طلبا کے لیے ضروری ہے کہ وہ متن کا ضرور اور زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں:پروفیسر عابد حسین حیدری
جشن سر سید تقریبات کے دوسرے دن قومی سیمینار اور تقریری مقابلے کا انعقاد
میرٹھ18؍ اکتوبر2024ء
سر سید ایک فکر کا نام ہے جو آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ آج کی اس محفل سے مجھے یہ سیکھنے کو ملا کہ آج تحقیق کرنے والا اسکالر ہو یا ہم جیسے پڑھا نے والے ۔دونوں کو کام کرنے کے لیے روپیہ پیسہ مہیا ہو رہا ہے چاہے وہ اسکالر شپ کی شکل میں ہو، تنخواہ کی شکل میں یا پھر وظیفے کی ۔یہ سوچ ہمیں سر سید سے ہی ملی ہے۔اس لیے ہمیں ایمانداری سے سر سید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ادبی کار ناموں کو انجام دینا چاہئے۔یہ الفاظ تھے پرو فیسر صالحہ رشید کے جو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شعبۂ اردو،چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ اور سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی اور مشن شکتی فیز5مہیلا ادھین کیندر کے مشترکہ اہتمام میں مفکر قوم،معروف دانشور اور ماہر تعلیم سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کے مو قع پر جشن سر سید کے دوسرے دن شعبے کے پریم چند سیمینار ہال میں ادا کررہی تھیں۔
اس سے قبل صبح دس بجے سے شعبۂ اردو کے منٹو ریڈنگ روم میں تحریری مقابلہ بعنوان’’ سر سید کا تعلیمی مشن‘‘ کا انعقاد عمل میں آیاجس میںخوشبو پبلک اسکول درجہ پانچ کی انیبا، ایچ۔ بی میمو ریل، ماڈل اسکول، شاہ پیر گیٹ، میرٹھ درجہ پانچ کی طوبیٰ،اسماعیل پبلک اسکول،درجہ چھ کی رِضا، حیدر پبلک اسکول، درجہ سات کی ذکریٰ اور عقیل فاطمہ میمو ریل اسکول در جہ آٹھ کی طالبہ نبیہ نے تحریری مقابلے میں حصہ لیا۔
بعد ازاں صبح گیارہ بجے سے دو روزہ قومی سیمینار’’ہندوستان کی تعمیر نومیں سر سید کا کردار‘‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس کی مجلس صدارت پر پروفیسر اسلم جمشید پوری،ڈاکٹر آصف علی، آفاق احمد خاں، سر تاج ایڈوکیٹ رو نق افروز رہے اور مقالہ نگار کے بطور ڈاکٹر نوید عالم خاں،سنبھل،ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ، نوئیڈا،پروفیسر عابد علی حیدری، سنبھل اور ڈاکٹر یوسف رام پوی، دہلی نے شرکت کی اور بعنوان’’افکار سر سید کی عصری معنویت‘‘،’’سر سید کا تعلیمی مشن‘‘،’’سر سید تحریک،سر رضا علی اور اردو‘‘ اور’’خطبات احمدیہ‘‘ اپنے پر مغز مقالات پیش کیے۔اس سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے انجام دیے۔
سیمینار کا دوسرا سیشن دو پہر ڈھائی بجے شروع ہوا۔جس کی مجلس صدارت پر پروفیسر صالحہ رشید،الہ آباد اور سلیم سیفی رونق افروز رہے جب کہ مقالہ نگار وں میںڈاکٹر عفت ذکیہ،میرٹھ، مفتی راحت علی صدیقی، دہلی، شاہ زمن اور سیدہ مریم الٰہی[ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو سی سی ایس یو]ڈاکٹر فرحت خاتون، ڈاکٹرعفت ذکیہ ،اور ڈاکٹر فرح نازنے شر کت کی اور بعنوان ’’سر سید احمد خاں اور اصلاح معاشرت‘‘،’’سر سید احمد خاں ،بحیثیت متنی نقاد: ایک جائزہ‘‘،’’سر سید اور تہذیب الاخلاق‘‘،’سر سید اور سائنٹفک سو سائٹی‘‘،سرسید کے رفقاء کی سوانحی خدمات‘‘،’’ سر سید اور اردو‘‘ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر نوید احمد خاں نے انجام دیے۔
اس موقع پرڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ سرسید نے جدید تعلیم کی وکالت کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ وکالت نہ صرف اس عہد بلکہ آج اور رہتی دنیا تک اس کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ اس کائنات کی تخلیق خیر اورشر کی قوتوں کے تصادم کے ساتھ ہوئی ہے اور خیر اورشر کی قوتوں کو سمجھنے کے لیے تعلیم لازمی حصہ ہے۔مادہ اور روح، خیر اورشر کے تعلق سے انتہائی بلیغ بحثیں موجود ہیں۔ خیر کی وکالت کرنے والا کامیاب اور شر کی وکالت کرنے والا ہمیشہ ناکام رہے گا۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا لازمی ہے کہ نبیؐ نے پیٹ پر پتھر باندھ کے خندق کھودکر یہ ثابت کردیا ہے کہ نظام زندگی عملی منصوبو کے ماتحت ہو گا۔ اسی لیے علم کی تخصیص دینی اور دنیا وی زمروں میں کرنے کی بجائے مفید و غیر مفید زمروں میں کرنی ہو گی اور میں سمجھتا ہوں سر سید تعلیم کے اسی نظریے کے علمبردار تھے۔ڈاکٹر آفاق احمد خاں نے کہا کہ سر سید ایک مشن ہے اور اس مشن کا کام گھر گھر کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سر سید کے مشن کو خوب محنت سے پھیلا ئیں۔زیادہ سے زیادہ اداریں کھولیں اور غریب نادار اور ضرورت مند طلبا کی مدد کریں ۔یہی سر سید کو سچا خراج ہو گا۔
پروفیسر عابد حسین حیدری نے پڑھے گئے مقالات پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پڑھے گئے کچھ مقالے تو قابل تقلید ہیں اور طلبا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ متن کا ضرور اور زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور پھر تحقیقی مقالہ لکھیں۔ سر سید کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ آپ نے نازک حالات میں بھی بڑے صبر و تحمل سے کام لیا اورپورے وقت اپنے کارناموں اور مشن میں لگے رہے۔ سر سید نے کسی ایک فرد کے لیے کام نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے رہبر بن کر سامنے آئے اور سماج کے ہر فرد کے لیے کام کیا تبھی تو آج دوسو سال گذرجانے کے بعد بھی آپ کے مشن کی بڑی اہمیت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ہم مسلسل با ئیس سال سے سر سید کی تعلیمات اور ان کے کارناموں کو گھر گھر تک پہنچا نے کا کام کررہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ امختلف اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میںسرسید کوئز، تحریری مقابلے، تقریری مقابلے، بیت بازی اور سیمینا وغیرہ کی شکل میں گا ئوں ، قصبے، دیہات اور دیگر شہروں میں بھی نئی نسل تک سر سید اور ان کے پیغامات کو پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس موقع پر معراج،پھلائودہ،ڈاکٹر ارشاد انساری،،ڈاکٹر ارشاد سیانوی،،شہاب الدین، شاہد، راٹھی،شہناز، عظمیٰ سحر،عمائدین شہر اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
نوٹ: کل شعبۂ اردو میں تقریری مقابلہ دس سے بارہ بجے تک بیت بازی2:00سے 4:00، ایوارڈ فنکشن4:00؍ بجے سے
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page