فصیح الملک نواب مرزا داغ دہلوی کی حیات و شخصیت کو ان کی شاعری کے حوالے سے پڑھا اور دیکھا جاتا رہا ہے ، مگر ان کی شخصیت کی ایک اہم جہت ان کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح کے لیے لکھے ، بعض خطوط اپنے دوستوں، نوابین اور امرا کو لکھے۔ان خطوط کو پہلی بار یکجا کر شائع کرنے کا بڑا کارنامہ داغ کے شاگرد مولانا احسن مارہروی نے انجام دیا، مولانا احسن مارہروی نے داغ کے ان خطوط کو’’ انشائے داغ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ،جسے انجمن ترقی اردو نے ۱۹۴۱ میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں داغ کے تمام خطوط شامل نہیں تھے ،بلکہ مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ کے مقدمے میں داغ کے کچھ نہایت اہم خطوط کا ذکر تو کیا تھا مگراس کے نیست و نابود ہوجانے کا خدشہ بھی جتایا تھا۔(بحوالہ : عرض مرتب، زبان داغ، سید رفیق مارہروی)
۱۹۴۷ کے فسادات میں انجمن ترقی اردو کے دفتر کو نذر آتش کردیاگیاتھا، جس کا سب سے بڑا علمی خسارہ یہ ہوا کہ اردو کی نہایت اہم کتابیں اس آگ زنی میں خاکستر ہوگئیں، ان اہم کتابوں میں داغ کے خطوط کا وہ مجموعہ بھی شامل تھا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔سید رفیق مارہروی نے داغ کے ان خطوط کی بازیافت کی جس کی عدم دستیابی کا ذکر ان کے والد اور داغ کے شاگرد رشید مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ میں کیا تھا۔سید رفیق مارہروی نے خود اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ’’زبان داغ‘‘ میں شامل ۱۴۰ خطوط تو وہی ہیں جو ’’ انشائے داغ‘‘ میں شامل تھے مگر سو خطوط نئی تحقیق کے بعد شامل کئے گئے ہیں۔یعنی مجموعی طور پر داغ دہلوی کے ۲۴۰ خطوط دستیاب ہوسکے ہیں، عین ممکن ہے خطوط کی تعداد اور زیادہ ہو مگر عدم دستیابی کی وجہ سے ۲۴۰ خطوط ہی ہمارے سامنے ہیں۔’خطوط داغ کے متعلق احسن مارہروی لکھتے ہیں:
’’مرحوم کی یہ عادت تھی کہ اپنے دست و قلم سے بہت کم خط لکھتے تھے…عام شاگردوں اور دوستوں کو زیادہ تر کسی حاضر باش شاگرد سے خط لکھوائے جاتے… خط بہت لمبے چوڑے نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان میں بہت مختصر اور چست فقرے قلم بند کیے جاتے تھے…‘‘
(بحوالہ:مکاتیب داغ،داغ دہلوی حیات و کارنامے ص ۱۴۹ )
داغ دہلوی کے خطوط کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، مولانا احسن مارہروی نے ’’انشائے داغ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ داغ دہلوی اوسطا ۱۰ سے ۱۵ خطوط روزانہ لکھتے یا لکھواتے تھے، اور یہ سلسلہ برسوں چلا۔مگر جب ان خطوط کو یکجا کیا گیا تو بہت سے خطوط دستیاب نہیں ہوسکے۔ حالانکہ مولانا احسن مارہروی نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک رجسٹر بنوالیا تھا جس پر خطوط کی روانگی نمبر وار درج ہوا کرتی تھی، یہ دستور بہت دنوں تک جاری بھی رہا، مگر بعد میں یہ سلسلہ بند ہوگیا۔داغ دہلوی کے تمام خطوط پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ، لہذا چند خطوط کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ان خطوط کے مطالعے سے داغ دہلوی کے عہد کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور اپنے شاگردوں کے کلام پر ان کی اصلاح کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے خطوط کے ذریعے بھی اپنے شاگردوں کے کلام پر اصلاح دی ہے ۔ناطق کوتحریر کردہ ایک خط ملاحظہ کریں:
’’ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آپ ہر شعر میں کسی محاورے کا استعما ل کرتے ہیں اور بیشتر کامیابی کے ساتھ مگر اس کا لحاظ رکھیے کہ شعر کے لیے محاورہ آجائے۔ محاورہ کے لیے شعر میں سقم نہ آنے پائے اور یہ بھی خیال رہے کہ اس میں تصرف جائز نہیں۔ اگر آسانی کے ساتھ محاورہ بجنسہٰ بحر میں آجائے تو نظم کردیجیے، ورنہ نہیں اور اس کے لیے حضرت استاد مرحوم کے کلام پر غور کیجئے کہ انھوں نے کس بے ساختگی سے محاورات کو باندھا ہے۔‘‘
(انشائے داغ۔ مولانا احسن مارہروی۔ ص ۱۲۳: بحوالہ داغ حیات وخدمات)
(یہ بھی پڑھیں حکیم آغا جان عیش کی غزل گوئی۔ ڈاکٹر نوشاد منظر )
اس خط کے مطالعے سے داغ کے یہاں موجود محاورہ بندی کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ محاورہ بندی ان کی سرشت میں فطری طور پر شامل تھی۔ داغ کی زبان دانی کا ہر کسی نے اعتراف کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کلام کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کے کلام کا بغور مطالعہ کرتے اور ان میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ایک خط ملاحظہ کریں:
’’آج وہ غزلیں بھی شاگردوں کی دیکھیں جن کی نقل آپ نے بھجوائی تھی اب تو ہر شخص بجائے خود استاد ہے۔ بجز ایک دو شخصوں کے اور سب غزلیں بے اصلاحی ہیں۔ آج میں نے دیکھ کر ان کو بھی بنادیا اس خط میں ملفوف کرکے بھیجتا ہوں۔ بارق اور برق کی غزل تو میں نے دیکھی تھی اور صاحبوں کو کارڈ لکھ کر اطلاع دے دیجئے کہ استاد اس بات سے ناراض ہوئے۔ ایک اشتہار اس گلدستے میں چھاپ دیجیے اکثر استاد کے شاگرد بجائے خود استاد بن کر اپنی غزلیں بے اصلاحی چھپوا دیتے ہیں، اس میں غلطیاں رہ جاتی ہیں…اسی مضمون کی نقل گلدستہ ٔ ارمغان میں بھیج دینا کہ وہاں بھی چھاپ دیں ۔ اہل انتخاب کا یہ فرض منصبی ہے کہ غلط کلام کو نہ چھاپیں۔‘‘
(زبان داغ۔ سید رفیق مارہروی۔ ص ۴۹۔۵۰)
اس خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ داغ کی نظر میں غیر اصلاح شاعری کا شائع ہوجانا کتنا تکلیف دہ تھا۔داغ دہلوی نے اپنے شاگردوں کے کلام پر صرف اصلاح نہیں دی، بلکہ غیر معیاری یا غیر اصلاح شدہ شاعری کے شائع ہوجانے پر اپنی سخت برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )
داغ دہلوی کے چند خطوط ایسے بھی ہیں جن میں دہلی کی بربادی کا اشارہ ملتا ہے، حالانکہ یہ اشارے دہلی کی بربادی کا ماتم نہیں ہیں۔بلکہ ان خطوط کو پڑھتے ہوئے داغ کے یہاں اپنے ایک کرم فرما کی مدد کا احساس ملتا ہے ۔ نواب یوسف علی کے نام ایک خط جو ۱۸۶۰ کا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔
’’ یہاں[دہلی میں] ہزار ہا مکانات منہدم ہوئے، اگر حضور ارشاد فرمائیں تو سنگ مرمر اور سنگ باسی کے ستون بہ کفایت ہاتھ لگ سکتے ہیں اور چوکے سنگ مرمر… اور چوکے قابل میز اور چوکی کے بہ نسبت قیمت سابق کے ارزاں ہیں۔ اگر ارشاد ہو تو تلاش کر کے اس کا حال بھی لکھیں۔‘‘
(زبان داغ۔ ص ۲۹۱)
اسی قسم کا ایک خط اور بھی ہے جو انہوں نے ۱۸۸۱ میں نواب کلب علی خان کو لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ دو تعویذ سنگ مرمر کے ایسے دیکھے کہ ان کی خوبیاں بیان سے باہر ہیں،نہایت بڑے تعویذ ہیں اور سب آیات قرآنی کندہ ہیں۔یہ تعویذ مثل تعویذ شاہ جہاں و اکبر تصور کرنے چاہیئں۔ اگر قیمت بن جائے گی تو ضرور لیے جائیں گے نایاب شئے ہے…‘‘ (زبان داغ۔ ص ۲۴۸)
مذکورہ دونوں خطوط اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ داغ دہلوی کے مزاج میں نوابین کی خیر خواہی کا جذبہ پوری طرح حاوی تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کرم فرماؤں کو خوش کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ان دونوں خطوط کے مطالعے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نایاب اور نادر اشیا کی تلاش و جستجو میں رہتے اور جب بھی کوئی ایسی بیش قیمتی چیز ان کی نظر میں آجاتی وہ فورا اس کی اطلاع اپنے کرم فرما نوابین تک پہنچا دیتے۔ان خطوط کے مطالعہ سے ایسی بات کا انکشاف ہوتا ہے جس سے یقینا بہت سے لوگ ناواقف ہوں گے۔خطوط کے ان جملوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کی بربادی اور تخریب کاری کئی ریاستوں کی تعمیرکی بنیاد کو مستحکم بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہورہی تھیں۔پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون ’’ مکاتیب داغ‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نوابین رام پور سے داغ کے خطوط کا یہ سلسلہ کوئی ۲۶ برس تک جارہی رہا مگربقول مضمون نگار ایک بھی خط ایسا نہیں ملا جس میں داغ نے نوابین رام پور سے کسی معاوضہ یا مالی مدد کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔یہ بات قابل حیرت اس لیے ہے کہ جن دنوں داغ اور نوابین رام پور کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ چل رہا تھا ان دنوں داغ کی مالی حالت ناگفتہ بہ تھی۔اس سلسلے میں یہ خط ملاحظہ کریں:
’’…گرامی نامہ آیا۔ آنکھوں سے لگایا۔ خط جو کھول کر دیکھا تو نہ نوٹ پایا نہ ہنڈی، کل دار علیہ السلام عجیب چیز ہے۔ بالفعل داغ کلکتے جانے والا ہے ایک ہزار تو ادھرکو سرکائیے، دنیا میں جو کوئی رئیس ہوتا ہے بے اختیاری میں یہی لوازمات ریاست اور مستحقاق کا خیال رکھتا ہے۔یہ ریاست ہی نئی دیکھی۔ میرا باپ بھی رئیس تھا اور بھی ریاستیں دیکھیں، بادشاہت بھی دیکھی، تعلقہ داروں کو بھی دیکھا۔ یہ بات کہیں نہیں دیکھی اور نہ یہ استادی شاگردی دیکھی۔‘‘
(زبان داغ ۔ ص ۲۵۲)
یہ خط داغ دہلوی نے اپنے ایک شاگرد اور اس وقت کے مہاراجہ ہرکشن بہادر بیدار کو لکھا تھا۔ اس خط میں داغ کا لہجہ بے تکلفانہ نظر آتا ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ داغ کو سب سے زیادہ مالی دشواری کا سامنا قیام حیدر آباد کے زمانے میں ہوا ،اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ داغ کی آمدنی کے تمام وسائل ختم ہوچکے تھے، وہ ریاست حیدرآباد میں اپنی امیدواری پیش کرچکے تھے ، ان کا انتخاب بھی ہوچکا تھا مگر ریاست کی جانب سے مالی امداد جاری نہیں کی گئی تھی،دوسری طرف حیدرآباد ان کے لیے نئی جگہ تھی وہ وہاں کسی سے قرض لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ،کہ بنا پہچان کے بھلا کوئی مدد ہی کیوں کرتا،لہذا داغ کی مالی حالت بدتر ہوتی چلی گئی۔ داغ کے کچھ خطوط ایسے ہیں جن میں ان کی مالی دشواری کا ذکر نظر آتا ہے۔ اپنی مالی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک شاگرد کنور اعتماد علی خان کولکھتے ہیں:
’’آج آپ کا خط تار کے جواب میں آیا، اطمینان ہوا۔ ماہ مئی تک سو روپیہ ماہوار میرے پاس، پچاس روپیہ ماہوار اپنی استانی کے پاس بطور قرض اگر آپ عنایت کیے جائیں تو عین نوازش ہے۔‘‘ (زبان داغ۔ ص ۱۷۴)
اسی خط کے آخری حصے میں اپنے ایک معاون اور مددگار کے متعلق داغ لکھتے ہیں:
’’دلّی چاندنی چوک میں شمبھو ناتھ ایک بزاز مشہور ہے۔ قریب دو ہزار روپیہ کے اس کا دینا ہے۔ اس نے بڑا احسان کیا، عند الطلب وقتا فوقتا بغیر دستاویز کے بھیجتا رہا، اب وہ بر سر فساد ہے۔ کسی طرح سے چار مہینے تک اس کو سمجھا کر روکنا چاہیے، میری تحریر پر وہ عمل نہیں کرتا، تمہاری استانی کا خط جو گھر سے آیا بڑی پریشانی لکھی اور شمبھوناتھ کے تقاضۂ شدید پر گھبرا گیا۔ کچھ بن نہ آیا تو آپ کو لکھا گیا۔‘‘
(زبان داغ۔ ص۱۷۶۔ ۱۷۵)
کنور اعتماد علی خان سعد آباد کا شمار معروف رئیس الوقت میں ہوتا تھا، وہ داغ کے شاگرد بھی تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کنور اعتماد علی خان سے مالی مدد کی گزارش کی۔داغ کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے کرم فرماؤں کا احسان یاد بھی رکھتے اور وقتا فوقتا اس کا ذکر بھی کرتے۔کنور اعتماد علی خان کو لکھے ایک خط میں وہ اس بات کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے داغ کی مدد کی۔ (یہ بھی پڑھیں علامہ جمیل مظہری کی سلام نگاری – ڈاکٹر نوشاد منظر)
’’آپ نے وقتا فوقتا جو میرا خیال رکھا اور مجھے فکروں سے نجات دی، اس کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ آپ کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا…‘‘
(زبان داغ۔ ص ۱۷۹)
داغ کے خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون جو ’’داغ: حیات و خدمات ‘‘میں شامل ہے، لکھا ہے کہ داغ کے وہ خطوط زیادہ اہم ہیں جن میں انہوں نے امور نفسی اور واردات قلبی کا اظہار کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ دراصل یہی وہ خطوط ہیں جن میں’خون جگر‘ کی آمیزش نظر آتی ہے۔ان میں وہ خطوط شامل ہیں جسے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں اور محبوب کو لکھے ہیں۔ایک خط ملاحظہ کریں:
’’ستم گر و ستم پیشہ! شوق ملاقات کے بعد مدعا نگار کہ تم دو روز سے نواب صاحب کے یہاں تھیں،یہاں دل پر عجیب عالم گزر گیا، میں نہیں مانوں گا کہ تم مجبور ہوگئیں اس ریاست میں ایسی بھی خدا کی بندیاں موجود ہیں کہ رئیس کے ہزار دباؤ پر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتیں، جن سے واسطہ ہے اور جن سے وفاداری کا عہد کرچکی ہیں، اپنے قول پر قائم ہیں۔ ایک طرف دولت ہے ، ریاست ہے اور ہر طرح کی شان و شوکت لیکن محبت کا نام وہاں عنقا رکھا گیا ہے، تمہارا دل دادہ ان کے مقابلے میں کوئی خوبی نہیں رکھتا مگر تمہاری الفت میں جان سے ضرور گزر سکتا ہے کیا میرے رقیب بھی ایسا کرسکتے ہیں، تم کو یقین ہے اور جب نہیں کرسکتے تو پھر کس لیے تم داغ سے پرستار کو محو کئے ہوئے ہو۔ دل پر جبر کرکے لکھتا ہوں کہ اگر قطعی ترک تعلق منظور و پسند نہیں تو پھر مجھے دید و شنید سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو ‘‘
(زبان داغ۔ ص ۱۸۳)
مذکورہ بالا خط منی بائی کے نام لکھا گیا ہے۔ منی بائی کلکتہ کی رہنے والی ایک طوائف تھیں، شاعری بھی کرتی تھیں اور اپنا تخلص حجاب استعمال کیا کرتی تھیں۔ان کا ایک بند دیکھئے:
امرد شوار تھا اس گھر میں رسائی میری
کشش دل نے پتہ ٹھیک بتایا تیرا
آج وہ مجھ سے سر بزم ادا سے بولے
تو شناسا ہے میرا میں ہوں شناسا تیرا
بزم دل دار میں اغیار کا مجمع ہے حجاب
قصد کیا دل میں ہے اب کیا ہے ارادہ تیرا
اس خط میں محبوب سے شکایت بھی نظر آتی ہے اور اپنی محبت کا دعوی بھی۔داغ دہلوی سے منی بائی کے معاشقے کے کئی قصے ہیں ۔ اس معاشقے کے متعلق سید رفیق مارہروی نے لکھا ہے کہ منی بائی جب کلکتہ سے رام پور آئیں اور نواب حیدر علی خان کی مہمان ہوئیں تو ان کے قدردانوں بلکہ رقیبوں کی رقابت سے واسطہ پڑا، داغ کو محبوب کے جور و ستم اور احباب کے طعنے بھی برداشت کرنا پڑے۔حجاب جب واپس کلکتہ چلی گئیں تو داغ پر اپنا ایک ایسا نقش چھوڑ گئیں جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔سید رفیق مارہروی نے لکھا ہے کہ داغ کی مثنوی’’ مثنوی فریاد داغ‘‘کا پس منظر منی بائی حجاب کے اسی عشق و محبت اور جور و ستم کا نتیجہ ہے۔منی بائی حجاب کو لکھا گیا ایک خط اور ملاحظہ کریں:
’’دشمن جانی! سلام شوق، عین انتظار میں تمہارا محبت نامہ دستیاب ہوا ، کئی بار پڑھا، آنکھوں سے چوما اور چھاتی پر دھرا رہا۔ تم لکھتی ہو کہ مجھے بھول جاؤ اور اگر نہ بھولو تو بدل جاؤ، یہ کرلوگے جب ہی تمہارے پاس آؤں گی خوب تم کو بھول جاؤں :
تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ
نادان کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم
(زبان داغ۔ ص ۱۸۲)
داغ کے کئی معاشقے کا ذکر ملتا ہے حالانکہ جو خطوط دستیاب ہیں ان کے مطالعے سے چار معاشقے کا علم ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں داغ کے چار خطوط محبوب کے نام ملتے ہیں۔داغ کے خطوط میں مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی ہے حالانکہ زیادہ تر خطوط ایسے ہیں جن میں وہ اپنی ذاتی زندگی بلکہ مسائل پر اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں۔
بہرکیف! داغ دہلوی کے خطوط کے مطالعے سے ہمیں کوئی ادبی مسائل پر گفتگو کے نشانات تو نہیں ملتے ہاں اتنا ضرور ہے کہ شاعری اور زبان کے تعلق سے ان کے نظریات کی ایک شکل ضرور ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔خطوط داغ کے متعلق تمکین کاظمی لکھتے ہیں:
’’داغ کے یہ خطوط ان کی قوت عملی، بلندی اخلاق و کردار اور ان کی وضعداری و خودداری پر پوری پوری روشنی ڈالتے ہیں اور ان کی مواجہہ میں داغ کو صرف ایک شاعر سمجھنے والا بھی ان کی زبان دانی اور انشا پردازی کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ (زبان داغ، ص ۹)
تمکین کاظمی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا اطلاق داغ کی شاعری پر کیا جاسکتا ہے، ان کی نثر پر یہ بات صادق نہیں آتی۔داغ کی نثر کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار پروفیسر عتیق احمد صدیقی نے کیا ہے وہ بڑی حد تک داغ کی نثر پر صادق نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شاعری کے کوچے سے باہر قدم رکھتے ہیں تو بے مزہ ہوجاتے ہیں۔ یہ عدم توجہی، بے فکری اور عجلت کا نتیجہ تھا کہ اردو کے اس صاحب طرز شاعر اور زبان کے پارکھ بلکہ محاورہ و روز مرّہ کی روایت کے پاسبان کے مکاتیب میں کوئی ادبی شان پیدا نہ ہوسکی۔ ان میں نہ روز مرّہ کی چاشنی نظر آتی ہے نہ محاورات کی برجستگی، نہ ندرت ادا کی کوئی اور خوبی، بلکہ اکثر مقامات پر زبان و بیان کی ناہمواریا ںاور اغلاط نظر آتی ہیں۔‘‘
(مکاتیب داغ۔ پروفیسر عتیق احمد صدیقی۔ داغ: حیات و خدمات، ص۱۵۲۔ ۱۵۱)
مکاتیب داغ میں زبان و بیان کی جس کمی کا احساس ہوتا ہے اس کی اصل وجہ ہمارے اذہان پر خطوط غالب کا نقش ہے۔خطوط غالب کا موازنہ خطوط داغ سے کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ داغ نے جس زمانے میں یہ خطوط لکھے اس وقت غالب کے خطوط منظر عام پر آچکے تھے ، ساتھ ہی سرسید اور ان کے رفقا ئے کار کی نثری تحریر بھی موجود تھی جسے داغ بطور نمونہ دیکھ سکتے تھے اور اس کی پیروی بھی کرسکتے تھے۔مگر داغ کے خطوط کو پڑھتے ہوئے ایسا احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے ان نثری تصانیف سے کوئی استفادہ نہیں کیا ہے۔خود داغ نے شاعری کے لیے جس زبان کا استعمال کیا اگر اس کو وہ نثر میں پیش کرتے تو یقینا اس کی اہمیت کچھ اور ہوتی۔داغ کی شاعری پر تو بہت کچھ لکھا گیا، ان کی تفہیم مختلف زاویے سے کی گئی مگر جہاں تک مکاتیب داغ کا تعلق ہے تو کہیں نہ کہیں یہ خطوط بے توجہی کا شکار ہوئے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر داغ جیسے بڑے اور اہم شاعر کی نثر کو توجہ کے ساتھ دیکھنے اور اس پر گفتگو کی ضرورت ضرور معلوم ہوتی ہے۔
داغ ہی کے دم سے تھا لطف سخن
خوش بیانی کا مزا جاتا رہا
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |