بیسویں صدی کے اخیر تک اردو ڈراما کو ایک تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا رشتہ عوام کی زندگی اور اس کی حقیقتوں سے استوار نہیں ہوا تھا ۔ آزادی کے بعد مختلف تھیٹریکل کمپنیاں اور گروپ وجود میں آئیں تو اس فن کو جلا ملی۔ معیار میں اضافہ ہوا اور عملی زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں سے بھی اس کا رشتہ استوار ہوا۔ 1980تک اردو ڈراما ایک مقبول عام صنف کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور اردو ڈرامے نے زندگی کی سچائی کو فنی آرائش کے ساتھ اسٹیج کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ریوتی سرن شرما پوری آب و تاب ، نئی بصیرت ، نئے تیور اور نئی فکر کے ساتھ آئے۔ریوتی سرن شرما نے اردو ہندی دونوں زبانوں میں اپنے لکھنے کی ابتدا افسانہ نگاری سے کی لیکن جلد ہی ڈراما نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔ اور سب سے پہلے انھوں نے ریڈیائی ڈرامے تحریر کیے۔ ریوتی سرن شرما نے ایسے وقت میں ڈرامے کی اہمیت و افادیت کو فن کارانہ سطح پر برتا جب ڈراما ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ اپنے ڈراموں میں انھوں نے خصوصی دلچسپی اور عصری حسیت کو سمونے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ریوتی شرن شرما نے آزادی اور غلامی کے دنو ں کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا انکے ڈراموں میںدونوں قدریں موجود ہیںانہوں نے اپنے ڈراموں میںانسانی کرب اور داخلی کیفیات کے علاوہ بے کس اور مجبور خواتین پرنا حق ظلم، معاشی وجنسی استحصال اور سماجی ہم آہنگی کو داخل کیا ہے ۔ علاوہ ازین ہندوستان کے سماجی ،سیاسی ،معاشی اور تہذیبی پس منظر کو اجاگر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے ڈراموں میں موضوع ،پلاٹ،کردار،زبان اور تکنیک وغیرہ ان کے نظریہ کی عکاسی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے ڈراموں میں کہانی مرکزی خیال رکھتا ہے۔ کہانی کے ذریعہ ہی سماجی اور سیاسی مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں. ( یہ بھی پڑھیں اردو کے اہم ڈراما نگار1980 کے بعد – قرۃ العین )
ڈراما نگار حقیقت میں نبض شناس اور فطرت کا حکیم ہوتا ہے اور وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے کس قسم کے لہجے ، الفاظ اور کس طرح کی عبارت ہونی چاہیے ۔ کہاں اختصار اور تفصیل کی ضرورت ہے ، زبان کیسی ہونی چاہیے۔ جو لوگ ان چیزوں کو پیش نظر نہیں رکھتے وہ ڈراموں کے حدود سے باہر ہوتے ہیں۔ لیکن ریوتی شرن شرما کے ڈرامے زندگی سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ کردار ،موضوع سب اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے سے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ اثر انگیز ہوتے ہیں۔ ڈراموں کی عملی تجربوں کی وجہ سے زبان و بیان اور ڈرامائی عناصر پر بھی ان کی خاطر خواہ گرفت ہے۔
ریوتی سرن شرما کے تخلیق کردہ ڈراموں میں ’تمہارے غم میرے‘، ’دیپ شکھا‘، ’آرزو،آرزو‘، ’انسان‘، ’رات بیت گئی ‘، ’پتھر اور آنسو‘ بہت اہم ہیں ۔ ریوتی سرن شرما کے ڈراموں میں بہت وسعت اور تنوع ہے وہ سماج میں پھیلے اختلافات ،نا انصافیاں،ظلم و جور،امیری غریبی ،تعلیمی اقدار،عورتوں کے مسائل ،تہذیبی رسموں رواج ،بے روزگاری جسیے موضوعات کے علاوہ سماجی عدم مساوات کو بھی موضوع بناتے ہیں۔شرما اپنے زمانے کے سماجی و معاشرتی مسائل پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے آس پاس کی زندگی کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈراموں میں یہ ساری باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ڈراما ’’رات بیت گئی‘‘ ایک اچھا ڈراما ہے جس میں انھوں نے ذات پات ، اونچ نیچ ، سماجی نابرابری جیسے مسائل کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’رات بیت گئی‘‘ ایک یک بابی ڈراما ہے ۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ تارا نام کی ایک لڑکی ہے، اس کے والدین کو شادی کی فکر ہے لیکن ذات پات کی بندش کو بھی ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن تارا ایک باشعور اور سوجھ بوجھ رکھنے والی لڑکی ہے جو ذات پات کی قائل نہیں ہے۔ اس ڈرامے کا کلیدی کردار اونچے طبقے سے ہے اور تعلیم یافتہ بھی ہے۔ تارا اپنی شادی نریش نام کے آدمی سے کرنا چاہتی ے جو نیچی ذات سے ہے وہ اپنی ماں کو کہتی ہے ۔
تارا: (سنبھل کر) ماں اگر کوئی اچھا ہو، پڑھا لکھا ہو، سندر ہو، ششیل ہو اور مجھے لینا چاہتا ہو تو کیا
مجھے تم دے دو گی۔
ماں: (چونک کر) یہ کیاکہہ رہی ہو؟
تارا: (التجا کے لہجے میں) ماں میری زندگی بن سکتی ہے ، مجھے بھی خوشی مل سکتی ہے۔ بنا جہیز کے
میری شادی ایک اچھے گھر میں ہوسکتی ہے۔
ماں: (سکتہ اور خوف سے بھانپ کر) تارا؟
تارا: ماں! تمہاری ایک ہاں سے میرے بھاگ بدل سکتے ہیں۔ نریش جی مجھ سے بیاہ کرنے کو
تیار ہے۔
ماں: تارا؟
تارا: ماں، میری ان سے شادی کردو۔
ماں: اس کھتری ماسٹر سے؟
تارا: ماں ان کی ذات مت دیکھو، نائو پار لگانے والے مانجھی کی ذات کون دیکھتا ہے؟
ماں: ذات نہ دیکھو ؟ کجات کو جمائی بنالوں؟
تارا: ماں، جو اچھا ہے ، نیک اور خوبصورت ہے وہ کجات نہیں ہوسکتا ، مجھے ان سے بیاہ دو ، مجھے
تمہارا ذات والا ادھیڑ آدمی نہیں چاہیے۔‘‘
(دشمن [رات بیت گئی]، ص۔166 )
والدین کی مرضی کے مطابق تارا کو اپنے ارادے سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور شادی کردی جاتی ہے۔ ڈراما نگار نے اس ڈرامے میں فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے عورت کے کئی روپ دکھائے ہیں۔ عورت صبر و تحمل کی دیوی ہے خاندان کی عزت و ناموس کے لیے اپنی ساری خوشیاں قربان کردیتی ہے۔ یہ ایک المیہ ڈراما ہے اور انسانی ذہن کے چھپے ہوئے گوشوں ، جذباتی اور ذہنی کشمکش کے ساتھ اصولوں کے ٹکرائو کو بھی بخوبی پیش کرتا ہے۔ اس کا آغاز، عروج اور انجام تینوںاپنے اپنے طور پر اثر انگیز، کامیاب اور فن کارانہ مہارت کا ثبوت ہیں۔ اور شرما نے تارا کی داخلی کشمکش کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ڈرامے کی پیش کش میںپلاٹ کی ایک خاص اہمیت ہے اس کے سہارے ہی ڈراما آگے بڑھتا ہے اورتاثر کو برقرار رکھتا ہے۔ڈرامے کے تمام تر واقعات سے پلاٹ کا رشتہ ہوتا ہے۔واقعات میں ربط و تسلسل اور ہم آہنگی ڈرامے کو دلچسپ بناتا ہے۔تاکہ ناظرین میں آخر تک دلچسپی قائم رہے۔ اس لحاظ سے ریوتی سرن شرما کے ڈرامے موضوع اور پلاٹ کے اعتبار سے الگ ہیں ان میں کچھ پیچیدگی نہیں بلکہ عام زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈراما ’’پتھر اور آنسو‘‘ بھی سماجی نابرابری اور ذات پات جیسے مسائل پر لکھا گیا ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار روی ہے جو تعلیم یافتہ ہے اور برہمن خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ سماجی حد بندیوں کو ختم کر کے ایک کھتری خاندان کی لڑکی سے شادی کرنے پر آمادہ ہے ۔ اور اس کے ماں باپ حالات سے سمجھوتہ کر کے دونوں کی شادی کردیتے ہیں۔ یہ ڈراماہر اعتبار سے کامیاب ہے ۔ مکالموں کی روانی اور کرداروں کی تشکیل سے لے کر ڈرامے کو نقطۂ عروج پر پہنچانے اور دلچسپی برقرار رکھنے کے علاوہ ایک پیغام دینے میں بھی ڈراما نگار کامیاب ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ڈاکٹر سید عابد حسین کی ڈراما نگاری-ڈاکٹر جاوید حسن )
ادب میں علامت بھی ایک وسیلہ اظہار ہے جس میں ہم ایک الگ اور نئی شخصیت سے ہمکنار ہوتے ہیں علامت نگاری میںقاری کو تخیلی دنیا دیکھنے کو ملتی ہے ۔علامت نگاری میں ابہام اور تخیل کو جذباتی عناصر کے ساتھ ایک جدا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ڈراما نگاری میں بھی علامت کو ضرورت کے مطابق اپنایا گیا ہے۔اس ضمن میں ڈراما ’’انسان‘‘کا نام لیا جا سکتا ہے۔اس ڈرامے میں حیات و کائنات کی کشمکش اور موت جیسی حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ جس کا مرکزی کردار ڈاکٹر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کردار جیسے موت ، مذہب وغیرہ ہیں۔ لیکن تمام ڈاکٹر کے ارد گرد ہی گھومتے ہیں ۔ اور اپنی اپنی مرضی سے ڈاکٹر پر تہمت لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر بہت ہی چالاکی سے بچ نکلتا ہے۔ تمام کرداروں کے آپس میں نظریاتی اختلاف ہوتے ہوئے بھی ڈرامے کی وحدت قائم رہتی ہے۔ اور انسانیت کا برچسپ قائم رہتا ہے۔یہی وہ چیز ہے جس سے انسان امر رہتا ہے ۔ اس کے نہ ہونے کے باوجود بھی یادیں دلوں کے اندر قائم رہتی ہیں۔ اس ڈرامے کا اسلوب فلسفیانہ ہے۔ جس میں انسان کے روبرو موت،مذہب اور وقت کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے فلسفہ ٔ حیات کو پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
ڈراما ’’آگ ‘‘،’’راکھ اورروشنی‘‘ ایک ایسا ڈراما ہے جس میں ڈراما نگار نے انسانی زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں اجاگر کیا ہے انسانی روح کو علامت کے طور پر پیش کر کے عقل سے کام کرنے کی طرف ترجیح دی گئی ہے دراصل اس ڈرامے میں دو قیدی اپنی آپ بیتی ایک دوسرے کو سناتے ہیں اور آخر میں دونوں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر انسان صحیح فیصلہ کے لئے عقل کا استعمال کرے تو زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
’’تمہارے غم میرے ‘‘ریوتی سرن شرما کا دو ایکٹ پر مشتمل ایک مقبول ڈراما ہے جو کامیابی کے ساتھ اسٹیج کیا جاچکا ہے۔ پہلے ایکٹ میں بارہ اور دوسرے میں سات مناظر ہیں۔ ڈرامے میں دین دیال سرسوتی کامتاپرساد، پنڈت نیل کنٹھ اور رام سیوک وغیرہ فرضی کردار ہیں جب کہ ان کے علاوہ بدری پرساد، غفور میاں، شیو سریندر ٹنڈن، کھوجی، چپراسی وغیرہ اہم کردار ہیں۔ ریوتی سرن شرما خود اس ڈرامے کے پس منظرمیں لکھتے ہیں :
’’1973 کی بات ہے انڈین ایکسپریس اخبار میں یہ خبر چھپی احمدآباد میں نو راتری میں دیوی کی پوجا کی رات ایک عورت کو ننگا کر کے گھمایا گیا اور اس کی عزت لوٹی گئی ۔ اس کی خطا کی تھی کہ وہ برہمن تھی اور اس نے ایک اچھوت ماسٹر سے شادی کی۔ ایک طرف عورت کی پوجا اور دوسری طرف اس کے ساتھ زنا بالجبر۔‘‘
(تمھارے غم میرے، 1998ص۔1)
اس خبر کی تاثیر اور اس سے متاثر ہوکر ڈراما نگار نے اپنے فن کارانہ صلاحیت سے دو ایکٹ پر مشتمل اسٹیج ڈراما ’’تمھارے غم میرے‘‘ لکھے۔
اس ڈرامے کے پلاٹ میں دین دیال ہریجن ہے جب کہ سرسوتی کا تعلق برہمن ذات سے ہے۔ دونوںکو آپس میں محبت ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ ان کے عشق کے چرچے پورے محلے میں ہونے لگتے ہیں اور یہ لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے۔رد عمل کے طور پر دونوں شادی کر کے ایک گائوں میں کرائے کے مکان میں رہنے لگتے ہیں۔
برہمن کو محلے کے ایک اسکول میں کچھ شرائط کے ساتھ غیر مستقل ملازمت مل جاتی ہے۔ دین دیال اور سرسوتی کے بھاگنے کی خبر کامتا پرساد اور اس کے ساتھی پنڈت نیل کنٹھ کو دیتے ہیں۔ دونوں سازش کر کے نوراتری کے دن مورتی پوجن کے موقع پر نیل کنٹھ کے چند غنڈے دین دیال کی پٹائی کردیتے ہیںاور سرسوتی کے ساتھ وحشیانہ عصمت دری کی جاتی ہے۔ مقدمہ عدالت تک جاتا ہے لیکن جج، وکیل، گواہ تمام اپنے ضمیر کو چند سکوں کے عوض بیچ دیتے ہیں۔ اور فیصلہ کسی کے حق میں نہیں ہوتا ہے۔ دین دیال انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے لیکن کوئی اس کی مددنہیں کرتا آخر میں دونوںمایوس ہوجاتے ہیں اور اس طرح ڈراما اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
ڈراما ’’تمہارے غم میرے‘‘ میں پلاٹ کا آغاز اور درمیانی حصہ کافی دلچسپ ہے جب کہ آخری حصے میں دلکشی تھوڑی ماند پڑجاتی ہے ۔ ڈراما نگار نے عورتوں پر ہورہے ظلم و ستم کا نقشہ ہوبہو کھینچا ہے۔ انھوں نے ماں، بیٹی، ساس، بہو اور نند کو کئی روپ میں پیش کیا ہے۔ سرسوتی کو برہمن وادی کے خلاف باغیانہ حرکت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور نچلے طبقے سے رشتہ جوڑ کر مساوات کا درس دیا گیا ہے۔سماجی معنویت ہندو مسلم تہذیب و تمدن میں اتحاد، اخوت و بھائی چارگی، تہداری اور سیاسی بصیرت وغیرہ اس ڈرامے کی اہم خوبیاں ہیں۔ریوتی سرن شرما کے ڈراموں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوںنے تخلیق میںتکنیک کے نئے اور اچھوتے تجربے کئے ہیں۔ ان کی تکنیک میں ایک تسلسل اور روانی ہے جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ریوتی سرن شرما تکنیکی تجربے میں ماہر تھے۔ان کے احساسات اور جذبات میں ہندوستانی تہذیب دیکھنے کو ملتی ہے۔انہوں نے اپنے ماحول کی عکاسی خوبصورتی سے کی ہے علاوہ ازین سماجی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ڈراما’’دیپ شکھا‘‘میں ریوتی سرن شرما نے ایک الگ راہ اور نئی تکنیک اپنائی ہے۔اس ڈرامے میں کردار آزاد ہو کر گفتگو کرنے لگتے ہیں۔اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک نیا تجربہ ہے جسے اکثر ڈراما نگاروں نے بھی اپنایا اور قبول کیا۔ ڈرامے میں چوں کہ واقعات و حالات کے اثرات براہ راست رونما ہوتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں ا س لیے اس میں مکالمہ نگاری بڑی قدر و قیمت رکھتی ہے۔ اور ڈراما کی کامیابی اور ناکامی کی ضامن بھی یہی ہوتی ہیں۔ الفاظ کا انتخاب ، لب ولہجہ کا اتار چڑھائو ہی دراصل داخلی و خارجی کیفیات و حالات کی تشریح کرتا ہے۔ اس لیے مکالمے کو زور دار ، مختصر اور بامعنی ہونا چاہیے۔ ریوتی سرن شرما نے مکالمہ نگاری کے فرائض بہ حسن خوبی انجام دیے ہیں اور مکالمہ نگاری میں بڑی صناعانہ ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔
مجموعی طور پر ریو تی سرن شرما نے اسٹیج ڈراموں کے رنگ وروپ کو ابھار اہے۔ وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی وراثت کے امین اور ہندی اردو ڈرامے کاایک معتبر نام تھے انہوں نے ڈرامے کو نئی زندگی بخشی اور اس فن کو مختلف اور نئی جہتوں سے آشنا کیا۔شرما نے افسانے،ناول اور ڈرامے کے علاوہ سیاسی،سماجی اور ادبی مباحث پر فکر انگیز مضامین بھی لکھے۔
ان کے ڈرامے موضوعات کی وسعت ، خیال کی گہرائی ، زبان کی سادگی و شگفتگی اور تکنیکی مہارت کی وجہ سے صفحہ اول کے ڈرامے کہے جانے کے حقدار ہیں۔ ڈرامے کی تاریخ میں ریوتی شرن شرما کی شخصیت نہ صرف ایک کہانی کار بلکہ ڈراما نگا رکی حیثیت سے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔انہیں ڈراما کے لئے ۲۰۰۷ ء میں سنگیت ناٹک اکاڈمی ایوارڈ کے علاوہ غالب ایوارڈ اور ساہتیہ کلا پریشد کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |