اُردو ادب میں حکومتوں اور حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج کوبلند کرنے والے ادبا و شعراہمیشہ موجود رہے ہیں۔بھلے ہی ایسے لوگوں کی تعداد اُنگلیوں پر گِننے لائق ہو لیکن بادشاہوں اور حکومتوں کے ظلم وجبرکے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں انھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر آیندہ نسلوں کے لیے مثالیں قائم کیں۔مغل بادشاہ فرخ سیر کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے جعفر زٹلّی کا نام احتجاجی شاعروں میں سرِ فہرست ہے۔تحقیقی شواہد کے مطابق جعفر زٹلی کو درج ذیل سکّہ کہنے کی پاداش میں فرخ سیر نے قتل کیا تھا:
سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہِ تسمہ کش فرّخ سیر
1857کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف اپنے اخبار میں صدائے احتجاج بلند کرنے والے مولوی محمد باقر کو بھی جامِ شہادت نوش کرنا پڑا تھا۔تحریکِ آزادی کے دوران آزادی کا بگل بجانے والے ادبا و شعرا کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ہندوستان میںجب ایمر جنسی نافذ کی گئی تو اس وقت بھی ادبا و شعرا نے صدائے احتجاج کا پرچم بلند کیا۔اس ایمر جنسی کا دورانیہ اکیس مہینے(25جون1975تا21مارچ1977) کا رہا۔جن لوگوں نے حکومت کی آنکھوں سے آنکھیں ملائیں ان کے شب و روز زندان کی نذر ہو گئے۔ایمر جنسی کے دوران موقع و محل کے اعتبار سے بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے احتجاجی ادب تخلیق کیا۔ایمر جنسی میں کسی کو سچ بولنے اور سچ لکھنے کی مناہی تھی۔ یہاں تک کہ صحافیوں اور ادیبوں کے قلم پر پہربیٹھا دیا گیا تھاکہ کہیں یہ لوگ عوام کو سچ سے روشناس نہ کرا دیں۔لیکن آہستہ آہستہ حالات بدلے اور لوگوں نے ایمرجنسی کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کیا۔پروفیسر محمد حسن نے بھی اپنا معرکتہ الآرا ڈرامہ’ضحاک‘ایمرجنسی کے دوران ہی لکھا۔
پروفیسر محمد حسن نے ’’ضحاک‘‘کے ذریعے مظلوم اور بے بس لوگوں کی آواز کو حکومت کے کانوں تک پہچانے کا بیڑا اُٹھایا۔ان کے ہم عصر وں نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ اس ڈرامے کو اسٹیج اور شائع نہ کیا جائے کہ کہیں حکومتِ وقت کا عتاب آپ پر نازل نہ ہو جائے۔کئی لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ اس ڈرامے کوپہلے مغربی ممالک میں شائع کرا دیا جائے اس کے بعد ہندوستان میں۔البتہ پروفیسر محمد حسن نے دیدہ دلیری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ڈرامے کے ایک دو سین اگست1976 میں پہلی بار جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں اساتذہ اورطلبہ کے اصرار پرایک دو سین پڑھ کر سنائے۔اس سے قبل موصوف نے اس ڈرامے کے ایک باب کو اپنے خاص ساتھی پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کے سامنے اپنے کمرے میں پڑھ کر سنایا تھا۔ڈرامے کے باب کو سن کر قدوائی صاحب نے محمد حسن کو مشورہ دیا کہ’’ اس ڈرامے کو عام جلسے میں پڑھنا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا‘‘۔ستمبر1976میں جب ایمر جنسی اپنے شباب پر تھی ، ڈرامہ’ ’ضحاک‘‘ کو مکمل کر لیا گیا۔پروفیسر محمد حسن نے ’’ضحاک‘‘کے دیباچہ میں قارئین سے ان تمام امور پر تبادلۂ خیال پیش کیا جن کی وجہ سے یہ ڈرامہ لکھا گیا۔ان کے مطابق ایمرجنسی میںہر کسی کو جھوٹ لکھنے اور بولنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔زبانوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔اخبارات کے مالک حکومت کے اشارے پر وہ خبریں شائع کرتے جن سے حکومت کی واہ واہ ہو۔عوام کی نمایندگی کرنے والے لوگ کم تھے۔اگر کوئی عوام کے مفاد کی باتیںکرتا یا ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا تو اس کا ٹھکانہ جیل ہوتا۔ ایسے پر آشوب ماحول میں حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرنا گویا خود کو سزا دینے کے مترادف ہو گیا تھا۔لیکن سچّا ادیب وہی ہے جو لوگوں کے مسائل کو حکومت تک پہنچائے۔رودادِ ایمر جنسی کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر محمد حسن رقم طراز ہیں:
’’ایمر جنسی میں زبانیں مکمل بند تھیں۔ہر صبح اخبار ہاتھ میں لیتے ہوئے شدید ذلت اور اہانت کا احساس ہوتا تھا کہ وہ شروع سے آخر تک سفید جھوٹ سے لبریز ہوتا تھا۔لفظوں کے معنی بدل گئے تھے اور جو واقعات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے تھے وہ بھی یا تو سرے سے اخبار میں جگہ ہی نہ پاتے تھے یا کچھ کے کچھ ہو جاتے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی خوشامدی سے سابقہ پڑتا تھا۔جو محض خوشامد کے زورپر آقا بنا ہوا تھا۔میری روزی روٹی کا مالک تھا ۔غرض ہر لمحہ ایک اذیت تھا۔ عصری ادب کا ہر لفظ سنسر ہو رہا تھا۔ زبان پر تالے پڑے ہوئے تھے۔پڑوس میں رات کے پچھلے پہر کسی کے دروازے پر دستک ہوئی اور پھر وہ شخص کہیں نظر نہ آتا۔ کبھی معلوم ہوتا جیل چلا گیا۔ کبھی معلوم ہوتا کہ لا پتا ہو گیا۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی بتاتا کہ اسے صرف اس لیے تنخواہ نہیں ملی کہ وہ نس بندی کے لیے پانچ آدمیوں کو ہسپتال نہیں پہنچا سکا۔ڈرائنگ روم میں ،بس پر لوگ سانس روکے ہوئے گزر رہے تھے کہ پتا نہیں کون جاسوس ہو، میرا بھی یہی حال تھا۔‘‘(ڈرامہ ضحاک،عاکف بک ڈپو،نئی دہلی،2000،ص19-20)
پروفیسر گیان چند جین کے مطابق اس ڈرامے کو فروری یا مارچ1977میں سری رام سینٹر ،نئی دہلی میں اسے اسٹج کیا گیا۔ایمر جنسی کے خاتمے کے فوراًبعد یہ ڈرامہ پہلی بار ’’عصری ادب‘‘کے شمارہ 27-28بابت جنوری اپریل1977میں شائع ہوا۔عصری ادب میں ڈرامے کے آخر میں درج ذیل نوٹ لکھا گیا:
’’ایمر جنسی کے دوران لکھا ہوا اسٹیج ڈراما جو شائع ہونے کی توقع کے بغیر لکھا گیا تھا‘‘
پروفیسر گیان چند جین اس ڈرامے کے منصہ شہود پر آنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں نے براہ راست مصنف سے دریافت کیا جس کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ ڈرامہ مکمل بھی ایمر جنسی ہی کے دوران ہوا۔انھوں نے 21دسمبر1979کے مکتوب میں مجھے بتایا کہ ڈرامے کے ابتدائی سین کا کچھ حصہ 1965یا 1966میں لکھا گیا ہے۔ ہند و پاک جنگ کے بعد اُردو کے بڑے سے بڑا شاعر نظمیں لکھ کر حکومت کی پالیسی کی خوشامدانہ حمایت کر رہا تھا اور یہی ڈرامے کی تصنیف کا محرک ہوا۔اس وقت مصنف نے ڈرامے کا آغاز کیا لیکن چار چھے صفحے لکھ کر چھوڑ دیے۔ ان کی تکمیل ایمر جنسی کے دوران ہوئی۔(ایضا!ص4-5)
ناقدین نے پروفیسر محمد حسن کے ڈرامے پر کئی طرح کے الزامات لگائے ہیں ۔اول یہ کہ ڈرامہ’’ ضحاک‘‘ اختر شیرانی کے ڈرامے’’ضحاک‘‘کا سرقہ ہے جس کا موصوف نے کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔دوم یہ کہ اس ڈرامے میں پروفیسر محمد حسن نے احتجاج کے ساتھ اشتراکی نظریات کاپرچار کیا۔ان تمام تر الزامات کے باوجود اس ڈرامے کی عصری معنویت اور افادیت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔پروفیسر محمد حسن کے مطابق’’ضحاک محض ایک دور کا کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ زمان و مکان کے قیود توڑ تا ہوا آگے بڑھتا ہے۔‘‘ اوربقول گیان چند جین’’میں کہہ سکتا ہوں کہ اُردو کے تخلیقی ادب میں ایمر جنسی کے خلاف اتنا پر زور ،اتنا رچا ہوا اور ساری فضا پر چھایا ہوا احتجاج اور کہیں نہیں ملتا۔‘‘ ڈرامہ ’’ضحاک‘‘کے متن کی کساوٹ ،مکالمے اور سادہ اسلوب کی وجہ سے ہندوستان کی مختلف دانش گاہوں میں اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا گیا۔نصابی ضرورت کے تحت ہی اس ڈرامے کو کتابی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔سب سے پہلے حیدرآباد سینٹرل یونی ورسٹی نے پروفیسر گیان چند جین کے مشورے پر اس ڈرامے کو اپنے نصاب میں شامل کیا۔
ڈرامہ ’’ضحاک‘‘میں انسانوں کے بھیجوں پر زندہ رہنے والے شہنشاہ کی کہانی یا دوسرے لفظوں میں مغرور شہنشاہ کا المیہ پیش کیا گیا ہے۔ڈرامے کا انتساب ’’دنیا کے دبے کچلے عوام کے نام‘‘ہے اور نیچے اختر الایمان کی نظم:
یہ لوگ جن کو خدا بننے کی نہیں خواہش
یہ لوگ جن کی شب ماہ ہے نہ صبح چمن
یہ لوگ جن کی کوئی شکل ہے نہ تاریخیں
ہنسی میں ڈھال کے جیتے ہیں یوں ہی رنج و محن
خدائے حاضر و غائب کی ہیں یہ وہ بھیڑیں
جنھیں چراتے ہیں صدیوں سے رہبرانِ وطن
یہ لوگ جو ہیں ہر اک فن کا خام سرمایہ
انھیں سے باندھا ہے میں نے حیات کا دامن
اس ڈرامے میں کل چھ سین اور دس اہم کردار ضحاک،نوشابہ فریدوں بوڑھا،وزیر اعظم،فوجی افسر،رقاصہ ،شاعر،جج اور راہب ہیں۔ ضحاک اپنے شانوں پر اُگ آئے دو سانپوں کی خوراک نہ ملنے سے پریشان ہے۔جب سانپوں کو ان کی خوراک نہیں ملتی تب دونوں سانپ ضحاک کے شانوں کو زور سے ڈستے ہیں۔وزیر اور درباری ضحاک کی اس کیفیت اور مصیبت کا کوئی حل یا علاج تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔دربار میں ایک پاگل بوڑھا نمودار ہوتا ہے اور وہ ضحاک سے اس کی روح کا سودا کرتا ہے اور وہ علاج کے طور پر بتاتا ہے کہ اگر ضحاک کو زندہ رہناہے تو سانپوں کو روزانہ انسانی کھوپڑی کے تازہ بھیجے کھلانے ہوں گے۔ضحاک جب یہ باتیں اپنے وزیروں اور درباریوں کو بتاتا ہے تو سب ڈرکی وجہ سے سہم جاتے ہیں۔درباریوں کے سامنے ضحاک اپنی تلوار سے دو نوکروں کو قتل کر ان کے بھیجوں کو سانپوں کو کھلا دیتا ہے۔ ضحاک کو زندہ رکھنے کے لیے راہب، شاعر ،استاد ،رقاصہ ،جج وغیرہ سب اس کی مرضی سے کام کرتے ہیں تاکہ ان کی جان محفوظ رہے۔یہ تمام لوگ عوام کو اس بات کے لیے تیار کرتے ہیں کہ تمہاری جان اور مال سب حکومت کا ہے۔طلبہ اورعوام کی اسی نہج پر تربیت ہوتی ہے حکم کی خلاف ورزی کرنا یا اس کے بارے میں سوچنا حکومت سے غداری ہے اوروقت آنے پر تمہیں اپنے شہنشاہ کے ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا۔لوگوں کے دماغوں میں شہنشاہ کی عظمت کا رعب بٹھا کر روزانہ بے قصور لوگوں کے بھیجے ضحاک کے شانو پر بیٹھے سانپوں کو کھلائے جاتے ہیں۔لیکن فریدوں( جو ایک کسان ہے)کو جب شہنشاہ کے سامنے دس قیدیوں کے ہمراہ قتل کے واسطے لایا جاتا ہے تو وہ اس نام نہاد عظیم شہنشاہ کے حکم کی نافرمانی کر کے بغاوت کا اعلان کر تاہے ۔جس کی پاداش میں اسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔زندان میں فریدوں کی تربیت کا ذمہ ضحاک کی بیوی نوشابہ اپنے اوپر لیتی ہے۔در اصل نوشابہ بھی کسان کی بیٹی فاطمہ تھی جسے ضحاک نے زبردستی اپنی بیوی نوشابہ بنالیایا تھا۔نوشابہ فریدوں کے لبوں سے ٹپکتے ہوئے خون سے اپنی جنسی آسودگی حاصل کرنا چاہتی ہے۔وہ فریدوں کو زندان میں سمجھاتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات بنائے نہیں تو انجام برا ہوگا۔فریدوں کسی طرح نوشابہ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور سوچنے کے لیے ایک رات کی مہلت مانگ لیتا ہے۔نوشابہ کے حکم پر زندان اور محل تک کے راستوں سے پہرے دار ہٹا لیے جاتے ہیں۔فریدوں موقع پاکر زندان سے فرار ہو جاتا ہے۔جب یہ بات ضحاک کو معلوم ہوتی ہے تو محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔شاعر،جج،رقاصہ،راہب اور استاد، فریدوں کے اس عمل پر خوش ہوتے ہیں۔لیکن فوجی افسر نوشابہ کے ساتھ ان تمام لوگوں کو گرفتار کر ضحاک کے سامنے پیش کرتا ہے۔ضحاک ان کے لبوں پر لگے ہوئے ٹانکوں کو ہٹانے کا اشارہ کرتا ہے تبھی فریدوں محل میں داخل ہوکر گرفتار شدہ لوگوں کی جان کی بخشش مانگتا ہے۔لیکن اسی دوران عوام کی بھیڑ محل کے صدر دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہو جاتی ہے۔فریدوں عوام سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اپنے شہنشاہ کو دیکھ لو جس کے شانوں پر دو سانپ ہیں اور جن کی خوراک انسانی بھیجے ہیں۔ضحاک کی حالت کو دیکھ کر عوام مشتعل ہو جاتی ہے اور محل میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔فریدوں، نوشابہ ،استاد،رقاصہ،جج،راہب اور شاعر کوآزاد کر دیتا ہے۔ فریدوں جیسے ہی ضحاک کو ختم کرنے کے ارادے سے آگے بڑھتا ہے بوڑھا شیطان حاضر ہوکر اس سے کہتا ہے کہ ضحاک کی روح میری ہے اور اس کا جسم سانپوں کی ملکیت ہے ۔بوڑھا شیطان آخر میں فریدوں سے کہتا ہے کہ’’ بھولتے ہو نادانو!صدیوں کی لڑائی کو لمحوں میں ختم کرنا چاہتے ہو؟ اس کے جواب میں فریدوں کہتا ہے’’یاد رکھ بوڑھے جب بھی جہاں بھی ضحاک سر اُٹھائے گا فریدوں کا یا اس کے کسی مظلوم بھائی یا بہن کا ہاتھ بھی ضرور اُٹھے گا۔‘‘اور فریدوں قیدیوں کے ٹانکے کاٹنے کا حکم دینے کے ساتھ نئے ضحاک کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔اس طرح ڈرامہ ’’ضحاک‘‘اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے میں نثری نظموں کا بہ خوبی استعمال کیا ہے۔مکالموں سے انھو ں نے اپنے نظریات کی عکاسی سلیقگی کے ساتھ پیش کی ہے۔لفظ’’رحم‘‘کے لیے ضحاک کی حکومت میں کوئی جگہ نہیں۔ضحاک کے لفظوں میں ’’اس لفظ کو ہماری مملکت سے جلا وطن کر دیا گیا ہے۔‘‘غور و فکر کرنے کے عمل پر ضحاک کی ریاست میں مناہی ہے۔بوڑھے اور ضحاک کی گفتگو میں لفظ’’سوچنا‘‘پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔بقول بوڑھا’’سوچنا جرم ہے ہماری شریعت کا سب سے بڑا جرم۔‘‘جب جرجان کو راہب اعظم بنایا جاتا ہے تو یہاںگاندھائی نظریات ’’برا مت کہو،برا مت سنو،برا مت دیکھو ‘‘کو ضحاک کے وزیر اپنی ریاست کی سلامتی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔خود وزیر سوال جواب کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے:پوچھنے والوں کی زبانیں گدی سے کھینچ لو۔ شک کرنے والے دل ان کے سینے چیر کر نکال لو۔ہماری مملکت میں سوال جرم ہے جس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔‘‘ایمر جنسی کے المیے کو ان مکالموں میں جس انداز سے پیش کیا گیا ان سے اُس وقت کی حالت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔لوگوں کے سوالوں کے بجائے ضحاک کی حکومت کو نتیجوں سے دل چسپی ہے۔راہب، رقاصہ ،شاعر،جج اور استاد کو ضحاک کے دربار میں بلانے اور اپنے شہنشاہ کی خوراک کا نتظام کرنے کے لیے وزیر اعظم ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے :
’’اس کام کے لیے ملک کی پوری فضا بدلنی ہوگی قانون بدلنا ہوگا ۔لوگوں کی ذہنیت بدلنی ہوگی۔سماج کا ڈھانچہ بدلنا ہوگا کہ لوگ حقیقت کو پہچان سکیں۔ہمیں اپنے لوگوں کو نئے سِرے سے تربیت دینا ہوگی۔ ہمیں ایک نیا عہد اور ایک نئے عہد کا انسان بنانا ہوگا۔ ہمارے شاعراس انسان کے گیت لکھیں گے،ہمارے فن کار اس نئے انسان کے نغمے گائیں گے ۔ ہمارے استاد اس نئی بصیرت کو گھر گھر عام کریں گے اور ہمارے مقنن اور جج اس نئی بصیرت کی راہ سے الگ ہٹنے والوں کو سزا دیں گے اور ہماری افواج قاہرہ ہماری پولیس ہمارے محافظ دستے اس نئی آ گہی اس نئے کلچر کی ہر گھڑی حفاظت کریں گے۔‘‘(ص 40)
معاشرے کے معزز لوگوں کو فوجی افسر دھمکاتا ہے اور انھیں یاد دلاتا ہے کہ بغاوت کرنے کے بدلے تمہاری گردنیں ہماری تلواروں کی نوک پر ہوں گی:
’’تم میں سے کسی کا بھی قد تلوار سے لمبا نہیں ہے اور تم اپنی چمک دار قباؤں اور اعزازات کی لمبی لمبی فہرستوں کے باوجود ہمارے غلام ہو۔اس سے آگے کچھ بھی نہیں۔‘‘(ص46)
ضحاک ،نوشابہ سے گفتگو کے دوران اُن تمام رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے جن کی وجہ سے وہ پریشان ہے۔وہ نوشابہ کو یقین دلاتا ہے کہ وہ گناہ گار نہیں ہے بلکہ شیطان کے چنگل میں پھنس گیا ہے اور اس کے شانوں پر جو دو سانپ مسلط ہیں ان کی وجہ سے اس نے عوام پر سختیاں کی ہیں۔اس نے پیداوار کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لوگوں کو آختہ کیااور لوگوں کو اپنے شہنشاہ کے لیے قربان ہونا سکھایا۔ضحاک کے لفظوں میں:
’’ملکی انتظام کے لیے یہ قربانی ضروری تھی ہم نے اپنے محافظوں کے منھ بند کر دیے کہ ملک نظم و ضبط کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ۔قلم کاروں کے ہاتھ کاٹ دیے کہ مادر وطن کو ان کی ضرورت تھی۔ملک کو ایک سرکاری زبان دینے کی خاطر ہم نے دوسری زبانیں بولنے والوں کی زبانیں کھنچوا لیں۔کافر اور ملحد قبیلوں کو فرقہ وارانہ فساد میں قتل کرانا پڑا کہ دین کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کم کام کرنے اورزیادہ اُجرت مانگنے والے مزدوروں اور کاہل کسانوں کو گور خر کی کھال میں زندہ سلوا دیا کہ دوسروں کو عبرت ہو،پیدا وار کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آبادی کا کم کرنا ضروری ہوا تو مردوں کو آختہ کرایا عورتوں کے رحم نکلوا کر پھنکوا دیے۔انصاف اور قربانی پرمبنی اپنی سلطنت کے استحکام کے لیے کون سا فرض تھا جو ہم نے پورا نہیں کیا ۔کون سی ذمہ داری تھی جس سے ہم نے منھ موڑا اور کون سا سخت سے سخت امتحان تھا جس پر اپنے محبوب عوام کی خاطر ہم پورے نہ اُترے ہوں۔‘‘(ص 49)
فریدوں زندان میں نوشابہ سے معلوم کرتا ہے کہ اس کا کیا قصور ہے؟اسے کیوں سزا دی جا رہی ہے؟نوشابہ ،فریدوں کو سمجھاتی ہے کہ ملکہ کے ساتھ جنسی تعلقات قایم کرنے کے بعد تیری تمام پریشانیوں کا مداوا ہو جائے گا۔ لیکن فریدوں انکار کی صورت میں نوشابہ کو اپنے جسم کے ہر عضو کو دکھاتے ہوئے کہتا ہے:
’’میری آنکھوں اور میرے جسم پر پڑے ہوئے کوڑوں کے ان نشانوں سے پوچھو جو تمہارے قید خانوں کا انعام ہیں،میری جلتی ہوئی پتلیوں سے پوچھو جنھیں تمہارے عذاب دینے والوں نے ایک پل نیند کے لیے کئی راتوں سے ترسا رکھا ہے۔میرے جسم پر جلتے ہوئے لوہے سے داغے ہوئے ان نشانوں سے پوچھو! ان زخمی انگلیوں سے پوچھو جن کے ایک ایک ناخن کے درمیان پتلی پتلی کیلیں ٹھونکی جاتی رہی ہیں۔‘‘(ص 61)
لیکن نوشابہ فریدوں کے زخمی لبوں کی جانب متوجہ ہوکر کہتی ہے کہ ’’جی چاہا کہ مرنے سے پہلے ان مقدس ہونٹوں کو ایک بار بوسہ دوں۔‘‘ نوشابہ اسے حکومت کا ڈر دکھاتی ہے اور انکار کی صورت میں انجام سے با خبر کرتی ہے۔کہتی ہے:
’’انکار مقدس ہے ،مگر بالکل بے کار۔تم اور تمہارے جیسے کروڑوں ،اربوں ،مفلس،نادار،کسان ،مزدور ،دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔۔۔۔تمہارے ہاتھوں کی کمائی دولت سے ہم نے تمہارے خلاف پوری دنیا خرید لی ہے۔ سائنس ہماری غلام ہے،مذہب ہمارا دلال ہے۔علم و دانش پر ہماری ٹھیکے داری ہے۔فوجیں ،ہتھیار ،فتوحات کا سلسلہ ،انصاف قانون سب ہمارے زر خرید ہیں تم نہتے ہاتھوں سے کب تک ان زبردست قوتوں کا مقابلہ کروگے۔آخر ایک دن طاقتوں کے سامنے پس کر رہ جاؤ گے یا پھر نوشابہ کی طرح بک جاؤ گے۔اس لیے میں چاہتی ہوں میرے نوجوان دوست سچائی کو پہچانوں ،سچائی کے آگے سر جھکا دو۔‘‘(ص 63-64)
ڈرامے کے دسویں سین میں فریدوں اور ضحاک کا آمنا سامنا ہونے کی صورت میں جو مکالمے پروفیسر محمد حسن نے فریدوں سے کہلوائے ہیں وہ سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔در اصل موصوف نے اس ڈرامے میں اشتراکی نظریے کی نمایندگی جگہ جگہ کی ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ فریدوں سے جو مکالمے کہلوائے گئے ہیں ان سے اشتراکیت عیاں ہوتی ہے۔فریدوں شہنشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ ایک فریدوں کے مر جانے سے ہزاروں فریدوں پیدا ہوں گے۔فریدوں کبھی مرتا نہیں وہ کسان کی شکل میں،مزدور کی شکل میں بار بار جنم لیتا ہے۔فریدو کی زبانی فریدوں کی کہانی:
’’کاوا لوہار کے بیٹے فریدوں کو موت سے ڈراتے ہو میری گردن سے یہ ایک سر کاٹ لو میرے جسم سے دو بازو قطع کر لو،مگر یاد رکھ ضحاک میرے لاکھوں سر ہیں،کروڑوں بازو ہیں،میرے سر اور بازوں وہ لوگ ہیں جو سمندر کی تہوں میں ڈوب کر تیرے لیے موتی نکالتے ہیں۔ دن دن بھر تیری پچاس منزلہ عمارت کے ٹانڈ پر صلیب سے بندھے رہتے ہیں کہ تیرے لیے محلات تیار کر سکیں۔ زمین کی اندھیری تہوں میں گھُس کر تیرے آتش دانوں کے لیے کوئلہ اور تیری صنعتوں کے لیے تیل نکال لاتے ہیں۔ تپتی ہوئی بھٹیوں کے درمیان زندہ رہ کر تیری مشینیں چلاتے اور کار خانے آباد کرتے ہیں کہ تیرا جسم نرم لباس اور تیرا ظالم وجود آسودگی پا سکے۔ جھلساتی دھوپ میں کھڑے ہو کر ہل چلاتے ہیں کہ تیری سب کچھ نگل جانے والی بھوک تسکین پا سکے۔ میں ہر لمحے مرنے والے اور ہر پل دوبارہ جی اُٹھنے والے کروڑوں اربوں انسانوں میں سے ایک ہوں۔مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘(ص 74-75)
پروفیسر محمد حسن کایہ ڈرامہ صرف ایمر جنسی کی المیہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری نظام اور قدروں کو اپنے پاؤں تلے روندنے والے ظالم حکمرانوں کی داستان ہے۔ یہ ڈرامہ ہر اُس دور کا المیہ ہے جہاں ضحاک جیسے مطلق النعان آمر دبے کچلے اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق سلب کرتے ہیں۔جہاں سچ بولنے ،سوچنے ،لکھنے اور کہنے پر پابندی عائد کی جاتی ہو۔ ایسے پراگندہ ماحول میں عوام کا مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانا جرأت مندانہ قدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ ڈرامہ اس دورکی ترجمانی کرتا ہے جہاں طلبہ ،کسانوں اور مزدوروں کے رگ و پے میں ایسی باتیں سرایت کی جاتی ہوں کہ ہمارا پالنہار صرف اور صرف ضحاک جیسا آمر ہے۔جب کہ حقیقت اس کے اُلٹ ہوتی ہے۔ضحاک جیسا حکمراں کبھی بھی عوام الناس کی فلاح و بہبودی کی باتیں نہیں سوچ سکتا وہ تو اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے انسانوں کے دماغوں کو منجمد کرتا ہے۔ضحاک ہر ملک میں دیکھنے کو مل جاتے ہیںجو عوام کا خون چوسنے کے بعد ان کے جسموں سے کھیلتے ہیں۔ ضحاک جیسے حکمراں عورتوں اور بچوں کو ذہنی قیدی بنا کر انھیں غلامی کے مجسمے میں ڈھلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ضحاک جیسے جابر و ظالم حکمراں معاشرے کے با اثر لوگوں کے اذہان کو اپنی مٹھی میں بند اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر سکیں۔پروفیسر محمد حسن نے اس ڈرامے کے ذریعے جو پیغام دیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم کے سامنے سینہ سپر کرنا ہر دور میں نئے فریدوں تیار کرنے کے مترادف ہے۔فریدوں جیسے نڈر اور بہادر لوگ ظالم حکمرانوں کے اعمال ناموں کو عوام کے سامنے پیش کر ان کی سلطنتوں کو زمین دوز کرتے ہیں۔بہر حال ڈرامہ’’ضحاک‘‘کو لکھے ہوئے 44برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی عصری معنویت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔اگر اسے ڈرامے کو اکیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے پس منظر میں دیکھیں تو اس کیافادیت اور بڑھ جائے گی۔
٭٭
IBRAHEEM AFSAR
WARD NO-1,MEHPA CHAURAHA,
NAGAR PANCHAYAT SIWAL KHAS,
DISTT-MEERUT(U.P)PIN-250501
MOBILE:9897012528
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔محمد |
1 comment
ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ مضمون بہت عمدہ لکھا ہے۔ 👌👌👌👌👌👌👌👌💐💐💐