ہندوستان میں اسلام کی اشاعت صوفیائے کرام کی مرہون منت ہے ۔ ان صوفیائے کرام نے ہندوستان کے دوردراز علاقوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ شمالی ہندوستان میں اسلام کاچراغ روشن کرنے والے بزرگان دین خواجہ غریب نواز/خواجہ بختیار کاکی /محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیائ اورحضرت مخدوم علائ الدین صابر کلیرشریف کاذکر سب سے پہلے آتا ہے ۔
شمالی ہندوستان میںگیارہویں صدی میںسلطان محمدغزنوی کی فتوحات کے بعد صوفیائے کرام کی آمد کاسلسلہ شروع ہوا ۔ ان صوفیوں نے شمال ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک اسلام کاپیغام پہنچایا۔ان کے آستانوں کی اہمیت کسی بادشاہ کے دربار سے کم نہ تھی بلکہ شایان وقت کے سربھی ان کے آستانوں پر جھکے رہتے تھے ۔
شہرعظیم آباد کے قریب میں واقع پھلواری شریف ہے اس جگہ حضرت تاج العارفین شاہ مجیب اللہ قادری کامدفن ہے ۔آج سے چارسو سال قبل حضرت تاج العارفین شاہ مجیب اللہ قادری اس قصبہ پھلواری شریف کو اپنا مسکن بنایااور رشدوہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔
حضرت شاہ ہلال احمدقادری نے مخدوم پیرمجیب ؒ کے وصال کے بعد ایک مکمل اورجامع تذکرہ تحریر فرمایاہے ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل مخدوم پیرمجیبؒ کے تذکرے نہیں لکھے گئے تھے۔سچ تویہ ہے کہ اس سے قبل بھی کئی تذکرے لکھے گئے تھے ۔ جن میں مخدوم شاہ مجیب اللہ قادری ؒ کے ُوتے شاہ نوارلحق تپاں ؒ نے انوارظریقہ میں لکھے تھے ۔یہ پہلا اورواحد ماخذ ہے جس سے حضرت امیر عطا اللہ جعفری زینبی کے حالات معلوم ہوتے ہیں ۔
دوسرا تذکرہ حضرت کے دوسرے پوتے مولانا شاہ شمس الدین ؒ نے عربی زبان میں لکھا تھا۔
تیسرا تذکرہ حضرت کے تیسرے پوتے مولاناشاہ ابوالحیات بن مخدوم شاہ نعمت اللہ قادری ؒ نے تذکرہ اکرام کے نام سے لکھاتھا ۔ تذکرہ اکرام جواصلاً فارسی میںہے اپنے زمانے کے مذاق ومعیار کے مطابق لکھی گئی ہے ۔اس اعتبارسے کامیاب ہے بلکہ بزرگان پھلواری شریف کی حالات میں یہ واحد کتاب ہے تقریباً سات سوصفحات پرمشتمل یہ تذکرہ لکھ کرمصنف نے آئندہ نسلوں پراحسان کیاہے ۔
فی زمانہ حکیم سید محمدشعیب قادری رضوی ؒ نے اپنی مشہور تصنیف آثارات پھلواری شریف موسوم بہ رعیان وطن 1950 لکھی تھی جس میں مخدوم پیر مجیب کے اولاد اورخانوادے کے حالات خانقاہ کی تاریخ ودیگر معلومات جمع کردی ہے ۔
حضرت سید شاہ ہلال احمدقادری ؒ کے سامنے مزکورہ بالا حالات وروایات تھے کیونکہ مخدوم پیر مجیب ؒ کاتذکرہ عربی اورفارسی زبان میںلکھاہواتھا سوائے آثارات پھلواری شریف (1953)میں اردوز بان میں لکھا گیا ہے ۔اس حقیقت کومدنظررکھتے ہوئے انہوں نے یہ ارادہ کیاکہ سیرت مجیب ؒ جامع تذکرہ اردوزبان اورعام فہم زبان میں لکھاجائے جس کوسب کوئی پڑھ اورسمجھ سکیں ۔
حضرت شاہ ہلال احمدقادری ؒ نے تذکرہ کرام (مولانا شمس الدین ابوالفرح ) اور آثارات پھلواری شریف (حکیم سید احمد شعیب قادری ؒ ) کے ساتھ ساتھ حکیم سید محمد شعیب ؒ کے نامکمل تذکرہ ’’تفتحہ الطیب من انفاس المجیب ‘‘ (مملوکہ کتب خانہ بدریہ مجیبیہ ) کو بنیادی ماخذ بنایاہے مذکورہ مآخذ کے علاوہ بزرگوں کے سفینوں یادداشتون اور ملفوظات کے مجموعوں سے عین مددلی ہیں جوبات جہاں سے لی گئی حاشیہ میں اس کا حوالہ دے دیاگیاہے ۔
مذکورہ کتاب ’’سیرت پیرمجیب ‘‘ نو ۹؎ ابواب پرمشتمل ہے۔
باب اول (وطن ، خاندان ونسب )
باب دوم (ولادت تحصیل علوم ،اکتساب ، معارف ،ریاضت ومجاہدہ تکمیل طریقت
باب سوم (بنائے خانقاہ اصول ونظام ،تجدید واحیائ ارشاد وترتیب تاثیر فیض و صحبت )
باب پنجم (سیرت واخلاق ،احوال وکیفیات ،حلیہ مبارکہ )
باب ششم (وصال مرقد ،مطہر ،اولاد واخفاوسلسلہ جانشیں )
باب ہفتم (تصرفات وکرامات )
باب ہشتم (خلفاومجازین )
باب نہم (معاصر علمائ ومشائخ )
……مراجع ومصادر
حضرت تاج العارفین کے اجداد میں شیخ نوالدین ؒ ایک کامل د رجے کے ولی تھے آپ کااصل وطن لار(یوپی ) تھا وہاں سے اپنے شیخ کی اجازت سے دہلی تشریف لائے آپ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے کے شیخ وقت تھے خواجہ نظام الدین اولیائ ؒ آپ کے مزار پر کبھی کبھی تشریف لایاکرتے تھے ۔
شیخ نورالدین کامزار دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے شیخ ابوبکر طوسی قلندر کی خانقاہ کے سامنے ہے جونہایت خوبصورت اور باعظمت مقام ہے بعض لوگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ اس جگہ پریاں رہتی ہیں ۔ (اخبارلاخیار صفحہ ۱۴۱-۱۴۰)
شیخ ابوبکر طوسی کا مقبرہ پرانے قلعے کے قریب ایک باغ میںہے جوباغ بیدل سے مشہور ہے کیونکہ اس باغ میں ایک مقبرہ ہے جس کو کہتے ہیں کہ مزارعبدلقادر بیدلؔ کا مقبرہ ہے -مرزاغالبؔ بھی بیدل کے معتقد تھے ؎ (یہ بھی پڑھیں ملفوظاتِ صوفیہ : ایک تجزیاتی مطالعہ – طفیل احمد مصباحی )
طرز بیدل میں ریختہ کہنا اسداللہ خاں قیامت ہے
حضرت شاہ ہلال احمد قادری ؒ نے ان شاہی فرامتیں کی عبارتیں نقل کی ہیں جو عہد عالم گیری سے لے کر شاہ عالم وفرخ سیر کے عہد سلطنت تک مشائخ پھلواری کے نام وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہے تھے ۔انہوں نے یہ بھی لکھاہے کہ حکیم سید محمدشعیب رضوی ؒ کے زمانے تک سب محفوظ تھے جس کی عبارتیں انہوں نے نقل کرلی تھیں ۔
ان دستاویز کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شایان دہلی کو مشائخ پھلواری سے عقیدت تھی ۔
حضرت شاہ ہلال ؒ قادری نے باب دوم میں حضرت تاج العارفین کی ولادت تحصیل علوم ، اکتساب معارف ،ریاضت ومجاہدہ تکمیل طریقت کا تفصیل سے ذکر کیاہے انہوں نے حضرت تاج العارفین کے تلمذ کے سلسلے میں کچھ تاریخی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے انہوں نے لکھاہے کہ پھلواری میںآپ کی تعلیم دو۲بزرگوں سے ہوئی ہے حضرت مخدوم برہان الدین ؒ اورحضرت عماد الدین قلندر ؒ -ایک اہم موضوع خانوادہ ٔ پھلواری سے حضرت رسول نماکا ربط وتعلق کاذکر تحقیقی انداز سے کیاہے ۔حضرت مولانا رسول نما کی خدمت میں حاضری اورسلسلہ تعلیم اورعلوم اورمعارفت کی تکمیل خواجہ قلندر سے بیعت اور اجازت وخلافت کاتفصیل سے ذکرکیاہے ۔
حضرت شاہ ہلال قادری ؒ نے بہارمیں سلسلہ قادریہ کے قادری نسب مشائخ (صفحہ ۵؍پر) کابھی ذکر کیاہے ان میں ان حضرت سید نعمت اللہ ولی قادری (متوفی 833ھ)
(۲) حضرت سید عطا اللہ بغدادی ؒ (متوفی 860ھ)
(۳) حضرت سید محمد غوث گیلانی قادری (متوفی 933ھ)
(۴) حضرت سیدمحمد قادری امجھری ؒ (متوفی 980ھ )
(۵) حضرت سید بہائ الدین بہاول شیرقلندر (متوفی 973ھ)
(۶) حضرت تاج الدین محمود قادری ؒ (متوفی …) کے اسمائے گرامی شامل ہیں
حضرت شاہ ہلال قادری نے صوبہ بہارمیں مختلف سلاسل کے شجرہ طریقت کی تفصیل دی ہے -ان میں مندرجہ ذیل سلسلے کے شجرہ طریقت کی تفصیل درج ہے ۔
(۱) شجرہ طریقت غوث اعظم ؒ
(۲) شجرہ غوث اعظم بوالسطہ شیخ ہمدانی
(۳) شجرہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ معزیہ مجیبیہ
(۴) شجرہ طریقت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ
(۵) سلسلہ فردوسیہ
(۶) سلسلہ نقشبندیہ مجدودیہ ابوالعلائیہ
(۷) سلسلہ قلندریہ
(۸) سلسلہ مدادیہ
(۹) سلسلہ چشتیہ
باب چہارم میں خانقاہ مجیبیہ کی وجہ تسمیہ پھلواری میں قیام اوربنائے خانقاہ / خلوت /تعمیرحجرہ اربعین / مسجد کی تعمیر / قیام جمعہ وعیدین / ہفت درہ /عبادت وریاضت / اربعین وصوم وصال /خلوت گزیں /علومرتبت اور شان دیگر کے احوال والہانہ عقیدت اور احترام کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں جس کے پڑھنے سے عشق رسول ؐ کی محبت زندہ جاوید ہوجاتی ہے ۔
اس سلسلے میں حضرت شاہ ہلال احمد قادری نے تحریر فرمایاہے :
’’…حضرت تاج العارفین کے سلسلے کی بنیاد میں عشق نبوی پرتھی اورآپ خود سوختہ عشق نبوی تھے ذات رسالت سے قلبی رابطہ اورتعلق کے لیے آپ کے سلسلے کا درودبہت مؤثر ثابت ہوتارہاہے ۔ آپ کی تعلیم وصحبت کے اثرسے وابستگان سلسلہ بھی دولت عشق سے مالا مال تھے ۔بعض خلفائ عشق رسول کی بدولت رفیع احوال وکیفیات کے حامل ہوئے -‘‘
(سیرت پیرمجیب صفحہ نمبر 261-262)
باب پنجم :سیرت واخلاق ،احوال وکیفیات ،حلیہ مبارکہ پرتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔
باب ششم :وصال مرقد مطہر ،اولاد واخفا ،سلسلہ جانشین کااحوال درج ہے ۔
اس باب میں قطعات تاریخ وفات بھی درج ہیں جن میں (۱) حضرت تپان پھلواروی (۲) مولاناغلام جیلانی سرشار (۳) فردپھلواروی (۴) حیرت پھلواروی کے لکھے گئے خوش گوقطعات شامل اشاعت ہیں ۔
باب ہشتم : مندرجہ ذیل خلفائ ومجاہدین کاتفصیلی ذکرکیاگیا ہے ۔
(۱) شمس العارفین حضرت مولاناشاہ غلام نقشبندی قادری پھلواروی ؒ
(۲) حضرت شاہ انعام الدین قادری ؒ
(۳) حضرت شاہ نظام الدین احمد قادری ؒ
(۴) حضرت شاہ لعل محمدقادری ؒ
(۵) حضرت شاہ محمداکرم ابدال قادری ؒ
(۶) حضرت شاہ غیاث الدین قادری ؒ
(۷) حضرت شاہ غلام مرتضیٰ قادری ؒ
(۸) حضرت سید شاہ عصمت اللہ قدری ؒ
(۹) حضرت مولانا شاہ محمد وحید الحق ابدال قادری ؒ
(۱۰) حضرت شاہ خدابخش قادری ؒ
(۱۱) حضرت شاہ جمال محمدجمن جنتی
(۱۲) محمدکریم ابدال ؒ
(۱۳) حضرت شاہ محمدی لکھنوی ؒ
(۱۴) حضرت شاہ غلام سرور جعفری ؒ
(۱۵) حضرت شاہ مسیح اللہ ؒ
(۱۶) حضرت شاہ غلام رسول ہرنویؒ
(۱۷) حضرت شاہ محمد مظفر یہ فکرت قادری بلخی ؒ
(۱۸) حضرت شاہ میرمحمد واسع ؒ
(۱۹) حضرت شاہ ہربدلی شاہ ؒ
(۲۰) حضرت شاہ بدیع الزماں بیتھویؒؒ
(۲۱) حضرت شاہ معداللہ فریدی پھلواروی ؒ
(۲۲) حضرت شاہ غلام جیلانی سرشار ؒ
(۲۳) حضرت شاہ عبدالمغنی جعفری پھلواروی ؒ
(۲۴) حضرت شاہ محمدنعیم جعفری ؒ
(۲۵) حضرت شاہ مظہر علی لکھنوی ؒ
(۲۶) حضرت شاہ رحمت اللہ فردوسی بہاری ؒ
(۲۷) حضرت شاہ محمد احسن ؒ
(۲۸) حضرت شاہ میردوست علی داناپوری ؒ
(۲۹) حضرت شاہ باب اللہ بیتھوی ؒ
(۳۰) حضرت شاہ میریارعلی منیری ؒ
(۳۱) حضرت شاہ مولانا شاہ احمد عبدالحق ؒ
(۳۲) حضرت شاہ احمد عبدالمغنی ؒ
(۳۳) حضرت شاہ نعمت اللہ ؒ
(۳۴) حضرت شاہ نوالحق تپاں ؒ
(۳۵) حضرت شاہ شمس الدین ابولفرح ؒ
باب نہم : مندرجہ ذیل معاصرعلما ومشائخ کاتفصیل سے ذکر کیاگیاہے ۔
(۱) حضرت مولانا سیدمحمد غوث قادری غازی پوری ؒ
(۲) حضرت سید محمد سعید المعروف بھی کہ چشتی انبالوی ؒ
(۳) حضرت سید عبدالرزاق قادری ہانسوی
(۴) حضرت شیخ کلیم اللہ چشتی جہان آبادی
(۵) حضرت سید شاہ برکت قادری بلگرامی مارہروی ؒ
(۶) حضرت شیخ نظام الدین چشتی اورنگ آبادی ؒ
(۷) حضرت محمد بین جعفری زینی پھلواروی ؒ
(۸) حضرت مخدوم شاہ وجیہ الدین فردوسی بہادی ؒ
(۹) حضرت نظام الدین فرنگی محلی ؒ
(۱۰) حضرت شاہ صفت اللہ محدث قادری خیرآبادی ؒ
(۱۱) حضرت شاہ پیرمحمد اشرف چشتی ؒ
(۱۲) حضرت شیخ ابوالفیاض قمرالحق غلام رشیدجونپوری ؒ
(۱۳) حضرت شاہ یٰسین چشتی داناپوری ؒ
(۱۴) حضرت شاہ محمدمخدوم قادری پھلواروی ؒ
(۱۵) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ
(۱۶) حضرت شاہ محمدمنعم پاکباز ابوالعلائی عظیم آبادی ؒ
(۱۷) حضرت شاہ کریم الدین چشتی جیٹھلوی ؒ
(۱۸) حضرت شمس الدین حبیب اﷲ
(۱۹) حضرت شاہ مرزا مظہر جان جاناں مجدوی دہلوی ؒ
(۲۰) حضرت شاہ باسط علی قلندر الٰہ آبادی ؒ
(۲۱) حضرت شاہ دولت علی خواجہ شاہ فردوسی
(۲۲) حضرت شاہ علامہ غلام علی آزاد بلگرامی ؒ
(۲۳) حضرت شاہ محمدفاضل بن محمد صالح نقشبندی ؒ
(۲۴) حضرت شاہ عبداللہ بغدادی ؒ
(۲۵) حضرت شاہ دکن الدین عشق عظیم آبادی ؒ
(۲۶) حضرت شاہ کمال علی دیوروی گیاوی
حضرت شاہ ہلال احمد قادری سے چند فردگذاشت بھی ہوئی ہیں انہوںنے مخدوم شاہ منعم پاکباز ابوالعلائی کے تذکرہ میں موضع پچنہ کو مضافات بہارشریف (ص۔ 439) لکھا ہے ۔ جوغلط ہے ۔موضع پچنہ کبھی مضافات بہار شریف (موجودہ نالندہ ) کاحصہ نہیں دیا۔موضع پچنہ ضلع مونگیرمیں تھا اب یہ شیخ پورہ ضلع میں ہے ۔دوئم یہ کہ مرزا مظہر جان جاناں (ص ۔ 444)کے مدفن کے سلسلے میں کوچہ میرقاسم لکھاہے لیکن احاطہ خاص اندروں محلہ چتلی قبر کوچہ قاسم (دہلی ) لکھاجاناچاہئے تھا -!
الغرض : حضر ت شاہ ہلال احمد قادری کی گرانقدر علمی کارنامہ ’’سیرت پیرمجیب ؒ ‘‘ حضرت تاج العارفین مخدوم شاہ مجیب اللہ قادری پھلواروی قدس سرہ – بانی خانقاہ مجیبیہ کے مکمل حالات ان کے علمی وعرفانی خدمات کی تفصیل اور ان کے خلفا ومجاز ین اورہم عصر علما ومشائخ کے تذکرے کے سلسلے میں مستند اورجامع کتاب ہے ۔
مولانا عبداللہ عباس ندوی نے ’’سیرت پیرمجیب ‘‘ پرتقدیم لکھتے ہوئے فرمایاہے
’’پیش نظرکتاب کے مؤ لف اسی چمن کے گل نورستہ ہیں ۔ عزیزموصوف (شاہ ہلال احمدقادری ) نے اپناایک فرض اداکیا ہے اورہم جیسے ناکاروں کے سرسے ایک قرض اتارا ہے کہ حضرت تاج العارفین کی سوانح مرتب کرڈالی جوابھی تک نہیں لکھی گئی تھی ۔ یہ کتاب بزرگوں کی کشف وکرامات اورمحیرالعقول داستان کی طرح واقعات کی کھتونی نہیں ہے یاسنی سنائی روایات کا مجموعہ نہیں ہے ۔بلکہ مستند حالات واقعات کامجموعہ ہے ۔جس کی حیثیت ایک کامیاب ریسرچ کی ہے ۔ یہ ایک تحقیقی کتاب ہے جوحوالوں کے کام آئے گی ۔‘‘
(بحوالہ : سیرت پیرمجیب صفحہ نمبر ۳/۲ )
سچ تویہ ہے کہ (سیرت پیرمجیب ) میں حضرت تاج العارفین ؒ کی مکمل تاریخ کا احاطہ کیاگیا ہے ۔اس کامنبع وماخذاب تک اس موضوع پرلکھی گئی عربی اورفارسی کتابیں ہیں جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہیں ۔ حضرت شاہ ہلال احمد قادری ؒ کواللہ تبارک تعالیٰ نے سینوں اورسفینوں /دونوں علم عطا فرمایاتھا ۔حضرت شاہ ہلال احمدقادری ؒسجادہ نشینوں اورخانقاہ نشینوں کے ہرفرد بشرسے بھرپور استفادہ کیاہے ۔مجھے تعجب ہے کہ حضرت شاہ ہلال احمد قادری ؒ نے خانقاہ مجیبیہ کی چارسوسولہ تاریخ کے پس منظرمیں حضرت تاج العارفین کی تاریخ کے تمام گوشے کوچالیس سال کی شبانہ روز محنت کرکے سمیٹ لیاہے ۔ (یہ بھی پڑھیں صوفیہ اور بھکتی تحریک کے ادبی اثرات:ایک کثیر لسانی مطالعہ – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
میری صمیم قلب سے خدائے لم یزل سے یہ دعا ہے کہ حضرت شاہ ہلال احمد قادری ؒ کے اس کارہائے نمایاں کوشرف قبولیت عطافرمائے اور حضرت شاہ ہلال احمد قادری ؒ پراپنی رحمت کاسایہ فگن کرے -!!!(آمین ثم آمین )
- S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |