اردو شاعری کے آغاز و ارتقاء میں شمالی ہند کے ساتھ ساتھ جنوبی ہند کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ اردو نے شروع سے ہی ہر نصف صدی کے بعد اپنے نام بدلے۔ شروع میں اسے امیر خسرو نے "ہندوی” اور "ہندوستانی” کہا۔ پھر یہی زبان آگے چل کر "ریختہ” کہلائی۔ اس زمانے میں فارسی درباری زبان تھی اور جب اردو کی رسائی دربار تک ہوئی تو اسے ” قلعہ معلیٰ” کہا جانے لگا اور پھر جب یہ درباری زبان بن گئی تو "اردوئے معلیٰ” کہلائی اور آخر میں ‘اردو‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہی حقیقت ہے کہ اردو کا مزاج ، آہنگ اور لب و لہجہ ہر دور میں بدلتا گیا اور یہ زبان اتنی طاقتور ہو گئی کہ اس میں شاعری کی جانے لگی۔
امیر خسرو کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے بھی ایک شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری کا نام آتا ہے لیکن ان کا کوئی کلام دستیاب نہیں ہے اس وجہ سے ان کا نام اتنا مشہور نہیں ہوا۔
اردو شاعری کے آغاز و ارتقاء میں بہمنی سلطنت کا اہم کردار رہا ہے۔ اس عہد میں بندہ نواز گیسودراز اور فخرالدین نظامی جیسے مشہور شاعر پیدا ہوئے۔ فخر الدین نظامی نے اردو کی پہلی مثنوی "کدم راو پدم راو” لکھی۔
بہمنی سلطنت کے بعد عادل شاہی سلطنت کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں برہان الدین جانم، نصرتی اور ہاشمی وغیرہ نے اردو شاعری کو آگے بڑھایا۔ اس عہد میں بھی زیادہ تر مثنویاں لکھی گئیں۔ عادل شاہی عہد کے بعد قطب شاہی دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں شعر و ادب پر خاص توجہ دی گئی۔اس عہد میں جن شعراء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں ملاوجہی ، محمد قلی قطب شاہ ، غواصی اور ابن نشاطی وغیرہ اہم ہیں۔قلی قطب شاہ جو خود بھی بادشاہ تھا اس نے اردو شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں آشوب جان وجہان اور احمد محفوظ کی غزل – تفسیر حسین)
قطب شاہی دور میں بھی مثنویوں کا رواج زیادہ تھا۔قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہواروں اور ہندوستانی موسموں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ انہوں نے دیوالی ، عید اور شب برأت جیسے عنوانات پر نظمیں لکھیں۔ جنوبی ہند میں زیادہ تر شعراء نے مثنویوں پر توجہ دی اور ان کے انداز بھی ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ جہانگیر کے عہد میں جب ہم سلطان محمد قطب شاہ ، سلطان قلی قطب شاہ ، خاکی ، ملا وجہی اور غواصی کی شاعری تک پہنچتے ہیں تو سرزمین دکن میں زبان کا رنگ بدلا ہوا نظر آتا ہے اور اسی لیے عام طور پر اردو شاعری کی ابتداء اسی عہد سے کی جاتی ہے۔
اس کے بعد شاہ جہان اور اورنگزیب کے عہد میں شاعری کا یہی رنگ رہا۔ اورنگزیب کا آخری زمانہ تھا جب ولی دکنی پیدا ہوئے۔ ولی دکنی نے غزل کو باضابطہ اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ولی دکنی نے اپنی شاعری میں ایک نیا رنگ اور آہنگ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ولی دکنی پہلی بار 1700ء میں اور دوسری بار 1722ء میں اپنا دیوان "دیوان ریختہ” لے کر دہلی گئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دہلی میں بھی ریختہ کی طرف شعراء نے توجہ دی۔حالانکہ دہلی میں بھی ریختہ میں شاعری ہو رہی تھی لیکن ولی دکنی کے آنے کے بعد اس میں زیادہ زور پیدا ہو گیا۔ ولی دکنی نے اپنی شاعری میں مختلف موضوعات پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی پر بھی زور دیا۔
زندگی جام عیش ہے لیکن
فائدہ کیا اگر مدام نہیں
ولی دکنی کے ہم عصر شعراء کی فہرست طویل ہے لیکن جن شعراء نے ولی سے متاثر ہوکر شاعری کی ان میں سراج، داوؤد اور عاجز قابل ذکر ہیں۔
بہمنی سلطنت
گلبرگہ اور بیدر ( 1347ء – 1525ء )
مشہور شعراء:
بندہ نواز گیسودراز ، فخرالدین نظامی ، شاہ میراں جی شمس العشاق وغیرہ
عادل شاہی عہد
بیجاپور ( 1490ء – 1686ء )
مشہور شعراء :
نصرتی ، علی عادل شاہ ، برہان الدین جانم ، ہاشمی وغیرہ۔
قطب شاہی عہد
گولکنڈہ اور حیدرآباد ( 1508ء – 1687ء )
مشہور شعرا:
ملاوجہی ، قلی قطب شاہ ، ابن نشاطی اور غواصی وغیرہ۔
شمالی ہند میں اردو شاعری:
دہلی میں اس وقت جن شعراء نے شاعری شروع کردی تھی ان میں سراج الدین خان آرزو ، شرف الدین مضمون ، شاکر ناجی ، مصطفی خان یکرنگ ، شاہ مبارک آبرو ، مرزا مظہر جان جاناں ، شاہ حاتم ، اشرف علی فغاں وغیرہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
تم کے بیٹھے ہوئے اک آفت ہو
اٹھ کھڑے ہو تو قیامت ہو
گرچہ الطاف کے قابل دل زار نہ تھا
لیکن اس جور و جفا کا بھی سزاوار نہ تھا
ان شعراء کے بعد دہلی میں مرزا رفیع سودا ، میر تقی میر ، مرزا سوز اور میر درد نے اردو غزل گوئی میں بہت وسعت پیدا کی۔ مرزا رفیع سودا نے نہ صرف غزل گوئی میں بلکہ قصیدہ میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ سودا کے ساتھ ہی میر تقی میر ، میر درد اور میر سوز کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میردرد کی شاعری میں عشق حقیقی ہے جبکہ میر تقی میر کی شاعری میں سوزوگداز ہے۔ انہوں نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔
میر تقی میر کو غزل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں غم زیادہ پایا جاتا ہے اسی لیے میر تقی میر کو قنوطی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ میر تقی میر کی شاعری میں دلی کی صورتحال بھی نمایاں ہے اسی لیے ان کی شاعری کو دل اور دلی کا مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں دہلی کی شاعری کا رنگ ولی دکنی سے لیکر میر تقی میر تک تقریباً ایک ہی تھا۔ اس عہد کے شاعروں میں ایک نمایاں نام نظیر اکبر آبادی کا ہے۔ یہ میر تقی میر کے ہم عصر تھے لیکن کسی دبستان سے پابند نہیں تھے۔ نظیر اکبر آبادی پہلا شاعر ہے جس نے عوام کو شاعری میں جگہ دی اور جمہوریت کا رنگ پیدا کیا۔ اسی لیے نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔
دیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیر
پھر تیرا کاہے کو اس باغ میں آنا ہوگا
ان شعراء کے بعد شاہ نصیر ، امام بخش ناسخ ، حیدر علی آتش ، ابراہیم ذوق ، مرزا غالب اور مومن خان مومن قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ شعراء ہیں جنہوں نے اردو شاعری میں ہر طرح کے مضامین کو پیش کرکے اردو شاعری کو مزید وسعت دی۔ مرزا غالب اس عہد کے سب سے ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عشق مجازی اور عشق حقیقی پیش کر کے ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کیا۔ مرزا غالب کی مقبولیت اس لیے بھی ہے کہ وہ ہر طرح کے موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مرزا غالب دنیا کی بے ثباتی پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
مرزا غالب ، مومن خان مومن، حیدر علی آتش اور امام بخش ناسخ ہر ایک کا رنگ سخن ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ غالب کے بعد مومن نے بھی اردو میں شاعری کی روایت کو پروان چڑھایا اور عشق کے موضوعات پر بہت سی غزلیں اور نظمیں تحریر کیں۔ ان کی شاعری کا عنوان ہمیشہ عشق مجازی رہا۔ اس کے بعد مختلف شعراء نے عہد بہ عہد اردو شاعری کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا اپنا اہم کردار ادا کیا اور یہ دور آج تک جاری و ساری ہے۔
ساجد حمید
ایم فل اردو
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |