Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
متفرقاتنوشاد منظر Naushad Manzar

خطوط داغ دہلوی کی بازیافت – ڈاکٹر نوشاد منظر

by adbimiras جولائی 26, 2021
by adbimiras جولائی 26, 2021 0 comment

فصیح الملک نواب مرزا داغ دہلوی کی حیات و شخصیت کو ان کی شاعری کے حوالے سے پڑھا  اور دیکھا جاتا رہا ہے ، مگر ان کی شخصیت کی ایک اہم جہت ان کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح کے لیے لکھے ، بعض خطوط اپنے دوستوں، نوابین اور امرا  کو لکھے۔ان خطوط کو پہلی بار یکجا کر شائع کرنے کا بڑا کارنامہ داغ کے شاگرد مولانا احسن مارہروی نے انجام دیا، مولانا احسن مارہروی نے داغ کے ان خطوط کو’’ انشائے داغ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ،جسے انجمن ترقی اردو نے ۱۹۴۱ میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں داغ کے تمام خطوط شامل نہیں تھے ،بلکہ مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ کے مقدمے میں داغ کے کچھ نہایت اہم خطوط کا ذکر تو کیا تھا مگراس کے نیست و نابود ہوجانے کا خدشہ بھی جتایا تھا۔(بحوالہ : عرض مرتب، زبان داغ، سید رفیق مارہروی)

۱۹۴۷ کے فسادات میں انجمن ترقی اردو کے دفتر کو نذر آتش کردیاگیاتھا، جس کا سب سے بڑا علمی خسارہ یہ ہوا کہ اردو کی نہایت اہم کتابیں اس آگ زنی میں خاکستر ہوگئیں، ان اہم کتابوں میں داغ کے خطوط کا وہ مجموعہ بھی شامل تھا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔سید رفیق مارہروی نے داغ کے ان خطوط کی بازیافت کی جس کی عدم دستیابی کا ذکر ان کے والد اور داغ کے شاگرد رشید مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ میں کیا تھا۔سید رفیق مارہروی نے خود اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ’’زبان داغ‘‘ میں شامل ۱۴۰ خطوط تو وہی ہیں جو ’’ انشائے داغ‘‘ میں شامل تھے مگر سو خطوط نئی تحقیق کے بعد شامل کئے گئے ہیں۔یعنی مجموعی طور پر داغ دہلوی کے ۲۴۰ خطوط دستیاب ہوسکے ہیں، عین ممکن ہے خطوط کی تعداد اور زیادہ ہو مگر عدم دستیابی کی وجہ سے ۲۴۰ خطوط ہی ہمارے سامنے ہیں۔’خطوط داغ کے متعلق احسن مارہروی لکھتے ہیں:

’’مرحوم کی یہ عادت تھی کہ اپنے دست و قلم سے بہت کم خط لکھتے تھے…عام شاگردوں اور دوستوں کو زیادہ تر کسی حاضر باش شاگرد سے خط لکھوائے جاتے… خط بہت لمبے چوڑے نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان میں بہت مختصر اور چست فقرے قلم بند کیے جاتے تھے…‘‘

(بحوالہ:مکاتیب داغ،داغ دہلوی حیات و کارنامے ص ۱۴۹ )

داغ دہلوی کے خطوط کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ داغ دہلوی اوسطا ۱۰ سے ۱۵ خطوط روزانہ لکھتے یا لکھواتے تھے، اور یہ سلسلہ برسوں چلا۔مگر جب ان خطوط کو یکجا کیا گیا تو بہت سے خطوط دستیاب نہیں ہوسکے۔ حالانکہ مولانا احسن مارہروی نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک رجسٹر بنوالیا تھا جس پر خطوط کی روانگی نمبر وار درج ہوا کرتی تھی، یہ دستور بہت دنوں تک جاری بھی رہا، مگر بعد میں یہ سلسلہ بند ہوگیا۔داغ دہلوی کے تمام خطوط پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ، لہذا چند خطوط کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ان خطوط کے مطالعے سے داغ دہلوی کے عہد کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور اپنے شاگردوں کے کلام پر ان کی اصلاح کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے خطوط کے ذریعے بھی اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح دی ہے ۔ناطق کوتحریر کردہ ایک خط ملاحظہ کریں:

’’ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آپ ہر شعر میں کسی محاورے کا استعما ل کرتے ہیں اور بیشتر کامیابی کے ساتھ مگر اس کا لحاظ رکھیے کہ شعر کے لیے محاورہ آجائے۔ محاورہ کے لیے شعر میں سقم نہ آنے پائے اور یہ بھی خیال رہے کہ اس میں تصرف جائز نہیں۔ اگر آسانی کے ساتھ محاورہ بجنسہٰ بحر میں آجائے تو نظم کردیجیے، ورنہ نہیں اور اس کے لیے حضرت استاد مرحوم کے کلام پر غور کیجئے کہ انھوں نے کس بے ساختگی سے محاورات کو باندھا ہے۔‘‘

(انشائے داغ۔ مولانا احسن مارہروی۔ ص ۱۲۳: بحوالہ داغ حیات وخدمات)

(یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر )

اس خط کے مطالعے سے داغ کے یہاں موجود محاورہ بندی کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ محاورہ بندی ان کی سرشت میں فطری طور پر شامل تھی۔ داغ کی زبان دانی کا ہر کسی نے اعتراف کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کلام کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کے کلام کا بغور مطالعہ کرتے اور ان میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ایک خط ملاحظہ کریں:

’’آج وہ غزلیں بھی شاگردوں کی دیکھیں جن کی نقل آپ نے بھجوائی تھی اب تو ہر شخص بجائے خود استاد ہے۔ بجز ایک دو شخصوں کے اور سب غزلیں بے اصلاحی ہیں۔ آج میں نے دیکھ کر ان کو بھی بنادیا اس خط میں ملفوف کرکے بھیجتا ہوں۔ بارق اور برق کی غزل تو میں نے دیکھی تھی اور صاحبوں کو کارڈ لکھ کر اطلاع دے دیجئے کہ استاد اس بات سے ناراض ہوئے۔ ایک اشتہار اس گلدستے میں چھاپ دیجیے اکثر استاد کے شاگرد بجائے خود استاد بن کر اپنی غزلیں بے اصلاحی چھپوا دیتے ہیں، اس میں غلطیاں رہ جاتی ہیں…اسی مضمون کی نقل گلدستہ ٔ ارمغان میں بھیج دینا کہ وہاں بھی چھاپ دیں ۔ اہل انتخاب کا یہ فرض منصبی ہے کہ غلط کلام کو نہ چھاپیں۔‘‘

(زبان داغ۔ سید رفیق مارہروی۔ ص ۴۹۔۵۰)

اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ داغ کی نظر میں غیر اصلاح شاعری کا شائع ہوجانا کتنا تکلیف دہ تھا۔داغ دہلوی نے اپنے شاگردوں کے کلام پر صرف اصلاح نہیں دی، بلکہ غیر معیاری یا غیر اصلاح شدہ شاعری کے شائع ہوجانے پر اپنی سخت برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )

داغ دہلوی کے چند خطوط ایسے بھی ہیں جن میں دہلی کی بربادی کا اشارہ ملتا ہے، حالانکہ یہ اشارے دہلی کی بربادی کا ماتم نہیں ہیں۔بلکہ ان خطوط کو پڑھتے ہوئے داغ کے یہاں اپنے ایک کرم فرما کی مدد کا احساس ملتا ہے ۔ نواب یوسف علی کے نام ایک خط جو  ۱۸۶۰ کا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔

’’ یہاں[دہلی میں] ہزار ہا مکانات منہدم ہوئے، اگر حضور ارشاد فرمائیں تو سنگ مرمر اور سنگ باسی کے ستون بہ کفایت ہاتھ لگ سکتے ہیں اور چوکے سنگ مرمر… اور چوکے قابل میز اور چوکی کے بہ نسبت قیمت سابق کے ارزاں ہیں۔ اگر ارشاد ہو تو تلاش کر کے اس کا حال بھی لکھیں۔‘‘

(زبان داغ۔ ص ۲۹۱)

اسی قسم کا ایک خط اور بھی ہے جو انہوں نے ۱۸۸۱ میں نواب کلب علی خان کو لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ دو تعویذ سنگ مرمر کے ایسے دیکھے کہ ان کی خوبیاں بیان سے باہر ہیں،نہایت بڑے تعویذ ہیں اور سب آیات قرآنی کندہ ہیں۔یہ تعویذ مثل تعویذ شاہ جہاں و اکبر تصور کرنے چاہیئں۔ اگر قیمت بن جائے گی تو ضرور لیے جائیں گے نایاب شئے ہے…‘‘       (زبان داغ۔ ص ۲۴۸)

مذکورہ دونوں خطوط اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ داغ دہلوی کے مزاج میں نوابین کی خیر خواہی کا جذبہ پوری طرح حاوی تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کرم فرماؤں کو خوش کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ان دونوں خطوط کے مطالعے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نایاب اور نادر اشیا کی تلاش و جستجو میں رہتے اور جب بھی کوئی ایسی بیش قیمتی چیز ان کی نظر میں آجاتی وہ فورا اس کی اطلاع اپنے کرم فرما نوابین تک پہنچا دیتے۔ان خطوط کے مطالعہ سے ایسی بات کا انکشاف ہوتا ہے جس سے یقینا بہت سے لوگ ناواقف ہوں گے۔خطوط کے ان جملوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کی بربادی اور تخریب کاری کئی ریاستوں کی تعمیرکی بنیاد کو مستحکم بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہورہی تھیں۔پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون ’’ مکاتیب داغ‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نوابین رام پور سے داغ کے خطوط کا یہ سلسلہ کوئی ۲۶ برس تک جارہی رہا مگربقول مضمون نگار ایک بھی خط ایسا نہیں ملا جس میں داغ نے نوابین رام پور سے کسی معاوضہ یا مالی مدد کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔یہ بات قابل حیرت اس لیے ہے کہ جن دنوں داغ اور نوابین رام پور کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ چل رہا تھا ان دنوں داغ کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی۔اس سلسلے میں یہ خط ملاحظہ کریں:

’’…گرامی نامہ آیا۔ آنکھوں سے لگایا۔ خط جو کھول کر دیکھا تو نہ نوٹ پایا نہ ہنڈی، کل دار علیہ السلام عجیب چیز ہے۔ بالفعل داغ کلکتے جانے والا ہے ایک ہزار تو ادھرکو سرکائیے، دنیا میں جو کوئی رئیس ہوتا ہے بے اختیاری میں یہی لوازمات ریاست اور مستحقاق کا خیال رکھتا ہے۔یہ ریاست ہی نئی دیکھی۔ میرا باپ بھی رئیس تھا اور بھی ریاستیں دیکھیں، بادشاہت بھی دیکھی، تعلقہ داروں کو بھی دیکھا۔ یہ بات کہیں نہیں دیکھی اور نہ یہ استادی شاگردی دیکھی۔‘‘

(زبان داغ ۔ ص ۲۵۲)

یہ خط داغ دہلوی نے اپنے ایک شاگرد اور اس وقت کے مہاراجہ ہرکشن بہادر بیدار کو لکھا تھا۔ اس خط میں داغ کا لہجہ بے تکلفانہ نظر آتا ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ داغ کو سب سے زیادہ مالی دشواری کا سامنا قیام حیدر آباد کے زمانے میں ہوا ،اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ داغ کی آمدنی کے تمام وسائل  ختم ہوچکے تھے، وہ ریاست حیدرآباد میں اپنی امیدواری پیش کرچکے تھے ، ان کا انتخاب بھی ہوچکا تھا مگر ریاست کی جانب سے مالی امداد جاری نہیں کی گئی تھی،دوسری طرف حیدرآباد ان کے لیے نئی جگہ تھی وہ وہاں کسی سے قرض لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ،کہ بنا پہچان کے بھلا کوئی مدد ہی کیوں کرتا،لہذا داغ کی مالی حالت بدتر ہوتی چلی گئی۔ داغ کے کچھ خطوط ایسے ہیں جن میں ان کی مالی دشواری کا ذکر نظر آتا ہے۔ اپنی مالی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک شاگرد کنور اعتماد علی خان کولکھتے ہیں:

’’آج آپ کا خط تار کے جواب میں آیا، اطمینان ہوا۔ ماہ مئی تک سو روپیہ ماہوار میرے پاس، پچاس روپیہ ماہوار اپنی استانی کے پاس بطور قرض اگر آپ  عنایت کیے جائیں تو عین نوازش ہے۔‘‘   (زبان داغ۔ ص ۱۷۴)

اسی خط کے آخری حصے میں اپنے ایک معاون  اور مددگار کے متعلق داغ لکھتے ہیں:

’’دلّی چاندنی چوک میں شمبھو ناتھ ایک بزاز مشہور ہے۔ قریب دو ہزار روپیہ کے اس کا دینا ہے۔ اس نے بڑا احسان کیا، عند الطلب وقتا فوقتا بغیر دستاویز کے بھیجتا رہا، اب وہ بر سر فساد ہے۔ کسی طرح سے چار مہینے تک اس کو سمجھا کر روکنا چاہیے، میری تحریر پر وہ عمل نہیں کرتا، تمہاری استانی کا خط جو گھر سے آیا بڑی پریشانی لکھی اور شمبھوناتھ کے تقاضۂ شدید پر گھبرا گیا۔ کچھ بن نہ آیا تو آپ کو لکھا گیا۔‘‘

(زبان داغ۔ ص۱۷۶۔ ۱۷۵)

کنور اعتماد علی خان سعد آباد کا شمار معروف رئیس الوقت میں ہوتا تھا، وہ داغ کے شاگرد بھی تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کنور اعتماد علی خان سے مالی مدد کی گزارش کی۔داغ کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے کرم فرماؤں کا احسان یاد بھی رکھتے اور وقتا فوقتا اس کا ذکر بھی کرتے۔کنور اعتماد علی خان کو لکھے ایک خط میں وہ اس بات کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے داغ کی مدد کی۔ (یہ بھی پڑھیں علامہ جمیل مظہری کی سلام نگاری – ڈاکٹر نوشاد منظر)

’’آپ نے وقتا فوقتا جو میرا خیال رکھا اور مجھے فکروں سے نجات دی، اس کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ آپ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا…‘‘

(زبان داغ۔ ص ۱۷۹)

داغ کے خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون جو  ’’داغ: حیات و خدمات ‘‘میں شامل ہے، لکھا ہے کہ داغ کے وہ خطوط زیادہ اہم ہیں جن میں انہوں نے امور نفسی اور واردات قلبی کا اظہار کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ دراصل یہی وہ خطوط ہیں جن میں’خون جگر‘ کی آمیزش نظر آتی ہے۔ان میں وہ خطوط شامل ہیں جسے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں اور محبوب کو لکھے ہیں۔ایک خط ملاحظہ کریں:

’’ستم گر و ستم پیشہ! شوق ملاقات کے بعد مدعا نگار کہ تم دو روز سے نواب صاحب کے یہاں تھیں،یہاں دل پر عجیب عالم گزر گیا، میں نہیں مانوں گا کہ تم مجبور ہوگئیں اس ریاست میں ایسی بھی خدا کی بندیاں موجود ہیں کہ رئیس کے ہزار دباؤ پر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتیں، جن سے واسطہ ہے اور جن سے وفاداری کا عہد کرچکی ہیں، اپنے قول پر قائم ہیں۔ ایک طرف دولت ہے ، ریاست ہے اور ہر طرح کی شان و شوکت لیکن محبت کا نام وہاں عنقا رکھا گیا ہے، تمہارا دل دادہ ان کے مقابلے میں کوئی خوبی نہیں رکھتا مگر تمہاری الفت میں جان سے ضرور گزر سکتا ہے کیا میرے رقیب بھی ایسا کرسکتے ہیں، تم کو یقین ہے اور جب نہیں کرسکتے تو پھر کس لیے تم داغ سے پرستار کو محو کئے ہوئے ہو۔ دل پر جبر کرکے لکھتا ہوں کہ اگر قطعی ترک تعلق منظور و پسند نہیں تو پھر مجھے دید و شنید سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو ‘‘

(زبان داغ۔ ص ۱۸۳)

مذکورہ بالا خط منی بائی کے نام لکھا گیا ہے۔ منی بائی کلکتہ کی رہنے والی ایک طوائف تھیں، شاعری بھی کرتی تھیں اور اپنا تخلص حجاب استعمال کیا کرتی تھیں۔ان کا ایک بند دیکھئے:

امرد شوار تھا اس گھر میں رسائی میری

کشش دل نے پتہ ٹھیک بتایا تیرا

آج وہ مجھ سے سر بزم ادا سے بولے

تو شناسا ہے میرا میں ہوں شناسا تیرا

بزم دل دار میں اغیار کا مجمع ہے حجاب

قصد کیا دل میں ہے اب کیا ہے ارادہ تیرا

اس خط میں محبوب سے شکایت بھی نظر آتی ہے اور اپنی محبت کا دعوی بھی۔داغ دہلوی سے  منی بائی کے معاشقے کے کئی قصے ہیں ۔ اس معاشقے کے متعلق سید رفیق مارہروی نے لکھا ہے کہ منی بائی جب کلکتہ سے رام پور آئیں اور نواب حیدر علی خان کی مہمان ہوئیں تو ان کے قدردانوں بلکہ رقیبوں کی رقابت سے واسطہ پڑا، داغ کو محبوب کے جور و ستم اور احباب کے طعنے بھی برداشت کرنا پڑے۔حجاب جب واپس کلکتہ چلی گئیں تو داغ پر اپنا ایک ایسا نقش چھوڑ گئیں جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔سید رفیق مارہروی نے لکھا ہے کہ داغ کی مثنوی’’ مثنوی فریاد داغ‘‘کا پس منظر منی بائی حجاب کے اسی عشق و محبت اور جور و ستم کا نتیجہ ہے۔منی بائی حجاب کو لکھا گیا ایک خط اور ملاحظہ کریں:

’’دشمن جانی! سلام شوق، عین انتظار میں تمہارا محبت نامہ دستیاب ہوا ، کئی بار پڑھا، آنکھوں سے چوما اور  چھاتی پر دھرا رہا۔ تم لکھتی ہو کہ مجھے بھول جاؤ اور اگر نہ بھولو تو بدل جاؤ، یہ کرلوگے جب ہی تمہارے پاس آؤں گی خوب  تم کو بھول جاؤں :

تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ

نادان کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم

(زبان داغ۔ ص ۱۸۲)

داغ کے کئی معاشقے کا ذکر ملتا ہے حالانکہ جو خطوط دستیاب ہیں ان کے مطالعے سے چار معاشقے کا علم ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں داغ کے چار خطوط محبوب کے نام ملتے ہیں۔داغ کے خطوط میں مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی ہے حالانکہ زیادہ تر خطوط ایسے ہیں جن میں وہ اپنی ذاتی زندگی بلکہ مسائل پر اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں۔

بہرکیف! داغ دہلوی کے خطوط کے مطالعے سے ہمیں کوئی ادبی مسائل پر گفتگو کے نشانات تو نہیں ملتے ہاں اتنا ضرور ہے کہ شاعری اور زبان کے تعلق سے ان کے نظریات کی ایک شکل ضرور ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔خطوط داغ کے متعلق تمکین کاظمی لکھتے ہیں:

’’داغ کے یہ خطوط ان کی قوت عملی، بلندی اخلاق و کردار اور ان کی وضعداری و خودداری پر پوری پوری روشنی ڈالتے ہیں اور ان کی مواجہہ میں داغ کو صرف ایک شاعر سمجھنے والا بھی ان کی زبان دانی اور انشا پردازی کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘  (زبان داغ، ص ۹)

تمکین کاظمی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا اطلاق داغ کی شاعری پر کیا جاسکتا ہے، ان کی نثر پر یہ بات صادق نہیں آتی۔داغ کی نثر کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے کیا ہے وہ بڑی حد تک داغ کی نثر پر صادق نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’شاعری کے کوچے سے باہر قدم رکھتے ہیں تو بے مزہ ہوجاتے ہیں۔ یہ عدم توجہی، بے فکری اور عجلت کا نتیجہ تھا کہ اردو کے اس صاحب طرز شاعر اور زبان کے پارکھ بلکہ محاورہ و روز مرّہ کی روایت کے پاسبان کے مکاتیب میں کوئی ادبی شان پیدا نہ ہوسکی۔ ان میں نہ روز مرّہ کی چاشنی نظر آتی ہے نہ محاورات کی برجستگی، نہ ندرت ادا کی کوئی اور خوبی، بلکہ اکثر مقامات پر زبان و بیان کی ناہمواریا ںاور اغلاط نظر آتی ہیں۔‘‘

(مکاتیب داغ۔ پروفیسر عتیق احمد صدیقی۔ داغ: حیات و خدمات، ص۱۵۲۔ ۱۵۱)

مکاتیب داغ میں زبان و بیان کی جس کمی کا احساس ہوتا ہے اس کی اصل وجہ ہمارے اذہان پر خطوط غالب کا نقش ہے۔خطوط غالب کا موازنہ خطوط داغ سے کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ داغ نے جس زمانے میں یہ خطوط لکھے اس وقت غالب کے خطوط منظر عام پر آچکے  تھے ، ساتھ ہی سرسید اور ان کے رفقا ئے کار کی نثری تحریر بھی موجود تھی جسے داغ بطور نمونہ دیکھ سکتے تھے اور اس کی پیروی بھی کرسکتے تھے۔مگر داغ کے خطوط کو پڑھتے ہوئے ایسا احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے ان نثری تصانیف سے کوئی استفادہ نہیں کیا ہے۔خود داغ نے شاعری کے لیے جس زبان کا استعمال کیا اگر اس کو وہ  نثر میں پیش کرتے تو یقینا اس کی اہمیت کچھ اور ہوتی۔داغ کی شاعری پر تو بہت کچھ لکھا گیا، ان کی تفہیم مختلف زاویے سے کی گئی مگر جہاں تک مکاتیب داغ کا تعلق ہے تو کہیں نہ کہیں یہ خطوط بے توجہی کا شکار ہوئے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر داغ جیسے بڑے اور اہم شاعر کی نثر کو توجہ کے ساتھ دیکھنے اور اس پر گفتگو کی ضرورت ضرور معلوم ہوتی ہے۔

داغ ہی کے دم سے تھا لطف سخن

خوش بیانی کا مزا جاتا رہا

٭٭٭

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

naushad manzarخطوط داغداغ دہلوینوشاد منظر
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
احمد جمال پاشا کی انشائیہ نگاری – شفیع احمد
اگلی پوسٹ
ابن صفی عہد رفتہ سے عصر حاضر تک – ایس ایم حسینی

یہ بھی پڑھیں

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم...

دسمبر 14, 2024

شبلی کا مشن اور یوم شبلی کی معنویت – محمد...

نومبر 24, 2024

تھوک بھی ایک نعمت ہے!! – عبدالودود انصاری

نومبر 19, 2024

اردو میں غیر زبانوں کے الفاظ  – شمس...

نومبر 9, 2024

غربت  و معاشی پسماندگی کا علاج اسلامی نقطہ...

مئی 6, 2024

رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

دسمبر 30, 2023

اقبال ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

نومبر 7, 2023

طائر بامِ فکر و فن : ڈاکٹر دبیر...

نومبر 3, 2023

جدید معاشرے اور طلباء کے لیے ادب (...

ستمبر 28, 2023

موبائل فون ایڈکشن اور بچوں کا مستقبل –...

اگست 30, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,124)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں