دور حاضر میں جن شاعرات نے اپنے منفرد لب و لہجے (تانیثیت کے حوالے سے )سے اُردو شاعری کو متاثر کیا ان میں ایک معروف اور معتبر نام پروفیسر شہناز نبیؔ کا ہے۔پروفیسر شہناز نبیؔ کلکتہ یونی ورسٹی،مغربی بنگال میں ایک عرصے سے بہ حیثیت اُردو استانی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان کی جملہ ادبی مساعی کے اعتراف میں غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی ، نے سال2017کا غالب انعام برائے شاعری تفویض کیا۔اس کے علاوہ محترمہ کو ان کے شعری مجموعے’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ پر اتر پردیش اُردو اکادمی نے سال 2016کے لیے 2500روپے کا انعام دیا ہے۔پرو فیسر شہناز نبیؔ صاحبہ کو شاعری کا ذوق و شوق بچپن سے ہی تھا۔اسکول اور کالج کے زمانے میں شاعری ان کے اندر سرایت کر گئی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موصوفہ اپنی شاعری میں تانیثیت کے بنیادی مسائل کو پیش کرقاری کے لیے مباحثے کا سامان فراہم کرنے لگیں۔
امریکہ میں1848میں حقوق نسواں کے مسائل پر جو پہلی کانفرنس منعقد کی گئی تب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں تانیثی ادب کو بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے۔تانیثی ادب نے عالمی ادب میں جس برق رفتاری سے فروغ حاصل کیا شاید ہ ہی دنیا کے کسی دوسرے ادب نے اتنی ترقی کی ہو۔ مذکورہ باتوں کے مدنظر ہندوستان میں بھی تانیثی ادب کے حوالے سے خوب باتیں کی گئیں۔چاہے بات فکشن کی ہو یا شاعری کی یا نان فکشن کی۔ان تمام موضوعات پر لکھنے والوں کی ایک پوری جماعت تیار ہوئی۔ابتدا میں تانیثی مسائل پر مرد حضرات نے ہی خامہ فرسائی کی۔میری مراد ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس سے ہے۔ اس ناول کے مقاصد اور اہداف پر اگر غور کیا جائے تو میری بات واضح ہو جائے گی۔ مولانا الطاف حسین حالی نے ’مجالس النسا‘میں عورتوں کے مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان دونوں بزرگ ادیبیوں کے پیش روؤں خاص کر راشد الخیری اور پریم چند نے بھی اپنی تخلیقات میں جا بجا عورتوں کے مسائل پر کہانیاں اور ناول تحریر کیے۔ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور سالار ِ تحریک سجاد ظہیر نے ’انگارے ‘میں ایسی کہانیاں پش کیں جن کا تعلق عورتوں کی زبوں حالی اور استحصال(تہذیبی،سیاسی،اخلاقی،معاشی،اور اقتصادی حقوق کے حوالے سے) سے تھا۔اسی مجموعے میں رشید جہاں کے ایسے افسانے شامل ہیں جن میں حقوق نسواں اوران کے مسائل پر غور و خوض کیا گیا ہے ساتھ ہی یہ افسانے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج اور ’بند سماج ‘میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا لانے میں بھی کامیاب ہوئے(یہ بات دیگر ہے کہ اس مجموعے پر مقدمات کیے گئے اورانگریز حکومت نے اس مجموعے کو فحش قرار دیا )۔اس افسانوی مجموعے کے منظر عام پر آنے کے بعد تانیثیت کے حوالے سے ہندوستان میں ایک نئی بحث نے جنم لیا۔اس بحث کے بطن سے ’نسائی تحریک ‘کو فروغ حاصل ہوا۔حقوق نسواں کے لیے اُردو ادب میں شاعری اور فکشن میں خوب سے خوب تر لکھا گیا۔اگر ایک ایک شاعر اور ایک ایک فکشن نگار کی ادبی جہتوں پر خامہ فرسائی کی جائے تو صفحات کا تعین کرنا مشکل ہو گا۔لیکن میں اس موقع پر ساحرؔ لدھیانوی اور پروفیسر شہناز نبی ؔکی دو نظمیں قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ان دونوں نظموں کا تقابلی مطالعہ نا گزیر ہے تاکہ قارئین حضرات دونوں نظموں میں عورت کی نفسیاتی کشمکش کابہ خوبی اندازہ لگا سکیں۔ ساحرؔ لدھیانوی نے اپنی نظم میں ایک عورت کی حقیقت پسندی اور اس کے تشخص پر بحث کے علاوہ انسانی فطرت اور اس کی عورتوں کے تئیں نفسیاتی مطالعے کو یکجا کر سر گرانی کی۔میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ساحرؔ لدھانوی کانام اگر اس نظم سے الگ کر دیا جائے تو کوئی بھی سنجیدہ قاری اسے کسی خواتین قلم کار کی تخلیق سمجھ کر آہ آہ اور واہ واہ کی داد دیے بغیر نہ رہ پائے گا۔اس نظم سے یہ ثابت بھی ہو تا ہے کہ نسوانی مسائل پر سر محفل شاعری یا باتیں کرنا صرف خواتین قلم کاروں کاشیوہ نہیں،مرد اصحاب قلم نے بھی حقوق نسواں کے تعلق سے بہت کچھ لکھا ہے ۔آج ایسی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کی اشد ضرورت ہے جن میں مرد شاعروں نے feminismپر کھل کر بحث کی ہو۔ساحرؔ لدھانوی کی نظم ملاحظہ کیجیے:
عورت نے جنم دیا مردوںکو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
بکتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوںکو مردوں نے اسے بازار دیا
مردوں کے لیے ہر ظلم روا عورت کے لیے رونا بھی رونا بھی خطا
مردوں کے لیے ہر عیش کا حق عورت کے لیے جینا بھی سزا
مردوں کے لیے لاکھوں سیجیں ،عورت کے لیے بس ایک چتا
عورت نے جنم دیا مردوںکو مردوں نے اسے بازار دیا
جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اگلے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے
چکلوں میں ہی آکر رکتی ہے فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے
مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی بیٹی ہے
اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
اب پروفیسر شہناز نبی ؔکی نظم’الحقُّ‘پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس میں حضرت آدم ؑ اور ماں ہوّا کے جنت میں داخل اور اخراج کے تاریخی واقعے کے علاوہ حضرت یوسف ؑکی مصر کے بازار میں نیلامی اورفرعون کی بیوی زلیخا کی ہوس ،عیسیٰ ؑ اور مریم ؑ کی پاک دامنی ،رسول اکرمﷺ پر ایمان لانے والی پہلی عورت حضرت خدیجہ اور کربلا کے میدان میں جن ماؤں کی کوکھ کو اجاڑا گیا، کو منظوم انداز میں پیش کیا گیاہے۔اس نظم میں ساحرؔ لدھانوی کے افکار و نظریات پر شدید چوٹ کی گئی ہے۔جس میں صرف عورت کے استحصال کا ذمہ دار مردوں کو قرار دیا گیا۔لیکن پروفیسر شہناز نبی ؔنے ساحرؔ لدھانوی کے بر عکس نسائی ذہنی خلفسار کو شکوہ کی ہیئت میں منظوم کیا۔اس نظم کو پڑھنے کے بعد قاری کو علامہ اقبالؔ کی طویل نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ کی یاد ضرور یاد آئے گی۔پروفیسر شہناز نبی کی نظم ’الحق ‘ملاحظہ کیجیے: (یہ بھی پڑھیں امیر خسروؔدہلوی اور اُن کا ہندوستانی رنگِ سخن – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
مجھے تسلیم کہ میں نے ترے آدم کو بہکایا
وہ تھا جنت گزیں
لیکن اسے دنیاکی دوزخ میں
مری اک سر پھری خواہش نے
کیسے کیسے بھٹکایا
مجھے تسلیم کہ اس بے گنہ دھرتی پہ
پہلے قتل کی موجب ہوئی ہوں میں
مرے ہی واسطے
رشتوں کے آئینے میں
پہلی دفعہ بال آیا
مجھے تسلیم کہ میری ہوس کی تیز آندھی نے
لباس یوسفِ کنعان پر زہ پر زہ کر ڈالا
مگر اتنا بتا مجھ کو
کہ بیت اللحم نے کس نے
ترے بخشے ہوئے دھبے سے ماتھے کو سجایا تھا
کہ وہ تھا کون جو پہلے پہل
اک اُمّی پہ ایمان لایا تھا
کہ کس کی کوکھ اجڑی کربلا کی پیاسی دھرتی پر
تری سر کش انا کو کس کی آہوں نے سنبھالا تھا
ذرا اتنا بتا مجھ کو۔!
اُردو ادب میں تانیثی فکر و نظر کو جن خواتین قلم کاروں اور فن کاروں نے فروغ دیا ان میں عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسور ر، ،خدیجہ مستور،قدسیہ بانو،ممتاز شیریں،فہمیدہ ریاض،پروین شاکر،رفیعہ شبنم عابدی،بلقیس ظفر الحسن ،پروین فنا سید،سفین فاطمہ،ادا جعفری،عذرا پروین،جیلانی بانو،فرخندہ لودھی،رضیہ فصیح احمد،زاہدہ زیدی،ساجدہ حنا، صغرا مہدی وغیرہ کا نام سر فہرست ہے۔ان اہل قلم نے اپنے ادب میں نسائی مسائل کو عالمانہ انداز میں قاری کے سامنے پیش کیا تاکہ قاری عورتوں پر ہو رہے ظلم و جبر اور ان کی وفاشعاری پر اٹھنے والے سوالوں،طلاق،بھوک ،استحصال ،افلاس کے ساتھ روزی روٹی کے سر بستہ مسائل پر بھی غور و فکر کرے۔ان تمام مذکورہ مسائل کو پروفیسر شہناز نبی ؔنے اپنے نظمیہ مجموعے’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘(اشاعت اول2001اور اشاعت ثانی2016) میں بہ خوبی پیش کیا ہے۔اس مجموعے میں زیادہ تر نظمیں ،عورتوں کی روز مرہ زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔
پروفیسر شہناز نبیؔ کاجنون تانیثیت کی مظلوم و بے بس اور گم صم آواز کو اپنی شاعری اور ڈراموں کے حوالے سے قارئین تک پہنچانے کے ساتھ ان کی نمایندگی کرنا بھی ہے۔feminism پر لکھنا اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔پروفیسر شہناز نبیؔ نے عالمی تناظر میں عورتوں کے مسائل کو اپنی شاعری میں بہ خوبی پیش کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔جب ہم ان کے نظمیہ مجموعے’’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نسائی ترجمانی (جسے آج یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ یہ تو صرف عورتوں کے مسائل ہیں،ان سے صرف آدھی آبادی متاثر ہوتی ہے اور ان سے مرد حضرات کا کوئی تعلق نہیں)کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔اُردو ادب میں ایسے بے شمار شاعر اور شاعرات کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھوں اپنے دور کے مسائل کی ترجمانی کی لیکن ان شاعروں اور شاعرات میں کم ہی ایسے ہیں جنھوں نے ان مسائل کو پہلے جھیلا ،پھر اپنے کلام میں پیش کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ رفیعہ شبنم عابدی، بلقیس ظفر ، پروین شاکر،ادا جعفری ،فہمیدہ ریاض ،کشور ناہید،نجمہ رحمانی،ناہید خانم وغیرہ شاعرات کی طرح شہناز نبی نے اپنے ذاتی مسائل اوردکھ درد کو اپنی شاعری میں بیان کیا۔ان کی مشہور نظموں میں بائیں پسلی،سر گوشی،زنجیر،ایک نظم اپنی ماں کے نام،کھوئے ہوئے لفظوں کے نام ایک نظم،ستائیسویں شب کا جرمانہ،مجھے مت چھوؤ،دراڑوں کے ہم سفر، پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم،کوئی اتنا یاد نہ آئے،اپنے لیے ایک دن جیسی لا تعدا اور لا فانی نظمیں یوں ہی تخلیق نہیں ہوتیں ۔’’اے زیرک لوگو۔!‘‘نظم میں پروفیسر شہناز نبیؔ نے وحشتِ انسانی کی ترجمانی دلدوز انداز میں کی۔اس نظم میں دور جہالت میں کم سن بچیوں کو زندہ در گور کرنے کے سانحے کو موصوفہ نے جن سرِ شک لفظوں کے انتخاب اوربہ حسن احتجاج کے سہارے پیش کیا وہ قابل تعریف ہے۔نظم ملاحظہ کیجیے:
پہاڑو کی بلندی سے
اپنی بچیوں کو پھینک دینے والے زیرک لوگو
کون کہتا ہے کہ تم وحشی تھے
وحشی قبائل آج بھی زمین جان کر روندتے ہیں
فصلوںکی طرح کاٹتے ہیں
اندھا کنواں سمجھ کر پاٹتے ہیں
دسترخوان پر چنی جانے والی یہ نعمت
قدرت کی طرف سے آدم کو پہلا تحفہ
جسے وہ جوئے میں ہار گیا
اس سے پہلے کہ جنت اس کی کمزوری بنے
’’بھیگی رتوںکی کتھا‘‘،سخن نیم شب‘‘’’شرار جستہ‘‘،’’پس دیوار گریہ ‘‘ہو یا’’تانیثی تنقید‘‘’’feminism تنقید اور تاریخ ‘‘چاہے ’’دستاویز‘‘،’’رہروان ِ ادب‘‘کے مضامین ہوں یا غزلیں ہوں،ان سب میں پروفیسر شہناز نبی ؔنے اُردو ادب کے ہر اُس سنجیدہ قاری کے سامنے کچھ تیکھے اور مشکل ترین سوالات کے معمے پیش کیے ہیں جو نسائی ادب میں تھوڑی بہت دل چسپی رکھتے ہیں یا نسائی مسائل سے ان کا سابقہ روزہوتا ہے۔’’اگلے پڑاؤ سے پہلے ‘‘کا پہلا شمارہ 2001میں منظرِ عام پر آیا لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے دوبارہ 16سال بعد منظر عام پر لایا گیا۔اس مجموعے میں کل 123نظمیں شامل ہیں۔کتاب کی چوتھی نظم کو پروفیسر شہناز نبی نے مجموعے کا عنوان یعنی title بنایا ہے۔ سر ورق پر پیڑ کی شکل میں ایک عورت کا جسم جس کے دونوں ہاتھ سوکھی ڈالیوں اور ٹہنیوں میں لپٹے ہوئے ہیں ،پیڑ کے پاس ہی ایک باڑہ اور باڑے سے باہر جانے کے لیے ننھے ننھے12 قدموں کے نقش قاری سے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیتے ہیں۔12قدموں کے یہ نشان کتاب کے پس نوست میں سوکھے پیڑ کے نیچے بیٹھے تنہا آدمی کے پاس آکر ختم ہو جاتے ہیں۔اگلے پڑاؤ سے پہلے کے اس نقشے میں پنہاں راز و نیاز کو پروفیسر شہناز نبیؔ نے اپنی نظم’’ اگلے پڑاؤ سے پہلے‘‘ میں یوں بیان کیا:
ہمیں اک نیند لینے دو
کہ پھر اگلے پڑاؤ تک
نہ جانے راہ میں کیا ہو
سفر میں کچھ نشاں تو لوٹ آنے کو ضروری ہیں
مگر ہم نے کسی بھی موڑ سے رشتہ نہیں جوڑا
گھماؤ راستوں کا
اک پیاؤ
یا کوئی چوپال
یا پھر اشتہاری تختیاں
بچوں کا اک اسکول
اک ٹوٹی ہوئی شاخ
یا اکھڑا ہوا پتھر
ہمیں کچھ بھی نہیں یاد
کہ کن شاہ راہوں سے
کہ کن پر پیچ گلیوں سے
گزر کر ہم یہاں تک آ گئے ہیں جس جگہ کوئی
نہیں ایسا کہ دامن سے ذرا گردِ سفر جھاڑ ے
کہ تلوؤں چبھا کانٹا نکالے
اوک سے پانی پلائے
خالی چھا گل پھر سے بھر دے
باندھ دے اگلے سفر کے واسطے
دو روٹیاں اور اک ضامن
ہم کہ جن کے واسطے
ساتوں سمندر اک طرف
قحطِ بارانٔی خاطر سے ہوئے ہیں یوں نڈھال
پاؤں اب اٹھتے نہیں
اک نیند لینے دو ہمیں
اپنے اسی انداز کو قائم و دائم رکھتے ہوئے پروفیسر شہناز نبیؔ نے یہ بھی کہا کہ ہر انسان کو گھر سے نکلتے وقت دنیا و مافیہاسے آ گہی رکھنی چاہیے۔اگر انسان ایسا نہ کرے گا تو اسے اپنی شناخت دنیا کے سامنے لانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔موصوفہ کا یہ پیغام اپنے اندرآفاقیت لیے ہوئے ہے۔نسائی شناخت اور تشخص کو دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے پروفیسر شہناز نبی ؔکا یہ بھی ماننا ہے کہ دنیا داری کے چکر میں پڑ کر عورتیں اپنے پہچان کو بھولتی جا رہی ہیں۔لیکن موصوفہ نسوانی تحفظ کو مقدم رکھنا چاہتی ہے ۔بقول شاعرہ:
میرؔ جی،گھر سے جب بھی نکلو
شہر کا نقشہ جیب میں ہو
بھول بھٹک کر مندر،مسجد،گرودوارہ مت ایک کرو
اپنا مذہب،اپنا نام اور اپنی بولی یاد رہے
بھاڑ میں جائے ساری دنیا
اپنا گھر یاد رہے
پروفیسر شہناز نبی ؔنے اپنے آپ کو صرف نسائی ادب تک محدود نہیں کیا بل کہ عالمی مسائل خاص کر آلودگی اور ایکو سسٹم کی بد حالی پر بھی نظمیں تخلیق کیں ۔تاریخی اور اہم واقعات کو بھی اپنی نظموں میں پیش کیا۔رثائی ادب پر بھی ’’کربلا ‘‘نامی نظم لکھی۔خاص بات یہ بھی کہ انھوں نے ہندی اور انگریزی کے عام لفظوں کو اپنی شاعری میں برتا۔اس سے بڑھ کر عوامی الفاظ کی ترجمانی کو اپنی شاعری کا شعار بنایا۔ان تمام باتوں کے مد نظر انھوں نے تانیثیت کا دامن نہیں چھوڑا۔بل کہ اس دامن کو مزید مستحکم کرنے کی جد و جہد میں اسرار الحق مجازؔ لکھنوی کے مشہور زمانہ شعر ؎
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
کے مصداق پرچم بنانے کی تگ و دو میں اپنے آپ کو مصروف کیا۔کام کاجی عورتوں کے مسائل عام عورتوں کے بہ نسبت علاحدہ اور جدا گانہ ہوتے ہیں۔ایسی عورتیں (جنھیں زندگی کو جینے کے بجائے ڈھونا پڑتا ہے)سماج میں اپنے وجود اور تشخص کو بچانے کی جد جہد میں ہمہ تن گوش رہتی ہیں۔پروفیسر شہناز نبیؔ نے ایسی ہی عورتوں کی ترجمانی اور نمایندگی ’’جرمانہ‘‘نظم میں بے باک اور شعبدہ انداز میں کی۔ملاحظہ کیجیے:
سر کشی کی سزا تمہیں ہی نہیں
مجھ کو بھی مل رہی ہے ہر لمحہ
میں بھی ہر صبح تھکن کی پرتوں کو
بازوؤں سے جھٹک کر اٹھتی ہوں
بال و پر میں اران بھرتی ہوں
دن ڈھلے تک تلاش گندم میں
اگلے دن کی تھکن جٹاتی ہوں
جانے پازیب کس دراز میں ہے
جانے کنگن کہاں پہ رکھا ہے
پروفیسر شہناز نبی ؔنے جذباتی نظموں میں عشق کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے ایسی لڑکیوں کی ترجمانی اپنی نظموں میں کی جو کچی عمرمیں محبت نامی مجسمہ کے آگے اپنا سر خم کر دیتی ہیں۔جس کے نتیجے میں یہ لڑکیاں رات دن تنہائی کے عالم میں بس عشق اور اپنے محبوب کے بارے میں سوچتیں رہتی ہیں۔پروفیسر شہناز نبی ؔنے عنفوانِ شباب کے معصوم عشق کو نظمیہ قالب عطا کیااور اسے ’اگلی رُت کی نماز‘اور کبھی’یقیں ہے مجھ کو‘اور کبھی’دل کی ضمانت‘کے formمیں پیش کیا۔پروفیسر شہناز نبی ؔنے ان نظموں میں عشق کو علامت کے طور پر استعمال کیا تاکہ قاری کا ذہن یک لخت اس بات کی جانب گردش نہ کرے جو بات نظم کے آخر میں بیان کی گئی ہے وہ اسے ابتدا میں ہی لطف اندوزی حاصل ہو جائے۔موصوفہ کی نظم ’یقیں ہے مجھ کو‘‘میں ایک ایسی لڑکی کی تصویر پیش کی گئی ہے جو عشق کے بھنور پھنس کر صرف اور صرف ایسی راہ تک رہی ہے جس کا اور ہے نہ چھور،پتا ہے نا ٹھکانا۔یہ راستہ نفسیاتی کشمکش کا مکڑ جال اور بھنور ہے ۔دور حاضر میں اس کیفیت میں وہ نو جوان زیادہ مبتلا ہیں جو عنفوان شباب کی دنیا میں تازہ دم وارد ہوئے ہیں۔بقول پروفیسر شہناز نبی ؔ:
ہم نے بھی چاہا تھا بے خواب کواڑوں کو مقفل کرنا
ذہن آسانی سے تھکنے کو رضا مند نہیں
سوچ کی لہرمیں ہلچل ہے وہی پہلی سی
دل پس و پیش میں الجھا ہے پہ مایوس نہیں
شام ہوتے ہی چراغوں میں لویں رکھتے ہیں
گرد اڑتی ہے تو چھڑ کاؤ کا رکھتے ہیں خیال
ایک اک چاپ پہ اٹھتی ہے امید انہ نظر
یاں سبھی کچھ تو ہے
جو اس کو پسند آتا ہے
ہم نے بھی کتنی دیانت سے بچا رکھا ہے
ہاں وہی جرآتِ رندانہ کہ ہے جس میں خلوص
وہ جو آیا تو نہ لوٹے گا یقیں ہے مجھ کو
عشق کی حالت زار کو پروفیسر شہناز نبی ؔنے ’دل کی ضمانت میں ‘‘آخری بند میں سخت لہجے میں پیش کیا ہے۔اس بند میں قارئین کوان کا جداگانہ رنگ و آہنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ملاحظہ کیجیے نظم کا آخری بند:
سنو، اردھ ناریشور
بس بہت ہو چکا
میں اب اپنا آدھا سراپا لیے
بھٹکتی رہوں گی ابد تا ابد
اپنے پہلو میں دل کی ضمانت کی خاطر
زیاں اس جدائی کا سہنا گوارہ
میں اپنے مضمون میںما قبل تحریر کر چکا ہوں کہ پرو فیسر شہناز نبیؔ نے اپنی نظموں میں تاریخی واقعات کو بھی بہ خوبی پیش کیا ہے۔ان کی ایک نظم’’گیان‘‘عنوان سے ہے ۔اس نظم میں موصوفہ نے مہاتما بدھ کے تاریخی واقعے جس میں انھیں علم عرفان یا حقیقی علم کی تلاش و بسیار کے واسطے اپنے محل،عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ اپنی شریک حیات اور اہل خانہ کو بھی ترک کرنا پڑا تھا،کو پیش کیا ہے۔اس تاریخی واقعے کو پروفیسر شہناز نبی ؔنے خوب صورت لفطوں کی مالا میں ڈھالا۔ہندوستانی پس منظر میں دیکھا جائے توگوتم بدھ کی علم حقیقی کی اس ہجرت نے مؤرخوں کو تاریخ کے اوراق کو نئے سرے سے لکھنے پر مجبور کیا۔گوتم بدھ صرف’بدھ مذہب کے بانی اور پیامبر نہ تھے وہ علامت تھے دار فانی کی تکالیف سے موکش(راہ نجات)حاصل کرنے کے اوروہ نمایندہ تھے اپنے حقیقی رب کی تلاش و جستجو کے واسطے اپنا سب کچھ قربان کر نے والوں کے۔پروفیسر شہناز نبی ؔنے ہندوستان کے اس عظیم تاریخی واقعے کو صرف 13سطروں پیش کرنے کی مساعی کی۔نظم کے خوب صورت الفاظ قاری کوہندوستان کی کئی ہزار سالہ قدیم تاریخ کی سیر کرانے کے ساتھ اسے اپنے مقصد حیات کی یاد دہانی بھی کراتے ہیں۔نظم ملاحظہ کیجیے:
رات کا کون سا پہر تھا کیا پتا
نیند میں کسمساتے ہوئے جسم کو
نرم بستر کی آغوش چبھنے لگی
آسماں تھا ستاروں سے لبریز
لیکن رگوں میں اندھیروں کی یلگار تھی
چاروں جانب دریچے کھلے تھے مگر
حبس اتنا کہ آنکھیں ابلنے لگیں
کچھ مناظر نگاہوں کو ڈسنے لگے
ایک اک کرکے رشتے چٹکنے لگے
محل کے بام و در نے پکارا بہت
عالمِ کواب یا عرصۂ ہوش میں
ہم نکل آئے ایسے نہ پلٹے کبھی
جانے اب کپل وستو ہے کس حال میں
اس پورے مجموعے میں پروفیسر شہناز نبیؔ نے اپنے آس پاس کے تانیثی مسائل کو نظمیہ شکل میں پیش کیا ہے۔اس مجموعے کے دوبارہ شائع ہونے سے جدید نظموں میں خاص طور پر نسائی آواز کی نمایندہ شاعری میں دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کسی تحفے سے کم نہیں۔کسی بھی شاعر یاشاعرہ کے تخلیقی سفر کو سمجھنے کے لیے ان کی زندگی کے تمام گوشوں کوسامنے رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے۔جس زمانے میں مسلم عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا اس زمانے میں پروفیسر شہناز نبیؔ صاحبہ نے اپنے خانوادے کی علمی آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رکھا ۔اپنے تشخص کی بازیابی کی جملہ مساعی اور اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ والہانہ محبت کے سبب ان کی شاعری اور ادبی کارناموں کی دھمک تسہیل کے ساتھ زمانہ محسوس کر رہا ہے۔موصوفہ نے اپنی نظم’بابل مورا۔۔۔۔۔‘میں پدری شفقت کو معصوم انداز میں یا دوسرے لفظوں میں’ ایک بیٹی کے سوال پاپ کے نام‘موسوم کیے ہیں۔جب بیٹی باپ کے گھر سے شادی کے بعد دواع ہوتی ہے توبیٹی کے سامنے بچپن سے لے کر عہد جوانی تک کے گزارے ہوئے ایام یاد ماضی بن کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔انھی ایام کے شب و روز ایک لمحۂ فکریہ کے مانند تانیثیت کے جذبات کو عروج بخشتے ہیں۔یہ عروج سوالات کی شکل میں تانیثی اذہان کے نہاں خانوں میں پنہاں نفسیات کو بروے کار لاتے ہوئے والدین سے رہ رہ کر ایک شاخ سے دوسری شاخ کے سفر کی روداد ہیں۔شادی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے لیکن اس عمل سے کچھ ایسے سوالات بھی ابھرتے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔پروفیسر شہناز نبیؔ نے وداعی کے اس عمل کو پُر در دبنا دیا ہے۔نظم ملاحظہ کیجیے:
کیوں چھوڑا تھا میرا ہاتھ
دھرتی پر تنہا چلنے کی پہلی مشق کرائی کیوں
پاؤں پاؤں کیا سوچ کے ایسے سفر کی بیڑیاں پہنائی
گھر،آنگن اور کوہ و دمن اور دشت و دریا ایک ہوئے
شاید اب بھی نیم کی چھاؤں میں کچھ ٹھنڈک باقی ہو
شاید اب بھی جھولے پڑتے ہوں ساون کے مہینے میں
گھر کی میز پہ کاغذ بھی ہو،قلم بھی اور سیاہی بھی
لیکن جب گئیا کے لیے کوئی کھونٹ نہ ترے آنگن میں
جب چڑیوں کے لوٹ آنے کی راہ نہ چھپر تکتے ہوں
جب بیلے کی کلیاں شاخوں پر ہی مرجھا جات ہوں
ویروں کے کندھے خود اپنے بوجھ سے ہی جھک جاتے ہوں
تب چوکھٹ تک آتے آتے راہ بھٹک جاتے ہیں کہار
پہلی تھاپ پہ ہی سسکی میں ڈھلتے ہیں بابل کے گیت
مذکورہ بالا نظم کے بر عکس پروفیسر شہناز نبیؔ کی ایک نظم’ساتویں شہزادی کا قصہ‘قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔اس نظم میں ایک باپ اور بیٹی کے مکالموں کو لفظوں کا لبادہ اوڑھا کر نظم تخلیق کی گئی۔چھ مصرعوں پر مشتمل اس نظم میں پروفیسر شہناز نبی ؔنے حقوق نسواں کی بازیابی کرتے ہوئے ببا نگ دہل عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو سپرد قلم کیا۔پروفیسر شہناز نبی ؔکے مطابق اس نظم میں بیٹی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے والد سے یہ کہہ بیٹھی کہ وہ صرف اپنے سر نوشت کا کھاتی ہے۔اس کے بدلے میں اس کی زندگی میں جو ظلم و ستم کا طوفان آتا ہے وہ قابل بیان نہ سہی لیکن قابل غور ضرور ہے:
میرا قصور صرف اتنا ہے
کہ میں نے اپنے باپ سے کہا تھا
’میں اپنی قسمت کا کھاتی ہوں‘
اور تب سے اب تک
خونخار درندوں سے بھرے جنگل میں
تنہا بھٹک رہی ہوں
پروفیسر شہناز نبیؔ نے اسلامیات اور ہندو مائتھالوجی پر بھی نظمیں تخلیق کیں۔ان نظموں میں دونوں مذاہب میں عورتوں کی حالت گیر کو نشانہ بنایا گیا ۔’برندا بن ‘نظم میں ہندو بیواؤں کی حالت زار پر تیکھے انداز میں سوال قائم کیے گئے۔’اجل مجھ سے مل‘میں ستیوان اور ساوتری کے تاریخی قصے کا تذکرہ ہے۔اسی طرح’’اگر یہ مان بھی لوں‘میں روز قیامت کا بیان تفصیل سے ہے۔’نئے یگ کا خواب‘میں پہلہ کلمہ بول کر اسلام میں داخل ہونے اور اور موت کی ہیجانی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔نظم ’اقرا بسم ۔۔۔۔‘میں ایمانی قوت گوئی پر بات کی گئی ہے۔ان نظموں میں تسلسل کے ساتھ تاریخی قصوں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قاری بھی موصوفہ کے ساتھ گزرے ہوئے کل کی سیر کرتا ہے۔موصوفہ نے ’میں جلدی میں ہوں‘نظم میں دور حاضر کی بھاگ دوڑ بھری زندگی کا نقشہ اس طرح پیش کیا جیسے ہم سب اس نظم کا ایک حصہ ہوں۔نظم میں دور حاضر کی برق رفتاری کا بیان ،پھر روزی روٹی کمانے کی دھن،اس کے بعد ادب سے شغف ،اس کے بعد بھی ہر مرد اور عورت جلدی میں ہے۔اس کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ چند لمحے سکون کے ساتھ گزار سکے۔نظم کا تانا بانا خاب صورت اور سلیقگی کے ساتھ بنا گیا ہے۔کسی کو بس پکڑنے کے لیے بس اسٹینڈ جانا ہے ،کسی کو گھڑی کی سوئیوں کی چال سے بھی تیز دوڑ کر اپنے گھر لوٹنا ہے اور کسی کو نرم ملائم بستر پر دراز ہونے سے قبل غالب ٹیگور،نذرل منٹو اور بیدی کو پڑھنا ہے اور کوئی لمحوں میں صدیاں جی لینا چاہتا ہے اور کوئی جنم جنم کے بندھن سے آزاد ہوکر اس دھرتی پر دوبارہ جنم لینے کی خواہش پالے ہوئے ہے۔قاری پوری نظم میں کئی بار صدیوں کا سفر پل بھر میں مکمل کر لیتا ہے۔نظم ملاحظہ کیجیے:
’’میں جلدی میں ہوں،ہر پل مجھے محسوس ہوتا ہے ،میرے پاس وقت کم ہے،ابھی رات باقی ہے،اور سورج میری آنکھوں میں اتر آیا ہے،چڑیوں نے پنکھ نہیں پسارے،اور میرے دل میں ان کی حمد گونجنے لگتی ہے،میں بستر ہر ہوں،اور میرے پاؤں،بس اڈے کی طرف بھاگ رہے ہیں،بستر اور بس اڈے کے بیچ،کبھی پانی کا نل کھلا رہ جاتا ہے،کبھی چائے کی کیتلی جلتے اسٹو پر دھری رہ جاتی ہے،کبھی استری کا پلگ لگا رہ جاتا ہے،کبھی پنکھے کی سویچ آف کرنا بھول جاتی ہوں،میں ہر لمحہ جلدی میں رہتی ہوں،کام کے دوران میری آنکھیں،گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ،دائرے بناتی رہتی ہیں،کب میرا کام ختم ہو،،میں گھر لوٹوں،مجھے جانا ہے،مجھے جانا ہے،میں بس اڈے پر ہوں،لیکن میرا ذہن،بستر پر دیکھ بکھرے ہوئے کاغذات میں رکھا ہے،غالب‘نذرل‘میر‘ٹیگور‘منٹو‘بیدی،میرے منتظر ہیں،الگنی پر لٹکے کپڑے سوکھ چکے ہیں،زینوں پر کافی اندھیرا ہے، مجھے ہر لمحہ لگتا ہے،میرے پاس وقت بہت کم ہے،میں لمحوں میں صدیاں جینا چاہتی ہوں،میں دو قدم میں ساری دھرتی الانگھ جانا چاہتی ہوں،میں ایک سانس میں سارا آکاش چھو لینا چاہتی ہوں،میں ایک جنم میں کئی جنم جی کرلوٹ آنے کے لیے ،یوں جانا چاہتی ہوں،جیسے میں گئی ہی نہیں تھی،میرے پاس وقت کم ہے میں بہت جلدی میں ہوں۔‘‘ (یہ بھی پڑھیں اکیسویں صدی میں اُرود تحقیق (2000سے2020تک) – ڈاکٹر ابراہیم افسر )
پروفیسر شہناز نبیؔ نے اس مجموعے کی ہر نظم میں تانیثی مسائل کی علم برداری کی ہے۔ناقدین ادب موصوفہ کو womenist یاfiministہونے کا خطاب ضرور دے سکتے ہیں۔میرا ماننا یہ بھی کہ محترمہ کا تعلق ہندوستا ن کی ایسی سر زمیں (مغربی بنگال) سے ہے جسے اپنے نظریات اور خیالات کی وجہ سے انقلابی ہونے پر فخر ہے۔موصوفہ اس مجموعے سے معاشرے کو جو پیغام دینا چاہتی ہیں اس میں خواتین کو ظلم و جبر اور استباد سے آزادی فراہم کرنا ہے۔ناروا سلوک ،جنسی استحصال،غیر مساوی حقوق وسلوک،غیر اخلاقی رویہ،اور فرسودہ سماجی نظام،طبقاتی کشمکش اور معاشرتی اقدار کی زبوں حالی سے نجات دلانا ان کا نصب العین ہے۔اگر ہم بین الاقوامی سطح پر عورتوں کے مسائل کاجائزہ لیں تو عورتوں کو جسمانی تعلقات بنانے والی ایک شے سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے زیادہ تر مردوں کے ذہنوں میں بس یہی ایک تصور گردش کرتا ہے کہ عورت ہماری خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت صرف بچوں کی تعداد میں اضافہ کرنے(بیوی) ،ان کی پر ورش و پرداخت کرنے(ماں) اور گھر کی چار دیواری تک ہی قید(بہن یا بیٹی) نہیں ہے اس نے بھی مردوں کی طرح انسانی تاریخ میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔اس نے بھی دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نئی نئی فتوحات اور کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔یہی نکتہ نسائی فکر اور جد و جہد کا عروج ہے۔دنیا کا ایسا کون سا کام ہے جس میں عورتوں کی نمایندگی نہ ہو۔اگر عورت اپنا حق مانگتی ہے تو اسے مرد معاشرہ bold عورت قرار دے دیتا ہے۔المختصر پروفیسر شہناز نبی ؔنے اپنی طویل اور مختصر نظموں میں عورتوں اور صرف عورتوں کے جذبات اور خیالات کی بھر پور نمایندگی کی۔’الشمس سے لے کر وصال‘تک پورے مجموعے میں کوئی بھی نظم ایسی نہیں ہے جس میں نسائی مسائل پر باتیں نا ہوں۔ واقعی یہ مجموعہ اگلے پڑاؤ سے پہلے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ پروفیسر شہناز نبی ؔنے گذشتہ صدی میں تانیثیت کے حوالے سے جو مسائل یا نکات دنیا کے سامنے وکیل بن کر پیش کیے اکیسویں صدی میں ان نکات اور مسائل سے ہمارا واسطہ روزانہ پڑتا ہے۔ہمیں پروفیسر شہناز نبیؔ کی مفکرانہ اور عالمانہ شاعری کا مطالعہ نئے تناظرمیں کرنا ہوگا۔
٭٭٭
DR. IBRAHEEM AFSAR,
WARD NO-1,MEHPA CHOURAHA,
NAGAR PANCHAYAT SIWAL KHAS
DISTT-MEERUT(UP)PIN 250501
MOBILE 9897012528 EMAIL-ibraheem.siwal@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |