عبد اورمعبود،بندے اور رب،خالق اور مخلوق کے تعلق کی حسین ترین جھلکیاں دیکھنی ہوں تو کمالاتِ محمدی کے اس باب کا مطالعہ کرنا چاہیے جسے آنحضرتﷺ کی دعائیں یا مناجاتِ نبوی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ دعائیں کیا ہیں:ایک محب کی محبوب سے باتیں، عارفوں کے سردار کا اظہارِعجز،اپنی بے بسی و بے کسی اور رب ذوالجلال کی بڑائی کا اعتراف،شکستہ دلوں کی تسلی کا سامان، دنیا و آخرت کی ساری خیروں کی طلب،تعلق مع اللہ کا نسخہ اور قبولیت کی سند۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قدّس سرّہ کے بقول آنحضرت ﷺ کی دعائیں بھی ایک معجزہ ہیں۔ان دعاؤں کی نافعیت اور جامعیت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، تاہم ان کا ایک اہم پہلو نفسیاتی مسائل کا حل اور ان سے نجات ہے۔
نفسیاتی مسائل آج کی دنیا میں بہت اہمیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں،حتٰی کہ کثیر جسمانی امراض کاآغاز نفسیاتی مسائل سے ہوتا ہے۔ذہنی دباؤ(ڈیپریشن) تناؤ(ٹینشن) کی وجہ سے فشارِخون(بلڈپریشر)،مرضِ سکر(شوگر) اور معدہ کی تیزابیت(ایسیڈیٹی) عام ہیں۔اسی طرح وساوس سے جسمانی ایذا حتٰی کہ خود کشی کے رجحانات وغیرہ نفسیاتی مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جسمانی امراض کی مثالیں ہیں ۔آنحضرتﷺ کی تعلیمات میں بحمداللہ تمام ظاہری وباطنی امراض کے حوالے سے رہنمائی ملتی ہے۔باطنی امراض کا تزکیہ تو آپﷺ کے مقاصدِ نبوت میں سے تھا،تاہم جسمانی امراض کے حوالے سے بھی وقیع رہنمائی ملتی ہے۔غموں،دکھوں،بے چینیوں اور مایوسیوں میں گھرے افراد کے لیے آنحضرتﷺ کی تعلیمات و ارشادات اور دعاؤں میں سکھ ،چین راحت اور امید کی کرنیں موجود ہیں۔
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی دنیا اچھی ہو اور جس کا اعتقاد آخرت پر ہو اس کے لیے آخرت کا اچھا ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔دنیا اگرچہ ایک عارضی قیام گاہ ہے لیکن انسا اس میں کسی برائی اور مصیبت پیش آنے سے گبھراتا ہے۔دنیوی تکالیف بسا اوقات انسان کو اس کے مقصدِ اصلی یعنی عبادت اور آخرت کی تیاری سے غافل کردیتی ہیں۔لہٰذا مومن بندہ دنیا کی اچھائی بھی مانگتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی جامع ترین دعا میں ان تمام پہلووؤں کی رعایت رکھی گئی ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:
ربّنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃوّقنا عذاب النّار[1]
ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں
اس آیت میں لفظ حسنہ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کو شامل ہےمثلا دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت،اہل و عیال کی صحت،رزقِ حلال میں وسعت و برکت،دنیوی سب ضروریات کا پورا ہونا،اعمالِ صالحہ،اخلاقِ محمودہ،علمِ نافع،عزت و وجاہت،عقائد کی درستی،صراطِ مستقیم کی ہدایت،عبادات میں اخلاص ِ کامل سب داخل ہیں۔اور آخرت کی حسنہ میں جنت اور اس کی بے شمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار ،یہ سب چیزیں شامل ہیں۔[2]
مایوسیوں اور بے چینیوں کی بڑی وجہ شکر اور صبر سے محرومی ہے۔اگر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا پر شکر کا عادی بن جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہونے کے ساتھ اپنی خوش قسمتی کا احساس ترقی کرتا رہتا ہے۔ایسے ہی اگر آدمی مصیبت اور ناگواریوں پر صبر کا عادی بن جائے اور یہ جان لے کہ یہ حالت اسے آزمانے کے لئے ہےکہ وہ اپنے ایمان پر پکا ہے یا نہیں اور یہ حال طاری کرنے والی ذات بھی اس کے فائدے پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو اس کے لئے مصیبت برداشت کرنا آسان ہو جائے گا ۔اسی لئے آنحضرتﷺ نے شاکرو صابر بننے کی دعا بھی مانگی ہے۔تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ عام حالات میں اللہ تعالیٰ سے صبر مانگنا ایک طرح کا اپنے آپ کو از خود مشکلات کے لیے پیش کرنا ہے لہٰذا عام حالات میں محض صبر کی بجائے شکر اور صبر کی صفات اکٹھی مانگنی چاہییں،جیسا کہ مندرجہ ذیل دعا میں مانگا گیا ہے:
رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مُطِيعًا، إِلَيْكَ مُخْبِتًا، إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا،[3]
اے اللہ مجھے اپنا خوب شکر کرنے والا بنا، تیرا خوب ذکر کرنے والا بنا، تجھ سے بہت زیادہ ڈرنے والا بنا، تیرا سراپا اطاعت گذار اور فرمانبردار بنا، تیرے حضور انتہائی عاجزی اور انکساری سے جھکنے والا بنا، نرم دل اور تیری بارگاہ کرم کی طرف باربار رجوع ہونے والا بنا.
آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ قناعت کا نہ ہونا ہے۔قناعت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو جو دیا ہے اس پر مطمئن رہے بلکہ اسے اپنے استحقاق سے بڑھ کر سمجھے۔کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی ایسی چیز کے پیچھے پڑ جاتا ہے جو اس کے مقدّر میں ہی نہیں ہوتی یا جو چیز اس کے حق میں خلافِ مصلحت تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے دور کردی تھی۔بہت سا مال،بہت سا وقت اور کثیر ذہنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بعد جب آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ:
اس راہ میں اک عمر گزر آئے تو جانا
یہ راہ فقط لوٹ کے آنے کیلیے ہے
اس وقت مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔آنحضرتﷺ نے پہلے ہی سے ایسی دعا تلقین فرما دی ہے جو ہمیں قناعت بھی عطا کرتی ہے اور اس چیز کے پیچھے اپنی توانائیاں خرچ کرنے سے بھی باز رکھتی ہے جس کا ملنا مقدر میں نہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
اللهم اغفر لي ذنبي، ووسِّع لي خلُقي وطيِّب لي كسبي، وقنِّعني بما رزقتَني، ولا تُذهِب قلبي إلى شيء صرّفتَه عنّي”.[4]
یا اللہ میرے گناہ معاف فرما،میرے اخلاق وسیع کردے،میری روزی پاک کردے، جو آپ نے مجھے دیا اس پر مجھے قناعت نصیب فرمائیں اور جو چیز آپ نے مجھ سے پھیر دی اس کی طرف میرے دل ( کی طلب )کو نہ لے کر جائیں
اسی طرح انسان اپنی کم سمجھی کے باوصف ایسی چیزوں سے محبت کر بیٹھتا ہے جو اسے اپنے میں مشغول کر کے مقصدِحقیقی یعنی بندگیء مولیٰ اور یادِ الٰہی سے غفلت میں ڈال دیتی ہیں۔ایسے وقت میں یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کو بندے سے دور کردیا جائے اور بندے کو ان چیزوں سے دور کر دیا جائے۔ایک مومن کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ ایسی چیزوں کے دور ہونے کے غنیمت جانتے ہوئے اپنے اوقاتِ زندگی کو یادِ الٰہی میں بسر کرے:
اللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاغًا لِي فِيمَا تُحِب[5]
اے اللہ میری پسندیدہ چیزوں میں سے جس چیز کو آپ نے مجھ سے دور کردیا اسے میرے لیے ا پنی پسندیدہ چیز کے لیے فارغ ہو جانے کا ذریعہ بنا دے .
معاملات کی عدم درستگی اور نفسیاتی الجھنیں
ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن وغیرہ کا ایک بڑا سبب دوسرے انسانوں کے ساتھ معاملات کی عدم درستگی ہے۔کبھی یہ پریشانی دوسروں کے حسد کی وجہ سے ہوتی ہےتو کبھی حق کا تقاضا کرنے کی وجہ سے۔ بسا اوقات آدمی قرض لیتا ہے لیکن جلد ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے قرض خواہوں کی طرف سے تقاضا شروع ہوجاتا ہے۔یہ ایک مستقل ذہنی تناؤ کا باعث ہوجاتا ہے۔اس کیفیت سے بچنے کے لیے بھی آنحضرتﷺ کی دعاؤں میں ہمارے لیے روشنی کا سامان موجود ہے۔صحابہءکرام نے اکثر آپ ﷺ کو نماز کے بعد یہ دعا کرتےدیکھا :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَم
ایک صاحب نے آپﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ مقروض ہونے سے اتنی پناہ کیوں مانگتے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔[6]
اسی طرح ابوامامہ انصاری ؓ کو آپﷺنے مسجد میں ایسے وقت میں دیکھا جب کہ نماز کا وقت نہیں تھا۔آپﷺ نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے طرح طرح کی پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے۔آپﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسا کلمات نہ بتلاؤں کہ جب تم انہیں پڑھو تو اللہ تعالیٰ تتم سے غم دور فرمادے اور تمہارا قرض بھی ادا کروادے۔ابوامامہ ؓ نے عرض کیا جی ضرور۔ آپﷺنے یہ دعا صبح شام پڑھنے کیلیے ارشاد فرمائی :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ، وَقَهْر الرِّجَال [7]
اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے،اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے ،اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں بزدلی اور بخل سے،اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں قرض کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے
ذہنی ونفسیاتی امراض سے بچاؤ اور ان سے متاثر افراد کے لیے یہ دعا ایک عظیم تحفہ ہے۔
عافیت کی دعا
آنحضرتﷺکی جامع ترین دعاؤں میں عافیت کی دعا ہے۔کئی جگہوں پر آپ ﷺ نے عافیت کی دعا مانگی ہے بلکہ امت کو اس کے مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بار بار عافیت کی دعا مانگنے کو ارشاد فرمایا:
عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ [8]
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘
عافیت ایک ایسی جامع چیز ہے جس میں دنیا اورآخرت کی تمام بھلائیاں شامل ہیں۔شارح،مشکوۃ علامہ نواب قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عافیت کے معنی دین میں فتنہ سے سلامتی اوربدن میں بری بیماریوں اور سخت رنج سے نجات ہے(مظاہر حق جدید،ص ۷0۷ ج۲)۔حقیقت میں انسان دنیاو آخرت کی ان سبھی بھلائیوں کا محتاج ہےاور ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے سے طبیعت میں انتشار اور بے چینی رہتی ہے۔اسی لیے عافیت کے لفظ سے آدمی ان سب چیزوں کو مانگ لیتا ہے۔گویا
سب کچھ ہی مانگ لیا ہے تجھ کو مانگ کر
اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی جب مدین پہنچے تو کمالِ تواضع سے آپ نے اللہ تعالیٰ سے جامع دعا مانگ لی تھی:
ربّ اِنّی لما أنزلتَ إلیّ من خیر فقیر[9]
میرے پروردگار جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کردے،میں اس کا محتاج ہوں
وَعَنْ أَنَسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَادَ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَدْ خَفَتَ، فَصَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: (هَلْ كُنْتَ تَدْعُو اللَّهَ بِشَيْءٍ أَوْ تَسْأَلُهُ إِيَّاهُ) ؟ ! . قَالَ نَعَمْ، كُنْتُ أَقُولُ: (اللَّهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِهِ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْهُ لِي فِي الدُّنْيَا) . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – (سُبْحَانَ اللَّهِ! لَا تُطِيقُهُ وَلَا تَسْتَطِيعُهُ: أَفَلَا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟) قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ بِهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ.[10]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شخص پرندے کے بچے کی طرح لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ!جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ!‘‘ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور تم میں اتنی استطاعت ہی نہیں، تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے تھے: ’’ اللّٰہُمَّ أٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِيْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمارے ساتھ دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔چنانچہ انہوں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی۔
اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں دعا قبول ہوتی ہے۔ایک صحابی ؓ نے آپﷺ سے پوچھا کہ اس وقت میں کون سی دعا مانگا کریں تو آپﷺنے عافیت مانگنے کی ہدایت فرمائی۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا يَعْنِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ[11]
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے عافیت سے بڑھ کر اس کی پسندیدہ چیز نہیں مانگی گئی۔
مرقاۃ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ عافیت اللہ تعالیٰ کو اس لیے زیادہ محبوب ہے کہ یہ لفظ دونوں جہانوں کی بھلائیوں کا جامع ہے جس میں صحت اور سلامتی شامل ہے۔عافیت کی اس اہمیت کی وجہ سے عافیت کی طلب پر تاکید کو تفصیل سے بیان فرمایا۔چنانچہ فرمایا:
اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي، اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت[12]
اے اللہ میرے بدن میں عافیت دیجیے،میرے کانوں میں عافیت دیجیے،میری آنکھوں میں عافیت دیجیے،تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
ماحول اور نفسیاتی مسائل
نفسیاتی الجھنوں کی بڑی وجہ ماحول کا طبیعت سے موافق نہ ہونا ہے۔سب سے پہلے وہ ماحول جس میں انسان کا بے تکلفانہ وقت گزرتا ہے،اس کا گھر ہے۔بیوی بچے چونکہ انسان کے تابع ہوتے ہیں لہٰذا انسان انہیں اپنے سے ہم آہنگ دیکھ کر مسرّت و شادمان ہوتا ہے۔جو آدمی دین سے محبت کرتا ہے اور خود دین پر عامل ہے،اس کے لیے اپنے اہل و عیال کی دینداری اور اعمالِ صالحہ میں مشغولی دلی سکون کا باعث ہے۔جبکہ گھر والوں کا بے دین ہونا اور گناہوں میں مشغول ہونا اس کے لیے غم اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے اپنے اہل و عیال کی طرف سے بے فکر نہیں رہتے۔وہ جہاں انہیں دنیوی آسائش پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں وہیں ان کی دینی ضروریا ت اور اخروی سہولت کا اس سے بڑھ کر خیال رکھتے ہیں۔اپنی کو شش اور فکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ
رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنا لِلْمُتَّقِينَ إِماماً (74)[13]
ہمارے پروردگار ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنادے
جدّ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے نماز قائم کرنے کی دعا مانگ کر ایک مومن کامل کی دلی خواہش کا نقشہ پیش کردیا تھا:
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنا وَتَقَبَّلْ دُعاءِ (40)[14]
یا رب مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنادیجیے اور میری اولاد میں سے بھی (ایسے لوگ پیدافرمائیے جو نماز قائم کریں)اے ہمارے پروردگار اور میری دعا قبول فرمالیجیے
اسی طرح اولاد کی آسودہ حالی سے آدمی کو تسلّی ہوتی ہےاور اس کی معاشی بدحالی اور تنگی سے آدمی کو غم ہوتا ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لیے رزق کی فراخی کی دعا بھی مانگ لی تھی وارزقھم من الثمرات اور یہ اس لیے تاکہ وہ شکرگزار بندے بن جائیںلعلّھم یشکرون۔[15]یہ دعائیں قرآنِ مقدس میں محفوظ ہیں اور نفسیاتی الجھنوں سے نجات کا ذریعہ ہیں۔
نبی ﷺ کی دعاؤں میں جہاں اہل وعیال کے لیے خیر کی طلب ہے وہیں ان کے شر سے پناہ بھی مانگی گئی ہے۔شادی کے بعد زوجہ سے ملاقات کے وقت وظیفہء زوجیت کی ادائیگی سے قبل اس دعا کا پڑھنا مسنون ہے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ۔[16]
اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر مانگتا ہوں، اور تو نے اس کو جن خصلتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان کی بھلائی کا طلبگار ہوں، اور اس کے شر سے اور جن خصلتوں کے ساتھ تو نے اس کو پیدا کیا ہے، ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
اسی طرح ایسی بیوی سے پناہ مانگی گئی ہے جس کی برائی اور تکلیف سے آدمی قبل از وقت بوڑھا ہو جائے ۔ایسے ہی ایسی اولاد کےشر سے پناہ مانگی گئی ہے جو آدمی کے لیے وبالِ جان اور آخرت میں مواخذہ کا باعث بن جائے۔
.اللهم إني اعوذ بك من جَارِ السُّوء، ومن زوج تُشَيِّبني قبل المشيب، ومن ولد يكون علي رَبّا، ومن مال يكون عليّ عذابا، ومن خليل ماكر عينَه تراني، وقلبه يرعاني؛ إن راى حسنة دَفَنَها، وإذا راى سيئة اذاعها[17]
اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں برے پڑوسی سے اور ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دے اور ایسی اولاد سے جو میرا آقا بن بیٹھے اور ایسے مال سے جو میرے لیے باعث عذاب بن جائے اور ایسے چالباز دوست سے جس کی آنکھیں مجھے تک رہی ہوں اور اس کا دل میرے پیچھے پڑا ہو اور میری ہر نیکی کو دباتا جائے اور ہر برائی کو نشر کرتا جائے
وساوس
بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل میں بڑا کردار وساوس کا بھی ہے۔وساوس وسوسہ کی جمع ہے جس کا مطلب ایک نہ سنائی دینے والی آواز ہے۔وساوس ایمان وعقائد سے متعلق بھی ہوتے ہیں اور عمل سے متعلق بھی۔عقائد میں مثلا اللہ سبحانہ وتعالیٰ،رسول اللہ و یا دیگر انبیاء علیہم الصلٰۃ والسلام ،فرشتوں،تقدیر،جنت وجہنّم کے متعلق ۔عمل کے متعلق مثلاپاکی اور ناپاکی کے وسوسے،حلال و حرام کے متعلق وسوسےیا اپنے دیگر معمولاتِ زندگی کے بارے میں بے بنیاد خیالات مثلا اپنی صحت کے متعلق وسوسے۔وسوسے نفسانی بھی ہوتے ہیں جو خود انسان کے اندر سے پریشان خیالات کی صورت میں ظاہر ہورہے ہوتے ہیں اور شیطانی بھی ہوتے ہیں۔اس کا پتہ
معلوم ہوتا ہے۔ہرانسان کے ساتھ ایک فرشتہ بھی ہوتا ہے اور شیطان بھی ۔فرشتہ اس کے دل میں اچھے خیالات ڈالتا ہے جس سے انسان کی طبیعت نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے۔جبکہ شیطان برے خیالات ڈالتا ہےجس سے انسان کی طبیعت برائی کی طرف مائل ہوتی ہے۔عام طور پر آدمی جب اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو اس وقت شیطان کو اپنا زہر گھولنے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔جوں ہی آدمی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو شیطان گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔اسی کا ایک بڑا اثر وہ ہے جو نمازکی پابندی پر ملتا ہے کہ نماز آدمی کو بے حیائی اور برے کاموں سے روک دیتی ہے۔
آج کل کے نفسیاتی مسائل میں وساوس کی بھی کثرت ہے۔لوگ طرح طرح کے ایسے مسائل بتاتے ہیں جن کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہوتی۔مثلا کسی کو یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ اس کا چہرہ خراب ہوتا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔کسی کو صورتیں چلتی نظر آتی ہیں تو کسی کو آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔جو لوگ عبادات کے پابند ہوتے ہیں انہیں نماز،روزے،وضو حتیٰ کہ نکاح برقرار رہنے تک میں وسوسے آتے ہیں۔Obcessive Compulsive Disorders(OCDs)کے نام سے ان نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے قسم ہا قسم کی دوائیاں دی جا رہی ہیں۔نبیء مہربانﷺ نے ان وساوس کے لیے ایسا علاج اوردعا تعلیم فرمائے ہیں جس سے یہ وساوس نہ صرف دور ہوتے ہیں بلکہ بجائے پریشان کرنے کے قربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ[18]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو۔.
"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله[19]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے : "آمَنت بِاللَّه وَرُسُله” (میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا
قرآن کریم میں شیطانی وسوسوں سے بچنے کیلیے مندرجہ ذیل دعا تلقین کی گئی ہے:
رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ[20]
جناب نبی کریم ﷺ کی دعاؤں میں ایک دعا ہے جس کا پڑھتے رہنا نفس کے مکرو فریب اور وسوسوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے
اللّھُم الھِمنی رُشدی واَعذنی مِن شَرّ نفسی[21]
اے اللہ میرے دل میں میری ہدایت (بھلائی )ڈال دیجیے اور میرے نفس کے شر سے اپنی پناہ میں رکھیے
دفتری اور کاروباری الجھنیں
بسا اوقات آدمی دفتری یا کاروباری معاملات میں ایسے لوگوں کے ماتحت ہوتا ہے جو اس کے لیے باعث ِاذیت ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ کام جسے اس نے مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا تھا،اب ذہنی دباؤ اور دردِ سر کا باعث بن جاتا ہے.ایسی تکلیف سے حفاظت ونجات کا سامان رحمتِ عالمﷺ کی تعلیمات میں بحسن وخوبی موجود ہے،ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِهَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ لِأَصْحَابِهِ: «اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا» .: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.[22]
رسولِ اکرمﷺ مجلس سے اٹھتے ہوئے اکثر اپنے اصحاب کیلیئے یہ دعافرمایا کرتے تھے:
اے اللہ! ہمیں اپنا ایسا خوف عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیاں حائل ہوجائے ، اور اپنی ایسی اطاعت گزاری نصیب فرما جس کی بدولت تو ہمیں جنت میں داخل فرمادے ، اور یقین کی وہ دولت عطا فرما جس کی برکت سے تو ہم پر دنیاوی مصیبتوں کا آسان فرمادے ، اور ہمارے کانوں ، آنکھوں اور طاقت کو ہماری زندگی کے لیے فائدہ مند بنا اور اسے ہمارے بعد بھی جاری فرما ، اور ہم پر ظلم اور دشمنی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما ، اور ہماری مصیبتوں کو ہمارے دین میں داخل نہ فرما ، اور ہم پر دنیاوی غموں کو حاوی نہ فرما ، اور ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کریں۔
بڑھاپا اور ذہنی الجھنیں
انسان اگرچہ زندگی گزارنے میں دوسر ےانسانوں کا ضرورتمند رہتا ہےلیکن دوسروں پر بوجھ بننا اور نکمّا بن کر رہنا ایک شریف آدمی کو ناگوار ہوتا ہے۔تاہم بڑھاپے میں آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔طرح طرح کے امراض میں گِھر کر انسان بسا اوقات مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔ایسے وقت میں بھی آنحضرتﷺ کی دعائیں سہارا بنتی ہیں۔مندرجہ ذیل دعائیں ملاحظہ فرمائیں:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمْرِي[23]
اے اللہ میرا سب سے وسیع رزق بڑھاپے میں اور عمر کے اختتام کے وقت مقرر کیجیے
اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ عُمُرِي آخِرَهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَوَاتِيمَ عَمَلِي رِضْوَانَكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ خَيْرَ أَيَّامِى يَوْمَ أَلْقَاك[24]
اے اللہ میری عمر کا آخری حصہ بہترین حصہ بنائیے،میرے عمل کے خاتمےآپ کی رضا پر ہوں،میرا بہترین دن وہ ہو جس دن میں آپ سے ملوں
آنحضرتﷺ کاتربیت میں نفسیات کی رعایت
ایک نوجوان آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے (معاذاللہ) زنا کی اجازت مانگی۔آپﷺ ے انہیں قریب بلایا اور سمجھایا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! ﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے! لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی ﷺ نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ! وہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔
اس کے بعد آپﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا فرمائی
اللّٰهُم اغفِر ذنبَه، وطهّر قلبَه، وحَصِّن فَرجَه[25]
اے اللہ اس کے گناہ کو معاف فرما،اس کے دل کو پاک فرمااوراس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد زنا کے برابر کوئی فعل اس نوجوان کی نظر میں برا نہیں تھا۔یہاں آپﷺ نے نوجوان صحابیؓ کی پیغمبرانہ
شان کے مطابق نفسیاتی تربیت فرمائی اور ان کے حق میں دعا بھی فرمائی جس کا اثر تھا کہ جس کام کی وہ اجازت مانگ رہے تھے اب وہی ان کی نظر میں بدترین بن گیا۔
دعا میں اعتدال کی رعایت
انسانی فطرت ہے کہ انسان بے عزت ہونا پسند نہیں کرتا۔تاہم اس جذبے کا اعتدال میں ہونا بھی ضروری ہے۔اگر اس میں افراط ہوجائے تو انسان ایسا نازک مزاج بن جائے کہ خلافِ طبیعت بات کسی صورت برداشت نہ کر سکے۔حتّیٰ کہ اس میں اپنی بڑائی جذبہ اس حد تک ترقی کر ے گا کہ اسے اپنے علاوہ دیگر انسان ذلیل و حقیر محسوس ہونا شروع ہو جائیں گے اور یہی تکبّر ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے:
تکبّر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
اسی تکبّر کے بارے میں فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔دوسر ی طرف اگر تفریط ہو جائے تو آدمی اس قدر پستی کا شکار ہو جائے کہ جو چاہے اسے ذلیل کرتا پھرے،اسے بے وقعت و بے قیمت سمجھے اور اس کی بے عزّتی کرتا رہے لیکن اسے کچھ بھی نہ ہو۔اگرچہ حدیثِ پاک میں تواضع اور انکساری کی تعلیم دی گئی ہے اور اپنے آپ کو عاجز سمجھنا پسندیدہ ہے لیکن اس قدر عاجز بن جانا کہ آدمی ذلیل کیا جائے ،دینی و دنیوی اعتبار سے مضر ہے۔نبیءاکرمﷺ نے ان تمام پہلوؤں کی رعایت اپنی مندرجہ ذیل دعا میں نہایت خوبصورت انداز میں فرمادی ہے:
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي شَكُورًا، وَاجْعَلْنِي صَبُورًا، وَاجْعَلْنِي فِي عَيْنِي صَغِيرًا، وَفِي أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيرًا[26]»
اے اللہ مجھے شکر کرنے والا اور صبر کرنے والا بنادے اور مجھے میری نگاہ میں چھوٹا اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنادے
اس دعا کی جامعیت ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ سے تواضع بھی مانگی جارہی ہے او مخلوق کی نگاہ میں عزت بھی۔آدمی اپنے آپ کو عاجز و حقیر جانتا ہے جبکہ دوسرے اسے قابلِ عزّت سمجھتے ہوں۔
مقام ِرضا کی طلب
ٹینشن اور ڈپریشن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے لئے ایک حالت کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اسے اس کے برعکس حالات پیش آرہے ہوتے ہیں۔مثلا وہ ایک جگہ ملازمت کیلئے کوشش کرتا ہے لیکن اسے مرضی کے خلاف جگہ ملازمت مل جاتی ہے۔آدمی ایک جگہ رشتہ کا متمنی ہوتا ہے لیکن وہاںرشتہ نہیں ہوتا۔ایسی صورتحال میں طبیعت پریشان رہتی ہے۔تاہم اگر اس بات کا دھیان ہو کہ ہر اچھی اور بری حالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو حال بھی پیش آتا ہے اس میں خیر ہوتی ہے تو طبعی پریشانی کے باوجود دل مطمئن رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ بھی نہیں پیدا ہوتا۔
مالک ہے جو چاہے کرے تصرّف
کیاوجہ کسی بھی فکر کی ہے
بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یارب
مالک بھی تو ہے حکیم بھی ہے
اسی یقین کو پیدا کرنے اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنے کی دعا آنحضرتﷺ نے تلقین فرمائی ہے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِي، وَيَقِينًا صَادِقًا حَتَّى أَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُنِي إِلَّا مَا كَتَبْتَ لِي[27]
جب مومن کی نگاہ میں فاعلِ حقیقی اللہ جلّ جلالُہ کی ذات بن جاتی ہے اور اس کی تقسیم پر راضی بھی ہوجاتا ہے تو اب دوسروں سے شکوے اور شکایت کی حاجت ہی نہیں رہتی اور نہ ہی کوئی احساسِ محرومی رہتا ہے۔بلکہ حال یہ بن جاتا ہے کہ :
تیرا غم بھی مجھ کو عزیز ہے
کہ وہ تیری دی ہوئی چیز ہے
خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا بھی ناامیدیوں اور مایوسیوں کا سبب بن جاتا ہے۔کوئی عزیز چاہے کتناہی قریبی کیوں نہ ہو ،ہمیشہ توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا۔آنحضرتﷺ کی تعلیم ہے کہ آدمی لوگوں سے کوئی توقع وابستہ نہ کرے بلکہ لوگوں سے شریعت کے مطابق سلوک کرتا رہے اور تمام امیدیں اللہ تعالیٰ سے وابستہ رکھے ۔یہی ایک مومن حقیقی کی شان ہے کہ وہ عمل کرتا بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور ایک اور اس کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کرتا ہےنبیء اکرم ﷺ کی دعاؤں سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہےکہ دنیا و آخرت کی تما م ضرورتوں کے لیے صرف اللہ تعالیٰ پر نظر رکھنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے اسی سےتوقعات وابستہ کر لینی چاہییں:
اللهم اجعَلني ممّن توكّلَ عليكَ فكفيتَه، واستهداكَ فهديتَه، واستنصركَ فنصرتَه[28]
اے اللہ مجھے ان لوگوں میں شامل کردے جنھوں نے تجھ پر توکل کیا تو تو ان کے لیے کافی ہوگیا،اور انہوں نے تجھ سے ہدایت مانگی تو تو نے انہیں ہدایت دی اور تجھ سے مدد طلب کی تو تو نے ان کی مدد کی
حوالہ جات
معارف القرآن،مفتی محمد شفیع قدّس سرّہ،ج۱،ص۵۶۳،ادارۃ المعارف[2]
سنن ابن ماجہ کتاب الدعاءباب دعاءرسول اللہﷺ،۳۸۳۰[3]
کنز العمّال،الادعیۃ المطلقۃ،۵۰۶۱ ۔بعض کتب میں دعا میں قلبی کی جگہ طَلَبی لکھا ہے۔ترجمہ میں اس کی رعایت کی گئی ہے۔فہد[4]
بخاری،باب استعاذمن الدین،۲۳۹۷[6]
ابو داود،باب فی الاستعاذۃ، ۱۵۵۵[7]
ترمذی،ابواب الدعوات، ج:۲،ص:۱۹۱،ط:قدیمی [8]
مشکٰوۃ،باب جامع الدعاء،رقم ۲۵۰۲[10]
مشکٰوۃ،کتاب الدعوات ،رقم ۲۲۳۹[11]
سنن ابی داؤد،باب مایقول اذا اصبح،رقم۵۰۹۰[12]
سنن ابی داود،باب فی جامع النکاح،رقم ۲۱۶۰[16]
الدعاء للطبرانی، باب ما استعاذ منہ النبیﷺ،۱۳۳۹[17]
مشکٰوۃ المصابیح کتاب الایمان باب الوسوسۃ،۶۵[18]
جامع ترمذی،ابواب الدعاء،۳۴۸۳[21]
جامع ترمذی،ابواب الدعوات،۳۵۰۲[22]
معجم الاوسط باب الھا، ۹۴۱۱[24]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،باب ادب الطالب ،رقم۵۴۳ [25]
مجمع الزوائد و منبع الفوائد: (باب الاجتھاد فی الدعاء، رقم الحدیث:۱۷۴۱۲ ، ط: مکتبہ القدسی [26]
کنز العمال،الفصل السادس جوامع الادعیہ،ص۱۸۴ج۲ ،رقم ۵۹۷۴[27]
کنز العمال الادعیۃ المطلقۃ،۵۱۰۶ [28]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page