1979 ، ’’شب گزیدہ‘‘ 1984 ، ’’شناخت‘‘ 1989 اور ’’وراثت‘‘ 2003 میں شائع ہو چکے ہیں۔
شفق نے موضوعاتی سطح پر بیدار ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ اور اس پورے برصغیر میں سیاست دانوں کی سازش نے جو اتھل پتھل مچائی ہے۔ اس کی عکاسی دل کو چھو لینے والے انداز میں کی گئی ہے اور اس سلسلے میں بالخصوص ’’نچا ہوا کارڈ‘‘، ’’نچے ہوئے ہونٹ‘‘، ’’نچا ہوا گلاب‘‘ وغیرہ بنگلہ دیش میں ہونے والے سانحے اور اس سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کے مسائل کو فنی اور تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے۔
رضوان احمد 1970 کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ’’مسدود راہوں کے مسافر‘‘ 1977 ، ’’فصیل شب‘‘ 1984 اور ’’کون فیکون‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔
مشتاق احمد نوری بہار کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ ’’تلاش‘‘ اور ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں جس میں ان کی حرکیات اور فنی جمالیات کا صحیح طور پر ادراک کیا جا سکتا ہے۔ مشتاق احمد نوری نے کئی اہم افسانے لکھے ہیں جس میں ’’جن کی سواری‘‘، ’’لمبے قد کا بونا‘‘ اور ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘ کا ذکر ہم کر سکتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’’جن کی سواری‘‘ ذہنی پیچیدگیوں کو فنکاری کے ساتھ اجاگر کرتا ہے۔
شموئل احمد کا پہلا افسانہ ’’چاند کا داغ ماہنامہ ’’صنم‘‘ پٹنہ 1963 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے’’بگولے‘‘، ’’سنگھار دان‘‘ اور ’’القمبوس کی گردن‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ’’سنگھار دان‘‘ ان کا سب سے کامیاب افسانہ ہے۔ جس میں ایک طوائف کے کردار کو نہایت ہی حساس طریقے سے ابھارا گیا ہے۔ شموئل احمد کی کہانیوں میں چونکانے کی کیفیت موجود ہے۔ ان کی کہانیاں دوران قرأت قاری کو بیشتر مقامات پر روکنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ جہاں پر قاری ٹھہر کر اس سماج اور سیاسی Setup کا استہزائیہ احتساب کرتا ہے۔ جسے سفید پوشوں میں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے پوری طرح آلودہ کر دیا ہے۔
علی امام جدید افسانہ نگار رہے لیکن جب جدیدیت کا زور ختم ہوا تو وہ بھی غائب ہو گئے۔ علی امام کے افسانوں میں ڈرامائی عنصر خاصہ تیز معلوم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ داستان گوئیوں جیسا رویہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں لیکن طوالت کے بغیر اور منطقی ربط کے ساتھ۔
قمر جہاں کو کہانی بیان کرنے کا فن اچھی طرح معلوم ہے۔ ان کی بیشتر کہانیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ ان کے موضوع پر پوری گرفت حاصل ہے۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں کہانی کا تصور آغاز سے انجام تک قائم رہتا ہے۔ اظہار بیان اور جملوں کی ساخت و ترتیب میں ان کا اپنا الگ انداز ہے اور یہی انداز بیان قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کو بسیار نویس کہا جاتا ہے۔ اب تک ان کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں لیکن ذوقی کا ماننا ہے کہ وہ قلم کی مزدوری کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اسی طرح لکھتے ہیں جس طرح مزدور مزدوری کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذوقی جب دلّی آئے تھے تو اپنے ساتھ صرف قلم لے کر آئے تھے لیکن انہوں نے قلم کی مزدوری کرکے آج اپنا ایک بلند مقام بنا لیا ہے۔
بدر اورنگ آبادی کے افسانوں کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کلام حیدری کے ہمعصر ہیں اور ان کی صحبت میں اٹھنا بیٹھنا تھا لیکن افسانوں میں انہوں نے کلام حیدری سے کچھ نہیں سیکھا۔ کلام حیدری نے افسانوی اُفق پر جو مقام بنایا۔ بدر اورنگ آبادی اس میں پیچھے رہ گئے۔ اس کی وجہہ ان کا اپنا انداز بیان ہے۔ انہوں نے عام موضوعات کا انتخاب کیا اور بیانیہ کو بھی سپاٹ رہنے دیا۔ اسی لئے ان کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ جو کلام حیدری کے حصے میں آیا۔
بہار کے اردو افسانے کے سفر میں ایک نام غضنفرکا بھی ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ٹیری کوٹ کا سوٹ‘‘ رسالہ ’’بڑھتے قدم‘‘ دہلی میں 1973 میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’حیرت فروش‘‘ 2006 میں شائع ہوا۔
پیغام آفاقی کا پہلا افسانہ ’’لوہے کا جانور‘‘ آجکل، 1975 میں شائع ہوا۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ کے نام سے 2002 میں شائع ہو چکا ہے۔
کہکشاں انجم کا پہلا افسانہ ’’میلاپ‘‘ میں ’’سنگھار‘‘ کے عنوان سے 1965 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے ’’کہکشاں‘‘ 2003 اور ’’کرچیاں‘‘ 2006 میں شائع ہو چکے ہیں۔ کہکشاں انجم کے افسانوں کے موضوعات گھریلو مسائل ہیں۔
عبید قمر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1968 سے کیا۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے ’’آخری کش‘‘ اور ’’ننگی آوازیں‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ عبید قمر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے لیکن ان کے یہاں واضح علامت ملتے ہیں۔اس لئے ان کی کہانی سمجھ میں آجاتی ہے۔
ابواللیث جاوید ، عشرت ظہیر، شمیم صادقہ، شمیم افزا قمر، نصرت آرا، اعجاز شاہین نے بھی اُردو افسانے کے ارتقاء میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔
قاسم خورشید 1980ء کے بعد ابھرنے والے اہم افسانہ نگار ہیں ۔ جنہوں نے اپنے ابتدائی دور سے ہی اُردو افسانے میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی اور جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے فن میں مزید نکھار آتا گیا۔ شاید ہی کوئی ایسا اہم ادبی رسالہ ہوگا جس میں ان کے افسانے شائع نہ ہوئے ہوں۔ البتہ افسانوی مجموعہ شائع کرنے میں تاخیر کی۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’پوسٹر‘‘ اور ’’اندر آگ ہے‘‘۔
رحمان شاہی کی ادبی زندگی کا آغاز 1973ء سے ہوا۔ جب ان کا افسانہ ماہنامہ ’’زیور ‘‘ پٹنہ میں شائع ہوا۔ لیکن ان کی پہچان 1980ء کے بعد ہوئی۔ مختلف رسائل میں افسانے شائع ہوئے ۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’الاؤ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
اختر واصف کے زندگی کا آغاز 1972-73 کے آس پاس ہوا۔ اور اس وقت کے تمام ادبی رسائل میں ان کے افسانے شائع ہوئے۔ یہ سلسلہ 1990ء تک جاری رہا۔ اس دور میں انہوں نے کئی اچھے افسانے لکھے اسی میں ان کا ایک افسانہ ’’آگ‘‘ بھی ہے۔ ویسے ’’دوسرے درجے کا ٹکٹ‘‘ بھی ان کا ایک اہم افسانہ ہے۔
سید احمد قادری بھی بہار کی افسانہ نگاری میں ایک اہم نام ہے۔ اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانے کے موضوعات سماجی مسائل ہیں۔
احمد صغیر کا پہلا افسانہ ’’باسی روٹی‘‘ ، ’’پالیکا سماچار‘‘ دہلی ، جون 1980 میں شائع ہوا۔ اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے ’’منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ 1995 ، ’’انّا کو آنے دو‘‘ 2000 ، ’’درمیاں کوئی تو ہے‘‘ 2007 اور ’’داغ داغ زندگی‘‘ 2013 میں شائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر کوثر مظہری احمد صغیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ احمد صغیر کو اللہ نے کہانی کار سے فنکار بنا دیا ہے یعنی وہ اس قوت اظہار سے متصف ہیں جس کی مدد سے جذبات و تجربات صفحہ قرطاس پر اترتے ہیں۔ ان کا پہلا کہانیوں کا مجموعہ ’’منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ 1995ء میں شائع ہوا تھا۔ اسی وقت فکشن نگاروں اور کچھ سیدھے سچے ناقدوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے پھر جب ’’اَنّا کو آنے دو‘‘ منظر عام پر آیا تو نئے فکشن میں ایک تحرک، ایک ہلچل سی محسوس ہوئی۔
شبیر حسن بوٹنی کے پروفیسر ہیں لیکن اردو سے محبت کرتے ہیں اور تخلیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’دھوپ چھاؤں‘‘ 1969ء میں کالج کے ایک میگزین میں شائع ہوا۔ اس وقت وہ بی۔ایس سی۔ کے طالب علم تھے اس کے بعد ان کے کئی افسانے ملک کے دیگر رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ ان کے کئی اہم افسانے جیسے ’’ماضی کے گھر کا دروازہ کس طرح کھولوں‘‘ ، ’’آشوب چشم‘‘، ’’ٹوٹی ہوئی شاخ‘‘، ’’میرے اندر کا صحرا‘‘ اور ’’بازیافت‘‘ قارئین کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے افسانے کا مجموعہ’’دھوپ کے مسافر‘‘ 2012ء میں شائع ہو چکے ہیں۔
بقول وہاب اشرفی‘ اقبال حسن آزاد کے یہاں انسانی زندگی اور اس کی پیچیدگیاں موضو ع رہی ہیں۔ ابتدائی کہانیوں میں پریم چند کے اثرات نمایاں رہے ہیں لیکن بعد میں دوسرے اطراف کی طرف بھی راجع ہوئے لہٰذا ان کے موضوعات اب متنوع ہیں۔ لیکن انہیں احساس ہے کہ جتنی اہمیت موضوع کی ہے اتنی ہی اسلوب بیان کی ہیں۔ لہٰذا دونوں کے ادغام سے اپنے فن کو تازگی بخشتے ہیں۔
نسیم محمد جان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’گھڑی کی سوئیاں‘‘ 2002ء میں شائع ہو چکا ہے۔ نسیم محمد جان کے افسانے بہت مختصر ہوتے ہیں اور موضوع بالکل عام۔ وہ افسانے کو بالکل سپاٹ لہجے میں پیش کرتے ہیں اور کہانی کو کہانی رہنے دیتے ہیں۔ کوئی معمہ نہیں بناتے۔ مطالعہ و مشاہدہ وسیع اور گہرا ہے۔ نقطۂ نظر ہمدردانہ اور فنکارانہ ہے۔ زبان سادہ‘ رواں اور سلیس ہے۔
تبسم فاطمہ وقت کے آس پاس گھومتے ہوئے سیچویشن یا رشتوں میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھتی ہیں نیز اپنی تحریروں سے اچانک سب کچھ بدل دئیے جانے کے حق میں ہے۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے سیاسی میز کرسیوں پر اپنا دبدبہ قائم کرنے والی عورت ان کمزوریوں کو تج کر ایک انقلابی عورت کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ جس کی اصل جنگ مردانہ سماج سے ہے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
1980 کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں ایک نام خورشید حیات کا بھی ہے۔ شروع میں ان کے افسانے ہندوستان کے موقر جریدے میں شائع ہوئے لیکن ریلوے کی نوکری اختیار کرنے کے بعد بہت دن تک خاموش رہے۔ 2001 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ایڈز‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان دنوں بے حد فعال ہیں۔
مجیر احمد آزاد کا ایک افسانوی مجموعہ ’’ڈوم‘‘ کے عنوان سے 2004میں شائع ہوا۔ اس میں 23افسانے ہیں۔ افسانوں کے علاوہ ان کے چند ادبی تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔
فخرالدین عارفی زندگی کے نشیب و فراز کو ان کے حقیقی رنگوں میں بیان کرتے ہیں۔ زندگی کی حرارت‘ سماجی رشتوں کی حقیقت اور جذبات و احساسات کو فنی پیرائے میں پیش کرنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔ اس لئے ان کا فن زندگی کا اظہاریہ بن جاتا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’سلگتے خیموں کا شہر‘‘ توجہ طلب رہا ہے۔
اقبال عظیم تقریباً تین دہائی سے افسانہ لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن دانش کا ایک مجموعہ ’’شمع پگھلتی رہی ‘‘2010شائع ہوا۔ ظفر عدیم کا ایک افسانوی مجموعہ ’’پھول اور خوشبو‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ سید جاوید حسن کا ایک افسانوی مجموعہ ’’گنہگار عورتیں‘‘ 2008 میں شائع ہوا۔
خواتین افسانہ نگاروں میں نزہت پروین‘ نزہت نوری‘ شیریں نیازی‘ امتیاز فاطمی‘ صبوحی طارق‘ اشرف جہاں‘ نشاط افزا‘ امروز جہاں‘ شگفتہ عارف‘ ناہید اختر‘ نکہت پروین‘ عامرہ فردوس‘ کہکشاں انجم‘ نسرین ترنم‘ مبینہ امام‘ نیلوفر پروین کے نام اہم ہیں۔
فاروق راہب اور مبین صدیقی نے بھی بہار میں اُردو افسانہ نگاری کے فروغ میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔
بہار کے افسانہ نگاروں میں صغیر رحمانی کا بھی ایک نام آتا ہے۔ ان کا ابھی تک افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔
قیام نیر کے اب تک دو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا ’’تنہائی کا کرب‘‘ اور دوسرا ’’تحفہ‘‘۔ بہار کے نئے لکھنے والوں میں ایک نام قنبر علی کا بھی ہے ، حالانکہ بہت پابندی سے یہ نہیں لکھتے ہیں لیکن ان کے کچھ افسانے ضرور متاثر کرتے ہیں۔
نبی احمد کا تعلق بہار سے ہے۔ ان دنوں دلّی میں مقیم ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کی صحبت میں رہتے ہیں‘ افسانے لکھتے ہیں‘ چھپتے ہیں اور خوش ہو لیتے ہیں۔ ایک اخبار کی ادارت سے بھی منسلک ہیں جو ان کے جینے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ نبی احمد کے افسانے ہندوستان کے تقریباً سبھی اہم ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’کیمپ میں بچہ‘‘ 2006میں شائع ہو چکا ہے۔
عزیر انجم کا تعلق بہار سے ہے ۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’آدمی کی بستی میں‘‘ منظر عام پر آچکا ہے۔ عزیر انجم سہل پسند افسانہ نگار ہیں لیکن سماجی بصیرت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ زندگی کے عام مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بناتے ہیں اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
1980ء کے بعد بہار میں افسانہ نگاروں کا جو نیا قافلہ سامنے آیا تھا۔ اس میں ایک نام فضل امام ملک کا بھی لیا جاتا ہے۔ شروع شروع میں ان کے کئی اہم افسانے رسالوں کی زینت بنے لیکن دھیرے دھیرے ان کا رجحان ہندی کی طرف ہوتا گیا اور ہندی کے کہانی کار اور مدیر بن گئے۔ ان دنوں وہ دہلی میں مقیم ہیں اور ہندی کا ایک ادبی رسالہ شائع کر رہے ہیں۔ نیز ایک قومی اخبار سے منسلک بھی ہیں۔
خواتین افسانہ نگاروں میں کئی نام ایسے ہیں جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ایک نام نصرت آرا کا بھی ہے۔ نصرت آرا کے افسانوں کا موضوع مشرقی روایات پر مبنی ہماری معاشرتی زندگی ہے۔ عورت اور مرد کا رشتہ ازلی اور اٹوٹ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی سخت ضرورت ہے اور یہ ضرورت فطری ہے۔
خواتین افسانہ نگاروں میں اعجاز شاہین ایک اہم نام ہے۔ 1962 سے ان کے افسانے ادبی رسائل میں پابندی سے شائع ہوتے رہے ۔ ان کے افسانے عورتوں کے مسائل اور نفسیات سے متعلق ہیں۔ اس لئے انہیں عورت پرست کہا جاتا ہے۔
شمیم صادقہ کی ادبی زندگی کا آغاز صفر سنی میں ہوا جبکہ وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا ۔اپنی ملازمت کا آغاز گورنمنٹ گرلس کالج، گردنی باغ،پٹنہ میں لکچرر کی حیثیت سے کیا اور صدر شعبۂ اردو کے عہدے تک پہنچیں۔
زینب نقوی کے افسانے کے موضوعات عام زندگی سے اخذ ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو اس طرح افسانے میں ڈھال دیتی ہیں کہ پڑھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’ریت کی دیوار‘‘ شائع ہو چکا ہے۔
Ahmad Sagheer
Haneef Manzil
Koyli Pokhar, Police Line
Gewal Bigha, Gaya- 823001
Mob.- 09931421834
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |