رخشندہ جلیل اردو زبان و ادب سے رغبت رکھنے والے انگریزی داں طبقہ میں اردو کی سفیر کی طرح ہیں۔ ادبی ترجمہ ان کا بنیادی شغل اور دلچسپی کا محور ہے اور اس حوالے سے اہم کارنامے انجام دئے ہیں۔ ان میں انتظار حسین اور دیگر معاصر ادیبوں کے افسانے بھی شامل ہیں اور شہریار جیسے شاعروں کا کلام بھی۔ اس کے علاوہ اردو ادب کے حوالے سے دلچسپ کالم بھی انگریزی اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ موصوفہ سے واقفیت سالہا سال سے ہے اور یہ آشنائی غالباً مجاز کے حوالے سے ایک تقریب کے سلسلے میں ہوئی، جس میں ہم سب شامل تھے۔ ہمارے ایک مشترک بزرگ دوست اکھلیش متھل کے توسط سے، جو اب مدت ہوئی آسمانی ہوچکے، لیکن ان گرم گفتاری کی یادیں ذہن و دل میں روشن ہیں۔ وہ انھیں "بنڈل آف انرزی” کہا کرتے تھے اور بجا کہتے تھے۔ کیوں کہ موصوفہ اپنے نئے نئے کارناموں اور فتوحات سے حیرت زدہ اور خوشحال کرتی رہتی ہیں،اور دوسروں کے لیے محرک عمل بھی بنتی ہیں۔۔ بلک یہ دور گوشہ نشینی جو ناچیز کے لیے شعری استغراق و حال کا دور بھی رہا، موصوفہ کی مجازی تصاویر الہام شعر و سخن بھی بنتی رہیں۔
حال ہی میں، یہی کوئی ویلنٹلائن ڈے سے دو روز قبل رخشندہ جلیل کی مرتبہ چار کتابوں کے اجراء کے موقع پر لودھی اسٹیٹ، دہلی میں ان کے قیام گاہ پر ایک تقریب کا اہتمام ہوا۔ یہ چار کتابیں معاصر خاتون شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ہیں جن میں زہرا نگاہ، پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض شامل ہیں اور وانی پرکاشن نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اگرچہ مہمانوں کی فہرست نہایت چیدہ و مختصر تھی، لیکن اپنے ہر پروگرام کی طرح اس کے لیے بھی بڑی محبت سے دعوت دی، فرق یہ ہے کہ اس بار توفیق شرکت ہوئی۔خوبصورت اور آراستہ لان میں مذکورہ شاعرات کے کلام کو ایک خوش گلو خاتون نے آواز دی، اور مرتب و ناشر نے تعارف کرایا۔ اس موقع پر متعدد افراد سے ملاقات بھی ہوئی، جن میں ہندی کی معروف شاعرہ انامیکا، دوردرشن سے وابستہ بلیک اینڈ وائٹ دنوں کی اینکر سلمیٰ سلطانہ، فوٹوگرافر صوفی اور خود موصوفہ کے شوہر نامدار اور ہائی کورٹ کے جج جناب وزیری صاحب بھی مدتوں بعد ملے اور نرم و دانش آمیز گفتگو سے محظوظ کیا۔ خاص طور سے ناچیز کو سعدی کا وہ شعر سنایا جس کو حملہ نادری کے ہولناک اوقات اور قتل عام کے دوران ہزاروں جانوں کو امان دلانے کا شرف حاصل ہے یعنی:
کسی نماندہ دگر تا بہ تیغِ ناز کُشی
مگر کہ زندہ کنی مردہ را و باز کشی
اور یہ لازوال شعر ناچیز کے ذہن سے ڈھل کر اردو کا قالب بھی پاگیا:
نہیں بچا ہے کوئی جو بنے قتیلِ ناز
مگر کہ زندہ کرو پھر سے قتل کی خاطر
ڈاکٹر رخشندہ سے الفت کا سبب ان کے خوش جمال اور خوش طبیعت ہونے کے سوا ایک مرشدانہ تعلق بھی ہے، اور وہ یہ کہ ان کے نانا مرحوم یعنی استاد الاساتذہ پروفیسر آل احمد سرور سے ناچیز کو بھی کسب فیض کی توفیق رہی، بلکہ وہ پہلے کرم فرما تھے جنھوں نے ایک بڑے اسٹیج پر ایک نوخیز طالب علم کو بطور شاعر متعارف کرایا اور حوصلہ افزائی کی۔ وہ موقع میرے لیے ہمیشہ یادگار ہے اور رہے گا۔ شعبہء اردو علی گڑھ کا سالانہ اردوئے معلیٰ کا جلسہ، نابغہ ہائے روزگار بشمول خود سرور صاحب، قاضی عبدالستار، وحید اختر، نادر علی خان، شہریار، سعیدالظفر چغتائی جیسی شخصیات کا اجتماع اور ساقی فاروقی بطور مہمان شامل تھے۔ اس موقع پر معدودے چند طلباء کو بھی شامل ہونے کی سعادت ہوئی اور ناچیز بی اے سال اول کے طالب علم کو بطور شاعر اپنی نظم "سوادِ منزل” سنانے کو کہا گیا۔ یہ انتخاب خود سرور صاحب کا تھا۔ سب نے حوصلہ افزائی فرمائ اور داد دی اور اس داد کی گونج سے مرتعش شاباشی آمیز موسیقی آج بھی ذہن و دل میں بج رہی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

