شاہد علی خاں، مولا بخش اور شوکت حیات کی رحلت عظیم سانحہ
شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام تعزیتی جلسے کا انعقاد
مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے سابق جنرل مینیجرجناب شاہد علی خاں، شعبہئ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذپروفیسر مولا بخش اسیر اور معروف افسانہ نگار شوکت حیات کے انتقال پر شعبہ اردو میں تعزیتی جلسے کاانعقادکیا گیا۔اس موقع پر صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے فرمایا یا کہ اس وقت ہم لوگ جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ان کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ شاہد علی خاں، مولابخش اور شوکت حیات کا گزر جانا ہم سب کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ شاہد علی خاں صاحب گرچہ ادیب و شاعر نہیں تھے مگر ادیب گر ضرور تھے۔ وہ تخلیقی صلاحیت کے مالک اور بہت محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ پروفیسر مولا بخش میرے دیرینہ دوست اور یار تھے۔اردو کے جدید ناقدین میں ایک اہم نام تھا جس کا کوئی ثانی نہیں۔ اُن کے یہاں بہت سے امکانات تھے اور ایک عجیب قسم کی روشنی بھی ان کی گفتگو میں ہوتی تھی۔انھوں نے شوکت حیات کے افسانوی مجموعے گنبد کے کبوتر کاذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی سب سے اہم بات زبان و بیان پر اُن کی غیر معمولی قدرت ہے۔شوکت حیات کے یہاں دوستی کا جذبہ تھااور وہ میرے دور کے رشتہ دار بھی تھے۔پروفیسر شہپر رسول صاحب نے شاہد علی خاں صاحب کے گزر جانے کو ایک دور کے خاتمے سے تعبیر کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ شاہد علی خاں کا تعلق اپنے دور کے تمام بڑے ادبا اور شعرا سے تھا۔کتاب نماکی اشاعت میں ان کا اہم رول تھا اور اس رسالے اور مکتبہ جامعہ کو ایک منفرد شناخت دلانے میں شاہدعلی خاں صاحب کے کردار کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بالکل کھڑے اور دو ٹوک اور غیر معمولی شخصیت کے حامل انسان تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ مولا بخش ادب کا کام بہت سنجیدگی سے کرتے تھے۔ شوکت حیات نامور افسانہ نگار ہونے کیے ساتھ ساتھ بہت محبت کرنے والے آدمی تھے۔پروفیسر احمد محفوظ صاحب نے شاہد علی خاں کے گزر جانے کو ذاتی نقصان قرار دیا اور ان کو اپنا محسن بتایا جو بے لوث اور بغیر کسی نمائش کے ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ سبھوں کے ساتھ ان کابہترین سلوک ہوتا تھا۔ پوری اردو دنیا میں شاہد علی خاں کی بہت قدر و منزلت تھی۔ اردو زبان اور ادیبوں کی انھوں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔انھوں نے مولابخش صاحب کو اپنی نسل کا بہت نمایاں اورخوش گفتار ادیب قرار دیا۔ مولا بخش صاحب چیزوں کے بارے میں نئے پہلو ؤں سے سوچتے تھے اور برملا اظہار خیا ل کرتے تھے۔ وہ بہت متحرک اور غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ شوکت حیات صاحب اپنائیت کے ساتھ ملتے تھے اور وہ نسل جس کو جدید اردو فکشن کے میدان میں اعتبار حاصل ہے،اس میں ایک اہم نام شوکت حیات کا تھا۔پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے بھی شاہد علی خاں کواپنا محسن و مربی بتا یا۔ انھوں فرمایا کہ شاہد علی خاں صاحب نے رسالہ کتاب نما کو جو حیثیت عطا کی اور پورے مکتبہ جامعہ کو جس طرح سنوارنے اورسینچنے کا کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ وہ بالکل دوٹوک، سچے اور بہت ذمہ دار شخص تھے۔ ان کے یہاں تربیت کا ایک خاص سلیقہ تھا اور طبیعت میں ایک قسم کی بے نیازی بھی تھی۔ان کا گزر جانا ہم اردو والوں کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے۔ مولا بخش صاحب ہم سب کے دوست تھے او ر ان کی باغ و بہار شخصیت تھی۔جس جانفشانی اور مشقت کے ساتھ انھوں نے ادبی سفر کی شروعات کی تھی وہ قابل تحسین و تقلید ہے۔ ان کا مطالعہ بہت عمیق تھا۔ ادبی تھیوری کے حوالے سے ان کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ ایک بڑا سوچتا ہوا ذہن ان کے پاس تھا۔ پروفیسر عبد الرشید صاحب نے کہا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں اس موقع پر کیا عرض کروں، میں تمام مرحومین کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
پروفیسر خالد جاویدنے فرمایا کہ شاہد علی خاں اور مکتبہ جامعہ دونوں ایک دوسرے کے مترادف ہو گئے تھے۔ انھوں نے شاہد علی خاں صاحب کو ایک درویش صفت انسان قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پروفیسر خالد محمود صاحب نے ان پر جو خاکہ لکھا ہے وہ شاہد صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔ شاہد صاحب اردو کے ادیب نہیں تھے لیکن اردو کے سفیر ضرور تھے۔خالد جاوید نے مولا بخش صاحب سے اپنے قریبی تعلق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک تخلیقی آدمی میں جو وجدان اور جنون ہونا چاہیے وہ سب ان کے یہاں بدرجہئ اتم موجود تھا۔ ان کی سوچ کا عمل جاری و ساری رہتا تھا اوروہ ہر وقت سوچ رہے ہوتے تھے۔ ان کی ترجیحات میں ادب کا سنجیدہ سروکار تھا۔ ان کا گزر جانا ہم بسب کے لیے باعث رنج و افسوس ہے۔انھوں نے شوکت حیات کو جدید اردو افسانے کا اہم نام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے یہاں سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کو وجودی تناظر میں پیش کرنے کا نیا بیانیہ تھا اور یہی اُن کو اپنے معاصرین میں منفرد و ممتاز بناتا ہے۔ پروفیسر ندیم احمد نے مولابخش صاحب کے چلے جانے کو ذاتی غم سے تعبیر کیا۔ڈاکٹر عمران احمد نے فرمایا کہ لگاتار موت کی خبروں کے وجہ سے ہمارا دل دکھتا ہے۔ اللہ تما مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے فرمایا کہ شاہد علی خاں کے یہاں بہت خوش طبعی تھی۔انھوں نے شوکت حیات صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا اورمولا بخش کو بہت بیدار ذہن اسکالر قرار دیا اور ان کے ادبی ریاضت کی پذیرائی کی۔انھوں نے شوکت حیات اور مولا بخش کے تخلیقی جرات کا بھی اعتراف کیا۔ڈاکٹر شاہ عالم نے فرمایا کہ ماضی قریب میں جن شخصیات نے دنیا کو خیرباد کہا اُن میں مذکورہ تینوں شخصیتوں کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ شاہد علی خاں صاحب نے ایک ادارے کو جس بلندی پر پہنچایا اس کی ایک الگ داستان ہے۔ مولا بخش صاحب کو نئی نسل میں بہت خاص اور نمایاں مقام حاصل تھا۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے فرمایا کہ شاہد علی خان صاحب میں بہت سی شخصی خوبیاں تھیں۔ وہ اپنے عزیز وں سے بے حد شفقت و محبت کرتے تھے۔اُن کی کرم فرمائیاں طالب علمی کے زمانے سے میرے شامل حال رہیں۔ مولا بخش صاحب مجھے چھوٹے بھائی کی طرح رکھتے تھے اورہمیشہ دل کھول کر حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ شوکت حیات صاحب کا صوفیانہ مزاج تھااور ان کی طبیعت میں قلندری تھی۔ اس تعزیتی جلسے میں جامعہ اسکول سے وابستہ استاد احسان اللہ فہد اور عظیم اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان کے لیے بھی اظہار تعزیت کیا گیا اورتمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ آن لائن تعزیتی جلسے میں ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات،ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمرا ن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر محضر رضا بھی موجود تھے۔
(نئی دہلی/22/اپریل2020)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |