دنیامیں آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی تعلیم کا آغاز ہوا۔ انسانی مخلوق کی لاعلمی کے سبب کئی مدت تک تعلیم سے متعلق تاریخی شواہد پر پردہ پڑا رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے انسان کا ذہنی شعور بیدار ہو تو پھر مؤرخین نے اپنی کوششوں سے سراغ لگاکر تاریخ کو مرتب کرنا شروع کیا۔ اب یہاں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ قدیم ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کیا درجہ رکھتی تھی؟جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ قدیم ہندوستان میں کسی بھی مذہب یا فرقہ کی عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں تھا اور وہ سماجی بندشوں میں اس قدر جکڑ ہوئی تھی کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھان بھی اس کے لیے محال تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ابتدا سے ہی ہندوستانی سماج میں مرد کو عورت پر ترجیح دی جاتی رہی۔ سماج میں مرد کا مقام و مرتبہ اتنا بلند تھا کہ عورت ذات کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اسے ہمیشہ سے ہی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا تو کبھی داسی بناکر اس کی خریدوفروخت کی گئی۔ مجموعی طور پر ہر طرح سے عورت کا استعمال کیا جاتا رہا اور انہیں ظلم و جبر کا شکار بننا پڑا۔
غور طلب ہے کہ مذہب اسلام کے ظہور میں آنے سے عورت کو معاشرے میں ایک اہم مقام ملا ۔ حالانکہ طلوع اسلام قبل دورِجاہلیہ کے عرب سماج میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھے، اسے نفرت اور تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔حتیٰ کہ لڑکی پیدائش کو منحوس خیال کای جاتا، اور اسے زندہ درگورکردیا جاتا تھا۔کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لیے بے عزتی کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ اسی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور فرانسیسی مصنف گستاولی بان نے کہا ہے کہ :
’’زمانہ جاہلیت میں عورتیں انسان اور حیوانات کے درمیان ایک مخلوق سمجھی جاتی تھیں جن کا مصرف محج ترقی نسل اور مردوںکی خدمت تھا۔ لڑکیوں کا پیدا ہونا ایک بدنصیبی خیال کیا جاتا تھا اور ان کو زندہ دفن کردینے کی رسم بہت عام تھی۔ یہ دفن کردینے کا حق اسی طرح حاصل تھا جیسے کتیا کے جھول کو پانی میں ڈبو دینے کا۱؎۔‘‘
[خالد سیف اﷲ رحمانی : عورت ۔اسلام کے سائے میں ،۱۹۸۵ء ص۔۱۸]
لیکن ساتویںصدی عیسویں میں اسلام مذہب میں عورت کو باعزت مقام دیا گیا اور مردو عورت کو مساوی حقوق فراہم کیے گئے ۔قرآن میں یہ تک کہا گیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ تم ان کے لباس ہو اور وہ تمہارے لیے لباس ہیں۔
ھُنَّ لِنَاسُ لَکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسُ لَہُنَّ
مذہب اسلام میں تمام مسلمان مرد اور عورتوں کے یے علم حاصل کرنے کو ایک اہم فریضہ قرار دیا گیا۔ حصول علم کے لیے حضور ﷺنے یہاں تک فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین یا دوردراز ملکوں کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔قرآن مجید میں مردو عورت کی تعلیم کے سلسلے میں حدیث ہے:
طَلَبَ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃً عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمُ وَ مُسْلِمَۃً۔(مسلم)
(علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔)
عہد نبویؐ میں ہجرت کے بعد حضور ﷺنے مسلمانوں کا ایک خاس نظام تعلیم قائم کیا جس میں عورتوں کی تعلیم کو بھی داخل کیا گیا۔ حضور عورتوں کی تعلیم سے کبھی غافل نہیں رہے ۔ازدواج مطہرات میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ؓقرآن و حدیث کے علوم سے پوری طرح واقف تھیں اور لکھنا پڑھنا بھی جانتی تھیں خود حضورﷺ کی صاحبزادیاں بھی زیور تعلیم سے آراستہ تھیں۔ قرآن و سنت کے حوالے سے مولانا مودودی عورتوں کی تعلیم و تربیت کیس سلسلے میں یوں لکھتے ہیں:
’’عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مردوںکی تعلیم و تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ نبی اکرمؐ سے دین اور اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے، اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ آپؐ نے ان کے لیے اوقات معین فرمادیئے تھے۔ جن میں وہ آپؐ سے علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔آپؐ کی ازدواج مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہؓ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نہ صرف عورتوں کی بلکہ مردوں کی بھی معلمہ تھیں اور بڑے صحابہ اور تابعین ان سے حدیث، تفسیر و فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اشرف تو درکنار نبی اکرم ﷺنے لونڈیوں تک کو علم و ادب سکھانے کا حکم دیا تھا۲؎۔‘‘
[عقیلہ جاوید: اردو ناول میں تانیثیت،۲۰۰۵ء۔ص۔۵۴]
مذکورہ بالا روحانیت کے مفہوم کے مطابق امہات المؤمنین میںحضرت عائشہؓمذہب اسلام کی پہلی معلمہ تھیں جو مدینہ پاک میں قائم اپنے حجرہ کے اندر بیٹھ کر شہر کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں:
’’معمول تھا کہ ہر سال حج کو جاتیں،اسلام کو وسیع دائرہ سمٹ رک ایک نقطہ پر جمع ہوجاتا تھا۔ پہاڑوں کے درمیان حضرت عائشہ کا خیمہ نصب ہوتا۔ تشنگان علم جوق در جوق دور دراز ممالک سے آکر حلقۂ درس میں شریک ہوتے… مسائل پیش کرتے اور اپنے شبہات کا ازالہ چاہتے۔ تابعین میں سے اس عہد کے تمام علمائے حدیث جو ان کے خوشہ چیںتھے ان میں اڑتالیس عورتیں تھیں۳؎۔‘‘[امین زبیری: مسلم خواتین کی تعلیم۔ ۱۹۵۶ء۔ص۔۱۳]
قرآن و احادیث کی روشنی میں حصول علم کے لیے جن روایات کو سنا اور پڑھا گیا اور اس کے نتیجے میں مذہب اسلام کے زیر سایہ دنیا میں علم و فنون کا ادائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ اس ترقیاتی دور میں خواتین اسلام کے علمی ذوق و شوق کے حوالے سے حبیب الرحمٰن خان شیراونی لکھتے ہیں کہ:
’’ہماری ترقی کے دور میں … صنف نازک بھی ایک علمی شان و مرتبہ رکھتی تھیں اور جو کمالات اگلے مسلمان حاصل کرتے تھے ان میں ان کی ماؤں اور بہنوں کی مدد غیر معتدبہ نہیں ہوتی تھی۔ امام حافظ ابن عساکر مؤرک دمشق نے جن اساتذہ سے فن حدیث حاصل کیا تھا ان میں اسّی سے زیادہ عورتیں تھی۔ حافظ ابن حضر، توالی التماسیس میں اپنے شیوخ میں متعدد جگہ عورتوں کا نام لیتے ہیں۔ حٖیہ ابن زہر، اشبیلہ کے مشہور طبیب کی بہن اور بھانجی طب اور معالجات کی عالمہ تھیں اور امراض نسائی کے معالجے میں بالخصوص ان کو مہارت تامّہ حاصل تھی۴؎۔‘‘ [ایضاً]
ہم دیکھتے ہیں کہ جب دھیرے دھیرے مسلمانوں میں عورتوں کی تعلیم کا چلن عام ہونے لگا تو خلفائے عباسیہ کے دور میں بھی خواتین زیور تعلیم سے آراستہ دکھائی دیں۔ مثال کے طور پر ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ خاتون اس عہد کی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی کنیزیں بھی علم و فضل میں ممتاز حیثیت رکھتی تھیں اور ساتھ ہی حافظ قرآن بھی تھیں۔ اس عہد میں تعلیم صرف رؤسا امراء کی بیگمات تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ کنیزوں اور لونڈیوں کی تعلیم پر بھی توجہ مرکوز کی جاتی۔ مزید یہ کہ اسلام کی وہ خواتین جن کا تعلق اس عہد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں سے تھا انہوں عورتوں کی تعلیم کے لیے وقتاً فوقتاً مدرسوں کے قیام میں حصہ لے کر اپنی جرأت مندی کا ثبوت دیا۔
’’چنانچہ بغداد میں جس قدر بڑے مدارس تھے ان میں ایک مدرسہ خلیفہ ناصرالدین اﷲ کی والدہ کا قائم کیا ہوا تھا۔ سلطان صلاح الدین کی بہن زمرد اور بھتیجی عذرا دمشق میں دو مدرسوں کی بانی تھیں۔ عہد اتراک میں خواتین اتراک نے تین مدرسے قسطنطنیہ میں اور ایک طرابزون میں قائم کیے تھے۔مصر مین ایک بڑا مدرسہ قطبیہ ساتویں صدی ہجری میں ایک محدلہ خاتون مونسہ خاتون نے قائم کیا تھا۔ اس نے ترکے میں بڑی دولت چھوڑی تھی اس سے یہ مدرسہ قائم ہوا اور مدرسے کے لیے جائیداد خرید کر وقف کی گئی۵؎۔‘‘ [ایضاً]
اس طرح ان حوالوں کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام مذہب ابتدا سے ہی خواتین امورخانہ داری کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی شغف رکھتی تھیں اور دیگر علوم و فنون میں ماہر تھیں۔
چنانچہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل قدیم تعلیمی نظام کو غلط تصور کرتے ہوئے لوگوں کی سوچ اور حالات دونوں میں تبدیلی واقع ہوئی تو مسلمانوں کے عہد حکومت میں ایسے بہت سے روشن خیال اور تعلیم نسواں کے حامی و علمبردار ہوئے جن کا تعلق سلطنت یا مختلف صوبوںسے تھا اور انہوں نے اپنی عملی کاوشوں کے ذریعے عورتوں کی تعلیم کے لیے بہت سے مدارس اور درسگاہیں قائم کیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ابن بطوطہ جو ایک مراکش سیاح تھا، اس نے اپنے سفرنامہ میں درج کی ہوئی روداد کے مطابق لکھا ہے کہ تغلق خاندان کے حکمراں سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت میں صرف دہلی میں ہی ایک ہزار مدرسے اور سترہ شفاخانے تھے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی تعلیم نسواں کے تئیں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ غلام خاندان کے بادشاہ سلطان التتمش کی صاحبزادی رضیہ سلطان اپنے عہد کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شہزادی تھی جس نے اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر پندرہویں صدی میں ہندوستان کی باف دوڑ اپنے ہاتھ میں لی۔البتہ رضیہ نے ہندوستان میں تعلیم نسواں کو فروغ بخشنے کے لیے دو مدرسے معزیہ اور ناصریہ قائم کیے۔ ہندوستان کی تاریخ میں دوسرا اہم اور معتبر نام چاندبی بی کا ہے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے میدان جنگ میں چاندبی بی کا ہے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے میدان جنگ میں چاند بی بی کے کارنامے قابل فخر ہیں۔یہ علم و فن کی بڑی دلدادہ تھیں۔ انہیں عربی و فارسی کلے علاوہ تیلگو اور مراٹھی میں بھی مہارت حاصل تھی۔اس کے علاوہ ۸۴۵ھ میں جونپور میں بی بی راجہ بیگم نے ایک مدرسہ ’’مدرسۂ جونپور‘‘ کے نام سے قائم کیا ۔ غرض یہ کہ تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں مختلف شاہی خاندان کے حکمرانوں کے ذریعے قائم کیے گئے مکتب اور درسگاہوں میں مرد عورتیں دونوں اصناف علم وہنر سے فیض یاب ہوتے رہے۔
عہد مغلیہ میں بھی ایسی شہزادیوں کی مثالیں ملتی ہیں جو ذریعہ تعلیم سے آراستہ تھیں۔ ان خواتین کو مذہب سے کافی لگاؤ تھا کیونکہ ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز قرآن پاک سے ہوتا تھا۔ اکثر یہ شہزادیاں حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ دینوی علوم میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔مثلاً بابر کی بیٹی گلبدن بیگم تعلیم یافتہ تھی اور اس نے ’’ہمایوں نامہ‘‘ تصنیف کیا۔ ہمایوں کی بھتیجی گلرخ اور اس کی لڑکی سلیمہ سلطان بھی مختلف علوم و فنون میں ماہر فارسی کی شاعرہ تھیں۔ اکبر کے دورِ حکومت میں فتحپور سیکری کے مختلف حصوں میں باقاعدہ عورتوں کی تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا تھا جہان حرم شاہی کی خواتین بھی تعلیم حاصل کرنے میں دل چسپی لیتی تھیں۔ جہانگیر کی بیگم نورجہاں اور شاہجہاں کی ملکہ ممتاز محل بھی فارسی علم وادب میں اچھی خاص قابلیت رکھتی تھیں اور شعر کہتی تھیں۔ شاہ جہاں کی بڑی بیٹی جہاں آرا بیگم بھی ایک ممتاز شاعرہ اور فن خطاطی میں ماہر تھیں۔ یہ شروع سے ہی بہت فیاض تھی۔ اس نے سینکڑوں بیواؤں کے لیے وظیفہ مقرر کیے اور غریب لڑکیوں کی شادیاں کروائیں اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء بیگم نہایت دانش مند اور فاضلہ خاتون تھیں۔ یہ قرآن مجید کو سمجھنے کے سلسلے میں کافی قابلیت رکھتی تھی۔ اس نے عالموں اور مصنفوں سے بہت سی کتابیں بھی ترجمہ کرائیں۔
ہمارے سامنے ایسے چند خواتین کی بھی مثالیں پیش نظر ہیں۔ جنہوں نے اپنی قابلیت کے بل پر نمایاں کارنامے انجام دے کر اپنی علمی و سیاسی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ایسی خواتین میں بادشاہِ اودھ امجد علی شاہ کی بیگم نواب تاج آرا، واجدعلی شاہ کی بیگمات میں خسرو بیگم کو خاص امتیاز حاصل تھا۔ ان کے علاوہ امراء خاندان کی اور بہت سی خواتین جیسے شاہ جہاں بیگم ،نواب سلطان جہاں بیگم اور نفیس دلہن وغیرہ اپنے عہد کی تعلیم یافتہ، شعرو سخن میں ماہر اور فارسی و اردومیں صاحب تصنیف و تالیف تھیں۔ چنانچہ ان تعلیم یافتہ خواتین کے علاوہ بعض معزز خاتونان اسلام نے اپنی عملی کاوشوں سے ملک گیر پیمانے پر عورتوں کی تعلیم کو مزید فروغ بخشا۔
’’بہار میں فاطمہ صغریٰ بیگم نے ایک بہت بڑی جائداد وقف کی جو ’’صغریٰ وقف اسٹیٹ ‘‘ کہلاتی ہے۔ کلکتہ کی ایک قابل خاتون صولت النساء بیگم نے مکۂ معظمہ میں مولانا محمد رحمت اﷲ مہاجر مرحوم کی خدمت میں ایک مدرسہ کے قیام کے لیے تیس ہزار وپے پیش کیے اور اس خاتون کے نام پر مرکز اسلام میں ’’مدرسہ صولتیہ‘‘ قائم ہوا۔ ۱۹۳۷ء میں حیدرآباد دکن کی مشہور مضمون نگار و مصنفہ صغریٰ ہمایوں مرزا نے ایک چار لاکھ روپے کی قیمتی عمارت تعلیم اور دیگر امورخیر کے لیے وقف کی۔ ۱۹۲۳ء میں انہوں نے ایک زنانہ مدرسہ بھی قائم کیا۔سات ہزار روپے کی اس زمین پر اس مدرسے کی ایک عمدہ عمارت بھی تعمیر کرائی۶؎۔‘‘ [ایضاً]
لہٰذا مسلم دور حکومت میں رئیس و مراء خاندان کی خواتین نے مذہبی و مشرقی تعلیم میں دلچسپی لیتے ہوئے بہت سے مدارس اور درسگاہیں قائم کیں۔
حدیثہ افضل
پی۔ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو ،دہلی یونی ورسٹی،دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page