’شعر زمین ‘خالد محمود صاحب کا تازہ اور تیسرا شعری مجموعہ ہے ۔اس سے قبل ان کے دو شعری مجموعے ’سمندر آشنا‘اور ’شعر چراغ‘منظر عام پر آچکے ہیں ۔پروفیسر خالد محمود علمی اور ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔وہ شعبہ اردو جامعہ ملیہ کے سابق صدراور مکتبہ جامعہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں ۔اردو اکیڈمی دہلی کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے بھی انہوں نے نمایاں علمی و ادبی امور انجام دئے ہیں ۔ایک مشفق استاد، خوش فکر شاعر،طنز و مزاح نگار،مترجم اور تنقید نگاربھی ہیں ۔’شگفتگی دل کی(خاکے،انشائیے)’اردو سفر نامو ں کا تنقیدی مطالعہ، ادب کی تعبیر اور’تفہیم و تعبیر‘ان کی اہم تصانیف ہیں ۔ ( یہ بھی پڑھیں جینت پر مار کی نظمیہ شاعری- محمد غالب نشتر)
شعر زمین ۶۸ غزلیں اور ۶ نظمیں ہیں اور ۳ نظموں کے انگریزی تراجم بھی شامل ہیں ۔اس میں نئی تخلیق کے ساتھ ان کے دونوں سابقہ مجموعوں کی نظموں اور غزلوں نے بھی جگہ حاصل کی ہے۔اس مجموعہ کے مطالعہ کے دوران ہر ورق پر کم سے کم دو تین اشعار ضرور ایسے مل جائیں گے جن سے ان کی شخصیت کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک چلتی پھرتی دنیا کو اس میں سمو دیا ہے تو غلط نہ ہوگا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کوبڑی فن کاری کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔شعر زمین کا پیش لفظ پروفیسر مظفر حنفی صاحب نے لکھا ہے جس میں انہوں نے بھی اس طرف اشارہ کیاہے:
’’طبیعت میں خلوص ،جاں سوزی،غم سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ،ایثار کا مادہ اور بے لوثی نہ ہو تو یقین کیجیے
شاعر ایسے چبھتے ہوئے شعر کہہ نہیں سکتا۔خود پسند اور خود نما احباب کے ساتھ نباہ کرنا،ان کی کج ادائیوں
کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیلنا ،ان کے دکھ درد میں برابر کی شرکت رکھنا اور اس کے ساتھ ایک درویشانہ
قناعت سے کام لے کرزمانہ سازی سے دور رہنا خا لد محمودکی فطرت ہے اور اس فطرت کی عکاسی نہ صرف
پیش کردہ اشعار میں نظر آتی ہے بلکہ اس مجموعہ کے ہر صفحہ پر جھلک مارتی دکھائی دے گی۔ہمارے اکثر نئے
شعرا کی تخلیقات ان کی شخصیت کے لئے حجاب کا کا م کرتی ہیں ،خا لد محمود کے اشعار ان کے ذات اور شخصیت
کی آئینہ داری کافریضہ انجام دیتے ہیں‘‘ ۔(ص:۱۷)
ان کے اشعار میں خود پسند اور خود نما احباب کے ساتھ نباہ کرنے اور ان کی کج ادائیوں کو جھیلنے کا حوصلہ تو ملتا ہی ہے ساتھ ہی وہ ان کے لئے دعا گو بھی نظر آتے ہیں
انساںکے سر سے کبر کا پتھر اتار دے
بار الٰہ ! اس کو زمیں پر اتار دے
ڈراتا ہے بہت انجام نمرودی مجھے خالد
خدا لہجے میں جب بندے سخن آغاز کرتے ہیں
اپنی ہی تعریفیں کرتے رہتے ہو
یہ بھی تو ذہنوں کی غربت ہوتی ہے
ہر ایک بات خموشی سے پی گیا خالد
یہ آدمی تو سمندردکھائی دیتا ہے
انہوں نے لفظ ’’آشنا‘‘کو بطور ردیف کئی غزلوں میں بڑی فن کاری سے استعمال کیا ہے۔جن سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے :
ہمارے بھی تھے رازداں ،آشنا
مگر ہوگئے ہم ’’جہاں آشنا‘‘
ہر اک زخم پر دل نے آواز دی
مرے محترم !مہرباں !آشنا
ہر ایک راہ ’’سنگ گراںآشنا‘‘
نہ نکلے ہمارے کہاں آشنا
میں اپنی شکستہ سی کشتی میں تھا
مگر ہو گئے بد گماں ،آشنا
یا:
خوبی قسمت سے ہیں اتنے میسر آشنا
گھر کے سب شیشے ہوئے جاتے ہیں ’’پتھر آشنا‘‘
وقت کے ہاتھوں بدل جاتی ہے رسم دوستی
ہے کبھی شہ رگ ،کبھی شہ رگ پہ خنجر،آشنا
ان اشعار میں لفظوں کی نشست و برخاست کا ایسا فن کارانہ استعمال ملتا ہے جس سے قاری اپنی سمجھ کے اعتبار سے کئی معنی مرتب کر سکتا ہے اور نئی جہات بھی تلاش کر سکتا ہے۔نئی غزل میں تخلیقی ابلاغ کے ایسے نمونے شاذو نادر ہی ملتے ہیں ۔مندرجہ بالا غزل کا یہ شعر دیکھیے:
چٹھیاں ہم کو بھی لکھتا ہے وہ جان آرزو
اپنے گھر کی بھی منڈیرے ہیں کبوتر آشنا
یہاں عاشق کی گھر کی منڈیریں کبوتر آشنا ہیں اور اس کے اندر یہ حسرت باقی نہیں رہ جاتی کہ :
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
(قمر بدایونی)
’’ اپنے گھر کی بھی منڈیرے ہیں کبوتر آشنا‘‘سے اندازہ ہوتا ہے کہ عاشق و معشوق کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعری سرمایہ میں عشقیہ ادب زیادہ مشہور ومقبول رہا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری سے اگر یہ نکال دیا جائے تو بے جان اور بے کیف ہوجائے گی۔ اردو شاعری میں امیر خسروؔ سے لے کرآج تک شاعری کا اہم موضوع عشق ہی رہا ہے۔ اردو شعرا نے عشق کے موضوع کو تمام موضوعات پر فوقیت دی۔تمام عشقیہ شاعری کل تین مرکزی کرداروں پر قائم ہے:
(۱) عاشق
(۲) معشوق
(۳) رقیب
غزل کا عاشق تمام عاشقوں کا نمائندہ ہے،کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ یہ عاشق معشوق کے لئے بے قرار ہے۔ لیکن معشوق کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وہ تقدیر کا پابند ہے۔ہجر اس کا مقدر ہے ۔ اوریہ بات بھی اہم ہے کہ ہجر اور حرماں نصیبی کو غزل کی شعریات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ محبوب سے محبت، اس کی جدائی کا کرب، محبوب کو کھودینے کا غم زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت تقریباً تمام کلا سیکی شعرا کے کلام میںبدرجہ اتم موجود ہے۔ یعنی عشق کے بیان میں دو اہم موضوعات وصل وہجر ہیں۔
عاشق معشوق سے وصل کی خواہش کرتا ہے۔وصل کی تمنا میں ہی نئے نئے پہلو کو اشعارکے قالب میں ڈھالتا ہے اور ہجر کی کیفیات کو اپنے تخیل کی مدد سے اشعار میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ غزل کا معشوق بھی ایک فرد نہیں ہے بلکہ تمام معشوقوں کا نمائندہ ہے اسی لئے سب سے زیادہ حسین ہے اور جتنا حسین ہے اتنا ہی ظالم وجابر ہے۔ سنگدلی معشوق کی علامت ہے۔
رقیب کا کردار بھی غزل کا ذیلی کردار ہونے کے باوجود وسعت لئے ہوئے ہے۔کیونکہ یہ اغیار ناصح، محتسب اور حاکم سے لے کر تمام مخالفین بلکہ پوری دنیا اس احاطے میں آجاتی ہے۔ عشق کے بیان میں عاشق، معشوق، وصل وہجر، محبوب کی سنگدلی، محبوب کے حسن، رقیب، محتسب، ناصح اور زاہد وغیرہ کے مضامین نظم کئے جاتے ہیں۔ان باتوں کے مد نظر شعر زمین کا مطالعہ کیا جائے توان عشقیہ کیفیات کی ترجمانی کم ہی ملتی ہے،نہ ہی یہاں وہ عاشق ہے جو ہجر اور حرماں نصیبی کا رونا روتا پھرے،البتہ معشوق کا کردار اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جلوہ افروز ہے:
گل کو دیکھا تو ناز سے بولے
میری جیسی ہی شکل پائی ہے
زمانے بھر کو رازداں کرنے کی ٹھہری ہے
توبہتر ہے چلو اس شوخ کو ہمراز کرتے ہیں
زیادہ دیکھتے ہیں جب وہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں
نظر میں رکھ رہے ہوں تو نظر اندازکرتے ہیں
وہ میرے نام پر دست ستم روکیںتو یہ سمجھو
انہیں میرے لیے کچھ اور بھی سفاک ہونا ہے
چراتا ہے و ہ پہلے نیند پھر شوخی سے کہتا ہے
یہ شب بھر جاگتے رہتے ہو سویا کیوں نہیں کرتے
اور معشوق کے مضمون کے چند اشعار جو غالب کی اس غزل ’تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو‘کی زمین میں ہیں دیکھیے:
ہم ہیں کہ ہم تو شام و سحر آہ آہ ہیں
تم ہو کہ سر سے پاوں تلک واہ واہ ہو
اللہ!کیا یہ تم ہو!اف اللہ کی پناہ!
واللہ ! سر سے پاوں تلک بے پناہ ہو
یہاں ــ’’آہ آہ اور واہ واہ‘‘کااستعمال کس فنکاری سے کیا گیا ہےجس نےان اشعار کو شوخ بنا دیاہے اس بنا پریہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی غزل میں روایتی عاشق کا کردار تو کہیں نہیں ملتا ہے جو ہر وقت ہجر کا رونا روتا رہے یا مقدر کا شکوہ کرتا پھرے ،بلکہ جہاں بھی عاشق کا کردارنظر آتا ہے اس سے شوخی ٹپکتی ہے:
کرتے ہوئے پھرتے ہو مرے دل کی شکایت
دیکھا ہے اگر تم کو تو آنکھوں کی خطا ہے
جذ بہ رقابت دیکھیے کہ:
آئینہ تم کو دیکھتا ہے رات دن
اک پل جو ہم بھی دیکھ لیں توکیا گناہ ہو
معشوق کی ایک اورجھلک دیکھیے:
ہر چیز چکھ رہے ہیں مگر تھوکتے بھی ہیں
بگڑا ہوا ہے ذائقہ ان کی زبان کا
اس شعر کو پڑھتے ہی داغ یاد آجاتے ہیں:
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوںبن کے بیٹھے ہیں
نگاہ شوخ و چشم شوق میں در پردہ چھنتی ہے
کہ وہ چلمن میں ہیں نزدیک ہم چلمن کے بیٹھے ہیں
یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لا ئے
قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں
یہ عشق و عاشقی کے مضامین جس کو شاعرنے اشعار کا جا مہ پہنایا ہے نہ تو بالکل کلاسیکی رنگ میں ہیں اور نہ ہی ان کو جدید کہا جا سکتا ہے۔یہاں بھی شاعر کی طبیعت کی شوخی نمایاں ہے جو شاعرکی شخصیت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ شعر زمین میں کئی اشعار تضمین شدہ ہیں:
غالب:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھی نہیں آتی
’’ موت کا ایک دن معین ہے ‘‘
زندگی دسترس سے باہر ہے
غالب:
جاتے ہوئے کہتے قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
’’جاتے ہوئے کہتے ہوقیامت کو ملیں گے‘‘
گویاکہ قیامت بھی کہیں تم سے جدا ہے
غالب:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
’’ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘
کسی کو بھی مگر یہ مشورہ اچھا نہیں لگتا
اقبال :
اسے روز ازل انکار کی جرات ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یامیرا
’’اسے روز ازل انکار کی جرات ہوئی کیوں کر ‘‘
کہیں انسان بھی بیٹھا نہ ہو شیطان کے اندر
شاد :
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
’’یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی ‘‘
میں اپنے نام کا ساغر اٹھا لیتا ہوں خود بڑھ کر
انشا اللہ خاں:
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھیں ہیں
’’نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی ‘‘
ہمیں ہنسنا ہنسانا بھی صدا اچھا نہیں لگتا
یہ تمام اشعار زبان زد عام و خاص ہیں اورشاعر کی کلاسیکی روایت سے ذہنی ہم آہنگی کا پتہ دیتے ہیں ۔شعر زمین کے مطالعے سے شاعر کی میر و غالب سے خاص عقیدت اور روایت سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کی غماز یہ غزل بھی ہے جس کی ردیف ’’اک غالب اک میر‘‘ہے:
پیچھے پیچھے سارے شاعر وہ بھی کتنی دور
آگے آگے دو ہی سجن ،اک غالب اک میر
باقی ہیں دنیا میں جب تک دونوں کے دیوان
ہر سچے شاعر کی الجھن ،اک غالب اک میر
آپس ہی میں بانٹ کے رکھ لی ساری شعر زمین
خالی کر کے فن کا دامن،اک غالب اک میر
اسی شعر سے کتاب کا عنوان بھی اخذ کیا گیا ہے۔’شعر زمین ‘کی غزلیں قدیم و جدید کے حدود سے الگ تھلگ اپنی انفرادیت قائم کر تی نظر آتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ کلاسیکیت کے صحت مند عناصر کو قبول کرتی ہیں تو دوسری طرف معاشرتی زندگی سے بھی اپنا رشتہ جوڑتی ہیں۔ یہاں ایسے اشعار کی بھی کثرت ہے جو موجودہ صورت حال کا پتہ دیتے ہیں۔ دلی کو ہی لے لیجیے،شاعر نے جابجا دلیـ کے موسم،دلی میں لوگوں کے ازدحام،جام اور یہاں کی سٹی بس کا نقشہ کھینچاہے:
کام دلی کے سوا ہوتے نہیں
اورناہنجاز دلی دور ہے
تازہ ہواؤں اللہ حافظ
دلی میں ہم گھر لیتے ہیں
گہے برف ہے گاہے آتش، ہوا
تجھے کیا ہے دلی سے رنجش ،ہوا
چلنے کی جگہ ہے نہ ٹھہرنے کی جگہ ہے
دلی تھی جہاںاب وہاں سیلاب بلا ہے
اس شعر سے ساغر خیامی کا یہ قطعہ یاد آتا ہے:
یہ بولا دلی کے کتے سے گاؤں کا کتا
کہاں سے سیکھی ادا تو نے دم دبانے کی
وہ بولا دم کے دبانے کو بزدلی نہ سمجھ
جگہ کہاں ہے یہاں دم تلک ہلانے کی
دلی کا جام:
تاخیر ہی ہوتا ہے ہر عجلت کا نتیجہ
جس سمت نظر ڈالئے اک جام لگا ہے
دلی کی بسیں:
سٹی بس نے جواں حس چھین لی ہے
ہمارا جسم اب باقی نہیں ہے
ان اشعار سے واضح ہے کہ شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول اور اس سے متعلق چیزوں سے بالکل بے اعتنا نہیں ہے۔اس نے جا بجا ان مسائل کو بھی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ان کے یہاں ایسے اشعار بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں جو شاعر کی حساس طبیعت کی نشاندہی کرتے ہیں :
تمہیں اک آئینہ ہے اور تم ہو
مجھے سب آئینا ہے’’ اور میں ہوں‘‘
ہر چہرہ اک سوال ہے یاروں کی بزم میں
شاید میں امتحان کے کمرہ میں آگیا ہوں
لڑکوں کو نقل کرنے سے روکنا ہے مجھے
پھر آگیا ہے وقت مرے امتحان کا
خنجر چلا کہ مجھ پہ بہت غم زدہ ہوا
بھائی کے ہر سلوک میں شدت لہو کی تھی
نصف دنیا بھوک اور پیاس سے مغلوب ہے
دست و بازو،ذہن و دل،لعل و گہر ہوتے ہوئے
بچے میرا دامن تھامے پیچھے پیچھے چلتے تھے
پھر وہ آگے دوڑ گئے میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا
لا شعوری طور پر ذہن احمد سلمان کے اس شعر کی طرف چلا جاتا ہے:
وہ گاؤں کا ایک ضعیف دہقاں ،سڑک بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
حساس طبیعت کی وجہ سے شاعر طنز سے بھی اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا ہے۔جب وہ استطاعت کے باوجود نصف دنیا کو بھوک اور پیاس سے مغلوب دیکھتا ہے تو بے چین ہو جاتاہے اور کہیں موجودہ دور میں اولاد کا بزرگوں سے کٹ جانے کا غم چھلک پڑتا ہے۔کہیں طنز کا تیور نظر آتا ہے:
ایک دھبہ نہیں ہے د امن پر
دست قاتل یں کیا صفائی ہے
بالکل اسی مضمون کا نہایت مشہور شعر کلیم عاجز کا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بانی کا شعر ہے :
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر کہ وضع دار جو تھا
یہی وضع داری یہاں کچھ اس طرح ملتی ہے:
اس فرد پھر آج میں ہنس کرملا کہ جو
موقع ملے تو پشت میں خنجر اتار دے
ظاہر ہے کہ یہ خنجر اتارنے والا یا تو محبوب ہے یا دوست ہے،دشمن نہیں ہے ۔دشمن کو نہ موقع کی تلاش ہوتی ہے نہ وہ پیچھے سے وار کرتا ہے۔چونکہ خنجر کے پشت میں اتارنے سے صاف ہے کہ وار کرنے والا پیچھے سے وار کرے گا یعنی یہ کوئی دوست ہی ہے۔اسی بات سے کچھ ملتا جلتا شعر ہے: (یہ بھی پڑھیں شہپر رسول کی نظمیہ شاعری – ڈاکٹرامتیاز احمد علیمی)
مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے
وہ دشمنی بھی بڑی پر وقار کرتا ہے
یہ سینے پر وار کرنے والا کھلا دشمن ہے۔ درج ذیل اشعارمیں ناسٹیلجیائی کیفیت کی خوبصورت ترجمانی ملتی ہے:
دیکھی جب اس مکان کی کھڑکی کھلی ہوئی
اک دست ناز یاد کا شانہ دبا گیا
ا ن کا خیال آتے ہی اک روشنی ہوئی
اس روشنی میں ذہن کا کمرہ نہا گیا
’ شعرزمین ‘ کے مطالعے سے شاعرکی قادرالکلامی ،زبان و ادب کے تئیں نباض اورمحاوروں کے فن کارانہ استعمال پر قادر ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔شاعرموضوعات کے اتنے وسیع ذخیرے کو ایسے نادر اسلوب میں مہارت کے ساتھ شعری جامہ پہنانے کا ہنر رکھتا ہے چند اشعار دیکھیے:
کل کا گرتا ہو آج گر جائے
کون سا اس مکاں میں رہنا ہے
نہیں ملتا کوئی آئے گئے سے
یہاں ہم بھی بہت آئے گئے ہیں
خدایا خیر ہو پھر آج خالد
بہت ہنستے ہوئے پائے گئے ہیں
لہجہ وہجہ شوخی ووخی ،سارے ان کے کھیل
دونوں شاطر، دونوں پر فن ،اک غالب اک میر
ویسے تو کچھ کام نہیں بس
شاعری واعری کر لیتے ہیں
زندہ ہیں تو زندہ ہیں ہم
موت آئی تو مر لیتے ہیں
بہت ہوئیں اب خیر کی باتیں
آؤ ! اس کی خبر لیتے ہیں
عادی نہیں ہم لقمہء ترکے
لیکن لقمہ ، تر لیتے ہیں
خالد زندہ گھوم رہا ہے
چل کر اس کو دھر لیتے ہیں
یہاں غزل میں زبان و بیان کی لطافت و چاشنی بھی ہے اور طرز ادا کا اچھوتا اسلوب بھی ہے۔جابجا محاورات ،سہل ممتنع اورعام بول چال کا انداز ملتا ہے۔ لہجہ وہجہ ،شاعری واعری، مر لیتے ہیں ،لقمہ ء تر اور لقمہ تر ،خیر خبر اور دھرنا جیسے روز مرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ کو شاعری میں بڑی مہارت کے ساتھ سمو دیا گیا ہے ۔ایسا انداز اردو غزل کی روایت میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے اور تخلیقی ابلاغ کے نئے چراغ روشن کرتا ہے۔
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |