اردو ادب میں بچوں کا ادب نہایت اہم ہے مگر اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔اس کے کئ اسباب ہو سکتے ہیں اول اس کے قاری نو عمر ہوتے ہیں جن سے خاصی داد و تحسین نہیں مل سکتی،بچوں کا ادب سے تغافل اس لئے بھی برتا جاتا ہے کہ کہیں ان کی شناخت بچوں کا شاعر یا بچوں کا ادیب کے طور پر نہ ہو جائے مگر میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بچوں کا ادب لکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔بچے کی نفسیات کو سمجھنا اور انکے بیچ بچہ بن کر بیٹھنا آسان نہیں۔بچے اگر ابتدائی دنوں سے اخلاقی،تہذیبی،دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں،نظمیں پڑھیں گے انکی ذہنی نشوونما بھی ہوگی،اچھی اور کار آمد باتیں بھی سیکھیں گے،ذہنی آسودگی کے ساتھ ذہنی بالیدگی بھی ہوگی۔نو عمری میں بچے وہی کرنا پسند کرتے ہیں جو وہ دیکھتے اور سنتے ہیں۔کارٹون کے کرداروں کی نقل کرتے ہیں ایسے میں اگر انہیں اچھی کہانیاں پڑھنے کو ملیں تو یقیناً وہ ان کہانیوں سے وہ پیغام ضرور سیکھ سکے گیں جس مقصد سے کہانی کار کہانی لکھتا ہے اور آنے والے زمانے میں اپنی تہذیب و ثقافت سے اس قدر غیر مانوس نہیں رہیں گے جیسا کہ آج ہیں۔ اس نقطہ کے پیش نظر بچوں کا ادب کی اہمیت و افادیت اور بڑھ جاتی ہے۔
سختیاں، پابندیاں اور موٹی موٹی کتابوں کے بوجھ تلے دبے بچے وہ تمام علوم تو سیکھ جاتے ہیں یا رٹ جاتے ہیں جو ہم ان سے چاہتے ہیں پر اپنی دنیا سے محروم ہو جاتے ہیں یہ معاملہ کسی ایک مخصوص جگہ کا نہیں ہر سو یہی طریقہ رائج ہے۔بچوں کی دنیا کی پریاں،محل،بہادر راجہ،کھیتوں کی منڈیر پر گاتا کسان،باغوں میں اڑتی تتلیاں معلوم نہیں کب کی آڑ گئی ہم نے بھی نہیں دیکھا پر یہ ضرور دیکھا کہ بچے ان چڑیوں،پھولوں،تتلیوں کی تلاش میں آج بھی سرگرداں ہیں۔اسکول جاتے وقت ان کی بجھی بجھے نگاہیں ان کو ڈھونڈتی ہیں۔بچے جب تک ان کہانیوں کو سنتے رہیں، پڑھتے رہیں ان سے آشنا رہیں قدرت کی گود میں کھیلتے رہیں قدرت بھی ان کے سر بلائیں لیتی رہی۔اچھے خیالات بچوں کے اندر پنپ سکیں اس کے لئے نہایت ضروری ہےکہ بچے اچھا دیکھیں، اچھا سنیں ،اچھا پڑھیں۔
مستند و معتبر افسانہ نگار،قابل قدر شخصیت نذیر احمد یوسفی نے اپنے پٹارے سے ان تمام کھلونوں کو باہر نکالا جو بچوں کو ہنساتے بھی ہیں،سکھاتے بھی ہیں اور پڑھنے کی دل میں تمنا بھی پیدا کرتے ہیں۔
"بچوں کی کہانیوں کا گلستان” نذیر احمد یوسفی کی بچوں کی کہانیوں کی چوتھی کتاب ہے۔ اس سے قبل "خزانے کی واپسی” ،”ادبی کہانیاں”،”قصے کہانیاں”منظر عام پر آکر دادو تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
اس مجموعے میں بائیس کہانیاں شامل ہیں.کہانیاں الگ ذائقے کی ہیں اور کہانیوں میں ایک نیا پن ہے جس کی شروعات موصوف کی پہلی کہانی”دوسرا علی بابا”کہانی کے عنوان سے ہی ہوتا ہے۔موصوف نے کہانی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے جو واقعئ قابل تحسین ہے۔کہانی میں قارئین کی دلچسپی کو بڑھاتے ہوئے انہوں نے ملا جاہ علی کی بگڑی شکل ملا جاہلی کا استعمال کرکے لبوں پہ ہنسی کی لکیر ابھار دی ہے۔کہانی کی شروعات سے ہی کہانی پن کا احساس ہوتا ہے کہانی کا تسلسل ایک نشست میں پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔”علی بابا اور چالیس چور” ایک مشہور کہانی ہے مگر اس کہانی کا دوسرا علی بابا منفرد ہے اور نیا نیا سا۔
مرزا جاہ علی انکی کئ کہانیوں کے کردار ہیں کہانی "موتی والی مچھلی”میں موصوف نے محنت کے ساتھ ہوشیاری کو موضوع بنایا ہے جس میں مرزا جاہ علی اپنی بگڑی حالت کو ہوشیاری سے ٹھیک کر لیتے ہیں۔کہانیوں میں ایک کردار سیریز کا مزہ دیتا ہے مرزا جاہ علی سیریز۔یہ ایک الگ کام ہے اور اس سے انفرادیت بھی ہے جب کبھی لوگ مرزا جاہ علی کا ذکر سنیں گے نذیر احمد یوسفی صاحب کو ضرور یاد کریں گے۔
"منی آرڈر والی چھتری” ظرافت کے پہلو میں خوبصورت کہانی پیش کی گئ ہے۔
"نہیں بننا ہے بڑا آدمی” بہت سبق آموز کہانی ہے اور بچوں کے اندر ایمانداری کے جذبے کو فروغ دیتی ہے۔کہانی کا ہیرو مرزا جاہ علی اور ویلن منوج اگروال کی جوڑی دوبارہ منظر عام پر آتی ہے اور قاری سے اب انکی اچھی شناسائی بھی ہو چکی ہے۔
"بڑی بھول” ایک نصیحت آمیز کہانی ہے جب بچے اپنے بڑوں کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں بچے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان کے والدین پر کیا گزرتی ہے جب کوئی بچہ ایسے کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے لہذا بچوں کو ہمیشہ اپنے بڑوں کی باتوں پر کان دھرنا چاہئے۔
بچوں کی شرارتوں کو بڑی سلیقگی سے سدھارنے کی کئ کہانیاں شامل کتاب ہیں جس میں "سانڈ نے سبق دیا ” بھی ہے۔
خدمت خلق کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔حکیم ابو طاہر کی ہاتھوں میں اپنی دعا سے شفا رکھنے والاحکیم کی مہمان نوازی اور خلوص سے حد درجہ متاثر ہوا۔کہانی میں افسانوی رنگ وہاں شامل ہوجاتا ہے جب حکیم صاحب اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر متحیر ہوجاتے ہیں اور تھوڑے ہی دیر میں دعا اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایسی مسیحائی آ جاتی ہے کہ نیم جاں بھی بھلے چنگے ہونے لگتے ہیں ۔عام فہم لفظوں میں موصوف نے صدق دل سے کی جانے والی خدمت خلق کی ترغیب کہانی” ایک رات کا مسافر "میں دی ہے۔
"تیسرے کا فائدہ” میں موصوف نے دو کی لڑائی میں تیسرے کا فائدہ کیسے ہوتا ہے اس کو بتایا ہے۔جب گھوڑا اور بھینس آپس میں لڑ جاتے ہیں تو کسان کو فائدہ ہوجاتا ہے اور اسے مفت میں دو خدمت گزار حاصل ہوجاتے ہیں۔کہانی بچوں اور بڑوں کی نہیں ہوتی کہانی کہانی ہوتی ہے جو سب کے لئےیکساں سودمند ہوتی ہے۔کام کی باتیں انسان عمر کے ہر پڑاو پر سیکھتا ہے۔اس کہانی میں کہانی کار نے مکالمے جانوروں سے ادا کروائے ہیں اس سے کہانی اپنی کہانی کہتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔جملے بہت چست ہیں کہانی کا مکالماتی انداز بہت بھاتا ہے نیز کہانی کو جاندار بھی بناتا ہے۔
بیالیس سال کا کہانی کار نے بیالیس سو اشرفیاں ایک نیک شخص کے پاس بطور امانت رکھ کر بیالیس مہینے بعد جب سفر سے لوٹا تو امانت دار کو مرے بیالیس دن گزر چکے تھے۔ گھر کے افراد نے ایسی کسی بھی امانت سے لا علمی ظاہر کی لہذا اپنی امانت واپس پانے کے لئے کہانی کار بیالیس لوگوں سے مل چکا مگر حل اسے ایک عالم دین نے بتایا۔کہانی کار نے جب اس فوت ہوئے امانت دار سے باتیں کی تو اسے سخت حیرانی ہوئی کہ اتنا نیک آدمی کی ایسی حالت کیوں؟ تو معلوم ہوا کہ اسکے تعلقات اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں سے کشیدہ تھے۔اس کہانی میں کہانی کار نے اس نقطے پر زور دیا ہے کہ تمام تر خوبیاں ہونے کہ باوجود ایک انسان کا خوش اخلاق ہونا نہایت ضروری ہے۔کہانی کا بیانیہ پن بہت خوبصورت ہے۔
"سانپ نے کیسے کاٹا” ایک ذہانت سے پر کہانی ہے”اب پھر نہیں” بھی بچوں کو والدین کی اطاعت سکھاتی ہے۔”درد دل کے واسطے” افسانوی ذائقہ فراہم کرتا ہے بہت خوبصورت کہانی ہے اور کہانی کے آخر میں اخگر صاحب کا جملہ "ضرورت ہوگی اس لئے انہوں نے یہ حرکت کی ہے،ضرورت آدمی کو کبھی کبھی ایسی ہی نیچ کام کرواتی ہے” کہانی کو بہت دمدار بنا دیتے ہیں۔
"بی بی مینڑکی کو زکام”ایک مزاحیہ کہانی ہے۔”جان بچی لاکھوں پائے”میں مشکل وقت میں عقل سے کام لینے کا مفید مشورہ ہے۔
"دروازے پر تھیلی”غیرت مندی،دردمندی اور حاجت روائی کی بہترین اور ہر دور کے لئے سبق آموز کہانی ہے۔
” شہزادی گلنار کا حوصلہ "ڈرامائی کیفیت سے پر ہے اور خالق پر اعتماد کے جذبے کو بڑھاتا ہے۔
موصوف نے بچوں کی طبیعت اور مزاج کے مد نظر کہانیوں میں نیا پن اور کلائمکس کو سبق آموز رکھا ہے۔عام فہم الفاظ کے استعمال نے واقعات کو پر لطف بنادیا ہے۔دین و دنیا کی اچھی باتوں کے ساتھ اخلاق کے پہلوں کو اہم رکھا ہے اور ان کہانیوں سے بچے صلہ رحمی و اخلاقیات کا درس حاصل تو کریں گے ہی ساتھ میں ایسی کہانیاں مستقبل میں پڑھنے کی للک بھی ان کے اندر جاگے گی۔دور رواں کی ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ بچوں کو دین اور اخلاق کی باتیں گوش گزار کی جائیں تاکہ آنے والا کل بہتر ہو۔قابل مبارک باد ہے مغربی بنگال اردو اکاڈمی جو بچوں کے ادب پر کام کر رہی ہے اور اس طرح کی دلچسپ اور مفید کتابوں کی اشاعت بھی کررہی ہے۔
نذیر احمد یوسفی نے بچوں کے ادب پر نمایاں کام کیا ہے،بچوں کی کہانیوں کے چار مجموعے اس کا بین ثبوت ہے۔بچوں کے ادب کے حوالے سے کوثر صدیقی کی رائے جو اس کتاب کے صفحہ نمبر ٣ پر درج ہے بہت جامع ہے۔ملاحظہ فرمائیں ۔
"ہر شاعر یا کہانی نویس بچوں کا ادب تخلیق نہیں کرتا کہ اس کام میں نہ تو مشاعرے لوٹے جاسکتے ہیں اور نہ داد و تحسین حاصل ہوتی ہے،بچوں کے لئے ادب کی تخلیق وہی کرتا ہے جو ملک و قوم کی نئ نسل کی ذہنی ساخت اور تربیت کا دل میں درد رکھتا ہو”
نذیر احمد یوسفی کی نثری تخلیقات افسانے،مضامین اور بچوں کی کہانیاں اردو ادب خصوصی طور پر بنگال اردو ادب کا بیش قیمتی خزانہ ہے۔موصوف بڑی خاموشی سے اردو ادب کی خدمت انجام دیتے ہیں اور ادب میں انکی شخصیت ایک تناور سایہ دار درخت کی ہے۔رب لفظ و معنی سے دعا ہے ان کا قلم یونہی دوڑتا رہے۔ آمین
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
بہت بہت عمدہ۔۔۔۔۔مشاء اللّٰہ