”میلا نوچندی“پراپنی بات شروع کرنے سے پہلے میں نواب الحسن وفاؔ کی نظم”ارباب حسن“قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ میلا نوچندی کی تاریخی اہمیت،افادیت،معنویت اور شان و شوکت کے علاوہ قومی یکجہتی کے فروغ میں اس کے کردارکی وضاحت ہو جائے۔اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ میرٹھ میں لگنے والے اس میلے کو صوبہ اُتر پردیش کے علاوہ ہندوستان بھر میں کیوں شہرت اور مقبولیت حاصل ہے۔بالے میاں کے مزار اور نوچنڈی دیوی کے مندر سے اخوت،بھائی چارے اور قومی یگانگت کا جو درس اور پیغام عوام کو ملتا ہے وہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے کردار کو تقویت بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔میرٹھ کے ان مقدس آستانوں پر دونوں مذاہب کے لوگ بغیر کسی روک ٹوک اور تفریق کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔ثقافت و تہذیب کی رواداری کے ایسے نمونے اب خال خال ہی نظر آتے ہیں:
عرس بالے میاں ہے نوچندی
پیر کا آستاں ہے نوچندی
فخر ہندوستان ہے نوچندی
رشکِ پیر و جواں ہے نوچندی
صوبہ یوپی کے سارے میلوں کی
جیسے روحِ رواں ہے نوچندی
ہندوؤں کی پوتر دیوی کا
مندر و آشیاں ہے نوچندی
قومی یکجہتی و اخوت کا
بولتا ترجمان ہے نوچندی
(میلا نوچندی مجلہ یادگار میرٹھ،1985،صفحہ16)
نواب الحسن وفاؔ کی نظم کے بعد ڈاکٹر یونس غازیؔ کا قطعہ بھی ملاحظہ کیجیے جس میں موصوف نے نوچندی میلے کو تہذیب کا گہوارا،اس کی پُر کیفیت نغمگی اہلِ میرٹھ کے لیے نوچندی میلا باعث افتخار،ساتھ ہی امن و آشتی کا شاہ کار و علم بردار گردانا ہے:
آئینہ ہے سر بسر کہ باہمی تہذیب کا
دوستوں پُر کیف نغمہ یا جگل بندی کہو
باعثِ عشق و طرب ہے اہلِ میرٹھ کے لیے
اس کو امن و آشتی کا میلا نوچندی کہو
اُردو ادب میں دبستانِ میرٹھ کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔یہاں کے ادبا و شعرا نے اُردو ادب کے فروغ میں اپنے کارہائے نمایاں انجام دیے۔بچوں کے دو اہم ادیب اسماعیل میرٹھی اور حامد اللہ افسر میرٹھی نے بھی شہر میرٹھ میں آنکھیں کھولیں۔علاوہ ازیں اُردو شاعرات کا پہلاتذکرہ”بہارستانِ ناز“بھی فصیح الدین رنج میرٹھی نے اسی سر زمین میں رقم کیا۔انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ حکیم مولیٰ قلق میرٹھی نے ”جواہرِ منظوم کے نام سے کیا۔مرزا غالب کی فرمایش پر حکیم مولیٰ قلق میرٹھی نے ان کے خطوط کے پہلے مجموعے”عودِ ہندی“ پر تقریظ بھی لکھی۔مرزا غالب نے فرقانی و یزدانی میرٹھی کے نام کئی خطوط لکھے جن میں مرزا رحیم بیگ(سردھنہ،میرٹھ) کی کتاب”ساطع برہان“پر کراری چوٹ کی گئی۔ شہرمیرٹھ میں اُردو فکشن کے درخشندہ ستارے انتظار حسین نے اپنی تعلیم حاصل کی۔میرٹھ کالج کے لائق و فائق فرزند، نامور محقق،ادبی مورخ،ناقد،مدون ڈاکٹر جمیل جالبی کارشتہ بھی میرٹھ شہر سے ہے۔پاکستان ہجرت کرنے کے بعدڈاکٹر جمیل جالبی نے اس شہر میں تعلیم و تربیت کے دوران گزارے گئے اپنے ایام،یہاں کی بزم آرائیوں،محفلوں،ادب نواز دوستوں کی کرم فرمائیوں،یہاں کے موسمِ بہاراں کی خوبیوں اور یہاں کے ادب پرور ماحول کے بارے میں لکھا:
”میرٹھ میں میری اور سلیم احمد کی ملاقات ہوئی۔ہم دونوں فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے اور ادب کی دنیا میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔دن رات یہی اوڑھنا بچھونا تھا۔یہی موضوعِ سخن تھا اور یہی مقصدِ اندگی تھا۔ہم دونوں نئی نئی کتابیں پڑھتے،تبادلہئ خیال کرتے اور گھنٹوں انہیں مسائل میں گم رہتے تھے۔سلیم احمد اس وقت میرٹھ کے نوجوان شعرا میں سب سے ممتاز تھے۔ہنر تخلص کرتے تھے اور اقبال کے رنگ میں شعر کہتے تھے…اس زمانے میں سلیم احمد اور میں بے قرار روحوں کی طرح،سارے میرٹھ کے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے تھے۔میرٹھ کالج کے ہوسٹل سے بھیا وحید الدین کی لال کوٹھی تک وہاں سے بیگم پُل،خیر نگر،کمبوہ دروازہ،رشید چائے والے کی دکان،کبھی کوٹھی جنت نشاں کی طرف،کبھی نواب اسماعیل خاں کی کوٹھی کی طرف،کبھی رزمی صدیقی کے ہاں پروا فیاض علی،جہاں لیلیٰ مجنوں والے ماسٹر روپی سے ملاقات ہوتی اور اکثر بھینسالی گراؤنڈ اور نادر علی بلڈنگ،جہاں حکیم فرخ آبادی کا مطب تھا اور جہاں سلیم احمد کا گھر بھی تھا۔کبھی سی پٹ بازار یا ویلی بازار سے ہوتے ہوئے گزری سے گزرتے قاری محمد یونس کے گھر۔اس تمام عرصے میں کسی نہ کسی ادبی موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہم جلدی ہی کائنات کے راز ہائے سر بستہ دریافت کر لیں گے۔اسی اثناء میں کام کے منصوبے بنتے،نئی تحریروں پر بات ہوتی۔ ( یہ بھی پڑھیں شہناز نبی ؔکی شاعری میں تانیثیت کے بنیادی مسائل اور مباحث: ایک تجزیہ (شعری مجموعہ’’ اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ کے تناظر میں) – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
گرمیوں کے موسم میں ہم جہاں سے گزرتے چنبیلی،موتیا اور بیلے کی خوشبوؤں سے گلی کوچے مہکے ہوتے۔چاندنی راتوں کی رانی کی مہک قدم قدم پر تازہ دم کرتی۔یہ خوشبووئیں آج بھی مشامِ جاں کو معطر کیے ہوئے ہیں۔ادب اور شعر و شاعری اس شہر کی روح میں اس طرح شامل تھے جس طرح زر پرستی آج ہماری روح میں شامل ہے۔اس ادب پرور ماحول اور اسی تخلیقی فضا کا اثر تھا کہ فرزندانِ میرٹھ نے اُردو ادب میں وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ آج ان کے نام تاریخِ ادب کا حصہ ہیں۔“
(شخصیاتِ میرٹھ،نور احمد میرٹھی،ادارہ فکرِ نو،کراچی،2003صفحہ11)
ہندوستان کی آزادی کے لیے اس خطہ ارض کا نام بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔1857کے انقلاب میں یہاں کے فوجیوں اور باشندوں (ہندو اور مسلمان)نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جس کے سبب پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی لہر دوڈ گئی۔یہاں کی قومی یکجہتی پوری دنیا میں مشہور ہے۔گنگا جمنی تہذیب کی آب یاری و پرورش کرنے والایہ خطہ اپنے میلے اور تہواروں کے سبب بھی پوری دنیا میں محترم و مشہور ہے۔ہولی کے فوراً بعد لگنے والا ”نو چندی میلا“میرٹھ شہر کی شہرت،وققا اور افتخار میں چار چاند لگا دیتا ہے۔صنعت و حرفت کے اعلا نمونے اس میلے کی شان سمجھے جاتے ہیں۔در اصل ”میلا نوچندی“،”قومی ایکتا“اور ”بھائی چارے“کی عمدہ مثال ہے۔اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ایک جانب ”نو چنڈی“دیوی کا مندر ہے تو دوسری جانب ”بالے میاں“کا مزار ہے۔ان دونوں مقدس مقامات پر ہندو ؤں اور مسلمان عقیدت مندوں کی بڑی تعداد روزانہ یہاں آکر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔میلا نوچندی کے دوران، ان دونوں مقامات پر مذہبی عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔نوچنڈی دیوی کے مندر کی گھنٹیوں اور بالے میاں کی مزار سے متصل مسجد سے آنے والی اذان کی آوازیں جب ایک ساتھ سنائی دیتی ہیں تو یہاں کی فضا میں ایک عجیب سا ماحول اور کشش پیدا ہوجاتی ہے جو میلے میں آئے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ دونوں آستانوں سے آنے والی دلکش آوازیں عوام کے دلوں اور اذہان کو تسکین مہیا کرتی ہیں۔نوچنڈی مندر میں جہاں بھجن کیرتن ہوتے ہیں وہیں بالے میاں کی مزار پر قوالیاں ہوتی ہیں۔قومی یکجہتی کی اس عمدہ مثال کے بارے میں مرحوم حکیم سیف الدین میرٹھی (پدم شری)یوں رقم طراز ہیں:
”وہ وقت کتنا سُہانا اور دلکش ہوتا ہے جب ایک طرف سے آنے والی گھنٹی کی آواز دلوں کو کھینچتی ہے اور دوسری طرف قوالیوں کی سریلی تانیں کانوں میں اس طرح گھومتی ہیں۔قومی یکجہتی کی یہ کتنی اچھی مثال ہے کہ دو مختلف مذاہب کو ماننے والے ایک ہی وقت میں اپنے مذہبی فرائض اداکرتے ہیں اور انیکتا میں ایکتا کے مناظر پیش کرتے ہیں۔“
(میلہ نوچندی مجلہ یادگار1985،صفحہ13)
نوچندی میلے کی تاریخ پر اگر ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ میلا عہدِ مغلیہ(مغل باد شاہ اورنگ زیب عالم گیرکا زمانہ) کے زمانے سے ہی یعنی1672سے لگ رہا ہے۔ابتدا میں یہ میلا صرف ایک دن کے لیے لگتا تھا لیکن عوام میں اس کی مقبولیت کے سبب اسے سہ روزہ کر دیا گیا۔اس میلے میں کسان اپنی ضرورت کا سامان خریدتے تھے۔شروعا ت میں اس میلے میں گھوڑے اور خچروں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔پھر آہستہ آہستہ میلے میں تمام ضروریات کا سامان بھی بکنے لگا۔بچوں کے سیر سپاٹے کے لیے یہاں سرکس،جھولے،کھلونے،کھانے پینے کا سامان، بالخصوص نان کھتائی اور حلوہ پرانٹھا وغیرہ کے اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔اس میلے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب یہ میلا ایک مہینے تک عوام کو فرحت بخشتا ہے۔نور احمد میرٹھی نے نوچندی میلے کی تاریخ کو اپنے تذکرے”تذکرہ شعرائے میرٹھ“میں پیش کیا ہے۔نور صاحب نے باقاعدہ ”میلا نوچندی“عنوان قائم کرتے ہوئے اس میلے کی قدامت اور تاریخی اسباب ”سعید بھارتی سیفی“کے حوالے سے شواہد و دلائل پیش کرتے ہوئے لکھا:
”کہا جاتا ہے کہ ایک بار علاء الدین خلجی کے سپہ سالار مسعود غازی عرف بالے میاں نے جنگوں کی حیوانیت اور شیطانیت کو دیکھ کر شہنشاہ اشوک کی طرح ہتھیار پھینک کر فقیری لباس پہن لیا تھا۔جنگ کرتے کرتے بالے میاں کی ایک انگلی کٹ گئی تھی جس پر ایک مزار بناگیا۔اس مزار کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ جس جگہ مزار بنا ہوا ہے یہاں بیٹھ کر بالے میاں نے تمام انسانوں کو بلا مذہب و ملت دعوت وتبلیغ کا سلسلہ عرصہ تک جاری رکھا تھا۔یہیں انھوں نے انسانوں کے درمیان اختلاف مٹانے کی کوشش کی تھی۔مزار کی تعمیر کے بعد ان کی یاد میں ہر نوچندی جمعرات یعنی ہر نئے چاند کی پہلی جمعرات کو باقاعدہ میلے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں قوالیاں ہوتیں،مرادیں مانگی جاتیں۔دور دراز سے لوگ آتے،ایک دن کا بازار لگتا،ضروریات چیزوں کی خرید و فروخت ہوتی۔مسلمانوں نے چاند کو چندی بنا دیا اور ہندوؤں نے چندی کو چنڈی دیوی بنا دیا۔یوں ایک ملا جلا لفظ نئی اصطلاح بن گیا۔“
(تذکرہ شعرائے میرٹھ،نور احمد میرٹھی،ادارہ فکر نو،کراچی،جنوری2003،صفحہ95)
سیعد بھارتی کے مطابقنوچندی میں پہلے بازار صرف ایک دن کے لیے لگتا تھا لیکن اب نوچندی کی رونقیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ دکان دار اور مقامی لوگ اسے کئی مہینوں تک لگانے کی بات حکومت سے کرتے ہیں۔الغرض موجودہ زمانے میں نوچندی پٹیل منڈپ میں مختلف نوع کے ادبی پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔یہاں پر ہونے والے کوی سمیلن اور آل انڈیا مشاعرے کی تو بات ہی نرالی ہے۔اس میلے میں مشاعروہ پڑھنے کے لیے عالمی شہرت یافتہ شاعروں کو بلوایا جاتا ہے۔کئی موقع ایسے بھی آئے جب انڈو پاک مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں اپنے زمانے کے صفِ اول کے شاعروں نے کلام پیش کر سامعین کو واہ اور آہ کرنے پر مجبور کیا۔پاکستان کے مشہور شاعر مرحوم قتیل شفائی جب نوچندی میلے میں مشاعرہ پڑھنے آئے تو ان کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا،اُس کی روداد انھوں نے اپنی آپ بیتی”گھنگرو ٹوٹ گئے“میں بیان کرتے ہوئے لکھا:
”میرٹھ میں ہر سال ایک میلا لگتا ہے جسے نوچندی کا میلا کہا جاتا ہے۔یہ میلا ہمہ گیر قسم کا ہوتا ہے اور کئی دن تک رہتا ہے۔اس میں مختلف تماشے،ناچ گانا اور رنگا رنگ پروگراموں کے علاوہ آل انڈیا مشاعرہ بھی ہوا کرتا ہے۔اس میلے میں دور تک باقاعدہ بازار بنے ہوتے ہیں جن میں سے دنیا کی ہر چیز ملتی ہے۔آس پاس کے لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور وہاں آکر کھیل تماشے دیکھتے ہیں اور خرید و فروخت کرتے ہیں۔مجھے بھی وہاں نوچندی کے ایک مشاعرے میں ایک بار جانے کا موقع ملا۔میں دہلی گیا ہوا تھا جہاں میں اس مشاعرے میں شرکت کے لیے میرٹھ گیا۔اس میلے میں ایک ہنگامہ برپا تھا اور ایسا ہنگامہ مشاعرے میں بھی برپا تھا۔کیا دیکھتے ہیں کہ دس بیس آدمیوں کی ٹولی ایک طرف سے آتی ہے اور اندر جھانکتی ہے اور دوسری طرف سے باہر نکل جاتی ہے کسی کو مشاعرہ پسند آیا تو بیٹھ جاتا ہے ورنہ آگے چل دیتا۔غرض یہ کہ لوگ یوں آ جا رہے تھے جیسے یہ مشاعرہ نہیں بلکہ کوئی ویرائٹی شو ہو۔بہر حال ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ اگر چہ سامعین بدل رہے تھے لیکن داد اسی طرح چل رہی تھی۔وہاں سے مجھے تین ساڑھے تین ہزار روپے کا جو معاوضہ ملا وہ بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے کسی نے میری جیب سے نکال لیا۔میں نے شرم کے مارے کسی کو بتایا بھی نہیں کیوں کہ شاعروں سے ایسی بہت سی داستانیں وابستہ ہیں کہ وہ جھوٹ موٹ کی چوری کا بہانا گھڑ کے دوبارہ معاوضہ بھی لے لیتے ہیں۔اس لیے میں نے اس بات کا کسی سے ذکر نہ کیا۔واپسی کے لیے چوں کہ گاڑی کا انتظام تھا۔اس لیے چُپکے سے میں واپس آ گیا۔یہ تلخ تجربہ میرٹھ میں ہوا۔“
(گھنگھرو ٹوٹ گئے،(آپ بیتی)قتیل شفائی،تخلیق کار پبلیشرز، دہلی،2008،صفحہ304تا305)
اُردو ادیبوں اور شاعروں نے میلا نوچندی کے تعلق سے نظمیں اور افسانے تخلیق کیے ہیں۔میرٹھ کے کلاسیکل شاعر حکیم غلام مولیٰ قلقؔ میرٹھی نے اس میلے کی عظمت،رونق اور عوام کی ریل پیل کا آنکھوں دیکھا حال اپنی رباعی میں یوں بیان کیا: (یہ بھی پڑھیں ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے (بیاد پروفیسر ظفر احمد صدیقی) – ڈاکٹر ابراہیم افسر)
نوچندی کے میلے کا نہ پوچھو کچھ حال
ہوں دیکھ کے حیران کہ دوں کس سے مثال
یا روضہ رضواں ہے سادہ سا مکاں
یا سیر سے میرا ہی منقش ہے خیال
(کلیاتِ قلق مرتب کلب علی خاں فائق،مجلس ترقی ادب،لاہور،دسمبر1966،صفحہ281)
”میلادِ اکبر“کے خالق اکبرؔ میرٹھی نے اس میلے کو تصوف سے جوڑتے ہوئے اسے چند روزہ زندگی سے مشابہ قرار دیا۔انھوں نے اپنے مشہور مطلع سے نوچندی کے میلے اور زندگی کی بے ثباتی کو سمجھاتے ہوئے کہا:
بہار باغ دنیا چند روز
جیسے نوچندی کا میلا چند روز
(کلیاتِ قلق مرتب کلب علی خاں فائق،مجلس ترقی ادب،لاہور،دسمبر1966،صفحہ281)
ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ،جنھوں نے بیانؔ میرٹھی کے ادبی کارناموں پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیااور بعد میں بیانؔ میرٹھی کے حوالے سے کئی کتابیں تصنیف و تالیف کیں،نے اپنی کتاب ’بیانؔ میرٹھی کی جدید نظمیں‘میں ’نوچندی میرٹھ پر نظمیں‘عنوان سے ایک باب قائم کرتے ہوئے بہارِ نوچندی،طلسمِ نوچندی، قصیدہ خیر مقدم نوچندی،ساقی نامہ نو بہارِ نو چندی،بیاباں کی بہار،پہلوانوں کا دنگل،نوچندی کے بعداور در مدح منتظمانِ نوچندی نظمیں شامل کی ہیں۔ بقول شرف الدین ساحلؔ’لسان الملک میرٹھ کے مشہور میلے نوچندی پر بیان ؔ میرٹھی کا ایک مضمون مارچ اپریل 1891سے دسمبر1893تک قسطوں میں شائع ہوا۔یہ نظمیں اسی مضمون سے اخذ کی گئی ہیں۔‘میں اس موقع پر بیانؔ میرٹھی کی نظم”طلسمِ نوچندی‘قارئین کے لیے پیش کر رہا ہوں،جس میں بیانؔ میرٹھی نے میلا نوچندی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے:
نہ تھا تختہئ شہر گلشن سے کم
نہاں تھا ہر اک گھر میں باغِ ارم
کہیں گل بدن تھے،کہیں لالہ رو
ہجوم گل و لالہ تھا چار سو
ہر اک کنڈ ایسا جھلکتا ہوا
کہ شرمائے سورج چمکتا ہوا
نہ کیوں کہکشاں ہو وہ ٹھنڈی سڑک
کہ تھے گرم فرتار فوق البھڑک
سرِ شام ہوتا تھا خورشید دنگ
کہ تھے سایہ افگن بتانِ فرنگ
بایں جلوہ ہے سایہ حیرت فزا
کہ سورج سے رہتا ہے سایہ جدا
کہاں سایہ یہ خورشید کا ہم عناں
یہاں سایہ خورشید کا ہم عناں
ہر اک برق وش کی عجیب چال ڈھال
کہ خورشید کا سایہ تھا پائمال
ہوا میں کر آتا تھا حسنِ شباب
تو لے اُڑتا تھا سایہ تا آفتاب
تعجب تھا اک اک کو آیا ہوا
کہ پریوں کو پریوں کا سایہ ہوا
انوکھا یہ جادو کا دیکھا سماں
کہ خورشید کا سایہ تھا سائباں
(بیان میرٹھی کی جدید نظمیں،ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ،مومن پورہ،ناگ پور،2000،صفحہ147)
بیانؔ میرٹھی نے اپنی نظم ’نوچندی کے بعد“میں نوچندی میلا ختم ہونے کے بعد کے منظر کو بڑے ہی دلدوز انداز میں بیان کیا ہے۔اس نظم کو پڑھنے کے بعد وہ قاری جنھوں نے میلا نوچندی کی بہاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،محسوس کر سکتے ہیں کہ بیانؔ میرٹھی نے جو باتیں اس نظم میں بیان کی ہیں وہ سچی ہیں۔میں اس نظم کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی نوچندی کی بہاریں ختم ہونے کے منظر سے واقفیت حاصل کر سکیں:
پھر کے دیکھا تو بیاباں نظر آیا گلزار
ہو گیا فرش چمنِ دامنِ دشتِ پُرخار
نہ وہ جلوے،نہ وہ عشوے،نہ وہ رنگیں دلدار
نہ ادائیں،نہ صدائیں نہ قبائیں گلنار
نہ وہ سج دھج،نہ وہ جوبن،نہ وہ جوبن کا اُبھار
نہ وہ چل پھر،نہ وہ صورت،نہ وہ صورت کا نکھار
نہ وہ پھولوں کا مہکنا،نہ وہ پودوں کی بہار
نہ وہ کلیوں کا چٹکنا نہ عنادل کی پکار
(بیان میرٹھی کی جدید نظمیں،ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحلؔ،مومن پورہ،ناگ پور،2000،صفحہ157)
اُستاد شاعر مظہرؔ سیانوی نے اپنے قطعے میں میلا نوچندی کی تعریف و توصیف کے علاوہ، اس میلے کی رنگینی کے مناظر،دلکشی،پیار و محبت اور اس کی سحرانگیزی،یہاں کی گلیوں کو کشمیر کی وادی سے تشبیہ،نوچندی میلے میں بھائی چارے کی مثالوں کوکچھ اس انداز میں پیش کیا:
پیار لُٹا تے مینارے ہیں نوچندی میلے میں
رنگ برنگیں فوارے ہیں نوچندی میلے میں
نوچندی میلا ہے جیسے کوئی نورستان
قدم قدم پر مہہ پارے ہیں نوچندی میلے میں
ہندو، مسلم، بُدھ، دلت،سیکھ،جین عیسائی سب
دنیا بھر کے سیارے ہیں نوچندی میلے میں
اللہ اللہ سبحان اللہ میرٹھ میں کشمیر
جنت جیسے گلیارے ہیں نوچندی میلے میں
دیکھنے والے ہو جاتے ہیں مظہرؔ سب مسرور
کیا کیا دلکش نظارے ہیں نوچندی میلے میں
شہر میرٹھ کے قدیم اور تاریخی کالج، میرٹھ کالج کے سابق صدر شعبہئ اُردو،ڈاکٹر یونس غازیؔ نے بھی اپنے ایک قطعے میں میلا نوچندی کی ثقافت، تہذیب، عظمت،قومی یکجہتی یہاں کی سڑکوں کی رونقوں اور محفلوں کے علاوہ امن و آشتی کاپیغام دیتے اس میلے کے بارے میں لکھا:
کیف پرور، کیف زا ہیں موجدِ آرامِ جاں
گنگناتی شاہراہیں، جگمگاتی ہیں زمیں
اپنے دامن میں لیے امن و اخوت کا پیام
میلا نوچندی ہے غازیؔ خوش نما و دلنشیں
میرٹھ سے ہی تعلق رکھنے والے شاعر طاہر علی جوہرؔ نے اپنی نظم”میلہ نوچندی“میں اس میلے کی تعریف،تاریخ اور میرٹھ کی ادبی شناخت پر خاممہ فرسائی کرتے ہوئے لکھا:
میلا نوچندی بھی میرٹھ کی پہچان ہے
بالے میاں کا عرس یہاں نوچندی کی شان ہے
راون کی بیوی کا میکہ میرٹھ کو بتلاتے ہیں
چنڈی کے مندر میں آتی تھی یہ بھی ایک پہچان ہے
نو گیٹ میرٹھ میں ہیں جن کی شان نرالی ہے
شمبھو گیٹ نو چندی والا اس کی الگ پہچان ہے
دور دراز سے لوگ یہاں نوچندی دیکھنے آتے ہیں
مشاعرہ اور کشتی سے بھی میلے کی ایک شان ہے
حلوہ پراٹھا،نان کھتائی میرٹھ کی مشہور ہے
میلے میں ہوٹل کا حلوہ پراٹھا نوچندی کی شان ہے
سن 1857کا غدر بھی دنیا میں مشہور ہے
میرٹھ سے ہی شروع ہوا یہ بھی ایک پہچان ہے
(پرواز،طاہر علی جوہرؔ،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،2017،صفحہ48)
میرٹھ کالج میرٹھ کے سابق صدر شعبہ اُردو مرحوم ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین(جن کی صدارت میں پٹیل منڈپ میں اُردو ادب کے حوالے سے کئی اہم پروگرام ہوئے) نے میلا نوچندی کی عکاسی،صحیح ترجمانی، اس میلے کی خوبیوں اور میلے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:(یہ بھی پڑھیں ڈرامہ ’’ضحاک‘‘کی عصری معنویت – ڈاکٹر ابراہیم افسر)
”میلا نوچندی میلا بھی ہے،نمایش بھی،بازار بھی اور منڈی بھی؛کم و بیش ایک درجن سے زیادہ رنگا رنگ بازار ہر قسم کی اشیا ئے خوردنی اور زیبایش سے آراشتہ و مزئین!سوئی سے لے کر موٹر کار تک ہر چیز مہیا۔ضروری ضرورتوں (NECESSITIES) سے متعلق بھی آرام دہ(COMFERTS)بھی سامانِ عیش و طرب(LUXERIES)بھی۔کیا ہندو کیا مسلمان کیا سِکھ کیا عیسائی،ہر طبقے اور فرقے کی مطلوبات اور مرغوبات موجود۔ہر ایک کی پسند نا پسند کا لحاظ و پاس۔کثرت کے اس نگار خانے میں وحدت کی جلوہ سامانیں جوش و خروش،شیر چشمی،کشادہ خاطری ایک ایک گام پر عیاں۔ایک دوسرے کو گلے لگانے کا سامان فراہم،ایک دوسرے سے اتنے قریب گویا جان دو قالب ایک دوسرے سے ہم کنار ہی نہیں ہم دوش و ہم آغوش ہونے کی سینے میں تمنا بے دار!!اس کا مظاہرہ ہر بازار اور بازار کی ہر دکان اور ہر کاونٹر پر نظر آتا ہے۔چاٹ والوں سے پرانٹھے والوں تک،آسمان سے باتیں کرتے جھولوں سے سرکس کے کرتبوں تک،ہنڈولوں کی ترقی یافتہ شکلیں نِکل آئیں۔جن میں پہلو سے پہلو ملائے بِلا تفریق مذہب و ملّت اور رنگ و نسل کے لوگ اس طرح باہم و گر پیوست نظر آتے ہیں، گویا دوئی کی کوئی دیوار نہیں،کوئی تصور نہیں،کون کہتا ہے کہ یہ ایک سے زیادہ قومیں ہیں،ارنی رنگا رنگی اور بو قلمونی کے ساتھ یہ ایک دوسرے میں یوں گندھے ہیں جیسے ایک ہار کے مختلف موتی۔پورے میلے میں ہر چیز سے ایکتا اور یکجہتی کی صدائیں یوں بلند ہوتی ہیں جیسے پھول سے خوش بو۔بالے میاں کی مزار ہر فرقے کے لیے اپنی آغوش وا کیے ہوئے ہے۔کوئی چادر چڑھاتا ہے کوئی پھولوں کے ہار اور گجرے۔کوئی قوالی گا رہا ہے کسی کو حال آ رہا ہے۔ان کے یہ حالوں کو اگر کسی بات کا ہوش ہے تو یہ کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ہر آنے والا اس کی طرح لائقِ صد ستایش اور قابلِ احترام ہے:
ہم کفر جانتے ہیں دل توڑنا کسی کا
سامنے چنڈی دیوی کا مزار بھی ایک ایسا ہی نقشِ لازوال بٹھاتا ہے۔عرض ہر جگہ کثرت میں وحدت کے جلوے نظر آتے ہیں گویا نو چندی جس دن سے شروع ہوتی ہے آج تک اخوت،بھائی چارگی،حسنِ سلوک،برداشت،محبت،ایکتا اور یکجہتی کا درس دیتی ہے۔“
(نوچندی،اُردو اور قومی یکجہتی،مشمولہ میلا نوچندی مجلہ یادگار،میرٹھ،1985،صفحہ2تا3)
سر زمینِ میرٹھ کے فرزند ارجمند اعجاز الدین پاپولرؔ میرٹھی نے بھی میلا نوچندی کے بارے میں مزاحیہ انداز میں کار آمد باتیں پیش کیں۔پاپولرؔ میرٹھی نوچندی میلا کے مشاعروں میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنے مخصوص لب و لہجے اور مزاحیہ شاعری سے سامئین کو محظوط کرتے ہیں۔موصوف نے اپنے خاص انداز میں میلا نوچندی کی رنگینیوں،گستاخیوں اور تنہائیوں کے علاوہ میلے کی بھیڑ میں بچھڑ جانے کے واقعے کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا۔ان تمام واقعات کو پاپولر ؔ میرٹھی نے ”نوچندی“(نگاہِ مزاح میں)کے تحت یوں بیان کیا:
کبھی تم آکے نوچندی کا میلا دیکھتے جاؤ
ہر ایک جانب ہے گستوخوں کا ریلا دیکھتے جاؤ
کسی کو بھی نہیں ہوتا ہے یہاں احساسِ تنہائی
کہیں کوئی نہیں ملتا اکیلا دیکھتے جاؤ
…………
بہت بچھڑے ہوئے ملتے ہیں نوچندی کے میلے میں
مگر ایسا نہیں ممکن کہ مِل پائیں اکیلے میں
ہزار افسوس اُن سے بات بھی کرنے نہیں پایا
خدا جانے کہاں وہ جا پڑے صرف ایک ریلے میں
(میلا نوچندی مجلہ یادگارمیرٹھ،1985،صفحہ11)
حفیظ ؔ میرٹھی کے شاگرد رشید اور سرزمین میرٹھ کے مشہور و معروف شاعر نذیر ؔمیرٹھی نے بھی نوچندی میرٹھ کے ھوالے سے ایک طویل اور خوب صورت نظم تحریری کی ہے۔نذیرؔ میرٹھی نے اس نظم میں نوچندی میلے کا آنکھوں دیکھا حال بیان اتنے خوب صورت انداز اور لب و لہجے کے ساتھ پیش کیا کہ قارئین میلا نوچندی کے دیدار اس نظم ”نوچندی میلا“ میں کر لیتا ہے۔نذیرؔ میرٹھی کی نظم ملاحظہ کیجیے اور نوچندی میلے کی شان و شوکت کے علاوہ یہاں کے میلے ٹھیلوں، کھیل کھلونوں،سیخ کباب،نان کھتائی،حلوہ پراٹھا،ہلڈ بازی،نوک جھونک،شرارتوں اور موت کے کنویں کے بارے میں تفصیلات حاصل کیجیے:
بھارت میں ذیشان ہے ہمدم اک میرٹھ کا میلا
یہ میلا بھی میلا نہیں ہے ایسا ویسا میلا
سجی ہوئی ہیں راہیں ساری اور فضا پُر نور
گوشہ گوشہ میلے کا ہے رونق سے معمور
دور سے دیکھنے میلا آئے بوڑھے اور جوان
میلے سے ہی اور بڑھی ہے اس میرٹھ کی شان
اسپیشل ہے حلوہ پراٹھا خستہ نان کھتائی
چاٹ پکوڑوں کا بھی مزا ہے اس میلے میں بھائی
دہی بڑے بھی نوچندی کے کس درجہ ہیں لذیذ
پانی والے بھی تو بڑے ہیں ایک مزے کی چیز
سوفٹی بھی تو دوڑے دوڑے جاکر بچّے لائے
بھیل پوری بھی شوق سے میرے چنو منو کھائے
کھا کر دیکھے ہیں ہم نے بھی اکثر سیخ کباب
جو بھی شے ہے اس میلے کی اس کا کیا ہے جواب
کچھ جھولے ہیں بجلی والے اور کچھ سیدھے سادے
اونچے اونچے جھولے بھی تو جھول کے بچے جائے
سیلوں والے بھی ہیں کھلونے اور کچھ چابی والے
اپنے شوق کے کھیل کھلونے لے کر بچے جائے
موت کا کنواں اک دن یاروں ڈرتے ڈرتے دیکھا
خطرے کے اس کھیل میں انساں میں نے مرتے دیکھا
کالا جادو بھی دیکھا ہے اور سرکس بھی دیکھا
سرکس کے ہیں کام کمال اور جادو حیرت والا
محفل میں وہ لطف کہاں ہے جو میلے کے اندر
اب تک میری آنکھوں میں ہے وہ میلے کا منظر
کتنی پریاں دیکھنے آئیں نوچندی کا میلا
کوئی فلمی ہیرو ہے تو کوئی بانکا چھیلا
بھیگی بھیگی شام سہانی جگمگ جگمگ راتیں
میلے کی سوغاتیں ہیں یہ میلے کی سوغاتیں
چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی میرٹھ کے صدر شعبہئ اُردو مشہور افسانہ نگار پروفیسر اسلم جمشید پوری نے بھی میلا نوچندی سے متاثر ہوکر ایک افسانہ”موت کا کنواں“تخلیق کیا۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اس افسانے میں موت کے کنویں میں کام کرنے والی لڑکی ببلی اور آکاش کی محبت کو علاقائی لب و لہجے کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس افسانے کے آخر میں افسانے کی ہیروئن ببلی کی موت اسی موت کے کنویں میں موٹر سائیکل کے کرتب دکھاتے ہوئے ہو جاتی ہے۔موصوف نے اس افسانے میں میلا نوچندی اور موت کے کنویں کی ایسی منظر کشی کی کہ قارئین انھیں پڑھ کر ہی پورے میلے کے دیدار کر لیتا ہے۔انھوں نے میلے کی ایک ایک چیزکا آنکھوں دیکھا حال جزئیات کے ساتھ بیان کیا۔در اصل میلا نوچندی میں ”موت کاکنواں“نام سے سرکس دکھایا جاتا ہے۔اس سرکس میں کارں اور موٹر سائیکلوں کے درمیان تیز رفتارکے ساتھ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ہوڑ رہتی ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کار اور موٹر سائیکل ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں اور ڈرائیور کی موت،موت کے کنویں میں ہی ہو جاتی ہے۔موت کے کنویں میں ہونے والے حادثات کو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اپنے افسانے میں فنی چابک دستی کے ساتھ پیش کیا۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے میلا نوچندی کی منظر کشی کرتے ہوئے اپنے افسانے کی ابتدا یوں کی:
”نوچندی میلے کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔نوچندی کے میدان میں دکانوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔روزانہ بڑے بڑے ٹرک آتے۔ڈھیر سا سامان اُتارتے اور میلے کے شوقین لوگوں کی اُمید کو ہوا دیتے چلے جاتے۔کاری گر جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے نوچندی میدان میں آسمان سے باتیں کرنے والے کئی بجلی جھولے کھڑے ہوچکے تھے جن کا دائرہ اتنا بڑا تھا کہ اوپر دیکھنے کے لیے گردن کو پیچھے تک لے جانا پڑتا تھا۔کشتی والا جھولا،غوطہ لگانے والا جھولا۔مائی فیر لیڈی،اجگر کی شکل میں ریل پر چلنے والی ٹرین۔چھوٹی چھوٹی کاریں جو بجلی سے چلتی تھیں۔چھوٹے چھوٹے جھولوں کی تعداد بتانا مشکل۔ایک طرف سرکس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔دکانوں کا تو کہنا ہی کیا۔ایسا لگ رہا تھا ساری دنیا کی دکانیں نوچندی میں آ جائیں گی۔ہر سامان کی دکانوں کی قطار،آرایش و زیبایش کی دکانیں…کپڑے کی دکانیں ایک طرف تھیں۔موسم تبدیل ہو گیا تھا۔سردی اپنا بستر سمیٹ چکی تھی۔“
(افسانوی مجموعہ لینڈرا،اسلم جمشید پوری، موت کا کنواں،2009صفحہ55)
نوچندی میلے کی منظر نگاری کے بعد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے موت کے کنویں کی بنیاد پر افسانے کی تعمیر کومزید پختہ کرتے ہوئے اس میں اُن واقعات کو پیش کیا جنھیں پڑھ کر قاری میلے کی رنگینیوں میں گم ہو جاتا ہے۔انھوں نے موت کے کنویں کو نوچندی میلے کی روح قرار دیاہے۔ ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ اگر نوچندی کے میلے میں ”موت کا کنواں“نہیں لگایا گیا تو پورے میلے کی رونق،بد رنگ ہو جاتی ہے۔اس لیے اکثر لوگ نوچندی میلے میں موت کے کنویں میں ہونے والے کرتبوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھنے جاتے ہیں۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اس افسانے میں موت کے کنویں کی جو منظر کشی کی وہ دل فریف اور دلکش تو ہے ہی،ساتھ ہی انھوں نے موت کے کنویں میں کام کرنے والے کلاکاروں کے حیرت انگیز کارناموں کا ذکر غیرمعمولی طور پر کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔افسانے میں قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے موصوف نے موت کے کنویں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے لکھا:
”نوچندی میلے میں یوں تو ہر چیز دیکھنے لائق ہوتی ہے لیکن موت کا کنوں یہاں کا منفرد پروگرام ہوتا ہے۔میلے کے شباب کے دنوں میں لوگوں کا ریلا ہوتا ہے۔چاروں طرف شور شرابہ،لاؤڈ اسپیکروں سے آوازوں کا طوفان پورے میلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔سب سے زیادہ کان پھاڑنے والی آواز،موت کا کنواں،کے باہر لگے بڑے بڑے اسپیکروں سے پھوٹتی ہے۔موسیقی اور گانوں کی تقریباً چیختی آوازوں کے دوران اعلان بھی جاری رہتا ہے:
”آیئے…آئیے…موت کا کنواں دیکھیے۔“
”ایک ساتھ تین تین موٹر سائیکلوں کا تماشا دیکھیں۔“
”موٹر سائیکلوں کے ساتھ تین تین کار بھی دوڑیں گی۔“
”موت کے کنویں میں لڑکی کا کارنامہ دیکھیں۔“
”ہر…ہر…رارا….ایک طرف موٹر سائیکل کا ڈرائیور صرف ایکسلیٹر دے کر پروگرام شروع ہونے کا لاچ دیتا رہتا ہے۔جب کہ پروگرام کافی دیر بعد شروع ہوتا۔پورا مچان بھر جانے کے بعد کھیل شروع ہوگیا تھا۔موٹر سائیکل اور کاریں ایک دوسرے سے آگے،پیچھے برق رفتاری سے دندناتی پھر رہی تھیں…ڈرائیور اپنے اپنے کرتب دکھلا رہے تھے…تالیاں بج رہی تھیں۔سب سے زیادہ تالیاں موٹر سائیکل والی لڑکی کے کرتب پر بج رہی تھیں… کھیل کے اختمام پر سب کی زبانوں پر لڑکی کے کے کرتب تھے۔“ (یہ بھی پڑھیں امیر خسروؔدہلوی اور اُن کا ہندوستانی رنگِ سخن – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
(افسانوی مجموعہ لینڈرا،اسلم جمشید پوری، موت کا کنواں،2009صفحہ55)
میرٹھ کے اس تاریخی میلے کی دھوم ادب کے ساتھ ہندی سنیما میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔رواں سال 2019میں عید الفطر کے موقع پر ریلیز ہوئی فلم”بھارت“جس میں سلمان خان اور کیٹرینا کیف کے مرکزی کردار ہیں،میں بھی نوچندی میلا اور موت کے کنویں کا تذکرہ ہے۔اس فلم میں سلمان خان نوچندی میلے اور موت کے کنویں میں کرتب دکھاتی ہوئی موٹر سائیکلوں کے بارے میں کہتے ہیں ”آپ نے نوچندی میلے میں سب کچھ دیکھا ہوگا،نہیں دیکھا ہوگا تو صرف ہوا میں اُڑتی موٹر سائیکل“۔ نوچندی میلے کی تاریخی نوعیت کو دیکھتے ہوئے حکومتِ ہند نے میرٹھ اور الٰہ ؤباد کے درمیان ”نوچندی
ایکسپریس“کے نام سے ایک ریل گاڑی بھی چلائی ہوئی ہے جس میں روزانہ میرٹھ اور گرد ونواح کے ہزاروں مسافر الٰہ آباد تک کا سفر کرتے ہیں۔ یو ٹیوب پر میلا نوچندی کی خبروں کے علاوہ لائیو اپ ڈیٹ چینل بھی دستیاب ہیں۔دوردرشن پر میلا نوچندی پر خاص فیچر نشر کی جاتی ہے۔ہندوستان میں کچھ ہی ایسے میلے ہیں جن کو تاریخی اہمیت حاصل ہے جس میں ہندو اور مسلمان بلا تفریق ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مل کر اس کا اہتمام،انتظام اور انصرام کرتے ہیں۔بلا شبہ میرٹھ کا یہ تاریخی نو چندی میلا ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا نہ صرف علم بردار ہے بلکہ پوری دنیا میں اس میلے سے بھائی چارے اور قومی یکجہتی کا جو پیغام پہنچتا ہے اس کی مثال ملنا موجودہ دور میں نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہے۔اس میلے میں ہندوستان کہ تہذیب و تمدن اور ثقافت کے مختلف رنگوں کی آمیزش کے علاوہ زبان و ادب بھی پروان چڑھتا ہے۔یہ میلا ہماری ساجھا وراثت کا عملی نمونہ ہے جس پر ہم تمام ہندوستانیوں کو فخر ہے۔میرے خیالات کی ترجمانی ڈاکٹر فرقان سردھنوی نے اپنے قطعہ میں یوں کی ہے:
مظہرِ امن و اخوت بھائی چارے کی امیں
شہرِ میرٹھ کی ہے نوچندی بڑی ہی کیف زا
بھر رہی ہے سیکڑوں برسوں سے آب و تاب سے
فی الحقیقت دیدنی ہوتی ہے اس کی ہر ادا
٭٭٭
ڈاکٹرابراہیم افسر
وارڈ نمبر۔1،مہپاچوراہا،نگر پنچایت سِوال خاص،
ضلع میرٹھ(یوپی)250501،موبائل9897012528
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |