"رفعت گلستان سخن ” : ایک جائزہ – ڈاکٹر ریحان غنی
زود گو شاعروں میں حضرت نادم بلخی کا نام سر فہرست ہے۔ اب اس فہرست میں پروفیسر عبدالمنان طرزی کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ شاعری کی کوئی ایسی صنف نہیں ہے جس میں نادم بلخی نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ انہوں نے ہی جاپانی صنف شاعری ہائیکو کو اردو میں متعارف کرایا۔ انہیں غزل گوئی٬ نظم نگاری٬ رباعی گوئی٬ نعت گوئی٬ دوہا نگاری٬ ماہیا نگاری٬ سانیٹ نگاری٬ کہہ مکرنی گوئی اور تاریخ گوئی میں بھی مہارت حاصل تھی۔ انہوں نےمحقق و نقاد عروض داں مکتوب نگار اور سوانح نگار کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا اور جھارکھنڈ کے ڈالٹن گنج جیسے سنگلاخ علاقے میں ایک رسالہ ”کوئل“ نکال کر صحافی کی حیثیت سے بھی اپنی ایک شناخت بنائی۔ کہتے ہیں کہ اس سے قبل پلاموں کی سرزمین سے اردو کا کوئی ادبی رسالہ شائع نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے اس رسالے کا نام مقامی کوئل ندی کے نام پر رکھا تھا۔ اب ان کے شعری سرمائے کو جو مطبوعہ شکل میں ہیں۔ ان کے لائق و فائق فرزند برادر محترم ڈاکٹر مظفر بلخی(کنڈ محلہ، ڈالٹن گنج، پلاموں) نے یکجا کر کے”کلیات” کی شکل میں "رفعت گلستان سخن "کے نام سےشایع کیا ہے. ان کا پیہم اصرار تھا کہ میں ان کے والد سے بہت قریب تھا اس لئے میں بھی ان کے تعلق سے کچھ لکھوں۔ اردو ادب میں میری کیا حیثیت ہے اس سے میں اچھی طرح واقف ہوں اس لئے میں ٹالتا رہا۔ لیکن انہوں نے میرے "بے ترتیب” ذہن کو ترتیب دینے کے لئے ایک ایسے شاعر کو لگا دیا جن کا مجموعہ کلام "بے تر تیب” ہے۔ اب یہ حضرت بھی میرا امتحان لینے کے لئے میرے پیچھے پڑ گئے۔ اب میرے لئے فرار کا راستہ مشکل ہو گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق قلم کاغذ لے کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ کمپیوٹر کے اس دور میں لوگوں کاتعلق قلم اور کاغذ سے تقریباً ختم ہو گیا ہے اور ان کا ہاتھ اب صرف "کی بورڈ” پر ہی چلتا ہے۔ لیکن اللّہ کا شکر ہے کہ کاغذ اور قلم سے میرا رشتہ ابھی برقرار ہے۔ کی بورڈ پر میری انگلی نہین چلتی۔ اس طویل تمہیدی گفتگو کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ اب حضرت نادم بلخی اور برادر بزرگ ڈاکٹر مظفر بلخی کی ترتیب کردہ کلیات”رفعت گلستان سخن "کے حوالے سے کچھ باتیں کی جائیں۔
مجھے حضرت نادم بلخی کو بہت قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور ان کی شاعری میں جو روایتی قدریں ملتی ہیں ان تک پہنچنے کا شرف حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری ادبی دنیا میں اعلیٰ سے ادنیٰ تک حضرت نادم بلخی سے واقف ہے۔ انہیں حسرت موہانی کی طرح چکی کی مشقت تو نہیں کرنی پڑی لیکن انہوں نے ڈالٹن گنج جیسے سنگلاخ علاقے میں رہ کر اردو زبان و ادب کی جس طرح خدمت کی اور اسے اپنے خون جگر سے سینچا اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ اس کلیات میں حضرت نادم بلخی کی غزلوں کے دو مجموعے”گلزار تغزل” اور "کشف تغزل”٬ آزاد غزلوں کا مجموعہ "پریت کی چاشنی” دوہا غزل "من موہکھ تصویریں” اور "شبدوں کی آواز”٬ کہہ مکرنیوں کا مجموعہ "پوچھ سکھی پوچھ ” ٬ ماہیہ کا مجموعہ "تروینی کا پانی” قطعہ تاریخ کا مجموعہ "آواز سروش” کو شامل کیا گیا ہے۔ آواز سروش میں آخری قطعہ تاریخ مشہور نقاد پروفیسر عبد المغنی کی وفات پر ہے۔ ان مجموعوں کے علاؤہ اس کلیات میں ہائکو کا مجموعہ "تر لوک” بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر مظفر بلخی کہتے ہیں کہ حضرت نادم بلخی کی نظموں کا بھی ایک مجموعہ تھا جو نا معلوم کہاں لا پتہ ہو گیا۔
حضرت نادم بلخی کا پہلا مجموعہ "آغاز سحر” 1961 میں اور آ خری مجموعہ "ترلوک” غالباً 1995 میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ "ذوق سفر” ہے جو 1979 میں منظر عام پر آیا۔ بچوں کے لئے نظموں٬ رباعیات اور منظوم پہیلیوں کا مجموعہ "تحفے” 1985 میں، غزلوں کا مجموعہ 1986 میں اور رباعیات کا مجموعہ” نقطوں کا حصار” 1988 میں شائع ہوا۔ ان مجموعوں کے علاوہ دوہوں کا مجموعہ "جیون درشن” 1989 میں نعتیہ سانیٹ کا مجموعہ”چودہ طبق” 1989 میں، تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ "شعاع نقد” 1993 میں، دوہوں کا دوسرا مجموعہ "میٹھی میٹھی بولیاں 1994 میں اور نعتیہ غزلوں کا مجموعہ”ضیائے عرفان” 1994 میں منظر عام پر آیا۔ حضرت نادم بلخی کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے ڈاکٹر مظفر بلخی نے ان کی رباعی کا مجموعہ "نکات اربع”، "اعجاز تغزل” (دیوان) اور عروض کی کتاب "تفہیم العروض” شائع کرایا۔
حضرت نادم بلخی کی دو نظمیں "ہو جائیں تیار” اور "لاش بولی ذکی انور کی” کافی مشہور ہوئ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ "ہو جائیں تیار” 1962 میں چین کے حملے کے بعد لکھی گئ جسے آل انڈیا ریڈیو سے بار بار نشر کیا گیا۔ حضرت نادم بلخی حالانکہ زود گو شاعر تھے لیکن فن پر ان کی بہت گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے معیار کے تعلق سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نئی نسل نے ان کے شعری اوصاف کو قبول کیا۔ ان کے بے شمار شاگرد ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت نادم بلخی بہار میں اردو شاعری کے آبرو تھے۔
حضرت نادم بلخی اپنے وقت کے ایسے خوش قسمت شاعر تھے جن کی شخصیت اور شاعری پر ان کی زندگی میں ہی بہت کچھ لکھا گیا۔ بہت سے رسائل نے نمبر نکالے اور ان پر کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ آ ج سے تقریباً 16 سال قبل ممتاز ناقد اور ادیب ڈاکٹر سید حسن عباس نے 498 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شایع کی تھی جس میں تقریباً 87 مشاہیر ادب اور دانشوران علم وادب نے حضرتِ نادم بلخی کی شخصیت کے مختلف گوشوں اور ان کے فن کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس کتاب میں ایک انٹرویو بھی شامل ہے جو میں نے اخبار کے لئے لیا تھا۔ میں نے اس انٹرویو میں ان سے ادب میں موجودہ رجحان کے تعلق سے بھی ایک سوال کیا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت نادم بلخی نے کہا تھا کہ
"زوال ترقی پسند تحریک کے بعد 1960میں جو ہوا چلی اس نے اردو ادب میں جدیدیت کو فروغ دیا۔ لیکن جدیدیت کے صحیح مفہوم کیا ہیں اس سے بہت سارے فنکار روشناس نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پرانے ڈکشن اور نئے ڈکشن کو فروغ دینا انہوں نے اہم تو سمجھا لیکن پیشکش میں اکثرو بیشتر فنکار بے راہ روی کے شکار ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر ادب کی جمالیاتی قدروں کو نقصان پہنچا۔ بہت ساری ایسی تخلیقات منظر عام پر آ ئیں جو چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئیں۔ علامت نگاری بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گئی۔ لیکن ادھر کئ برسوں کے اندر جو تخلیقات منظر عام پر آ رہی ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صراط مستقیم اپنانے کا فنکاروں کے دلوں میں احساس پیدا ہوا ہے۔ یہ قابل ذکر بات ہے اور اس سے مستقبل کی ا چھی امید وابستہ ہے۔ (ذکر نادم بلخی از ڈاکٹر سید حسن عباس صفحہ 478)
یہ کلیات حضرت نادم بلخی کی معیاری شاعری کا ایسا سمندر ہے جس سے موتی نکالنے کے لئے غوطہ لگانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات اور قربانیوں کو قبول کرے آمین۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |