پروفیسرصادق اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔تنقیدی اورتحقیقی میدان کے علاوہ شاعری اور مصوری کے باب میں بھی ان کے امتیازات روشن ہیں۔فنون لطیفہ سے انھیں خاص لگاؤ ہے۔اردو کے علاوہ ہندی داں حلقے میں بھی ان کی علمی و ادبی کاوشیں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اردو اور ہندی کے علاوہ سندھی اور سنسکرت زبانوں سے بھی انھیں واقفیت ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تہذیبی وسعت وہمہ گیریت کے ساتھ ساتھ موضوعی اعتبارسے ایک رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ڈرامہ نگاری کے میدان میں بھی انھوں نے قدم رکھا اور یہاں بھی اپنی انفرادیت کا سکہ جمایا۔’’اس شکل سے گزری غالب ‘‘ان کا ایک طبع زادغیر مطبوعہ ڈرامہ ہے ،جسے 28نومبر2019کودہلی اردو اکادمی کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ڈرامہ فیسٹول میں کلا منڈی گروپ کی طرف سے سری رام سنٹر میں پلے کیا گیا۔کرداروں کی پیشکش ،مکالمے کی چستی،اور پلاٹ میں منطقی ربط کی وجہ سے ڈرامہ ناظرین کی توجہ کا خاص مرکز رہا۔ڈرامہ کا عنوان ’’اس شکل سے گزری غالب ‘‘مرزا غالب کے ایک مشہور شعر سے ماخوذ ہے۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیایاد کریں گے کہ خدارکھتے تھے
یہ عنوان دراصل پورے ڈرامہ کا نچوڑ ہے۔سچائی یہی ہے کہ غالب کو زندگی بھر مالی مشکلات کاسامنا رہا،ان کی پوری زندگی عسرت اور تنگدستی میں گزری۔مرزاغالب اپنے ذاتی اور خانگی مسائل کے علاوہ اپنے برادرخوردیوسف کی علالت اور اس کے علاج ومعالجے کے لیے قرض کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے ،اس لیے وہ ہمہ وقت اس فراق میں رہتے کہ کہیں سے پیسے کا انتظام ہوجائے۔مادی وسائل پر بہت زیادہ تکیہ نہ کرنے والااور اپنے مال ومنال کو اعزہ واقربااور اپنے احباب ومتعلقین پربے دریغ خرچ کرنے والا یہ عظیم شاعر بھی اپنی تمام دشواریوں کا حل پیسے کوہی قراردیتا ہے۔ غالب کی اس ذہنی کیفیت کے بیان میں ڈرامہ نگار نے فنی ہنرمندی کا ثبوت دیا ہے۔مالی مشکلات سے دوچار مرزاغالب کی اس وقت کیا ذہنی کیفیت ہے اس کا ادراک غالب کے اس مکالمہ سے لگایا جاسکتا ہے ’’اس وقت جو میری ذہنی کیفیت ہے اس کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔دراصل میرے سارے مسئلوں کا حل صرف اور صرف روپیہ ہے ۔اگر کہیں سے مل جائے تو…….‘‘۔
زندگی میں غالب کے ساتھ بہت زیادہ حق تلفی ہوئی ۔اردو شاعری کو موضوعی اور فنی کے اعتبار سے درجہ ٔ کمال پرپہنچانے، معنوی تہہ داری اور تفکرعطاکرنے کے باوجودجیتے جی غالب کو وہ پذیرائی اور مقبولیت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ان کے شعری تفردات کا اعتراف ہو یا پنشن کا حصول دونوں جگہ غالب کو ناقدری اور تضحیک کاسامنا کرنا پڑا۔یہ ڈرامہ درحقیقت پنشن کے حصول کی راہ میں حائل ہونے والی دشواریوں کو تاریخی حقائق کی روشنی میں منظر عام پر لانے کی ایک کوشش ہے،جس میں ڈرامہ نگار پوری طرح کامیاب ہیں۔بیماری،ناتوانی اور تنگ دامانی کے باوجودبڑی امیدوں و آرزوؤں کے ساتھ غالب نے پنشن کے حصول کے لیے عظیم آباد اور مرشدآباد کے راستے کلکتے کاسفر کیا،انگریزی دربار میں حاضری دی۔لیکن ان کی قسمت یہاںبھی مہربان نہیں ہوئی ۔کلکتے میں غالب کے مخالفین ومعاندین میں افضل بیگ اور عبدالکریم نے ان کی تضحیک وتکذیب میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ان پر انگریزی دربار میں دروغ گوئی اور فریب دہی کاالزام لگایا،جس سے وہاں غالب کی بہت زیادہ جگ ہنسائی ہوئی اوران کی عزت کو بٹہ لگ گیا۔
پنشن کی پوری رقم پانے کے لیے مرزاغالب نے فیروز پور جھرکا سے لے کر کلکتے تک جو صعوبتیں برداشت کیں اور جن ناگفتہ بہ مراحل سے انھیں گزرنا پڑا ان تمام تفصیلات اوردستاویزات کو بنیاد بناکر پروفیسر صادق نے یہ ڈرامہ رقم کیا ہے۔ڈرامہ نگار کا یہ کہنا ہے کہ پنشن کے حصول سے متعلق جتنے واقعات اس میں بیان کیے گئے ہیں وہ نوے فیصد تاریخی ہیں اور حقائق پر مبنی ہیں۔ ڈرامہ کی یہ تفصیلات نیشنل آرکائیو میں موجود دستاویزات سے استفادے کے بعد تیار کی گئی ہیں۔تخیل کی کارفرمائی کے باوجوددستاویزات کی معتبریت کو باقی رکھنے کے لیے ڈرامہ میں حقائق سے بہت زیادہ چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا گیا ہے ۔
اسٹیج کی تکنیک کے بارے میں بات کی جائے تو اس میں پروفیسر صادق نے غالب کاایک ہمزاد پیش کیا ہے ۔غالب اور ہمزاد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے کئی پوشیدہ پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور واقعات آگے بڑھتے ہیں۔مغربی اور یوروپی ڈراموں کے کرافٹ میں عموماً مونولاگ (MONOLOGUE)اور سولولوکی (SOLO LUCCI)تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے ،صادق صاحب نے اس سے گریز کرتے ہوئے غالب کاایک ہمزاد پیش کیا ہے جس کی گفتگو سے ڈرامہ آگے بڑھتا ہے۔غالب کا یہ ہمزاد انھیں منزل سے منحرف ہونے اور راہ سے بھٹک جانے پر کچوکے بھی لگاتا ہے اور ان کو ہدف کے حصول کے لیے کمربستہ بھی کرتا ہے۔
پنشن سے محروم ہونے کا معاملہ یوں ہے کہ غالب کے چچا مرزا نصراللہ بیگ انگریزوں کے دور اقتدار میں پرگنہ سونگ اور اور سونسا کے جاگیردار تھے۔جنھیں جنرل لارڈلیک کے زمانے میں سرکار کی جانب سے چار سواروں کے رسالے کے افسر اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کی جاگیر عطاکی گئی تھی۔شومئی قسمت کہ ہاتھی سے گرکرنصراللہ بیگ زخمی ہوگئے اور پھر ان کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد انگریزوں نے ان کی جائیداد ضبط کرلی اوران کے وارثوں کے لیے نصراللہ بیگ کے خسر میوات کے نواب احمد بخش خاں کی ملکیت سے دس ہزار روپئے سالانہ کی رقم متعین کردی ۔لیکن نواب احمد بخش نے چالاکی سے جعلی دستاویز بنواکر غالب کو ملنے والی پنشن کی رقم آدھی کردی ،ستم بالائے ستم آدھی رقم سے بھی دو ہزار روپے کا حصے دارنصراللہ بیگ کے ملازم خواجہ حاجی کو قرار دے دیا گیا۔اب نصراللہ بیگ کے اصل وارثوں کے حصے میں تین ہزار روپئے ہی آئے۔غالب پنشن کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے نالاں تھے ۔پنشن کی پوری رقم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بہت جدوجہد کی ۔غالب اس مالی خیانت کا اصل ذمہ دار نواب احمد بخش کو قراردیتے ہیں۔ان کا یہ ماننا ہے کہ نواب احمدبخش نے غالب ا ور ان کے کنبے کے ساتھ کی حق تلفی کی ہے۔چچا نصراللہ بیگ کے انتقال کے وقت غالب کی عمر نو برس اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کی عمر سات سال تھی،کم سنی اورناتجربہ کاری کی وجہ سے ترکہ میں وراثت پانے کے لیے وہ انگریزی عدالت میں کوئی قانونی جارہ جوئی نہیں کرسکے جس کا خمیازہ انھیں زندگی بھر بھگتنا پڑا۔
ڈرامہ میں غالب کی شخصیت کاایک ایسامرقع سامنے آتا ہے جس میں ان کی رحمدلی،صلہ رحمی ،سخاوت ،کنبہ پروری اور انسان دوستی کی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔غالب کے سینے میں ایک دردمند دل تھا جو انسانیت کی زبوں حالی پرکڑھتا تھا۔وہ اپنے احباب،اعزہ واقربا کی پریشانیوں سے رنجیدہ وکبیدہ خاطر ہوتے اور ان کی خوشی سے شادمانی محسوس کرتے ۔انسانیت کے تئیں غالب کی یہ دردمندی اوران کی مخیرمزاجی بھی ڈرامہ میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔اپنے چھوٹے بھائی یوسف کی علالت سے وہ حد درجہ متفکر رہتے اور اس کی صحت یابی کے لیے ہرممکن تدبیر کرتے۔یوسف کے علاج ومعالجے کے لیے غالب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ،حتیٰ کہ قرض لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔کلکتہ کے دوران قیام والدہ کے ارسال کردہ رقعہ میں یوسف کی شفایابی کی مژدہ ٔ جاں فزاپڑھ کر بے انتہا خوش ہوئے۔ بقول غالب ’’خداکی قسم اس کے صحت یاب ہوجانے کی خبر میرے واسطے اپنے مرحوم باپ کے زندہ ہوجانے سے کم نہیں ہے۔‘ ‘ اس خوشی کے موقع پر غالب نے بازار سے مٹھائی منگواکر لوگوں میں تقسیم کی۔
ڈرامہ میں اس پر بھی فوکس کیا گیا ہے کہ پنشن کے کم ہونے، گھریلو اخراجات کے بڑھنے،اقربا کی کفالت اور یوسف کے علاج میں خرچ ہونے والی خطیر رقم کی وجہ سے غالب بہت زیادہ مقروض ہوگئے تھے ۔قرضداروں کے تقاضوں سے تنگ آکر انھوں نے دہلی چھوڑکر کچھ دنوں کے لیے کلکتہ میںبودوباش اختیار کرلی۔مرزاغالب اپنے چھوٹے بھائی یوسف کی کمائی کی امیدپر ساہوکاروں اور مہاجنوں سے قرض لے رہے تھے ۔چونکہ فن سپہ گری میں مہارت کی وجہ سے دولت آصفیہ میں یوسف کو بہت اچھی ملازمت مل گئی تھی اور تنخواہ بھی معقول تھی۔لیکن حساس طبیعت پانے کی وجہ سے گھر کی زبوں حالی پراس کادل کڑھتا اور اس کی بہتری کے لیے ہمیشہ متفکر رہتا۔ہمہ آن فکر مند رہنے کی وجہ سے یوسف کادماغ چل گیا۔
غالب کے مزاج میں مروت اور اپنائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔مقروض ہونے کے باوجود اپنے ماتحت لوگوں کی کفالت اور ان کی دیکھ ریکھ میں انھوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا بار خودہی اٹھایا ۔ایسے میں صرفہ کے بوجھ پر قابو کے لیے مرزاغالب کے دوست چھجمل نے انھیں جو مشورہ دیا اور اس پر غالب نے جس ناگواری کااظہار کیا اس سے بھی غالب کی رحمدلی اور صلہ رحمی کی تصویر سامنے آتی ہے۔چھجمل نے غالب کی خستہ حالی کے پیش نظر انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے اخراجات کم کریں ۔بڑھتے اخراجات پر قابو پانے کی ایک سبیل یہ ہوسکتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ خدمت گار اور خادماؤں کو آپ نکال دیں ۔چھجمل کے اس مشورے سے غالب ناراض ہوگئے،ایسے میں انھوں نے چھجمل سے جو کہا ملاحظہ کریں۔’’(غالب قدرے ناراض ہوکر) یہ رائے آپ اپنے پاس ہی رکھیے۔یہ لوگ جنھیں آپ نکالنے کو کہہ رہے ہیں وہ میرے خاندان کا حصہ ہیں ۔ان کی کفالت میرا فرض ہے ۔‘‘
اردو میں ترقی پسند تحریک کی شروعات 1936میں ہوئی ،اس کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی جس کے صدارتی خطاب میں پریم چند نے یہ زور دیتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں اپنے حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ترقی پسند تحریک نے ایک خاص منشور کے تحت ادب می ںسرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصالی نظریے کی نفی کی اور مزدوروں و مظلوموں کی حمایت پر زور دیا لیکن اس سے برسوں قبل مرزاغالب اپنے خطوط میں ترقی پسند نظریے کا اظہارکرچکے تھے۔ڈرامہ نگار نے ڈرامہ کے آخری باب میں غالب اور امراؤ بیگم کے درمیان ہونے والے مکالمے میں غالب کے ترقی پسند انسانی نظریے کو اس طرح پیش کیا ہے۔
امراؤ بیگم : آپ نے دنیا جہان کا علم پڑھا ہے ۔لوگوں کو مشورے دیتے رہتے ہیں۔ آخر اپنے مسئلے کاحل کیوں نہیں نکالتے؟
مرزاغالب : اسی کوشش میں تو اتنی عمر گزاردی ہے۔جی تو یہی چاہتا ہے کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں یا کم ازکم اس شہر میں جہاں میں ہوں کوئی بھوکا ننگا نظر نہ آ وے۔ میں کتنا مسلمان ہوں کہہ نہیں سکتا ۔لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تمام خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ ایک معقول انسان ضرور ہوں۔ حق کی راہ کاسالک ہوں ۔حق وانصاف کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتا رہوں ۔
غالب کے مزاج میں انانیت تھی،وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے عادی نہیں تھے،بھیڑ میں وہ اپنا راستہ خود نکالتے۔شاعری میں مشکل پسندی کی وجہ سے ان پر مہمل بکنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔لیکن ان کی منفرد مزاجی اوربھیڑ سے الگ چلنے کی روش نے پامال ڈگرکی تتبع کو گوارا نہیں کیا۔مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے غالب کے دوستوں نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ وہ والی ٔ ادوھ کی شان میں ایک قصیدہ لکھیں۔ اس ڈرامہ میں بھی غالب کی انانیت پسندی کو ڈرامہ نگار نے فنی ہنرمندی کے ساتھ پیش کیاہے۔ان کی یہ اناپرستی ہی جو انھیں شاہِ اودھ کی شان میں قصیدہ گوئی کے لیے روک رہی تھی۔کسی کی جھوٹی تعریف اور تملق ان کے مزاج خلاف تھی۔محمد رفیع سودا کے قصیدے کا ایک شعرغالب کے مزاج کا آئینہ دارمعلوم ہوتا ہے۔
ؔؔؔ خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی
نہ جھاڑے آستین کہکشاں شاہوں کی پیشانی
پہلے غالب نے شا ہ اودھ کی شان میں قصیدہ گوئی سے سختی سے منع کیا لیکن اپنے ہمزاد کے اصرار پر بادل ناخواستہ مرزا غالب تیار ہوئے۔ مالی مشکلات سے گزرنے کے باوجود انھوں نے یہاں جس خواہش کا اظہار کیا ،وہ بھی ان کی انانیت پسندی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔لکھنؤ کے سبحان علی اور نیاز حسین کی وساطت سے معتمدالدولہ ،آغامیر کے دربار میں غالب کی رسائی کی راہ آسان ہوئی تو غالب نے یہ شرط رکھ دی کہ جب وہ دربار میں آئے تو معتمدالدولہ ان کا استقبال کریں ۔مصافحے کے بعد معانقہ بھی کریں اور یہ کہ اس موقع پر نذر پیش کرنے سے معاف رکھاجائے اور جب معتمدالدولہ نے ان کی شرط ماننے سے ا نکار کردیا تو غالب نے ناگواری کااظہار کیا۔مرزاغالب کے لفظوں میں۔(قدرے ناگواری سے)’’میں نے ایسی کونسی کڑی شرط رکھ دی تھی؟ کیا مانگ لیا تھا ان سے ؟ اگر وہ اٹھ کر میرا استقبال کرتے تو شعرو ادب کے قدر دان کی حیثیت سے ان کی شان میں اضافہ ہی ہوتا۔‘‘ڈرامہ نگار نے اس مکالمہ کو اس خوبصورتی سے اداکیا ہے کہ وہ فطری معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ کاایک ضروری حصہ معلوم ہوتا ہے۔
ڈرامہ میں صادق صاحب نے غالب کی زبانی کلکتہ اور بنارس کے درمیان موازنہ بھی کیا ہے ،غالب کے خطوط اور تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غالب کو بنارس کی روحانیت نے مسحور کردیا۔ پنشن کے لیے غالب نے کلکتہ کا سفر کیا اور وہاں بہت دنوں تک ان کا قیام بھی رہا ،شہرکلکتہ انھیں راس بھی آیا،لیکن بنارس کی یاد غالب کے دل سے آخر وقت تک نہیں گئی۔ ڈرامہ میں جگہ جگہ اس جانب اشارہ ملتا ہے۔غالب کے لفظوں میں ’’دراصل بنارس کا روحانی اور قدرتی ماحول مجھے اتنااچھا لگ رہا ہے کہ یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘ڈرامہ میں ایک اور جگہ مرزا غالب نے بنارس کی روحانیت کا ذکر کرتے ہوئے گلے میں زنار پہن کر وہیں بودوباش اختیار کرنے کی بات کہی ہے۔ غالب کے الفاظ میں ’’یہاں بنارس آئے ہوئے مجھے کئی دن ہوگئے ہیں۔شہر کی حسین فضاؤں نے میرادل موہ لیاہے۔یہاں کا قدرتی اور روحانی ماحول دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ پیشانی پر قشقہ کھینچ لوں۔اپنے گلے میں زنار پہن لوں ،پھر اسی طرح گنگا کے کنارے جابیٹھوں اور اس وقت بیٹھا رہوں جب تک کہ میرا وجود ایک قطرے کی صورت میں دریا میں نہ مل جاوے۔‘‘بنارس ایک اسطوری شہر ہے اسے کئی اعتبار سے امتیاز و افتخار حاصل ہے۔ یہ شہر ہندوؤں کے لیے شہر نجات ہے۔غالب نے بنارس کی روحانیت سے متاثر ہوکر ’چراغ دیر ‘ کے عنوان سے ایک مثنوی لکھی ،جس میں اس کی عظمت وتقدس کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ’فردوس معمور ‘سے تعبیر کیاہے:
تعالی اللہ بنارس چشم بد دور
بہشت خرم و فردوس سے معمور
بنارس ہے ہی وہ جگہ جہاں کے چپے چپے پر روحانیت کا عکس نظر آتا ہے ۔غالب کے علاوہ شیخ علی حزیں بھی بنارس کی عظمت وتقدیس کے قائل تھے کیونکہ انھیں یہاں کے ہر برہمن میں رام اور لکشمن کا عکس نظر آتا تھا،اسی بنا پر وہ بنارس سے کسی بھی طور ترک وطن کے لیے تیار نہیں تھے:
از بنارس نروم معبد عام است ایں جا
ہر برہمن پسرے لچھمن ورام است ایں جا
ڈرامہ میں ایک درجن سے زائد کردار ہیں اور سبھی متحرک بھی نظر آتے ہیں،مرزا غالب مرکزی کردارہے لیکن ہمزاد کاکردار بھی انتہائی اہم ہے ،وہ اپنی گفتگو کی فلسفیانہ اساس اور حاضر جوابی کی وجہ سے قارئین اور ناظرین کے ذہن پر اپنا نقش قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔اسے جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالب اپنی منزل مقصود سے بھٹک رہا ہے تو ایسے میں اس کی رہنمائی کرتا ہے،اس کو صحیح مشورہ دیتا ہے اور جب کبھی اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالب حالات کے تھپیڑے سے پریشان ہے تو وہ اپنی باتوں سے غالب کا حوصلہ بھی بڑھاتا ہے۔غرض اس کاکردار کہیں دوست ،کہیں رہنما، کہیں مصلح اور کہیں فلسفی کے طورپر سامنے آتا ہے۔رائے چھجمل کے کردار میں بہت زیادہ دلکشی اور توانائی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سے وہ اس لیے اہم ہے کیونکہ وہ مرزا غالب کادوست ہے جس سے غالب اپنا دکھ درد شیئر کرتا ہے۔ مرزاغالب کی بیوی امراؤ بیگم بھی ڈرامہ کاایک اہم کردار ہے ،ان کی گفتگو سے غالب کی ذہنی کیفیت کی تفہیم وتعبیرکی راہ آسان ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عورت کی نفسیات کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔مرزا افضل بیگ ،جسے یہاں ویلن کے طورپر پیش کیاگیا ہے ،اس کے منفی رویے اور شیطانی خصلتوں کی وجہ سے اسے افضل بیگ کے بجائے ارزل بیگ کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔کیونکہ وہ عبدالکریم کے ساتھ مل کر غالب کوگزند پہنچاکرخوش ہوتا ہے ،اس کی ذلت و رسوائی کے منصوبے بناتا ہے۔وہ کلکتہ میں غالب کی تذلیل کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔( یہ بھی پڑھیں واحد نظیر کی نعت گوئی پرچند تاثرات – ڈاکٹر صفدر امام قادری)
ڈرامہ نگار نے مکالمے کی ادائیگی میں فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔مکالمہ نگاری کے اعتبار سے اسے ایک کامیاب ڈرامہ کے زمرے میں رکھاجاسکتا ہے۔اس کے مکالمے انتہائی دلچسپ اور برمحل ہیں۔ کرداروں کی زبان سے وہی کہلوائے ہیں جس کا موقع ومحل تقاضاکرتا ہے۔مکالمے کی بات کریں تو یہاں بھی ہمزاد کی گفتگو انتہائی معنی خیز معلوم ہوتی ہے۔شروع سے آخر تک ہمزاد کی گفتگو میں کہیں کوئی جھول نظرنہیں آتا۔ہمزاد کہیں بھی لاگ لپٹ والی گفتگو نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کہیں کسی مصلحت کا شکار ہوتا ہے۔اس کی دوٹوک اور بیباک گفتگو سے مرزاغالب کہیں کہیں جنجھلاجاتا ہے اور اسے جاہل ،کم عقل اور بد تمیز تک کہہ دیتا ہے لیکن ہمزاد اس کی باتوں کو برا ماننے کی بجائے غالب سے کہتا ہے کہ میں تمہارادشمن نہیں دوست ہوں ،لہٰذا تم کو صحیح راستہ دکھانا میرافرض ہے۔مالی تنگی اور دنیا کے مسائل سے فرار حاصل کرنے کے لیے غالب شعروسخن کی دنیا میں پناہ لیتا ہے ،جس پر ہمزاد اس سے مخاطب ہوتے ہوئے زندگی کی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔وہ کہتا ہے۔’’زندگی میں سکون ومسرت روپیوں کے بغیر ممکن نہیں ۔‘ ‘ مرزاغالب پژمردگی کے عالم میں چار پائی پر بیٹھے ہوئے کسی خیال میں گم ہیں ،ایسے میں ہمزاد ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جوباتیں کہتا ہے وہ بصیرت انگیز اور فلسفیانہ معلوم ہوتی ہیں ۔’’اتنے ملول کیوں ہو؟جس طرح اندھیرے، اجالے یا رات دن کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح کائنات میں غم اور خوشی کی آمد و رفت بھی رہتی ہے۔لکھنؤ میں تم رنجور اور بیمار تھے۔باندہ میں خوش اور تندرست رہے۔الہ آباد سے دل برداشتہ چلے تو بنارس میں آکر خود کو صحت مند اور مسرور پایا۔کل تک یہاں سیروتفریح کرتے رہے اور آج اداس اور غمگین بیٹھے ہو۔‘‘ غالب اور ہمزاد کے درمیان بہت دلچسپ مکالمے ہیں۔غالب اپنے ہمزاد سے کہتا ہے کہ تمہارا وجود میرے بغیر کچھ بھی نہیں ،تم میرے ساتھ ہی پیدا ہوئے اور میرے ساتھ ہی مرجاؤ گے ،تمہیں کوئی یاد نہیں رکھے گا جبکہ میں اپنی شعری انفرادیت اور فنی عظمت کے سبب ہمیشہ زندہ رہوں گا۔ لیکن ہمزاد کہتا ہے میں تمہارا خیر خواہ ہوں اس لیے میں تم کو تمہاری منزل سے بھٹکنے نہیں دوں گا اور جب کبھی غالب مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو ہمزاد اسے متحرک کرتا ہے۔ہمزاد کی باتوں سے غالب کو حرارت اور تاب وتوانائی ملتی ہے ،غالب میں جوش وولولہ اور عز م وحوصلہ آتا ہے۔ اسی طرح غالب اور امراؤ بیگم کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی اہم ہے ،اس کے مکالمے بھی چست اور درست ہیں۔امراؤ بیگم کی نفسیات وہی ہے جو ایک عام گھریلو عورت کی ہوتی ہے۔غالب کے فیروز پور جھرکا جانے پر امراؤ بیگم نے اسی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جو عموماً مشرقی آداب کی پابنداور گھریلو عورتیں کرتی ہیں۔امراؤ بیگم کہتی ہیں’’ آخر ایسا کیا کام آن پڑا ہے کہ جو آپ بار بار فیروز پور جھرکا جانے لگے ہیں۔چند برس پہلے ایک گانے والی منھ لگ گئی تھی کہیں جھرکا میں کسی میواتن نے آپ کو اپنے جال میں نہ پھنسا لیا ہو۔‘‘ مرزا غالب کا جواب بھی کچھ دلچسپ نہیں ۔’’گھر میں تم جیسی حسین و جمیل بیوی موجود ہے ۔میں کسی کے دام فریب میں گرفتار ہونے والا نہیں۔‘‘ایک بیوی کے لیے سب سے قیمتی دولت اس کا خاوند ہوتا ہے ،اس کی معیت میں وہ ہردکھ گواراکرلیتی ہے ،گھر میں آرام واسائش کے سامان ہو ں اور شوہر نہ ہو تو ایک وفا شعار بیوی کو گھر سونا لگتا ہے۔ایک عورت کے لیے گود خالی ہونے کاکرب کیا ہوتا ہے ،امراؤ بیگم کی گفتگو سے سمجھا جاسکتا ہے۔غرض ڈرامے کے مکالمے انتہائی چست اور مربوط ہیں ۔
اس ڈرامہ سے قلم کار وںکے تئیں ہمارے معاشرے کی بے حسی اور پستی بھی سامنے آتی ہے ۔ہمارے شعرا و ادبا جو اپنے قلم کی جولانی سے سماج کو روشنی اور بصیرت عطا کرتے ہیں خودان کی زندگی کتنی کسمپرسی میں بسر ہوتی ہے۔ہمارے سماج میں موت کے بعد قلم کاروں کی پذیرائی کی روایت ہے ۔جیتے جی ان کا اعزاز واکرام تو نہیں کیا جاتا لیکن وفات کے بعدان کا جشن ضرور تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔یہ ایک سبق آمیز ہے ڈرامہ ہے ،اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زندگی کی دشواریوں اور نزاکتوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق ہی دست سخاوت درازکرنا چاہیے ورنہ پریشانی لازم ہے۔اس ڈرامہ کے ذریعے غالب کا سوانحی اورعلمی کردار بھی سامنے آتا ہے۔ ان کی زندگی کا تلخ پہلو یہ ہے کہ ان پر زندگی کبھی مہربان نہیں ہوئی،ان کاعلمی اور ادبی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو فارسی میں بہترین شاعری کی۔دنیا کے ممتاز شاعروں میں بلند مقام حاصل کیا۔شاعری کے علاوہ نثر میں بھی انہوں نے یادگار کام کیے ۔انھوں نے فارسی تحقیق کو اس بلندی پر پہنچادیا کہ اس سے بڑھ کر تصور کرنا مشکل ہے۔انھیں علمی خصوصیات کی وجہ سے دنیا میں غالب کانام بلند ہے۔
کرداروں کی پیشکش ،مکالمے کی چستی اور پلاٹ میں منطقی ربط کی وجہ سے بلاشبہ اسے اردوکے کامیاب ترین ڈراموں کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے۔اس میں بے جا طوالت سے گریز کیاگیا ہے ،ڈھائی گھنٹے میں کامیابی کے ساتھ اسے پلے کیاگیا۔کہانی میں کوئی بے ربطی نہیں ہے ،پلاٹ گٹھا ہوا اور مربوط ہے۔ عمل ،جگہ اور وقت ،ڈرامہ کی یہ تین اکائی ہوتی ہیں،اس لیے ان تینوں میں ایک وحدت ہونی چاہیے ۔ ڈرامہ پلے کرتے وقت یہ وحدت نظرآتی ہے،یہاں زمانہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور جگہ بدلتی رہتی ہے۔ لیکن جگہ کے بدلنے میں کہیں بھی اسٹیج کو آف نہیں کیا گیا۔تمام مقامات اور واقعات کو تسلسل کے ساتھ دکھایا گیاہے ۔تہذیبی اور ثقافتی اختلافات کو بیگ گراؤنڈ میں پیش کیاگیا ہے ۔ڈائریکٹر اور نے ایک ہی اسٹیج پر چیزوں کی ہیر پھیر کے ساتھ لکھنؤ ،بنارس اور کلکتہ کو دکھایا ہے۔لکھنؤ کو وہاں کے امراوسلاطین کے ایوانوں میں بڑے بڑے بڑے پنکھے جھیلنے کے ذریعے دکھایا گیا ہے جبکہ بنارس کو وہاں کے روایتی رقص اور مندروں میں پنڈتوں کے فال نکالنے کے ذریعے پیش کیاگیا ہے اوراسٹیج پر کلکتہ کو جوٹ کی کشتی کے ذریعے دکھایاگیا ہے جسے لے کر کچھ لوگ چل رہے ہیں۔ڈرامہ کی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیاجارہا ہے ،جن میں ہندی ،سندھی ،گجراتی اور سنسکرت قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کی طرف سے ہندوستان کی کئی زبانوں میں کتابی شکل میں پروفیسر صادق کایہ ڈرامہ شائع ہورہا ہے۔
٭٭٭
C-66 FIRST FLOOR FRONT SIDE
SHAHEEN BAGH JAMIA NAGAR
OKHLA NEW DELHI 110025
MOB 8076199053
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |