بچپن کو دو اسٹیج میں بانٹا جاتا ہے ۔ شعور کی Ageدوسری اس سے پہلے کی، پہلے والی ۳۔۶ سال ، بعد کی ۶۔۱۲ سال کی عمر ہوتی ہے۔ ۶۔۱۲ سال والی عمر کی باتیں ہمیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ کیونکہ اس میں دوستوں کی ٹولی کے ہم مکھیا جو ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک جھونسی کے ایک محلہ میں ایک ٹولی تھی جس کا ذکر آج بھی ہم لوگ کرتے ہیں ایک نعرہ تو ہم لوگوں کا خاص رٹا ہوا تھا،’’گلی، گلی میں شور ہے سہریّا بھابھی چور‘‘ جب بھی گوری، ناٹی، عورت کو دیکھتے چلانے لگتے کسی سے سنا تھا جب وہ شادی میں جاتی نان چرا کر پرس میں بھر لیتی۔ پریاگ راج کے نینی سے جھوسی بیاہ کرکے آئی تھی جو ہمارے محلہ میں ہی رہتی تھی بھابھی ہم لوگوں کے نعرے سے تنگ آکر راستہ بدل دی، سامنے روڈ پار کرتے ہوئے نظر آتی پھر بھی ہم میں سے کسی کی نگاہ پڑ جاتی تو ٹولی اکٹھا ہو جاتی اور ان کے پیچھے پیچھے نعرے بازی شروع ہوجاتی۔
امی سے پنڈتائن انٹی اکثر ملنے آتی جن کی تین بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کسی مسلمان کے ساتھ بھاگ گئی تھی کبھی کبھار اپنے ماں سے ملنے آتی اس کا گذر گھر کے سامنے بنی روڈ سے ہوتا۔ آنا چاہے ایک مہینے بعد ہوتا یا دو مہینے ، ہم لوگ استقبال کا طریقہ نہ بھولتے۔
گوری سے سنہرے بالوں والی لڑکی آج بھی آرہی تھی کالا چشمہ اور بوٹ پہنے آگے آگے تیزی سے چلی آرہی تھی پیچھے پیچھے کالا بھجنگا اس کا میاں ہم لوگ دیکھتے ہی شروع ہوگئے۔ ’’گورے گورے مکھڑے پر کالا کالا چشمہ، توبہ خدا خیر کرے خوب ہے کرشمہ‘‘ نہ جانے آج اسے کیا ہوا تھا ویسے تو چپ چاپ چلی جایا کرتی تھی دوڑ کر ٹولی کے ایک بچے کو پکڑ لیا، کیوں گائی گی آج کے بعد گانا۔ چلو گواتی ہوں آنٹی، انٹی لوہے کا دروازہ بھڑبھڑاتے ہوئے بولی کیا ہوا بٹیا کیوں اتنی زور زور سے چلا رہی ہو انٹی جی آپ کی بیٹیا او رمحلے کے بچوں کو لے کر جب ادھر سے جاتے ہیں تو ہمیں دیکھ کر گانا گاتی ہے۔ انہیں منع کر،ارے جانے کے بعد ان کو بہت سمجھاتے ہیں۔ آج ان کے ابا سے شکایت کریں گے بے لگام ہورہی جو من میں آئے وہ کرے گی کیا۔ تم جاؤ بیٹیا۔
آج ہم تینوں بہنیں گھوم رہے تھے۔ سلائی والی انٹی کے گیٹ کے پاس بیٹھ گئے کچھ چیز لیے کھا رہے تھے کہ سامنے نظر پڑی اسکول کی کچھ لڑکیاں سائیکل سے چلی آرہی تھی۔ دیکھتے ہی پرکٹی، پرکٹی وہی اپنا پرانا جملہ رٹنے لگے کیا پتہ تھا آج کا رٹنا اتنا بھاری پڑے گا یہ بھی نہیں سوچے ٹولی کے اور لوگ بھی نہیں ہیں۔ گاندھی جی کے تین بندر ہی ہیں ان لڑکیوں نے اتنی جلدی سے حملہ کیا کہ بھاگنے کا موقع بھی نہ ملا۔ ان کے ہاتھوں میں ہمارے بال تھے، بولے گی آج کے بعد پرکٹی، اتنا ہی شوق ہے تو اپنا بھی پر کٹوالو دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی۔ تبھی گیٹ کھلنے کی آواز آئی کون ہے۔ آواز سنتے ہی وہ نو دو گیارہ ہوگئی۔ ہمارا رونا چیخنا تو پورا محلہ سن رہا تھا۔ کچھ ہمدرد سوچ بھی رہیں ہوں گے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page