مغربی بنگال کی سر زمین علم و ادب کا گہوارہ ہے ۔مختلف زبانوں کا ادب یہاں فروغ پایا لہذا اس بنیاد پر مغربی بنگال ادب کا گلستاں بھی ہے۔مغربی بنگال کی ریاست ہگلی کا اردو ادب کے فروغ میں بہت اہم رول رہا ہے۔ہگلی سے کئی اردو رسالے ،کتابیں ،کتابچے شائع ہوتے رہے ہیں جن میں کچھ اب بھی جاری ہے۔کئی معزز ادبی شخصیات کا یہ مسکن ہے۔اس ریاست کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔شاعری ،نثرنگاری،صحافت،ترجمہ نگاری کے علاوہ درس و تدریس سے جڑے افراد مسلسل تن دہی سے اپنے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔گاہے گاہے مشاعروں کی محفلیں،تقسیم انعامات کی مجلسیں،تعلیمی و ثقافتی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں۔پورے بنگال اور بنگال کے باہر اپنی صلاحیت کے جوہر دکھانے والے شعراء و ادباء میں شوکت عظیم ایک اہم نام ہے ۔موصوف کی پہچان ترجمہ نگار کی حیثیت سے مستحکم ہے مگر اس مضمون میں انکی ترجمہ نگاری سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔
اصل نام شوکت علی اور قلمی نام شوکت عظیم ہے۔انہیں حرمت ألا اکرام،علقمہ شبلی اور شہود عالم آفاقی جیسے استاد شعراء سے شرف تلمذ حاصل رہا۔
شاعری دل کی آواز ہوتی ہے اور ایک شاعر اپنے دل کی آواز کی ترسیل کی خاطر شاعری کو وسیلہ اظہار بناتا ہے۔شوکت عظیم کی شاعری میں تجربات و مشاہدات کے مواد وافر مقدار میں ملتے ہیں جس سے انکی شاعری میں حقیقت نگاری کا پہلو ابھرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ
زمانے کا چلن اچھا نہیں ہے
تو کیا سچ ہمیں کہنا نہیں ہے
شاعر ہو کہ ادیب اپنے عہد کے،اپنے وقت کے حالات سے اگر بے خبر رہے تو وہ ادب کے تقاضے کو پورا نہیں کرسکتا وہ ادب کہ جس میں عہد تصنیف کی تصویر نہ ہو بے معنی اور رسمی ہوتی ہے۔زندگی کی رنگینیاں بیان کرتے وقت اس کی نظر بے رنگ نظاروں پر بھی ہو جس کا ماتم بپا ہو اور جو ایک حلقے کو اپنی تنگ نظری اور بیجا ظلم و ستم سے گھائل کر چکا ہو۔حقیقت سے چشم پوشی اور حال سے فرار ایک سچے ترجمان وقت کا شیوہ کبھی نہیں ہو سکتا۔موصوف کی زندگی ایسے ماحول میں گزری ہے جہاں انہوں نے غربت و افلاس کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ٹکڑے ٹکڑے میں جیتے لوگوں اور قسطوں میں مرتے لوگوں کو چھو کر دیکھا ہے اور اپنی قلم سے اس کیفیت کی تصویر ہو بہو کھینچ دی ہے،خیالات کے اظہار میں حقیقت نگاری کو ملحوظِ خاطر رکھا۔
وہ خودکشی حرام سمجھتا رہا مگر!
شدت وہ بھوک کی تھی کہ بس زہر کھا لیا
شوکت عظیم کی شاعری میں لفظوں کی ہنر کاری سے زیادہ احساس کی ترجمانی ملتی ہے وہ پیغام دینے کے حق میں نہیں ہے بلکہ اپنی شاعری کو ایک آئینے کی طرح پیش کرتے ہیں اور ان تصاویر کو زمانے کے سامنے رکھتے ہیں جیسا کہ انکی آنکھوں نے دیکھا ہے۔جب بات عام سے تخاطب کا ہوتا ہے تو لہجہ بھی عام رکھنا ہوتا ہے اور سیدھے سادھے الفاظ میں گہری باتیں کہہ جانا فن شاعری کی بہترین مثال کے ساتھ شاعری کا عصری تقاضہ بھی ہوتا ہے۔بڑے شعراء کے یہاں یہ خوبی ملتی ہے وہ گہری رمز کی باتیں آسان لفظوں میں بول جاتے ہیں۔شعر گوی کا مقصد گر اپنی بات ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک پہنچانی ہو تو شعر گوئی کے وصف میں سلاست کے ساتھ صاف گوئی اور سلیس زبان کا استعمال نہایت ضروری ہو جاتا ہے ورنہ وہ حلقہ مخصوص تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے جبھی تو علم و دانائی کی باتیں عام فہم الفاظ میں ہوا کرتی ہیں۔
بیچ دی جس نے اپنی خودداری
بس یہ سمجھو کہ مرگیا وہ شخص
پانی پہ چند لہریں ابھر کر ہوئیں خموش
اب ایسے انقلاب سے حاصل بھی کیا ہوا
اوروں کے خدوخال پہ ہنسئے مگر جناب
اپنا بھی آئینے میں ذرا چہرا دیکھئے
انسان اپنا محاسبہ خود بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔انسان کا ضمیر اس کا صحیح فیصلہ کرتا ہے۔ضروری نہیں کہ لوگ جسے اچھا کہے وہ اچھا ہے اور جسے برا کہے وہ برا۔انسان کا ضمیر گر مطمئن ہو تو پھر کسی دوسرے کی گواہی معنی نہیں رکھتی۔شاعر نے اس خوبصورت نقطے کو یوں پیش کیا ہے۔
صد شکر ہے ضمیر بہت میرا مطمئن
کہتے ہیں لوگ مجھ کو تو کہتے رہے برا
انسان کی زندگی نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتی ہے۔حالات کبھی نازک ترین بھی ہو جاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں انسان گمرہی کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔گمرہی اس لئے کہ اعتماد کا فقدان سے اکثر ایسی صورتیں درپیش ہوتی ہیں۔شاعر ایسی صورتحال میں مثبت سوچ رکھنے کی بات کرتا ہے ،اعتماد کا مظبوط ہونا سرخروئی کا باعث ہوتا ہے۔ہار اور جیت کے پہلے اعتماد کا ہونا اسد ضروری ہے۔انسان کا قوت ارادی مظبوط ہو تو بگڑتے ہوئے کام بننے لگ جاتے ہیں۔
جوہر اعتماد کھو بیٹھا
اپنے سائے سے ڈر گیا وہ شخص
موصوف کی شاعری میں زندگی کا تلخ تجربہ بھی ملتا ہے پر زیست سے بیزاری نہیں ملتی۔مقطے کے اس شعر میں شاعر نے ایک تلخ حقیقت بیان کیا ہے کہ آج دوستی،خلوص،محبت بس نام کے ہی رہ گئے ہیں دکھ کے بادل چھاتے ہی ایسے خلوص و محبت کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔
شوکت خوشی کی چھاؤں میں ہمدرد تھے بہت
رنج و محن کی دھوپ میں ہوں تنہا دیکھئے
موصوف کا شعری لہجہ شگفتہ اور سادہ ہے۔خیالات کے بیان میں پیچیدگی نہیں ملتی اور قاری بغیر دماغی کسرت کے مفہوم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔الفاظ مانوس اور عام بول چال کے ہیں۔ موصوف کی شاعری میں سادہ بیانی جادوبیانی تو نہیں کرتی مگر احساس کے رگ و پے کو متحرک ضرور کرتی ہیں۔احساس کے دریچے وا کرتی ہے اور ان احساس کے دریچوں سے ہم اپنی دنیا میں جھانکتے ہیں ان تمام چیزوں کو ،واقعات کو،نظاروں کو، بہ چشم شاعر دیکھتے ہیں اور تب ہمیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ شاعری لفظوں کی ہنر کاری نہیں بلکہ احساس کی بہترین ترجمان ہے۔دلوں کو متحرک کرنے کا سامان بھی ہے۔ شاعر نے دور ارتقا کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
ہر شخص کشت وخون میں ہے الجھا دیکھئے
اس دور ارتقا کا ذرا نقشہ دیکھئے
پھر تیز چل رہی ہے ہوا انتشار کی
اے ماں تو اپنے بچوں کو آکر سمیٹ لے
حوصلہ زندگی کا دوسرا نام ہے۔مصیبت لاکھ بڑی ہو پر امید اور حوصلے اسے پسپا کردیتے ہیں۔یہ امید ہی تو ہے جو گہراتی رات میں بڑھتے درد کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ صبح قریب ہےاور حوصلہ توانائی کا مرکز ہے۔موصوف کی شاعری میں حوصلے اور امید کے دئے جلتے دکھائی دیتے ہیں۔
شکنجہ کس لے شوکت لاکھ اندھیرا
اجالے کو کبھی دبنا نہیں ہے
شوکت عظیم ان کی بھی بڑھ جائیں قیمتیں
بے مول پتھروں کو جو آذر سمیٹ لے
اردو شاعری میں محبوب جفا پرست ہونے کے ساتھ تغافل پسند بھی ہوتا ہے۔شاعر کو بھی محبوب کی اس ادا سے شکایت ہے وہ کہتے ہیں۔
ٹوٹ گیا ہے دل کا شیشہ
تیرے تغافل کے پتھر سے
اس شعر میں الفاظ کا خوبصورت التزام کیا گیا ہے۔دل کو شیشہ اور تغافل کو بطور پتھر پیش کرنا شاعر کے شعری ذوق کے ساتھ گہری بصیرت کا بھی واضح اشارہ ہے۔
موصوف کی ایک نظم بعنوان "رزق” ایک درد انگیز نظم ہے۔شاعر نے اس نظم میں ایک ایسے شخص کی حالت کو پیش کیا ہے جس کی روزی مقرر نہیں اور روز اسے اپنے حصے کی روزے تلاش کرنی پڑتی ہے۔پورے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اس کے روز قسمت سے ملنے والی روزی پر منحصر ہے۔جب وہ خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے تو گھر میں رونے کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔جس کو سن پڑوس کے معزز حضرات چلے آتے ہیں کیونکہ انکی عبادت اور نیند میں خلل پڑتا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی ان سے نہیں الجھتا اس کے سامنے اسکی شرافت کھڑی ہوجاتی ہیں۔ایک تو روزی نہ ملنے کا غم دوسرا لوگوں کے طعنے جو گونگے اندھے بہرے بھی ہیں۔اگر وہ اندھے گونگے ،بہرے نہ ہوتے تو بچوں کے رونے کی آواز کو بخوبی سمجھ سکتے مداوا نہ کرتے تو کم سے کم اپنی پرہیزگاری بھی نہیں دکھاتے۔مفلسی انسان سے انسانی خصلتوں کو چھین لیتی ہے اور جب یہ اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو سارے فلسفے بے معنی،بے سود لگتے ہیں۔شاعر کو یہ فکر لاحق ہے کہ اس کے گھر آج چولہا نہیں جلے گا ساتھ ساتھ وہ دل کو سمجھاتا بھی ہے کہ شائد اس کے حصے کی روزی آج رازق نے نہیں لکھا۔آج اس کے گھر کے لوگ آنسو پئیں گے۔نظم کے ابتدائی حصے ملاحظہ فرمائیں۔
مجھے آج روزی نہیں مل سکی ہے
مرے گھر میں پھر آج چولہا نہیں جل سکے گا
مرے گھر کے افراد پھر آج آنسو پئیں گے
مرے ننھے معصوم
بچوں کے رونے کی آواز سن کر
مرے کچھ پڑوسی،مری سرنزش کو
مرے گھر کے دروازے پر دیں گے دستک
مرے گھر کا یہ شور و غوغا
عبادت میں ان کی خلل ڈالتا ہے
مرے بچوں کی سسکیوں سے
اچٹ جاتی ہے نیند ان کی۔
نظم کا آخری حصہ شاعر کے جذبۂ صبر و شکر کو ظاہر کرتا ہے جب وہ سوچتا ہے کہ آج خالق نے اس کی روزی نہیں لکھی ہے لہذا آج اس کے گھر چولہا نہیں جلے گا۔آج اس کا کنبہ پھر آنسو پئے گا۔وہ کسی بھی طرح کی شکایت نہیں کرتا نہ اپنی قسمت کی نہ اپنے رازق کی۔
اپنی شاعری میں خوبصورت احساس کو بسانے والے شوکت عظیم نے اپنا جو بھی شعری سرمایہ چھوڑا ہے وہ لائق مطالعہ اور قابل تحسین ہے۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
بہت عمدہ تخلیق۔۔۔۔اللّٰہ آپکو مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین یا رب العالمین