سوال:
ایک شخص کا انتقال ہوا ۔ اس کے وارثین میں اس کی بیوہ اور دو بہنیں ہیں ۔ ان کے علاوہ تین (3) خالہ زاد بھائی اور چھ (6)چچا زاد بھائی ہیں ۔
اس کے شرعی وارث کون بنیں گے؟ اور کس کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب:
قرآن مجید میں تقسیمِ وراثت کی تفصیلات مذکور ہیں اور مستحقینِ وراثت کے حصے بھی بیان کر دیے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ (النساء: 12)
’’اور عورتوں کو ایک چوتھائی ملے گا، اگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘
فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ (النساء: 176)
’’اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ (بخاری: 6737، مسلم: 1615)
’’وراثت اصحاب الفرائض کو دو ۔ اس کے بعد جو بچے وہ قریب ترین مرد رشتے دار کا ہے ۔‘‘
صورتِ مسئولہ میں بیوی کا حصہ چوتھائی(25%)اور دو بہنوں کا حصہ دو تہائی (66.7%)ہے۔ باقی (8.3%) چچا زاد بھائیوں کو ملے گا ۔ خالہ زاد بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا _
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ،مئی 2022 ]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page