اصول انتقاد ادبیات / سید عابد علی عابد – پروفیسر سرور الہدیٰ
"بیان وہ علم ہے جس کی سرحد معانی کی سرحد ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے”۔ "اصول انتقاد ادبیات” کو پڑھتے ہوئے اس جملے پر نگاہ ٹھہر گئی۔ یہ جملہ "مشرقی انتقاد کے اہم مسائل اور مغربی اسلوب کی تطبیق” کے ضمن میں آیا ہے ۔ مشرقی شعریات کے حوالے سے جو چند کتابیں اردو میں موجود ہیں۔ان میں عابد علی عابد کی یہ کتاب نہ صرف ضخامت بلکہ مسائل و مباحث کی وسعت اور فکری گہرائی کے سبب بار بار پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔
بیان کی سرحد معانی کی سرحد کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یہ خیال عابد علی عابد کے یہاں صرف علم کی راہ سے نہیں آیا ہے بلکہ اس کی تہہ میں کوئی تخلیقی دنیا موجود ہے۔ اس طرح کے اور بھی کئی جملے ان ابواب میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علمی اور نظری دنیا ان کے یہاں تخلیقی دنیا سے تعمیر ہوئی ہے۔ اس طرح کا مصنف کم سے کم اس موضوع کے سیاق میں مشکل ہی سے ملے گا۔ یہ مسائل کتنے پرانے ہیں اور وہ عابد علی عابد کے یہاں کتنے نئے معلوم ہوتے ہیں۔ علم معانی کی سطح بیان کی سطح سے اس معنی میں کمتر اور معمولی ہے کہ بیان علم معانی سے آگے جاتا ہے۔ یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ علم معانی اگر ابلاغ و اظہار کے موزوں ترین انتخاب کا نام ہے تو بیان کا سفر اور سلسلہ بھی انہی لوازمات کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، جو علم معانی سے مخصوص ہیں۔ علم بیان کا تعلق تشبیہ، استعارہ ، مجاز مرسل اور کنایہ سے ہے۔ مگر علم بیان کے بارے میں یہ رائے عام طور پر دی جاتی ہے کہ علم بیان کی روشنی سے فائدہ اٹھا کر کوئی لکھنے والا ایک معانی کو مختلف طریقوں سے ظاہر کر سکتا ہے۔ اس اعتبار سے علم بیان علم معانی سے فاصلے پر ضرور کھڑا ہے پھر بھی مجموعی طور پر علم معانی دلالت وضعی کے مطابق جس طرح الفاظ کو منتخب کرتا اور انہیں استعمال کرتا ہے وہ کسی نہ کسی طور پر بیان کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے۔ الفاظ دلالت وضعی کے ساتھ ہوں یا کسی اور حوالے سے، کوئی لفظ تشبیہ بنے یا استعارہ بہرحال وہ ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک لفظ کا انتخاب چاہے مروجہ معانی میں ہو یا دور کے معانی میں یہ ایک دوسرے سے کتنے قریب ہوتے ہیں۔ اس قربت کو وہ لوگ زیادہ محسوس کرتے ہیں جنہیں معنی کے درمیان فرق کرنے کا کچھ زیادہ حوصلہ نہیں ہے۔
آج اردو تنقید میں لفظ معنی جس کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے وہ علم معانی سے کتنا مختلف ہے۔ معنی ہی تنقید کا بنیادی مسئلہ ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کی اردو تنقید معنی ہی کے ساتھ دست و گریباں رہی ہے۔ معنی کا مسئلہ، معانی کا قصہ اور معانی کے تعلق سے اسی طرح کے عنوانات یہ بتاتے ہیں کہ معنی نے ہر طرف سے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ کیا علم معانی کو معنی کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے خیال زبان و اظہار کا آتا ہے. صرف معنی پر غور کرتے ہوئے خیال زبان و اظہار کا اس طرح نہیں آتا جیسے کہ اس زمانے کا معنی کوئی ایک ایسا بڑا مسئلہ ہے جو انسانی تاریخ میں کبھی اتنا بڑا تھا ہی نہیں۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ معنی اپنے آغاز کے ساتھ ہی مشکل میں تھا اور اس کی مشکل کا اندازہ دھیرے دھیرے لگایا جا سکا۔ گویا معنی بذات خود اتنا آسان نہیں کہ آسانی کے ساتھ اس کی حصولیابی کا اعلان کر دیا جائے۔ اور یہ کہا جائے کہ معنی ہماری گرفت میں ہے۔ عابد علی عابد نے علم بیان علم معانی اور علم بدیع کے سلسلے میں جو مباحث پیش کیے ہیں انہیں پڑھتے ہوئے اگر کسی کو قدامت کا احساس ہوتا ہے تو یہ غیر فطری نہیں۔ لیکن ایک قاری کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عابد علی عابد نے مشرقی شعریات کے حوالے سے اصطلاحوں پر جتنا غور کیا ہے وہ ایک واقعہ ہے۔ اور مغربی مفکرین کو بھی مباحث میں شامل کیا ہے۔ مثلا ان کا یہ کہنا کہ فلابیر کا قول آپ پڑھ چکے ہیں کہ "کسی خاص مفہوم کو ادا کرنے کے لیےخاص الفاظ اور کلمات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے. گویا مقدر اور مخصوص ہوتا ہے اور معنی مطلوب صرف انہی الفاظ میں ادا کیے جا سکتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ مشرق کے نقاد بھی شدت سے اسی نظریے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔”
یہ کتاب فکری اور نظری طور پر جتنی اہم ہے اس کی ایک حیثیت حسی بھی ہے۔ مجھے بیان اور معانی کی سرحد کو پڑھتے ہوئے صرف معانی اور بیان کی سرحد کا خیال نہیں آیا۔ یہ بھی عجیب واقعہ ہے کہ عابد علی عابد کے ذہن میں سرحد کے آغاز اور سرحد کے خاتمے کا خیال بھی ایک علمی مسئلے کے ساتھ آیا ہے۔ سرحد اتنی آسانی سے شروع اور ختم ہو جاتی ہے اس کا احساس عابد علی عابد کو تھا بھی اور نہیں بھی۔ علم معانی کی سطح اچانک تو ختم نہیں ہوتی۔ اس کی تعمیر و تشکیل میں جتنا وقت لگتا ہے اس کا احساس بھی ضروری ہے۔ علم بیان کی دنیا علم معانی سے اگر آگے جاتی ہے تو وہ علم معانی کی دنیا کے بعد آگے جاتی ہے۔ گویا علم بیان کا سفر علم معانی کے سفر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لیکن میں نے جس لفظی اور لسانی فضا کا ذکر کیا ہے اس کا خیال عابد علی عابد کو بھی آیا ہوگا۔ علمی مسائل منطقی طور پر جس زبان کا تقاضا کرتے ہیں اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن منطقی زبان فطری طور پر تخلیقی دنیا کی طرف قدم بڑھاتی ہے اور پھر علمی زبان علمی ہونے کے باوجود احساس کی زبان بھی بننے لگتی ہے۔ عام طور پر لفظ و بیان پر گفتگو کرتے ہوئے انسانی محسوسات انسانی تجربات وغیرہ کا خیال نہیں آتا۔ گویا زبان اور اظہار اول و آخر شعر و ادب کا بنیادی مسئلہ ہے۔ مشرقی شعریات کا تصور زبان اور اسلوب کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ زبان صرف زبان ہی نہیں وہ فکر بھی ہے اور احساس بھی۔ عابد علی عابد کو سرحد کا خیال جو آیا تو اس میں کوئی نہ کوئی پہلو اس دنیا کا ہے جو دنیا دکھائی نہیں دیتی اور وہ ہمیشہ انسانی وجود کے ساتھ سفر کرتی رہتی ہے۔
عابد علی عابد نے الفاظ کی داخلی اور خارجی فضا پر جتنا غور کیا ہے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔وہ اس بات پر اپنے علماء اور ماہر زبان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے زبان کے مختلف پہلوؤں پر کتنا غور کیا ہے ۔ عابد علی عابد زبان کے بارے میں غور کرتے ہوئے انسانی ذہن تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ انسانی ذہن ان کی نگاہ میں ایک بڑی حقیقت ہے وہ ذہن کو تہذیب کا ایک معانی میں نمائندہ اور گہوارہ تصور کرتے ہیں وہ اگر چاہتے تو لفظ کی تشکیل کے سماجی اور تہذیبی سیاق پر بھی روشنی ڈال سکتے تھے لیکن لفظ کی تشکیل چاہے جن حالات میں ہوئی ہو وہ سمجھتے ہیں کہ اب لفظ سب سے بڑی حقیقت ہے لہذا لفظ کے مزاج اس کے معنی اور مختلف وہ الفاظ جو بظاہر معنی کے اعتبار سے قریب ہیں ان کے بارے میں بار بار غور کرنا چاہیے۔
مترادف الفاظ پر غور کرتے ہوئے وہ اس تنہائی کو بھی محسوس کرتے ہیں جو ان کے درمیان راہ پا جاتی ہے ۔گویا ہر لفظ کے ساتھ ایک معنی مخصوص ہے اور وہ لفظ کسی خاص خیال کے ساتھ ہے اور تنہا بھی ہے اور اس کی تنہائی ایک خاص معنوی سیاق میں روشن ہوتی ہے۔ یعنی پہلے لفظ کا خیال آئے یا معنی کا حقیقت یہ ہے کہ تخلیقی ذہن ایک مخصوص لسانی اور معانیاتی نظام سے الگ نہیں ہو سکتا۔ مجھے عابد علی عابد کے ان مباحث کے ساتھ زبان کی ساخت کا خیال آتا ہے اور یہ خیال ساختیات کو راہ دیتا ہے۔عابد علی عابد نے اس فریب کو بھی سمجھنے کا جوکھم اٹھایا ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ عابد علی عابد نے الفاظ پر غور کرتے ہوئے یہ تو نہیں لکھا کہ کوئی بھی لفظ یا اظہار کا طریقہ مصنف کی ارادی معنویت کو بیان کرنے سے قاصر ہے اور نہ انہوں نے یہ لکھا کہ زبان کا عمل پوری طرح شفاف نہیں ہے۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم زبان کو ہم اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہے ہیں ٹھیک اسی وقت زبان ہمیں استعمال کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی لفظ کے مناسب اور غیر مناسب استعمال پر روشنی ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں یہ شور پوشیدہ ہے کہ مصنف وہ سب کچھ بیان نہیں کر سکتا جو وہ بیان کرنا چاہتا ہے۔
عابد علی عابد نے معانی حقیقی اور معانی مجازی کی اصطلاحیں کثرت سے استعمال کی ہیں۔ اس ضمن میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کوئی معانی کیوں کر دھندلا رہ جاتا ہے اور اس کی ترسیل نہیں ہو پاتی۔ وہ یہ بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک معروف دنیا سے نکل کر مجہول دنیا کی طرف جانے کی کیوں کر ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے علماء نے لفظ و معانی کے رشتے پر کتنا غور کیا ہے۔ اور غور و فکر کا یہ عمل کتنا منضبط اور علمی تھا۔ معانی حقیقی اور معانی مجازی کے بارے میں وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایک ایسا تعلق ضرور ہے جس سے انحراف کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو معانی حقیقی اور معانی مجازی کی بحث کو تازہ کار بناتا ہے۔انحراف کے لیے گویا کسی نہ کسی تعلق اور رشتے کی ضرورت ہے۔معانی مجازی کیوں کر معانی حقیقی سے آگے بڑھ جاتا ہے اور اس کی طرف قاری کا التفات زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ہماری تنقید کا ایک اہم موضوع ہے۔ معانی کو ظاہر کرنے کے لیے موزوں ترین اور مناسب ترین الفاظ اور مرکبات کی تلاش ہماری شعریات کا ایک اہم حوالہ ہے۔ عابد علی عابد نے اس مسئلے پر بھی غور کیا ہے کہ جب ہماری فکر کسی اجنبی دنیا کی طرف جاتی ہے تو گویا ایک معانی میں دلالت وضعی کی نئی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہ صورت پہلی صورت سے مختلف ہوتی ہے۔
عابد علی عابد مجاز کی طرف تخلیق کار کے سفر کو علم معانی سے گریز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مجاز کا خیال اسی وقت آتا ہے جب یہ محسوس ہو کہ کوئی دقیق یا لطیف خیال کی پیشکش کے لیے نئے الفاظ کی ضرورت ہے یہ الفاظ نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ نئے اس لیے ہیں کہ انہیں ابھی تک اس معانی میں استعمال نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ یہ الفاظ ان الفاظ سے ایک معانی میں گریزاں ہیں ۔گریز کا یہ عمل اس وقت دکھائی دیتا ہے جب تخلیق کار کا خیال غیر مانوس علاقے کی طرف جاتا ہے۔ اور پھر الفاظ نئے سیاق کے ساتھ جاگ اٹھتے ہیں زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ الفاظ کا معانی مجازی میں استعمال تخلیقی سطح پر کتنا حوصلہ دیتا ہے اور قرینہ اس کی دلالت پر معمور ہے۔ اور یہیں سے کنائے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ مجاز کو دیکھنے کا یہ زاویہ کتنا خوبصورت اور حوصلہ افزا ہے۔ عابد علی عابد کو لفظ کی گرفتاری کا شدید احساس ہے یامعانی کی گرفتاری کا۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لفظ کے ساتھ معنی بھی حالت قید میں ہے اور معنی لفظ کے ساتھ مقید ہے۔ گو کہ لفظ اور معنی الگ الگ بحث کا موضوع نہیں بنتے۔ جہاں علم معانی ہے وہاں بھی لفظ ہی معنی کی صورت میں موجود ہے ۔ عابد علی عابد علم معانی سے بحث کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں "معانی سے بحث کرتے ہوئے یہ دیکھا گیا تھا کہ یہ علم موزوں ترین الفاظ کے انتخاب کے گر سکھاتا ہے۔ لیکن دلالت وضعی کے دائرے میں مقید رہتا ہے۔بیان اس سے قدم اگے بڑھاتا ہے۔جہاں معانی اپنی درماندگی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس دقیق اور نفیس کیفیت کا بیان کرنا مقصود ہے اس کے لیے موزوں الفاظ نہیں مل سکتے تو بیان فنکار کی مدد کو آتا ہے۔ بیان الفاظ کو مجازی دلالتیں اور کیفیتیں عطا کرتا ہے۔ اور ان کیفیتوں اور دلالتوں کے ذریعے یعنی تشبیہ و استعارے کی مدد سے ان واردات و کیفیات کو بیان کرنا چاہتا ہے۔جن سے معنی دلالت وضعی میں مقید رہنے کے باعث قاصر رہا تھا“
دلالت وضعی میں قید کا زمانہ طویل بھی ہو سکتا ہے اور مختصر بھی۔ علم معانی الفاظ کے استعمال کا سلیقہ سکھاتا ہے لیکن یہ دقیق اور نفیس معنی کے اظہار کی راہ میں حائل ہے۔ دلالت وضعی میں معنی کی قید کے لیے عابد علی عابد درماندگی اور بے بسی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ معنی کی فریاد کو وہ اپنی زبان میں پیش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف علم ہی نہیں ہے بلکہ احساس بھی ہے۔ معنی کی دنیا دلالت وضعی میں مقید ہے اور اسے انتظار ہے علم بیان کا کہ وہ قید سے نکالے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ عابد علی عابد معانی کے لیے جن نی کیفیات اور مجازی دلالتوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ معنی کا بڑھتا ہوا ایک سلسلہ ہے۔ گویا معنی کو دلالت وضعی بہت دنوں تک مقید میں نہیں رہ سکتا۔
عابد علی عابد نے انتقال معنی کو معنی کا نیا سلسلہ یا نئے سفر کا نام نہیں دیا ہے اور نہ یہ لکھا ہے کہ اس عمل سے معنی کی دنیا میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ پھر بھی اس بحث سے معنی کی بڑھتی ہوئی دنیا کا خیال آتا ہے۔ یہ کائنات اس وقت سمٹ جاتی ہے جب الفاظ کو مانوس اور معروف سیاق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے علماء نے مجاز اور مجہول دنیا کی طرف جو دیکھا تھا تو یہ محض کوئی علمی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تخلیق کاروں نے بھی تخلیقی سطح پر دلالت وضعی سے آگے قدم بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اس پوری بحث میں بار بار معانی اور بیان کا حوالہ قاری کے اندر خوف پیدا نہیں کرتا۔ معنی سے خوفزدہ ہونے کا سلسلہ عہد حالی سے شروع ہوتا ہے۔ معنی سے ڈرنے کا مطلب متن کی تعبیرات سے ڈرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ایک خاص موڑ پر یہ سمجھا گیا کہ اگر لفظوں پر زیادہ زور دیا جائے گا تو معنی خود بخود اپنی محدود اور مانوس دنیا میں پڑا رہے گا۔ معنی کا رشتہ بعد کو جس تعقل سے قائم کیا گیا وہ تاریخ کا ایک جبر تھا۔ معنی خیال بھی تھا اور وہ سب کچھ جسے نئی آگہی نے مختلف کیفیات سے جاننے اور پہچاننے کی کوشش کی اور اسے نئے نام بھی دیے۔
عابد علی عابد نے علم بیان کی تعریفات کو ہو بہو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معنی کو ادا کرنے کے ایک سے زیادہ اگر طریقے ہوں گے تو اس سے وہ معنی برآمد نہیں ہو سکتا جو مقصود ہے۔ یعنی کسی خاص کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے مخصوص الفاظ ہیں اور ان کی ایک خاص نشست بھی ہے۔ اگر کسی معنی کو کسی اور اسلوب میں بیان کیا جائے گا تو الفاظ کے ساتھ معنی میں بھی تبدیلی واقع ہو جائے گی۔ عابد علی عابد سختی سے اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ایک معنی کو ادا کرنے کے لیے مختلف اسالیب ہو سکتے ہیں یا ایک معنی کو الفاظ بدل کر ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس پوری بحث کے بعد وہ جملہ سامنے آتا ہے جو اس تحریر کا سرنامہ ہے۔
سرور الہدی
30 اگست 2023
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |