ولی دکنی (مونوگراف) /پروفیسر عبدالحق – ڈاکٹر عمیر منظر
پروفیسر عبدالحق ماہر اقبالیات،محقق و نقاد اور استاد کے طو رپر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔کلاسیکی ادبیات خصوصاً ولی اور حاتم سے انھیں خاص شغف ہے۔حاتم اور ولی کے کلیات کی ترتیب کے علاوہ دیوان زادہ کو بھی مرتب کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’ولی دکنی‘(مونوگراف،اشاعت 2022)پروفیسر عبدالحق کی تازہ تصنیف ہے۔یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہوئی ہے۔اس میں شخصیت و سو انح،ادبی وتخلیقی سفر،تنقیدی محاکمہ،انتخاب کلام، مصادر کی فہرست اورانتخاب کلام کی فرہنگ بھی شامل ہے۔ کلام ولی کے انتخاب میں غزلوں کے علاوہ درنعت خیر البشرصلی اللہ علیہ وسلم،ثلاثی،رباعیات،مخمسات، مثنویات(درتعریف شہر صورت،دروصف سورت)قطعہ(درفراق گجرات)شامل ہیں۔143صفحات پر مشتمل مونوگراف میں 97تا140صفحات انتخاب کلام کے ہیں۔
ولی کی شخصیت اور سوانح سے متعلق اختلافات تاریخ ادب کا حصہ ہیں۔ان کے نام، ولادت اور مقام پیدائش ہی مختلف فیہ نہیں ہیں بلکہ ان کا دلی آنا بھی مشتبہ ہے۔سوانحی حصے میں ولی کے مخطوطوں کا تعارف مونوگراف کا خاصا اہم ہے۔ پروفیسر عبدالحق نے یہ صراحت کی ہے کہ کلام ولی کے خطی نسخوں کی تعداد 60سے زائدہے۔(ص9)ولی کے کلام کا سب سے قدیم خطی نسخہ اورنگ آباد میں 1120ھ میں لکھا گیا۔دوسرا قدیم نسخہ 1125ھ کا ہے جو حیدرآبادکے سالار جنگ میوزیم میں ہے۔کتب خانہ آصفیہ کا خطی نسخہ 1159ھ کا ہے۔ہندستان کے علاوہ پاکستان میں بھی ان کے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں۔ انجمن ترقی اردو کراچی کی ملکیت میں کلام ولی کا جو نسخہ ہے وہ 1135ھ کا ہے۔ کتب خانہ آصفیہ میں کلام ولی کے متعدد قلمی نسخے ہیں۔ان میں کئی نامکمل انتخاب ہیں،جبکہ ایک نسخہ 1159ھ کا ہے۔112ورق پر مشتمل اس نسخے میں 410غزلیں ہیں (ص 10)اس میں ولی کا تقریباً مکمل کلام موجود ہے۔اس کتب خانے کا ایک دوسرا قلمی نسخہ 116اوراق پر مشتمل ہے۔اس میں سنہ کتابت اور ترقیمہ درج نہیں ہے۔اسی طرح ایک دوسرا نسخہ 122اوراق پر مشتمل ہے اس میں بھی ترقیمہ نہیں ہے۔انجمن ترقی اردو کراچی کا نسخہ 1135ھ کا ہے۔ترقیمے میں دیگر تفصیلات درج ہیں اس میں 436غزلیں،3قصائد،10مخمس4مستزادمثنوی سورت موجود ہے (ص 11)۔پروفیسر عبدالحق کا خیال ہے کہ کلام ولی کے 60قلمی نسخوں کو یکجاکرنا آسان نہیں ہے۔ان میں مکمل اور مکمل کے علاوہ انتخاب سب شامل ہیں۔انھوں نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ ولی کے متعدد قلمی نسخوں پرادبی رسالوں میں مضامین قلم بند کیے گئے۔لکھنے والوں میں اکبر حیدری،مختار الدین آرزو،ڈاکٹر عالی جعفری،قاضی احمد میاں اختر،محمد اختر چغتائی،ڈاکٹر نو رالحسن ہاشمی اور پروفیسر عبدالحق جیسے نامور اور بڑے لوگ شامل ہیں۔اس کے علاوہ پروفیسر نور الحسن ہاشمی اور مولانا احسن مارہروی نے متعدد قلمی نسخوں کا ذکر کیا ہے۔پروفیسر عبدالحق کے مطابق قلمی نسخوں کی کتابت سے لے کر اشاعت تک کا جو سلسلہ ہے اس میں دوسرے شعرا کے مقابلے ولی کو سبقت حاصل ہے۔ ان خطی نسخوں سے کلام ولی کی تحقیق،ولادت اور اختلاف نسخ جیسے بعض مسائل پروفیسر عبدالحق نے اٹھائے ہیں۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ولی کی پیدائش اور وفات کا سنہ آج تک طے نہیں ہوسکا۔بعض مورخوں کے حوالے سے 1650ء کو ان کی ولادت کا سنہ قرین قیاس قرار دیا ہے(ص 3)۔جبکہ شمس الرحمن فاروقی نے 1667/68قرار دیا ہے۔
پروفیسر عبدالحق نے ولی کے ایک شاگرد مدار بخش مدن کے ایک مقطع سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ولی حافظ قرآن تھے(ص 19)۔
فضل حافظ ولی کے سیتی یارو
مدن کا شعر اب اتمام ہے گا
پروفیسر عبدالحق نے ولی کے ایسے بے شمار اشعار(ص42تا45)نقل کیے ہیں جن کا بنیادی حوالہ قرآن پاک، قرآنی آیات کے اشارے اور حوالے ہیں۔
پروفیسر عبدالحق نے خطی نسخوں کو ولی شناسی کی خشت اول قرار دیا ہے۔جبکہ کلام ولی کے مجموعوں کی اشاعت کا آغاز1927سے ہوا۔سب سے پہلے مولانا احسن مارہروی نے 1927میں اوراس کے بعد پروفیسر نور الحسن ہاشمی نے 1945میں کلیات ولی کو مرتب کیا۔تقریباً پون صدی سے کلام ولی پر تنقید و تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
پروفیسر عبدالحق نے اُن شعرا کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کیا یہاں تک کہ غزلوں کے بہت سے مصرعوں میں توارد کی کیفیت نمایاں ہوگئی۔ان میں اشرف، حاتم،فائز،آبرو،شاکر ناجی،یکرو اور ولی کے اشعار سے مثالیں پیش کی گئی ہیں۔پروفیسر عبدالحق نے کلام ولی کو اردو کی نشاۃ ثانیہ قرار دیا ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی شاعری صوراسرافیل کی طرح جاں بخش ثابت ہوئی۔انھو ں نے دہلی اور دکن کی شعری دہلیز کا سب سے درخشاں ستارہ ولی کو قرار دیا ہے۔
ولی کے کلام کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے پروفیسر عبد الحق نے لکھا ہے کہ’صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ولی کے کلام کی بازگشت‘ہے۔ انھوں نے کلام ولی کے شعری محاسن بطور خاص تشبیہ اور استعارے کی تکثیریت کو نمایاں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”ولی کی تشبیہات قاری کو حیرت زدہ کرتی ہیں۔“ اس کی مثالیں دیتے ہوئے ولی کو اسرار کائنات کا راز دار قرار دیا ہے۔ ولی کی سراپا نگاری، نزاکت، اشاروں اور کنایوں نے محبوب کے خدوخال کو کچھ اس طرح روشن کیا ہے کہ اس کی تابانی آج تک قائم ہے۔اس تناظر میں حسن و عشق کی نقش گری کو ولی کا امتیاز قرار دیا ہے۔ ولی کے کلیات میں ہر طرح کا کلام موجود ہے۔ بعض کلام ایسا بھی ہے جنھیں مصنف کے بقول ”جو لسانی مشق، تکرار اور الفاظ کے تبدیلی کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ (ص54)بعض تکرار کو ناخوشگوار قرار دیا ہے مثلاً
باعث رسوائی عالم ولی
مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی
غزلوں کے علاوہ مخمس سے بھی اس نوع کے کلام کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
پروفیسر عبدالحق نے ولی کے کلام اور ان کے مشاہدات کی نوع بہ نوع تصویروں کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے ولی کی بے پناہ تخیل آفرینی، پیکر تراشی، الفاظ کے استعمال پر عبور اور کلام کے عوامی لب ولہجہ کو بطور خاص شعری مثالوں کے ساتھ واضح کیا ہے۔ چہرہ، رخ، نگہہ ناز اور اس طرح کے بعض دیگر الفاظ جو کلاسیکی غزلوں کی خاص لفظیات میں شامل ہیں ان کو ولی نے ایک الگ ہی رخ دے دیا ہے۔
مونوگراف کا ایک اہم حصہ وہ بھی ہے جہاں پروفیسر عبدالحق نے قرآنی آیتوں سے ولی کے مختلف النوع استفادہ کو واضح کیا ہے۔ اورولی کے اشعار کوبطور مثال درج کیا ہے،، بقول پروفیسر عبدالحق ان مقامات پر ایمان و عقائد کے ارکان کو غزل کی شعریات میں تحلیل کردیاگیاہے۔
اے قبلہ رو ہمیشہ محراب میں بھنواں کی
کرتی ہیں تیری پلکاں مل کر نماز گویا
الہی دل کے اوپر دے عشق کا داغ
یقیں کے نیں میں سب کحل مازاغ
غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف سخن سے بھی اس کی مثالیں دی گئی ہیں۔
پروفیسر عبدالحق اقبالیات کے ماہر ہیں۔شعرا کے یہاں اخذ و استفاہ کی مثالیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔میر و غالب اور دیگر شعرا کے یہاں اس کی بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ولی کا ایک کم معروف شعر جسے ممکن ہے کہ یہ کہہ کر الگ کردیا جائے کہ یہ ولی کے رنگ کا نہیں ہے مگر پروفیسر عبدالحق صاحب نے اس سے علامہ اقبال کے ایک بہت مشہور شعرکو برآمد کیا ہے۔ولی کا شعر ہے
کیاکروں تفسیر غم ہر اشک چشم
راز کے قرآن کا کشاف ہے
پروفیسر عبدالحق کے بقول دو سوسال بعد علامہ اقبال نے اس خیال کو لامحدود وسعتوں سے ہم کنار کیا۔علامہ کا مشہور ترین شعر ہے۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
بعض مقامات پر تصحیح کی ضرورت ہے۔ص 14پر ایوان اردو جون 1916تحریر ہے جوکہ غلط ہے اسے 2016ہونا چاہیے۔ص 49پر نیچے سے تیسری سطر میں ولی کا جو شعر درج ہے اس میں آئے کی جگہ’آوے‘ ہونا چاہیے۔انتخاب کلام(ص97) میں دوسری غزل کے پہلے شعر کا پہلا لفظ دو نہیں بلکہ ’وو‘ ہونا چاہیے۔پہلے ہی مصرعے کا آخری لفظ ’آ‘لکھنے سے رہ گیاہے۔اسی غزل کے آٹھویں شعر کا دوسرا مصرعہ ہے ”چھپ رہا آئے ترے لب کے نمکدان میں آ“۔متداول کلیات میں یہ مصرعہ اس طرح ملتا ہے ”چھپ رہا آکے ترے لب کے نمکدان میں آ“۔پروفیسر ظفراحمد صدیقی کہتے تھے کہ لفظ آکے/آئے کے بجائے ’آگے‘ ہونا چاہیے مقابلے کے معنی میں۔امید ہے کہ یہ مونوگراف مطالعات ولی میں خاص اہمیت کا حامل قرار پائے گا۔
مصنف : پروفیسر عبدالحق
سال اشاعت : 2022
قیمت : 90 روپے
ملنے کا پتا : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔اردو بھون۔نئی دہلی 110025
مبصر : عمیر منظر۔شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page