وہ اک ستارہ جو روشن تھا
بجھا کچھ اس ادا سے کہ محفل یاراں میں سکتہ سی کیفیت پیدا کرگیا میری مراد ہے مفتی فیض الوحید رحمہ اللہ
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جاؤ گئے
جانے والے آپ ہمیں بہت یاد آؤ گئے
دنیا جو کہ اصل دار القیامہ کے بجائے دار الفناء ہے جہاں جو آئے وہ اک روز اپنوں کو سوگوار چھوڑ کر چل دئے اک آیا تو کئی گئے زمانے کی رفتار پوری قوت سے مسلسل محو سفر ہے کہ کب صور پھونک دیا جائے اور دنیا کا وجود اپنے اصل انجام تک پہنچ جائے دنیا کے وجود کے ساتھ ہی مولائے کریم نے سبب دنیا کو بیان کردیا اس سبب کی آبیاری کے لئے کئی باغبان دنیائے گلستان میں آئے اور چلے گئے جن کا جانا ان کی مرضی یا خواہش کی غلامی سے بہت ہی دور تھا پر زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہی بگاڑ و فساد بھی بڑھتا رہا جس کے سامنے کھڑے رہنے کی قوت و طاقت ہرکسی کے نصیب میں نہیں ہوتی جہاں بقیہ دنیا میں اس صف میں کئی نام نوک قلم کا طواف کرنے کو مچلتے ہیں وہیں گر ہم غور و فکر کریں تو ریاست جموں و کشمیر اس سلسلے میں گرچہ زرخیز ہے پر تعداد پھر بھی قلیل ہے اس لئے جوں ہی کسی صاحب دل و صاحب بصارت کے انتقال کی خبر گردش کرتی ہے اسی دم دل کا سکوں اجڑ سا جاتا ہے کہ ہائے شومئے قسمت اب اس کارواں کی منزل تک رہنمائی کون کرے کہ رہبر کارواں جہاں سے چلا گیا اس سال اور سال گزشتہ میں ہم سے وہ نگینے چھن گئے جو اپنے جہاں میں اک انجمن اک کارواں کی مانند تھے جن کا ہر لمحہ اہل علم کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا پر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ تو کل ہماری باری ہے
پر کسی کی موت انسانیت کی موت ہوتی ہے یا انجمن و کارواں کی موت ہوتی ہے منگل کے دن ۱ جون کو یہ خبر جوں ہی عام ہوئی کہ مفتی فیض الوحید صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تو ایسا محسوس ہوا کہ زمین ہل رہی ہے ابھی تو ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی کام سخت تھا دشوار تھا منزل نظر سے اوجھل پر ان کی ہمت ان کی جرآت ایمانی غیرت و حمیت انہیں مسلسل تحریک دے رہے تھے کہ منزل کو پانا لازم ہے اور یہ راہ حق کا مسافر پوری دل جمعی و دل سوزی کے ساتھ اس منزل کی اور رواں دواں تھا جس منزل پر چلنے کا دعوی گرچہ آسان ہے پر چلنا دشوار نہیں بلکہ کبھی تو جان کے لالے بھی پڑھ جاتے ہیں حق و صداقت کی منزل کے راہی منزل کی دشواری کو نہیں دیکھتے بلکہ جذبہ حُر کے ساتھ قدم بڑھا دیتے ہیں اور دشوار سے دشوار منزل بھی ان کی قدم بوسی پر فخر کرتی ہے انہیں پاکیزہ منزل کے مسافروں میں اک نام جو جموں و کشمیر میں ہمیشہ بلند رہے گا تھا۔ (یہ بھی پڑھیں نسل نو سے چند گزارشات – الطاف جمیل ندوی )
مفتی فیض الوحید اور آپ کی علمی، دینی و دعوتی خدمات
آپ جموں و کشمیر کے ایک ایسے عالمِ باعمل تھے، جو نہ صرف منبر کے واعظ بلکہ جادہ حق کے ایسے رہرو تھے جنہیں پابندِ سلاسل بھی کیا گیا۔ آپ نے جسم پر زخم بھی کھائے تھے اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں۔ جیل میں رہ کر آپ نے گوجری زبان میں قرآن حکیم کا ترجمہ مع تفسیر رقم فرمائی۔ اس کے علاوہ آپ نے گوجری میں "سراجا منیرا” نام سے سیرت کی ایک بہترین کتاب بھی تصنیف کی ۔ اور چند سال قبل اسے اردو قالب میں بھی ڈھالا ۔ اور اب وہ منظر عام پر آکر مقبول عام ہوچکی۔ اس سیرتی کتاب کا اسلوب زبان و بیان کے لحاظ سے نہایت جاذب و دلکش ہے۔ یہ کتاب ادبی مٹھاس سے بھر پور ہے۔ قاری اس کو پڑھ کر صاف محسوس کر سکتا ہے کہ مصنف نے کن عشق و محبت کے احساسات کے ساتھ اس کو رقم کیا ہوگا ۔۔
ان کی آواز میں واعظ کا درد اور مجاہد کا جوش تھا، وہ قاری قرآن نہیں بلکہ عاشقِ قرآن تھے ، بل کہ اگر کہا جائے کہ وہ "قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن” کی عملی تفسیر تھے تو بیجا نہ ہوگا۔ وہ جب خطاب کرتے تو قرآنی آیات اور اس کی تشریح کے ایسی باندھنے جاتے کہ سامعین پر ساحرانہ سکوت چھا جاتا
یادگار ملاقات
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
بہت سال ہوئے کہ ایک بار جامعہ ضیاع العلوم پونچھ میں حاضری ہوئی کچھ اور بڑے مدارس میں بھی جانا ہوا یہاں پر پہلی بار مفتی صاحب کے سامنے بیٹھ کر سننے کا موقعہ ملا کہ جوں ہی انہوں نے بات شروع کی یوں محسوس ہوا کہ پونچھ کی بستی کی پوری فضائیں آس پاس جیسے نغمہ توحید کی آواز پر مستانہ وار مفتی صاحب کے ساتھ ہی وجد میں ہو یوں لگا کہ اک خاموش فضا میں وہ پرسوز نغمہ توحید گونجا کہ جس نے دلوں کو متحیر نگاہوں کو اشک بار اور سانسوں میں ٹھراؤ سادگی و پاکیزہ مزاجی سے مزین یہ شخصیت کچھ یوں انداز بیاں اختیار کرگئے کہ اہل علم بنا آنکھ بند کئے انہیں کی ذات کو تک رہے تھے میں نے اک صاحب سے پوچھا کہ کون ہیں تو بتایا گیا مفتی فیض الوحید صاحب آہ بیان کے اختتام پر ان کے قریب گیا سلام کیا طالب علم کی طرح مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا کسی نے بتایا کہ حضرت یہ قلم کے ساتھ علمی خدمات انجام دینے کا جذبہ رکھتے ہیں تو میں نے دیکھا کہ بنا کسی جان پہچھان کے اک ولی صفت شخص اک انجان کو سینے سے یوں لگا کر دعائیں کر رہا ہے کہ جیسے اس کی اصل تلاش میسر ہوگئی ہو جب ان کے انتقال کی خبر سنی تو کچھ یوں میں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا
فیض الوحید رحمہ اللہ
بیشک ایک عالم دین کی موت پورے عالم کے موت کے مترادف ہے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اُن ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت، اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-”
[جامع البیان العلم ؤ فضلہ ، جلد ١.صفحہ ٦٥]
اس لیے کہ ان کا وجود ستاروں کی مانند ہے جو اپنی جگمگاہٹ اور روشنی سے اندھیروں میں متلاشیان منزل کے لیے ان کے راستوں کا پتہ بتاتے ہیں، جن پہ چل کر وہ اپنی منزل مقصود سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔
مرحوم مغفور حضرت مولانا مفتی فیض الوحید تغمده الله بفضله الفريد کا وجود باشندگان جموں وکشمیر کے لیے ہیرے جواہرات سے بیش بہا اور قیمتی تھا، ان کی موت سے ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہواہے،جو باعث نقصان ہے، کیونکہ اس کے زبان وبیان ،تقریر و وعظ ، درس و تعلم اور دعوت و تبلیغ میں علم و عرفان کی ضیا اور رشد و ھدایت کی رشنی پھوٹتی تھی
پر اب تو
دل بجھ سا گیا امید جیسے ٹوٹ گی جگر جیسے چھلنی ہوگیا ہو
ہائے ہم نے تو دعائیں بھی کی تھی مفتی صاحب کی صحت یابی کے لئے پر شاید اب ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں قرب قیامت کے سبب آج نوید سحر کے ساتھ ہی نوید غم کچھ اس انداز سے سنائی دی کہ جان جیسے حلق بھی اٹک گی ہو
دل افسردہ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں
ہاتھ لرزیدہ تو نگاہیں نمناک ہوگی
دل امید جیسے ٹوٹ کر بکھر گئی ہو
جب سنا کہ وہ اخلاص کا پیکر
وہ سادگی و پاکیزہ مزاج صاحب فضل و کمال
وہ صاحب علم و ادب کا سنگم
وہ مفسرین قرآن کا اک گمنام مسافر
وہ داعی قرآن کہ جس کے لب پر آیات قرآنی رہتی تھی
اب ہم جیسے نالائق لوگوں سے بہت دور چلا گیا
ہم سب اس علم کے آفتاب و ماہتاب سے محروم ہوگئے
ہائے
ہم اب کسے پکاریں اپنے مسائل میں کس پر وہ اعتبار کریں کہ اعتبار کرنا جہاں سعادت ہو میں نے سنا تو اس امید پر کہ خبر جھوٹی ہو کئی دوستوں کو فون کئے کہ شاید کوئی کہہ دے نہیں مفتی فیض الوحید صاحب زندہ ہیں چِکر آیا تھا اب ٹھیک ہیں پر کیا کریں کہ ہر کسی نے اس غم کی تصدیق ہی کی نہیں وہ تو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے اسی مولا کی بارگاہ میں چلے گئے جس مولا کے نام لینے پر بولنے پر ہمیشہ ان کے چہرے پر رونق سی آتی تھی
آہ مفتی صاحب
اب کون ہمیں آیات قرآنی کی وہ تفسیری رموز آسان زبان میں سیکھائے گا
آہ رب کعبہ گواہ ہے کہ آج میں ٹوٹ گیا ہوں آپ کی جدائی سے
پھر بھی
اب سوائے صبر کے کیا کریں
ہم دل سے دعا گو ہیں
کہ یاربی یاربی
ہمارے استاد جلیل صاحب علم کو اپنی رحمتوں کی آغوش میں رکھنا یارب
یہ وہ گوہر نایاب ہے کہ جس کے چاہنے والے سوگوار ہوگئے ہیں
خراج عقیدت
اس میں شک نہیں کہ مفسر قرآن مفتی فیض الوحید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ریاست جموں و کشمیر میں اسلامی علوم و فنون کا ایک تابناک ستارہ غروب ھو گیا ھے جس کے نعمل بدل کی اللّٰہ تعالیٰ سے امید رکھنی ھم سب پر لازم ھے۔ ھمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ھم سب اللہ کے ہی ہیں اور ھمیں اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ھے۔ مفتی صاحب بھی ھم میں سے ہی تھے۔ انسان تھے، عالم با عمل تھے،نیک تھے، دین حنیف کے خدمت گزار تھے لیکن یہ سب انھوں نے اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کا صلہ ھم سے پائیں بلکہ ان کی نیت اللہ تبارک و تعالیٰ سے صلہ پانے کی تھی اور الحمد للّٰہ وہ اس میں کامیاب ھوئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ کامیابی ھم سب کا بھی مقدر فرمائے مجھے امید ھے کہ ھم سب مفسر قرآن مفتی فیض الوحید صاحب کی جدائی پر صبر کے دامن کو تھام کر دین حنیف کی صحیح منہج پر ترویج کو اپنا اولین مقصد جانیں گے اور مسلکی، علاقائی، لسانی، اور مذہبی تعصب کے غول سے باہر نکل کر انسانیت کی خدمت کو اپنا فریضہ اول جانیں گے۔ معاشی بد نظمی، سماجی برابری، انصاف بالقسط ، اور علمی اداروں کے فروغ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل فرمائیں گے حضرت کے شروع کئے کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کی مسلسل سعی کرنا ہی مفتی صاحب کے لئے ایک بہترین خراج تحسین ہوگا آو ہم اس شمع محبت و اخوت کو اس پاکیزہ اور صالح مزاجی کو پروان چڑھائیں جس کے لئے مفتی صاحب تمام عمر مصروف رہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ھم سب کے لئے صراط مستقیم پر چلنا آسان فرمائے اور ہدایت ھمارا مقدر ھو۔ آمین یا رب العالمین۔
(یہ بھی پڑھیں فطرت سے بغاوت :جہانوں کی رسوائیاں – الطاف جمیل ندوی )
الطاف جمیل ندوی
ہائگام سوپور کشمیر
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |