توصیف بریلوی اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی افسانہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے۔قلیل وقت میں ہی انھوں نے افسانوں میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو شامل کرتے ہوئے زمانے کے بدلتے روپ کو قارئین کے سامنے سلیقگی کے ساتھ پیش کیا۔موصوف کے افسانوں میں جہاں ایک جانب جنسی مسائل و کیفیات نمایاں ہے وہیں دوسری جانب نئی نسل بالخصوص جنھوں نے عنفوانِ شباب میں ابھی قدم ہی رکھا ہے کی نمائندگی کی ہے۔گلوبل وارمنگ کے سبب دنیا کے نئے ماحولیاتی نظام اور اِکو فرینڈلی سسٹم کی جانب بھی انھو ں نے قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔جدید طرزِ معاشرت، نفسیاتی کشمکش،بدلتی قدریں اورمذہبی گروہ بندی وغیرہ بھی ان کے افسانوں کا طرۂ امتیاز ہے۔نسائی مسائل یعنی جنسی آزادی کو جس فنکارانہ اندازاور دور اندیشی کے ساتھ انھوں نے اپنے افسانوں میں پیش کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے نسائی مسائل،کیفیات اور جذبات کو اپنی ذاتی زندگی میں محسوس کرنے کے بعد ہی افسانے تخلیق کیے ہیں۔دراصل عورتوں کی جنسی آزادی بیسویں صدی میں یورپ کے ذریعے دنیا کے سامنے انقلابی شکل میں نمودار ہوئی لیکن اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عصروں میں اسے عروج و دوام حاصل ہوا۔توصیف بریلوی کے افسانے اپنے زمانے کی رودادہیں۔ اگرہم انھیں دورِ جدید کا المیہ قرار دیں تو کو ئی مبالغہ نہ ہوگا۔توصیف بریلوی نے اپنی کہانیوں میں عہد جدید کے زماں اور مکاں کی نیرنگیوں کو احسن طریقے سے پیش کیا ہے۔
”ذہن زاد“توصیف بریلوی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو2020میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں آیا ہے۔اس مجموعے میں کُل 20افسانے شامل ہیں۔ان افسانوں کو پڑھنے کے بعد ہمیں توصیف بریلوی کی تخلیقی صلاحیتوں پر رشک آتا ہے۔ان کے افسانے دوسری دنیا کے سیر کرانے کے بجائے حقیقت سے قارئین کو روشناس کراتے ہیں۔ان کی کہانیاں ہمارے آس پاس کے معاشرے میں وقع پذیر ہونے والے واقعات کا لفظی قالب ہیں۔ان کی کہانیوں میں سلاست اور روانی کا حسین امتزاج شامل ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع،تجربہ وقیع اور قلم سیل رواں کی مانند ہے۔قاری نے اگر ایک بار ان کہانیوں کو پڑھنا شروع کیا تو وہ انھیں مکمل کر کے ہی دم لے گا۔دراصل یہ کہانیاں نہیں بل کہ خونِ دل میں اُنگلیاں ڈبوں کر کر لکھے گئے افسانے ہیں۔زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو افسانہ بنانا انھیں خوب آتا ہے۔
افسانہ ”پزّاا بوائے“ میں جنسی بے راہ روی کوموضوع بنایا گیا ہے۔اس افسانے کو پڑھ کر قارئین ششدر رہ جاتا ہے جب ماں اور بیٹی ایک ہی مرد کے ساتھ زنا بالجبر کے گناہ میں ملوث ہو جاتی ہیں۔اس کہانی کے مکالموں پر توصیف نے جنسی تلذذ کے رنگ کو خوب گہرا کیا ہے۔افسانہ”پزّا بوائے‘کوشہری زندگی،مغربی طرزِ معاشرت،پیسوں کی ہوس،رشتوں کی کڑواہٹ اور عورتوں کی جنسی آزادی کی نمائندہ کہانی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ٹینا پزا بوائے کو اپنی ماں کے کمرے میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے تو ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں توصیف بریلوی نے زمانے کو آئینہ دکھاتے ہوئے جنسی تڑپ اور بھوک مٹانے کے لیے عورت اپنی حدود کو کس طرح عبور کر جاتی ہے،کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔ماں بیٹی کے درمیان جنسی تلذذ کے ٹکراؤ کا عروج دیکھیے جو قابلِ رحم اور قابلِ دل چسپ کے ساتھ سبق آموز بھی ہے:
”ٹینا نے پہلے اپنی ماں کو نیچے سے اوپر تک دیکھا وہ میکسی (Maxi) میں تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ ابھی پتا چل جائے گا کہتے ہوئے ٹینا تیز قدموں سے اندر گھس گئی اور اس کی ماں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ٹینا سیدھے بیڈروم میں جا گھسی، اس کی ماں نے پہلے تو احتیاطاً فرش پر پڑی ہوئی Lingerieپیر سے ایک طرف کی اور پھر ٹینا کے پیچھے بیڈ روم میں جا پہنچی۔کیا ہوا ٹینا……؟ کیا ڈھونڈ رہی ہو؟ اس نے پیار سے پوچھا۔وہ پزا بوائے کہاں ہے؟ میں نے اس کو اندر آتے دیکھا ہے، ٹینا نے Cupboardکا دروازہ کھول کر بند کرتے ہوئے کہا۔ ک……ک…… کون پزا بوائے؟ یہاں کوئی پزا بوائے نہیں ہے، وہ انجان بننے لگی۔موم آپ جھوٹ بول رہی ہیں، میں نے اس کو اندر آتے ہوئے دیکھا ہے، کہتے ہوئے وہ ماں کو گھور رہی تھی اور اس کی ماں ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آخر کار ٹینا نے پزابوائے کو واش روم سے باہر نکال ہی لیا۔پزا بوائے کو دیکھ کر ٹینا کی ماں حواس باختہ ہوگئی اور طرح طرح کے Excuseدینے لگی۔ بس کیجیے موم! آپ کو موم کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔ آپ رنگ رلیاں منارہی ہیں، میری موم اتنی Characterlessہوسکتی ہے میں نے سوچا نہیں تھا۔ اب ساری باتیں میرے سامنے شیشے کی طرح صاف ہیں۔ آپ کا وہ رات رات بھر Kitty Partyمیں رہنا، کھنّہ انکل کے گھر اس وقت جانا جب آنٹی گھر پر نہیں ہوں، ڈیڈ سے کہہ کر میرے لیے دوسرا فلیٹ خریدنا، آپ نے مجھے اسی لیے الگ کیا تاکہ آپ آرام سے اپنی Lustکو انجوائے کرسکیں۔”……You are a Lusty“وہ اب چیخ رہی تھی۔ آپ ڈیڈ کو دھوکا دے رہی ہیں،مجھے دھوکا دے رہی ہیں، ٹینا مزید کچھ کہتی اس سے پہلے اس کی ماں سخت ہوتے ہوئے بولی…… دھوکا! کس دھوکے کی بات کررہی ہو تم؟ دھوکا میں دے رہی ہوں ……؟ دھوکا تو تمہارے ڈیڈ مجھے دے رہے ہیں۔ پچھلے سات برس سے انڈیا نہیں آئے،کیا ان کے وہ بڑے بڑے پروجیکٹ مجھ سے بھی زیادہ بڑے ہوگئے؟ ذمہ داریوں کے نام پر صرف ڈھیر ساری دولت بھیجتے ہیں خود کیوں نہیں آتے؟ مجھے نہیں چاہیے دولت، نہ ہی فلیٹ، Bunglow،گاڑی اور Status۔ اس سب کے علاوہ بھی انسان کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ کیا تمہارے ڈیڈ نے ان سات برسوں میں میرے بارے میں سوچا……؟تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہے اتنے برسوں میں انھوں نے صرف دو بار Wedding anniversery wishکی ہے۔ میری اپنی بھی کوئی لائف ہے……”My darling!All are naked here,you too…“مجھے تمہاری عیاشیوں کے بارے میں بھی سب پتا ہے۔ ٹینا شوکڈ تھی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جس کے ہونٹوں پر اب فاتحانہ مسکان پھیلی ہوئی تھی۔ آگے بولوں یا تم سمجھ گئیں ڈارلنگ……! اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔“ ( یہ بھی پڑھیں غلام عباس کا افسانوی رویہ -محمد غالب نشتر )
”پرندوں کی کہانی“میں توصیف بریلوی نے پرندوں کے ذریعے اپنے خاندان کی پرورش اور اسے قائم و دائم اور مستحکم کرنے کے جذبے سے ایک بگڑے ہوئے گھر کی اصلاح کا کام لیا ہے۔”یہ شام کب ہوگی“ایک نفسیاتی کہانی ہے جس میں صرف ایک دن کی روداد کو بیان کیا گیا ہے۔اس کہانی میں وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی دل کی دھڑکنوں اور ذہن میں پیدا ہو رہے سوالات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔”ایس ٹرے“میں توصیف نے جِم اور اسٹیلا کے ذریعے گزرے ہوئے وقت کو باندھنے کی کوشش کی ہے۔لیکن گزرا وقت کب کس کے ہاتھ آیا ہے۔اس کہانی کو یادِ ماضی کا افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔”ایک چاقو کا فاصلہ“ میں جنسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے سمینار سے شروع ہونے والا افسانے کا اختتام چاقو کی نوک پر ہوتا ہے۔ اس افسانے میں توصیف نے اپنے کرداروں سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عورت کو کبھی کمزور نہ سمجھا جائے۔” نوز پیس“افسانہ خالصتاً نفسیاتی ا فسانہ ہے۔اس افسانے میں ارمان اور مونا کے عشق کی روداد کو نفسیاتی طور پر پیش کیا گیا ہے۔مونا کے چہرے پر لگے نوز پیس کو ہٹانے کی ضد ارمان اپنے دل میں لیے بیٹھا ہے۔لیکن جب ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے تو ارمان کے پاس مونا کا چہرہ دیکھنے کا موقع ہوتا ہے۔لیکن شادی کی تقریب کے بعد سہاگ رات میں مونا کا چہرہ دیکھنے کے بعد ارمان کے دل و دماغ پر ہیجانی اور وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ارمان مونا کا چہرہ اُسی گاؤن سے ڈھک دیتا ہے جسے اُس نے بڑے ارمانوں سے اپنی دلہن کے لیے تیار کرایا تھا۔چہرے پر گاؤن لپیٹے جانے کے سبب مونا کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور مونا بستر پر ہمیشہ کے لیے دراز ہو جاتی ہے۔توصیف بریلوی نے اس کہانی کا اختتام نفسیاتی و ہیجانی کیفیت کے ساتھ کیا ہے۔قارئین اس کہانی کو آخر تک دم بخود پڑھتا ہے لیکن اس کی آنکھیں بھی اشک بار ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔”نوز پیس“کہانی کا آخری پیرا گراف ملاحظہ کیجیے اور ارمان کی نفسیاتی جد و جہد کا اندازہ لگائیے:
”ارمان نے مڑ کر دیکھاتو ہکاّ بکّا رہ گیا۔سامنے مونا چہرہ کھولے ہوئے کھڑی تھی۔اسے دیکھ کر ارمان کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔زبان لڑکھڑانے لگی۔وہ Panic ہونے لگا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔مونا بھی ارمان کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گئی۔ارمان کو مونا کی نہ تو سرمگیں آنکھیں دکھائی دیں اور نہ ہی سرخ اور نازک ہونٹ،نہ ہی چہرے کی ملاحت اور نہ ہی طلوع آفتاب کی طرح روشن جبین۔مونا ابھی کچھ سمجھ پاتی کہ ……دہاڑتے ہوئے ارمان نے بجلی کی سی سرعت کے ساتھ مونا کو جا دبوچا۔اسے بیڈ پر پٹک کر گاؤن سے اس کا چہرہ اس قدر کس کے لپیٹنا شروع کر دیاکہ وہ جھٹپٹانے لگی اور اس کی آواز بھی گھٹ رہی تھی۔ارمان نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ وہ بڑا دوپٹہ جو مونا نے اوپر سے اوڑھاہوا تھا، اسے بھی اس کے چہرے پر لپیٹنا شروع کر دیا۔ارمان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مونا اپنی پوری طاقت لگانے کے بعد بھی آزاد نہ ہو سکی اور کچھ ہی دیر میں ساکت ہو گئی۔جب ارمان کو لگا کہ اب مونا کے جسم میں کوئی حرکت باقی نہیں رہی ہے تب اس نے مونا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیااور اس کے پاس لیٹ گیا۔مونا گاؤن میں لپٹی ہوئی بے حس و حرکت پڑی تھی ایسا لگ رہا تھالال گاؤن خاص اسی مقصد کے لیے بنوایا گیا تھا۔“
”سکون“کہانی میں بھی توصیف بریلوی نے جنسیاتی اور نفسیاتی میلانات کو بیان کیا ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے تین عورتوں کی کہانی کو پیش کیا ہے جو اس کے محلے میں آباد ہیں۔لیکن یہ عورتیں ہر وقت کسی نہ کسی سے لڑائی جھگڑا اور گالی گلوج کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے افسانہ نگار کو ”سکون“میسر نہیں ہوتا۔لیکن ان تین عورتوں میں سے سب سے بڑی عورت اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے دیور کا انتخاب کرتی ہے جس کے بعد پورے محلے میں سکون طاری ہو جاتا ہے۔”نِک ٹائی“میں نادر،روبینہ اورسمی کے رشتوں کی تثلیث بیان کی گئی ہے۔جنسی ضرورتیں صرف عورتوں کا ہی وتیرہ نہیں بلکہ مرد حضرات بھی اپنی خواہشات کو پانے کے لیے دوسری عورتوں کی جانب مائل ہوتے ہیں۔توصیف بریلوی نے اس افسانے میں شادی شدہ مرد و خواتین کی جنسی خواہشات اور اپنی دنیا میں ہمیشہ غم رہنے والے لوگوں کی کہانی کو خوب صورت لب و لہجے کے ساتھ پیش کی ہے۔
افسانہ”ذہن زاد“میں خیالی کردار قرطاس اور تالیف کے ساتھ نفسیاتی اور جذباتی رشتوں میں مقید باپ کی حالتِ زار کو بیان کیا گیا ہے۔ذہن میں اُٹھنے والے وہم و گمان کو جب انسان صفحۂ قرطاس کے بجائے اپنے دل و دماغ میں آویزاں کر لیتا ہے تو اس کا انجام ”ذہن زاد“کی طرح ہوتا ہے۔خیالوں میں جینا اور یادِ ماضی کے سنہری اوقات کو اولاد تسلیم کر لینا تحلیلِ نفسی کی بدترین مثال ہے۔توصیف بریلوی نے کے اس افسانے کو پڑھ کر قاری حیران و پریشان ہے کہ انسان محو خواب ہوتے ہوئے بھی اصل دنیا میں اپنے لیے تصوراتی اولاد سے گفتگو کرتا ہے۔اس گفتگو میں بہت سارے پہلو ایسے بھی آتے ہیں جو ذہن پر بوجھ بن جاتے ہیں لیکن ان کا خاتمہ درد ناک طریقے سے ہوتا ہے۔افسانے کااختتا م کچھ اس انداز میں ہوتا ہے:
”انھوں نے بھی تند لہجے میں کہا ……”تمہاری ماں نے مجھ سے شادی ہی نہیں کی تھی۔بس وہ تو تم دونوں کو مجھ میں پیدا کر کے چھوڑ گئی۔تمہیں کیا لگتا ہے میں نے تمہاری ماں کو قبول نہیں کیا؟میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔بے شک وہ تم دونوں کے بارے میں سوچ کر ممتا کی عمیق گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک آجاتی تھی لیکن اس نے تمہیں کبھی عملی طور پر پیدا کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔وہ تمہیں میرے سہارے اور مجھ میں چھوڑ گئی۔اس لیے تم مجھ سے ہو۔اگر میں نہیں تو تم دونوں بھی نہیں سمجھے……! “وہ دلخراش آواز میں چیخے۔اِسی کے ساتھ اُنھیں سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔ان کا ایک ہاتھ سینے پر اور دوسرا اپنے بچوں کی طرف تھا گویا کہ ان سے مدد کی گہار لگا رہے ہوں۔درد کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور دونوں بچے ایک دوسرے کو حیران و پریشان دیکھ رہے تھے۔دھیرے دھیرے ان کے دونوں بچے فضا میں تحلیل ہو گئے اور وہ خود میز پر لڑھک گئے۔گھر میں بالکل سناٹا تھا۔تاہم کتاب پارینہ اب بھی میز پر کھلی ہوئی تھی جس میں وہی خوبصورت بچہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔نیلے مگ میں کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔کھڑکی سے آنے والے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے سے کتاب پارینہ کے اوراق پھڑ پھڑائے اور بچے کی تصویر اُن کے سر کے بالوں سے کھیلنے لگی۔“
افسانہ ”سُرخ سفید“میں شارب اور آغا کی محبت کے درمیان لاچار و بے بس چاندنی کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ چاندنی شارب سے محبت کرتی ہے لیکن آغا سے ا سے سیاسی مجبوریوں کے تحت شادی کرنا پڑتی ہے۔ چاندنی کا جسم آغا کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن ذہن شارب کے پاس۔ان تمام حالات کے مد نظر چاندنی کا حاملہ ہو جانا اور ایک خوب صورت بچے کو جنم دینا ایک خوش آئین بات ہے لیکن بچے کو دودھ پلانے کے وقت چاندنی کی کشمکش کا بیان قابل ستایش ہے۔”رگِ جاں سے قریب“میں توصیف بریلوی نے بہت ہی دلیرانہ انداز میں کہانی کا تانا بانا بُنا ہے۔اس کہانی میں مجید، جو شہر کے ڈگری کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے،کے ذریعے تبلیغی جماعت،بریلوی،شیعہ،سنی اور دیگر مسلکوں کی کارگزرایوں اورمسلکی مسائل کے علاوہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں پر طنزیہ انداز میں بحث کی ہے۔مجید، جو صرف اپنا کیرئر بنانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے، اس کے سامنے اب اپنی مسلکی پہچان اور تشخص کو بچانے کا بھی مسئلہ در پیش ہے۔مجید افسانے کے آخر میں ایک ایسی مسجد میں پہنچتا ہے جہاں پر امامت کے فرائض ایک روبوٹ انجام دے رہا ہے۔اس مسجد میں نمازی اپنی سہولت یعنی مسلک کے اعتبار سے روبوٹ کے سینے پر لگے ہوئے بٹنوں کو دباتے ہیں اور نماز ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔لیکن مجید کی حیرانی اور استعجاب میں تب اضافہ ہوتا ہے جب روبوٹ سجدے میں جاتا ہے اور نمازی اللہ اکبر،اللہ اکبر کہتے ہوئے لقمہ دیتے ہیں،لیکن روبو امام کوئی حرکت نہیں کرتا کیوں کہ روبوامام کے سسٹم کو اپگریڈیشن نہیں کیا گیا تھا۔یہ کہانی مسلکی مسائل کے ذریعے ایک دوسرپرلعن طعن کرنے والے لوگوں کے لیے عبرت ہے:
”نماز کا دار و مدار نیت پر ہے اور بے شک اللہ نہایت رحم والا ہے۔ونحن اقرب الیہ من حبلِ الورید۔وہ رگِ جاں سے بھی قریب ہے۔“تو کیا اس حساب سے روبو امام کے پیچھے بھی نماز ہو جائے گی……؟ لوگ کیسے تیار ہو سکتے ہیں کسی مشین کو امام ماننے پر……؟ نیت کر کے کسی کے بھی پیچھے……ایک غیر انسان کے بھی……؟تو کیا اللہ روبو امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی رگِ جاں سے قریب رہے گا……؟ مغرب کی اذان نے میری کشمکش کو جھنجھوڑا ایک بار پھر وہی مشینیں امامت کے لیے تیار تھیں۔ کچھ دیر بعد نہ چاہتے ہوئے بھی میں محرابوں کی طرف بڑھا۔ ایک محراب کے خانے میں داخل ہوا۔”اللہ اکبر“ کہتے ہوئے روبو امام سجدے میں چلا گیا اور نمازی بھی۔ روبو امام سجدے سے اٹھ بھی نہ پایا تھا کہ محراب کے اوپر لگی اسکرین پر Display ہواPlease Upgrade۔جب زیادہ دیر ہو گئی تو نمازی”اللہ اکبر، اللہ اکبر“ کہہ کر لقمہ دے رہے تھے لیکن روبو امام بے حس و حرکت سجدے میں تھا۔“
”دو تابوت“میں دو نوجوان لڑکے اور لڑکی کی موت کے بعد پیدا شدہ حالات کا المیہ ہے۔کہانی بلیکِش“میں ہمااور محسن کے خیالات کی کشمکش اور کیفیت کا بیان کیا گیا ہے۔ ہما قدیم طرز معاشرت کی دلدادہ ہوتے ہوئے اپنے بل بوتے کچھ ایسا کام کرنا چاہتی ہے جس سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔اس کے لیے ہما کار ڈرائیونگ کا پیشہ اختیار کر تی ہے۔ہما رات کے وقت ہی کار ڈرائینونگ کرتی ہے جب کہ محسن دن میں آفس جاتا ہے۔جس وجہ سے محسن اور ہما کا جسمانی اور نفسیاتی تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔اس افسانے میں توصیف بریلوی نے عورتوں کی خود اعتمادی اور مردوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو پیش کیا ہے۔مردوں اور عورتوں کے ذریعے بِلا جھجھک ایک ہی پیشاب گھر میں (جہاں HEاورSHEکی جگہS+HEلکھا ہوتا ہے) یوری نیشن ڈیوائس کے استعمال اور محسن کا رات کے وقت شہر کے سب سے مہنگے ہوٹل میں رات گزارنے کا منظروغیرہ میں توصیف نے سماجی، معاشی، جنسی اور نفسیاتی کیفیات کو اس افسانے میں پیش کیا۔در اصل یہ افسانہ بدلتی سماجی قدروں کے ذریعے رشتوں میں رونما ہونے والے شگاف کو قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے:
”وہاں پہنچ کر اس نے اوپر نظر ڈالی تاکہ یہ اطمینان کرلے کہ وہ He ہے یا She۔ اسے یہ دیکھ کر عجیب لگا کہ دروازے پر S+Heلکھا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر تذبذب کی حالت میں وہیں کھڑی رہی۔اب اسے Cabتک جانے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔کچھ ہی دیر میں جب قوت برداشت ختم ہو گئی تو وہ مزید سوچنے کی حالت میں نہیں تھی۔فطری جبلتوں کو روکنا انسان کے بس میں نہیں۔اس نے دیوار پر آویزاں باکس سے ایک Urination Deviceنکالی۔ S+He میں گھسنے کا یہ اس کا پہلا موقع تھا۔ محسن Urinal پر کھڑا ہوا تھا، جانی پہچانی بھینی سی خوشبو اسے محسوس ہوئی، اس کے دائیں جانب کا Frosted Glass Devider سیاہی مائل نظر آرہا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی خوشبو کے تعاقب میں اس کی نظریں سیاہی مائل گلاس ڈیوائڈر سے پھسلتے ہوئے سر پر جا پڑیں جو ایک برقع نشین خاتون کا سر تھا۔ محسن کی آنکھوں میں استعجاب صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا پھر بھی کسی طرح ضبط کر کے اس نے دھیمے لہجے میں کہا:”ہما ……؟“اس پر ہما نے بھی محسن کی طرف دیکھا۔ اتفاق سے اس وقت Restroom میں دونوں میاں بیوی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔محسن کچھ اور کہتا اس سے پہلے ہی ہما نے سوال کر دیا، ”میں تو یہاں اپنے کام سے آئی ہوں لیکن آپ یہاں کیا کر رہے ہو؟آپ کو تو گھر پر ہونا چاہیے تھا۔“ہما کا لہجہ تیکھا اور آواز نڈر تھی۔محسن ایک بار پھر لاجواب تھا۔ اس کے پاس کہنے سننے کے لیے کچھ نہیں تھا۔وہ اپنے اور ہما کے درمیان اُس فاصلے کو بخوبی محسوس کر رہا تھا جو قطبین کے درمیان رہتی دنیا تک رہے گا۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ دونوں کے جسموں سے خارج ہونے والا رقیق مادّہ الگ الگ Urinals سے ہوتے ہوئے ایک ہی پائپ میں بہہ رہا تھا۔“
افسانہ ”ای۔سگریٹ“بھی جنریشن گیپ اور Teen Ageمیں ہونے والی تبدیلیوں کی عمدہ مثال ہے۔ اس افسانے میں کامران علی اور اشہر کے درمیان جنریشن اور کمیو نیکیشن گیپ کو قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔نئی نسل،پرانی نسلوں کے بنائے ہوئے اصولوں سے بغاوت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ ہم ای۔سگریٹ،بار کلبوں،ڈگ آؤٹ لیٹ اور حقہ بار کی شکل میں دیکھتے ہیں۔امیر زادوں کے یہ شوق نئی نسل کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اس افسانے میں توصیف بریلوی نے اشہر کے باغیانہ رویے اور کامران علی کی ذہنی کشمکش کو اس انداز میں پیش کیا کہ افسانے کے آخر میں قارئین حیرت زدہ رہوجاتا ہے۔کیوں کہ نئی عمر کے لڑکوں نے اشہر کی قیادت میں اپنے والدین کے خلاف بغاوت کا بگل بجا دیا تھا۔یہ افسانہ ہمیں غور و فکرکرنے پر مجبور کرتا ہے۔نئی عمر کے لڑکے جس تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں یہ افسانہ تو اس کی بانگی بھر ہے:
”اپنے والدین کواچانک دیکھ کر سارے دوست ایک جٹ ہو گئے۔ ان کی حرکات اور جوشیلے انداز سے واضح تھا کہ وہ بالکل بھی شرمندہ نہیں تھے۔
”We are modern & smart teens.“یہ آواز سونیا کی تھی۔
”We are pansexual.“لیزا نے کہا۔
”We are LGBT.“پریما چیخی۔
”We are polysexual.“شان غرایا۔
”We are realist.“لبی مسکرائی۔
”We are monosexual.“اشوک نے فخر کیا۔
”We are heterosexual.“ڈَولی نے آنکھیں دکھائیں۔
”We are E-cigarette generation.“یہ آخری جملہ اشہر نے بڑے اعتماد سے کہا اور اس کے بعد سب نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔“
افسانہ مصنف اور تصنیف“میں توصیف بریلوی نے کتاب اور صاحب کتاب کے درمیان ہوئے مکالموں کو افسانوی قالب عطا کیا۔اس افسانے میں انھوں نے
سوال جواب کی شکل اختیار کرتے ہوئے کتاب کو مصنف کی ملکیت قرار دیا جب کہ کتاب کے نظریے کے مطابق اب وہ مصنف کی نہیں بل کہ قاری کی امانت بن گئی ہے۔۔افسانہ ”تعذیب“میں توصیف بریلوی نے دنیا میں ہو رہی موسمی تبدیلویں کی پاداش میں قدرتی نظام کے بدلتے منظر نامے کے سبب گلوبل وارمنگ کے تحت پیدا شدہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔ماریہ اور واحد جو ایسی دنیا میں آباد ہیں جہاں صاف ہوا اور پانی میسر نہیں ہے۔لیکن ماریہ واحد کا ساتھ جھوڑ کر ایسی دنیا میں آباد ہونا چاہتی ہے جہاں اس کی باقی زندگی سکون و چین کے ساتھ بسر ہو سکے۔ماریہ،واحد سے محبت کرتی ہے۔ماریہ کو واحد سے بچہ بھی چاہیے لیکن جسمانی تعلق بنائے بغیر۔اس کے لیے ماریہ جدید سائنسی آلات کا استعمال کر کے واحد کے اسپرم نکال لیتی ہے۔اب دنیا میں انسانوں سے زیادہ روبوٹ نظر آتے ہیں۔روبوٹ، انسانوں کا متبادل بنے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ روبوٹ سے ہی ماریہ اپنی جسمانی خواہشات کو پورا کرتی ہے۔ماریہ اور واحد کے درمیان ہونے والے ان مکالمات پر غور کیجیے اور اندازہ لگایئے کہ ہمارا آنے والامستقبل کیسا ہونے والا ہے:
”میرے عزیز مجھے حیرت ہے۔تم اتنے انجان کیوں بن رہے ہو؟ میں ماضی میں نہیں حال میں جیتی ہوں اور مستقبل کی منصوبہ سازی کرتی ہوں۔ہمارا اتنا گہرا رشتہ رہا مگر افسوس تم مجھے اب تک سمجھ ہی نہ پائے۔یہ جسمانی راحتوں کا لالچ مجھے روک نہیں سکتا اور ویسے بھی اب میں Robo-Sexual ہو چکی ہوں۔میری خواہش نفسانی کی تکمیل کا انحصار اب انسان پر نہیں ہے۔ اپنی سوسائٹی کی دوسری لڑکیوں کی طرح میں نے بھی ایک معیاری کمپنی کا روبوٹ فقط اسی کام کے لیے گھر میں ڈال لیا ہے جو مجھے جسمانی راحت، لذت، سر شاری اور مشینی محبت سے نوازتا ہے۔اس کے پاس جذبات نہیں ہیں تو کیا ہوا، کام تو وہ تم سے کہیں زیادہ مستعدی سے کرتا ہے۔میں اس کے ساتھ خوش ہوں۔“ماریہ بے لاگ بولتی چلی گئی اور واحداہانت اور غصے سے اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اور اس کے چہرے پر کرب کی لکیریں اُبھر آئیں۔بڑی ہمت کر کے واحد نے پھر سے اپنی سی کوشش کرتے ہوئے کہا:”مگر تم تو میرے ساتھ شادی کرکے ایک خوبصورت بچہ چاہتی تھیں۔اس خواب کا کیا ماریہ؟ کیا تم اس بچے کو بھول گئیں جس کی تصویر پنج ابعادی تکنیک میں ہم دونوں کی شبیہ ملا کر تم نے بنائی تھی اور جس کی ایک نقل تم ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔“”واحد……تم بہت بھولے ہو۔ میں نے کہا نہ کہ تمہارے اور میرے درمیان کچھ بھی یکساں نہیں رہا۔بچے کی فکر تم مت کرو۔میں نے تمہارے بہت سارے نطفے ’نطفہ بینک‘(Sperm Bank) میں پہلے ہی محفوظ(Freeze) کروا دئے ہیں اور ہاں احتیاطاً اپنے انڈے بھی۔یہ نطفے اور انڈے سب میرے ساتھ ہی خلائی سفر کریں گے۔تمہیں کیا لگا تھا کہ میں تمہارے بچے کی ماں بننے کے لیے دوبارہ زمین پر آؤں گی؟غیر ممکن واحد……“
افسانے کے آخر میں ماریہ اور اس جیسے دوسرے افراد اس دنیا کو خیر باد کہہ کر دوسرے جہان کی سیر کو نکل جاتے ہیں لیکن انسانوں کا اس طیارے سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے جس میں ماریہ سوار تھی۔ (یہ بھی پڑھیں افسانوی روایت کا منفرد راوی: نیر مسعود – نثار احمد )
”ٹیشو پیپر“افسانہ ذہنی خلفشار کی عمدہ مثال ہے۔شوق شوق میں اپنی محبوبہ سے کیے گئے فون سیکس کی لت نے کردار”وہ“کی حالت میں خلجان پیدا کر دیااور فون سیکس کی لت نے اس کے جسم کو کمزور کر دیا ہے۔جسم سے منی کااخراج جلدی جلدی ہونے لگا۔اس کے خیالوں میں پاکیزگی کے بجائے آلودگی نے جگہ بنا لی تھی۔توصیف بریلوی نے اصل میں یونی ورسٹی کے لڑکوں کی نفسیاتی اور جنسی کیفیت کو اس افسانے کی اساس بنایا ہے۔فون پر سیکس کی باتیں دونوں مزے لے لے کر کرتے ہیں۔محبوبہ سے بات کرنے کا انداز توصیف بریلوی نے کچھ یوں بیاں کیا:
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟“”ہم م م م ……Fine۔“”جب ہم ملیں گے تو کیا کیا کریں گے؟“”وہی سب جو روز Phone پر Discuss کرتے ہیں۔“دونوں ہنسے۔”آج تم کرو میں سنوں گا۔“”ام م م م …… نہیں۔ آپ کرتے ہو تو اچھا لگتا ہے۔“”پچھلے کئی دنوں سے میں ……“ ”اوکے اوکے میں کرتی ہوں۔ غصہ نہیں ہونا۔“”پہلے میں آپ کی شرٹ اتاروں گی……“”آں ہاں ……“”پھر میں آپ کے ……“سنونہ ……! آپ نہیں تم کہو۔“”پہلے میں تمہارا شرٹ اتاروں گی……“”اوہ نہیں ……تم بھی نہیں تیرا بول، تیرا۔“”پہلے میں تیرا شرٹ اتاروں گی……پھر……“”ایک کام کر ساتھ میں گالی بھی دے لیکن انگلش نہیں اس میں مزہ نہیں آئے گا۔“اپنی معشوقہ کی تشنگی میں ڈوبی ہوئی آہیں اور کراہیں سن کر اسے سکھ مل رہا تھا۔”اور تیز……“”اور تیز……گالی بھی۔“”رفتار بڑھا……“”……………………“ایک شام Padding کرنے کے بعداس نے اپنی معشوقہ سے کہا:”جب ہم ملیں گے تو میں تیرا……“”No No No Mister……میں آج ہی نہائی ہوں۔ویسے بھی روز روز نہانے سے مجھے سردی لگ گئی ہے۔زکام اور کھانسی کس قدر ہے آپ کو تو معلوم ہے۔“
افسانہ ”خوشبوکا خاکہ“بھی جنسی تلذذ کی روداد ہے۔اس افسانے میں ایک ایسے کرداد کو پیش کیا گیا ہے جو اپنے گھر سے سیکڑوں میل دور رہتا ہے جو اپنی بیوی کے عضوئے خاص کی خوشبو کو ایک خاص آلے کے ذریعے محسوس کرتا ہے۔اس کا یہ عمل شدت اختیار کر لیتا ہے۔ایک رات جب اس کی بیوی اپنے جسم کی خوشبو سے اسے معطر کر رہی تھی اچانک اسٹول گرجاتا ہے اور اس کا راز فاش ہو جاتا ہے لیکن کچھ دن بعد جب حالات نارمل ہوتے ہیں تو اس کی نند چھوٹی کو اس نے بے لباسی کی حالت میں اپنے عضوئے خاص کی خوشبو سے کسی اور کو معطر ہوتے دیکھ لیا تھا۔
”آج تمہارے زیر جامہ ملبوسات سے نہیں بل کہ تمہارے عضو خاص کو سونگھنا چاہتا ہوں۔“(…………)”کوئی بات نہیں۔ وہ آلہ اونچائی پر ہے تو کیا ہوا، تم پہلے وہاں پر میز رکھ کر اس پر چڑھ جاؤ اور اپنے سینے کی نمکین مہک سے میرا موڈ بنا دو اور اس کے بعد اسٹول رکھ کر تم اپنی بوئے خاص سے مجھے شرابور کر دو۔“(…………)”ہاں ہاں ……ہمارے کمرے میں بھی حسّی-آلہ لگوا دیں گے لیکن اِس وقت ……۔“اپنی جسمانی خوشبوؤں سے وہ اپنے شوہر کی ضیافتِ طبع موقع و محل کے اعتبار سے کرتی تھی کیوں کہ نہ صرف وہ اپنے شوہر کی فرما بردار تھی بل کہ اب اسے بھی اس نئے تجربے میں لطف آنے لگا تھا۔وہ میز کے اوپر رکھے ہوئے اسٹول پر ہی تھی کہ اس کے سسر اپنے کمرے سے باہر آئے اور برآمدے کی مدھم روشنی میں ابھی کچھ سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ اس سے پہلے ہی وہ گھبراکراور چیخ مار کر اسٹول کے ساتھ ہی فرش پر آ رہی۔ آواز سن کر اس کی ساس بھی آن پہنچیں اور بٹن دباتے ہی برآمدہ روشنی سے بھر گیا۔دونوں بزرگوں کے دماغ سامنے کا نظارہ دیکھ کر ماؤف ہوگئے تھے۔ان کا دماغ یہ نہیں قبول کر پا رہا تھا کہ یہ کراہتا ہوا بے لباس جسم ان کی اپنی بہو کا ہے۔غنیمت یہ ہوئی کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی البتہ ذہنی طور پر بہت سی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی……اس اداسی کا اختتام تب ہوا جب چھوٹی کچھ دن کی چھٹی میں گھر پر آئی۔ہاسٹل کی مزیدار باتیں اور شرارتوں کے قصے سن کر گھر کا ماحول خوش گوار ہونے لگا اور یکبارگی لگنے لگا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔ایک دوسرے کے درمیان جو جھجھک حائل ہو گئی تھی وہ چھوٹی کے آنے سے زائل ہونے لگی گویا کہ چھوٹی نے گھر آکر ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکری ماردی تھی۔ایک رات اپنے شوہر سے فون پر مختصر سی بات کرنے کے بعد اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ آہٹ سن کر وہ جاگ گئی۔ بر آمدے میں اجالا پھوٹتے ہی اس نے دیکھا کہ چھوٹی بے لباسی کی حالت میں میز پر اسٹول رکھ چکی ہے۔“
افسانہ”نگاہِ حسرت“میں لِلی کی رودادِ حسرت کو بیان کیا گیا ہے۔اس افسانے میں ایک ایسی تصویر کے ظلسم کو پیش کیا گیا ہے جو اس کی فرمایش پر اس کے شوہر وِکی نے اسے گفٹ کی تھی۔ا س پوٹریٹ میں تصویر تو لِلی کی ہوتی ہے لیکن آنکھیں اس کے سب سے بڑے دشمن ٹونی کی ہیں۔یہ تصویر لِلی کو خوف زدہ کرتی ہے۔حتیٰ کہ جب لِلی ماں بنتی ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ جو آنکھیں تصویر میں ہیں ہو بہو آنکھیں اس کے بیٹے کی بھی ہیں۔
بہر نوع!توصیف بریلوی نے اپنے مجموعے کے ہر افسانے میں مختلف قسم کے رنگ بھرے ہیں۔ان کے افسانے پڑھ کر ہمیں ان کے تازہ تصورات اورنو آمیز تخیلات پر رشک آتا ہے۔ان کے افسانے سماج میں رونما ہونے والے واقعات کے ترجمان ہیں۔موصوف نے اپنے افسانوں میں مشاہدات کے علاوہ عملی پہلوؤں کو مقدم رکھا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں انھیں واقعات کابیان کیا جن سے عام قارئین روزانہ روبرو ہوتا ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوںمیں وقت اورحالات کے مد نظر منظر کشی اور مکالمے پیش کیے ہیں۔ان کے افسانوں میں انگریزی زبان کے بہت سے جملے اور مکالمے موجود ہیں،جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہیں کہ یہ مکالمے افسانوں میں زبردستی ٹھونسے نہیں گئے ہیں بلکہ کرداروں کی وضاحت کے لیے یہ مکالمے بیان کیے گئے ہیں۔ افسانوں کا بیانیہ سحر انگیز ہے۔اس افسانوی مجموعے کے منظرِ عام پر آ نے سے توصیف بریلوی کی شناخت بہ حیثیت افسانہ نویس مستحکم ہوئی ہے۔اب تک ہم ان کے افسانے رسائل و جرائد میں ہی پڑھتے رہے ہیں۔ لیکن ”ذہن زاد“نے انھیں واقعی ”فن زاد“بنا دیا ہے۔نئی نسل کے افسانہ نگاروں بالخصوص 2010کے بعد لکھنے والوں میں توصیف بریلوی نے جو پہچان قائم کی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔میں اُمید کرتا ہوں کہ توصیف بریلوی کا یہ افسانوی سفر ”ذہن زاد“سے آگے کا سفرضرور طے کرے گا۔
٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |